خوشی حد سے زیادہ دے کے بھی برباد کرتا ہے
انوکھے ہی ستم وہ صاحبِ ایجاد کرتا ہے
تماشہ سا تماشہ ہی بنا ڈالا مجھے اس نے
کبھی وہ قید کرتا ہے، کبھی آزاد کرتا ہے
عجب اب کے طلسمِ خامشی طاری کیا اُس نے
وہ جادوگر نہ کچھ سنتا نہ کچھ ارشاد کرتا ہے
سزا یوں مل رہی ہے مجھ کو میرے نیک عملوں کی
گنہ سب میرے حصے کے مِرا ہمزاد کرتا ہے
یہی وہ خانماں ویراں ہے جس کو عشق کہتے ہیں
دلوں میں بستیاں غم کی یہی آباد کرتا ہے
عجب بے کیف سی ہے زندگی پچھلے مہینے سے
نہ کوئی یاد آتا ہے نہ کوئی یاد کرتا ہے
ستم گر حوصلے کی داد تو دینے لگا حیدر
اگرچہ داد میں بھی وہ مجھے بے داد کرتا ہے
٭٭٭