لفظ اندھے ہو گئے، سوچوں کو پتھر کر گیا
ایک ہریالی کا پیکر دل کو بنجر کر گیا
چند لمحوں کے لئے ٹھہرا گھٹاؤں کی طرح
خالی آنکھوں کو مگر رنگوں کا منظر کر گیا
کون جانے اُس کی اپنی پیاس کا عالم ہو کیا
وہ جو میری رُوح کو پیاسا سمندر کر گیا
خود جہانِ شاعری کا تو خدا بے شک نہ تھا
شاعری کا وہ مگر مجھ کو قلندر کر گیا
یوں تو پہلے بھی وہ کرتا تھا اداس آ کر مگر
اب کے دل کی اور ہی حالت ستم گر کر گیا
خوشبوئیں اور دودھیا سی روشنی ہے چار سُو
کچھ کہو حیدر یہ جادو کون تم پر کر گیا
٭٭٭