کارِ جہاں بھی، عشق بھی کرنا نہ آ سکا
جینے کا ڈھنگ کیا ہمیں مرنا نہ آ سکا
تیری لگن میں تجھ سے بھی آگے نکل گئے
تیرے مسافروں کو ٹھہرنا نہ آ سکا
ہم ایسے سخت جان تھے جو ٹوٹتے نہ تھے
کچھ ٹوٹ بھی گئے تو بکھرنا نہ آ سکا
بس مسکرا کے پیار سے انکار کر گئے
اچھی طرح سے اُن کو مکرنا نہ آ سکا
حیدر ہم ان کے دل سے اُتر آئے خود مگر
اُن کو ہمارے دل سے اُترنا نہ آ سکا
٭٭٭