رستے چلے گئے ہیں خرابوں کی جھیل میں
ہم تشنہ لب ہی رہ گئے خوابوں کی جھیل میں
اک ایک لفظ ہو گیا ہو بانجھ جس طرح
سوکھے ہیں یوں معانی کتابوں کی جھیل میں
کترائے وہ کبھی تو کبھی میں جھجھک گیا
اک بھی کنول کھلا نہ حجابوں کی جھیل میں
اس زندگی کی ساری حقیقت ہے اک فریب
ہم تیرتے رہیں گے سرابوں کی جھیل میں
حیدر جب اس نے پلکیں اُٹھائیں تو یوں لگا
جیسے اتر گیا ہوں شرابوں کی جھیل میں
٭٭٭