وہ نفرتوں سے بھی دیکھے تو دل میں پیار اُگے
ہر ایک دھوکے پہ دل میں اک اعتبار اُگے
فریبِ وعدۂ جاناں نے جب سے سینچا ہے
مِری نگاہوں میں گُل ہائے انتظار اُگے
شریک تھی یہ چمن کی ہوا بھی سازش میں
اِسی لئے تو یہاں نفرتوں کے خار اُگے
خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں
جہاں نگاہ کروں اک نئی بہار اُگے
کوئی مسیح یقیناً پھر آگیا حیدر
قدم قدم پہ جو پھر سے صلیب و دار اُگے
٭٭٭