مِری نیندیں بھی مہکانے لگے ہو
کہ خوابوں میں بھی دَر آنے لگے ہو
خیالوں پر مِرے چھائے ہو جب سے
بہت ہی خود پہ اِترانے لگے ہو
وصال و ہجر یکجا کر دیا ہے
عجب اب کے ستم ڈھانے لگے ہو
ابھی آئی نہیں ملنے کی نوبت
ابھی سے ہی بچھڑ جانے لگے ہو
ذرا خوفِ خدا حیدر قریشی!
یہ کیسے شعر فرمانے لگے ہو
٭٭٭