میرے اُس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا
اُس کے طے کرنے کو بھی اک راستہ رکھا گیا
عکس کھو جائیں اگر ہلکا سا کنکر بھی گرے
پانیوں میں ایک ایسا آئینہ رکھا گیا
سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے
بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا
نارسائی کی اذیت ہی رہی اپنا نصیب
مل گئیں روحیں تو جسموں کو جدا رکھا گیا
بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اُس کی یاد کے
مجھ کو سوتے میں بھی حیدر جاگتا رکھا گیا
٭٭٭