جو اپنی ذات میں سمٹا ہوا تھا
سمندر کی طرح پھیلا ہوا تھا
مِرے ہاتھوں میں ہی تھے چند پتھر
میں شیشے کی طرح ٹُوٹا ہوا تھا
ہوا شہکار جب اُس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا
شبِ تنہائی میں اک شخص دل پر
اُجالے کی طرح بکھرا ہوا تھا
پتہ وہ دے رہا تھا منزلوں کا
جو خود ہی راہ سے بھٹکا ہوا تھا
بلاتا کس طرح پھر خود کو حیدر
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا تھا
٭٭٭