سامنے ہے گھر مگر مفقود گھر کے راستے
کھو گئے آخر کہاں معبود گھر کے راستے
فاصلہ ہو دل میں تو ہیں دوریاں ہی دوریاں
دل کشادہ ہو تو ہیں محدود گھر کے راستے
دشتِ حیرت میں کھڑا ہوں چشمِ حیرت وا کیے
ہیں ابھی غائب، ابھی موجود گھر کے راستے
پھیلتی جاتی ہیں کیسی خوشبوئیں چاروں طرف
ہو گئے کس کے لئے مسجود گھر کے راستے
اُس نے آنا ہی نہیں تھا اِس محلے کی طرف
ہم سجاتے ہی رہے بے سود گھر کے راستے
ابرِ رحمت اب کے حیدر بن گیا جیسے عذاب
کر دیئے برسات نے مسدود گھر کے راستے
٭٭٭