وہ جو خوشبوؤں کا خرام ہے جو دھنک کا عکسِ جمیل ہے
مِرے اُس کے بیچ کوئی عجیب سے فاصلوں کی فصیل ہے
کئی خوش نظر سے گماں لیے، گئے ہم بھی کاسۂ جاں لیے
پڑا واسطہ تو پتہ چلا وہ سخی بھی کتنا بخیل ہے
سبھی استعارے، علامتیں بھی بجا ہیں اُس کے لئے مگر
وہ تو آپ اپنی مثال ہے، وہ تو آپ اپنی دلیل ہے
یہ محبتیں بھی ہیں روگ تو یہ اَنا بھی جیسے عذاب ہو
اُسے پوچھنے بھی نہ جا سکے جو کئی دنوں سے علیل ہے
کئی منظروں سے گزر رہا ہے تری طلب میں یہ دل مِرا
کبھی خواہشوں کا ہے دشت تو کبھی آرزوؤں کی جھیل ہے
مِرا طرزِ عشق بھی منفرد، ہے جنون بھی مِرا مختلف
نہ کسی کی مثل میں ہو سکا نہ ہی کوئی میرا مثیل ہے
یہ بجا کہ تم پہ ہوئے ستم، پر اَے میرے حیدرِ بے علَم
نہ کوئی تمہارا گواہ تھا نہ کوئی تمہارا وکیل ہے
٭٭٭