یہ گفتگو نہ کرو اب کہانیوں کی طرح
اگر ہے پیار تو کھُل جاؤ جانیوں کی طرح
حقیقتوں کے سرابوں میں کھو چلا ہوں میں
یقیں دلاؤ مجھے بد گمانیوں کی طرح
نجانے کب کوئی آ کر بجھائے پیاس مری
میں کتنی صدیوں سے پیاسا ہوں پانیوں کی طرح
اب اعتبار کرو میرے سبز باغوں کا
کہ یہ بھی سچے ہیں اٹھتی جوانیوں کی طرح
عبث ہے اب تو تلاش اور جستجو حیدر
وہ کھو چکے ہیں وفا کی نشانیوں کی طرح
٭٭٭