اب کے جدائیوں میں بھی رنگِ وصال ہے
بے دَم ہوں میں اِدھر تو اُدھر وہ نڈھال ہے
ہم تو سمجھ رہے تھے کہ وقتی اُبال ہے
اب ماننا پڑا کہ محبت وبال ہے
خاموش کب ہے، دل تو سراپا سوال ہے
اور پھر سوال بھی بڑا مشکل، محال ہے
وہ چاند وہ گلاب، وہ پتھر، وہ آگ بھی
جیسی مثال دیجئے برحق مثال ہے
اُس کی محبتوں کا بھرم کب کا کھل چکا
لیکن یہ دل کہ پھر بھی بڑا خوش خیال ہے
اک سال اُس کو بھولنے میں لگ ہی جائے گا
پر یہ بھی سوچ لو کہ ابھی پورا سال ہے
اب حمد و نعت لکھ کے کماؤں گا کچھ ثواب
وہ کھو گیا جو میری غزل کا غزال ہے
تجھ کو جدائیوں کے کڑے تجربے سہی
لیکن بچھڑ کے مجھ سے کہو کیسا حال ہے
شک ہو رہا ہے مجھ کو میں مر تو نہیں گیا
دل کو کوئی خوشی ہے نہ کوئی ملال ہے
بے خانماں یہ شخص کہ حیدر ہے جس کا نام
اے ارضِ پاک دیکھ لے تیرا ہی لال ہے
٭٭٭