جہاں بھر میں ہمارے عشق کی تشہیر ہو جائے
اُسے کس نے کہا تھا دل پہ یوں تحریر ہو جائے
میں سچا ہوں تو پھر آئے مِری تقدیر ہو جائے
میں جھوٹا ہوں تو میرے جرم کی تعزیر ہو جائے
میں اپنے خواب سے کہتا ہوں آنکھوں سے نکل آئے
ذرا آگے بڑھے اور خواب سے تعبیر ہو جائے
زباں ایسی کہ ہر اک لفظ مرہم سا لگے اُس کا
نظر ایسی کہ اُٹھتے ہی دلوں میں تِیر ہو جائے
وہ ہر پَل جس میں اپنے پیار کی یادیں دھڑکتی ہیں
مِری جاگیر ہو جائے، تجھے زنجیر ہو جائے
سبب کچھ تو رہا ہو گا ترے حیدر کی حالت کا
کبھی جو بے سبب ہنس دے، کبھی دلگیر ہو جائے
٭٭٭