اس آرام گھر میں دن تو بہت مزے سے گزر جاتا ہے لیکن رات۔۔۔ اُف رات بڑی بھیانک ہوتی ہے ۔ نیند آنکھوں سے ایسی غائب ہوجاتی ہے جیسے بھوک سے بلکتے بچے سے اس کی ماں دور کردی جاتی ہو ۔ لائٹ بجھاؤ۔ بستر پر لیٹ جاؤ، وقت کے گزرنے کا تصّور کرو ، کبھی اُٹھ کر بے سبب بیٹھ جاؤ اور خواہ مخواہ اندھیرے میں ادھر اُدھر دیکھتے رہو اور کبھی اندھیرے میں بننے والے تصّورات سے خود کو خوف زدہ کرلو ۔ کبھی کھِل اُٹھو۔۔۔ کبھی اس کروٹ اور کبھی اُس کروٹ نیند کو تلاش کرو لیکن پھر بھی آنکھوں میں اندھیرا جمنے نہیں پاتا ۔ جیسے جیسے آنکھیں بند کرو ، ویسے ویسے روشنی اور روشن ہونے لگتی ہے ۔ بلکہ آنکھوں میں رنگوں کے انار چھوٹنے لگتے ہیں اور خیالات کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے ۔ ۔۔تم تو آرام سے سوگئیں ۔۔۔تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تمھارے اس طرح جانے سے میری زندگی کا ایک ایک پل کس طرح قیامت خیز ہوسکتا ہے ؟ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔تم نے کچھ نہیں سوچا ، بس چپ چاپ آرام سے سوگئیں اور لوگوں نے تمھاری بند آنکھوں کے باؤجود چہرے پر نور کے جلوے دیکھے اور اطمینان کی ایسی سانس لی گویا تمھارا مجھ سے جدا ہونا بے حد خوشی کی بات رہی ہو ۔ لوگ مجھے دلاسے بھی دے رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ تمھارے اطمینان کی ابدی نیند کی تعریفیں بھی کر رہے تھے لیکن میں ۔۔۔
ہاں میں اُس وقت سے لے کر آج تک تمھیں اسی طرح تلاش کر رہا ہوں جیسے کوئی بچّہ اپنے گُم شدہ کھلونے کو ڈھونڈھتا ہے ۔ کبھی تمھاری جھلک دور سڑک پر نظر آتی ہے اور میں دیوانوں کی طرح دوڑتا ہوا وہاں تک جاتا ہوں لیکن تم وہاں کہاں ہوتی ہو ۔۔۔؟ کبھی تمھاری کوئی سرگوشی کانوں میں رس گھولتی ہے اور میں بے قابو ہوجاتا ہوں ۔ کبھی خوشی سے چیخ اُٹھتا ہوںاور کبھی بسورنے لگتا ہوں ۔۔۔آہ ۔۔۔ اب تو شائد زندگی میں بسورنا ہی لکھا ہے ۔
’’اِس طرح روتے کیوں ہو ۔۔۔؟ ابھی تو رات کی چلمن پڑی بھی نہیں ۔ ‘‘
’’تم کیا جانو۔۔۔تم نے کبھی آرام گھر میں بسیرا کیا ہی نہیں ۔۔۔جب تک زندہ رہیں میرے مضبوط بازووں میں آرام سے سوتی رہیں لیکن میں ۔۔۔ ہا ں میں شاید اُن دنوں بھی دِن ہی سے رات کی فکر میں لگ جاتا تھا اور رات آتی تھی تو دِن کی فکر میں ڈوب جاتا ۔۔۔! ‘‘
’’تم نے ہمیشہ اُس وقت کو دیکھنے کی کوشش کی ہے جو ابھی امکانات کی ڈولی میں سویا ہوا ہوتا تھا ۔ ۔۔! ‘‘
’’ہاں شاید اِسی لیے میں زندگی کا صحیح لطف بھی اُٹھا نہیں سکا ۔ برسات سے پہلے ہی بھیگ جاتا تھا میں ۔۔۔ ! ‘‘
’’اچّھاتوجناب ۔۔رِم جھم برسات میں بھیگنے کا لطف اُٹھا رہے ہیں ۔۔!‘‘ اچانک وہ نظروں کے سامنے آگئی ۔ چہرے پر ایک عجیب سی فاتحانہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں عجیب سی شرارت ، وہ میرے سامنے بیٹھ گئی ، ’’ میں نے کتنی بار کہا ہے کہ میرے آنے سے پہلے آپ اپنے روم سے باہر قدم نہ نکالیں ۔۔۔ ! ‘‘ اُسے دیکھتے ہی میں ایک دم مسرور ہوگیا اور وہ سارے خدشات جو کچھ دیر پہلے میری پریشانی کا سبب بنے ہوئے تھے ایسے غائب ہوگئے جیسے روشنی کی دستک پر اندھیرا غائب ہوجاتا ہے اور کوئی مجھے اندر ہی اندر سمیٹنے لگا ۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’ چلئے آپ کے روم میں چلتے ہیں ۔۔۔! ‘‘ وہ مجھے آرام گھر کے باغ سے اُٹھا کر پھر ایک بار روم میں لے آئی ، ’’ آپ نے پوچھا نہیں ۔ ۔۔ آج مجھے آنے میں دیر کیوں ہوگئی ۔۔۔؟ ‘‘
’’تم ایک ڈاکٹر ہو ۔۔۔مصروفیت تو رہنے والی ۔۔۔! ‘‘ میں اس کی آنکھوں میں وجہ تلاش کرنے لگا ۔
’’ کوئی مصروفیت نہیں تھی ۔۔۔! ‘‘ وہ نہایت اپنائیت سے کہنے لگی ، ’’صبح میں نے گاجر کا حلوا بنایا تھا سوچا میٹھا تو آپ کو بھی پسند ہے بس اسی کی خاطر اسپتال سے گھر گئی ، حلوا لیا اور اب آئی ہوں ۔۔۔! ‘‘اُس نے حلوے کا ڈِبہ میرے ہاتھوں میں تھمادیا ۔ میں نے پھر ایک بار اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ خلوص اُس کی آنکھوں سے کسی آبشار کی صورت میری اُجاڑ زندگی پر گر رہا تھا ۔ میں نے گردن جھکا دی ۔۔۔
’’ تو تمھیں آج بھی وہ بات یاد ہے ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔۔ تمھیں یاد ہے جب تم پہلی بار ہمارے گھر آئے تھے تو تم نے اُسی وقت ابّاجان سے کہدیا تھا کہ تمھیں میٹھا بے حد پسند ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ہاں ۔۔۔ اور تم تب سے مسلسل میرے لیے طرح طرح کے میٹھے بناتی رہی ہو ۔۔۔ کبھی میرا دل جیتنے کی خاطر اور کبھی اپنی کسی فرمائش کی تکمیل کے لیے اور کبھی بس یوں ہی ۔۔۔ ! ‘‘
’’کہاں کھوگئے ۔۔۔؟‘‘ڈاکٹر نے مجھے ٹھوکا دیا ، ’’آں ہاں۔۔۔‘‘اوروہ کھلکھلاکر ہنس پڑی ، ’’ جب میٹھا اس قدر پسند ہے تو کھاتے کیوں نہیں ۔۔۔؟ ‘‘ اور میں کسی مودب بچّے کی طرح اُس کے حکم پر عمل کرنے لگا ۔
وہ بڑی عجیب سی لڑکی ہے ۔ جب سے ملی ہے میرے دل و دماغ پر قبضہ کر رکھی ہے ۔ وہ سامنے ہوتی ہے تو میں بس اس کا معمول بن کر رہ جاتا ہوں ۔ وہ جو بھی کہتی ہے میں چپ چاپ کرنے لگ جاتا ہوں ۔ لیکن جب وہ نہیں ہوتی ہے تو پھر ذہن میں ڈھیروں سوالات کلبلانے لگتے ہیں ۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب نہایت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور کبھی طبعیت چاہتی ہے کہ ہٹاؤ مجھے کیا ۔۔۔ اگر وہ عجیب سی لڑکی ہے تو ہوا کرے ۔ میرا اُس سے رشتہ ہی کیا ہے ۔۔۔ ؟ اور میں پھر سوچنے لگتا ، کیارشتوں کے بغیر بھی محبت قائم نہیں ہوسکتی ۔۔۔؟ اور پھر وہ مجھے اپنے دل سے اِس قدر قریب محسوس ہوتی کہ میں کبھی اپنا وجود اور کبھی اُس کے وجود کو بھولنے لگتا ہوں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ہفتوں ملنے نہیں آتی ۔ غلطی سے فون بھی نہیں کرتی۔ اُن دنوں پتہ نہیں مجھے کیا ہوجاتا ہے ۔ میں کچھ عجیب سا ہوجاتا ہوں ۔ چڑ چڑا، کچھ کچھ غصیلا ، کبھی کھویا کھویا سا ۔۔۔اور پھر ایک حد ایسی آتی ہے کہ میں ٹیلیفوں کے پاس بیٹھ جاتا ہوں اور میری انگلیاں اس کے فون کا نمبر ڈائل کرنے لگتی ہیں اور پھر خود ہی رُک جاتی ہیں ۔۔۔اور کوئی کانوں میں سرگوشی کرتا ہے ۔۔۔تم فون کروگے ۔۔؟ اور پھر میں اپنے آپ میں واپس آجاتا ہوں ۔ اسی کشمکش میں اچانک اس کا فون آجاتا ہے یا وہ خود چلی آتی ہے ۔ ویسی ہی نٹ کھٹ ، شریر ، آنکھوں میں ہزار ہا سوالات لیے اور میں اُسے دیکھتے ہی نارمل ہونے لگتا ہوں ۔
’’تم آتی ہو تو کسی بہار کے جھونکے کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’سچ۔۔۔! ‘‘ وہ مسکرائی ، ’’ اکثرلوگ مجھ سے یہی بات کہتے ہیں ۔ ‘‘
’’کہتے ہوں گے ۔۔۔‘‘ ایک ٹھنڈی آہ میرے دل سے نکلی ۔۔۔تم مسیحا جو ٹھہری ۔۔۔ میرا مطلب تم ایک ڈاکٹر ہو ۔۔۔ اب مجھے ہی دیکھو ۔ تم آتی ہو تو میں اپنے تنہائی کے غار سے باہر نکلتا ہوں ۔۔۔ ‘‘
’’یہ غار تو خود آپ ہی نے بنوایا ہے ۔۔۔ ‘‘ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے پلنگ کی پٹّی پر بیٹھتے ہوئے بولی ، ’’ آخر کیا ضرورت تھی آپ کو ۔۔اپنے اکلوتے لڑکے کو سات سمندر پار بھیجنے کی ۔۔ ۔یہاں بھی تو اس کا مستقبل سنور سکتا تھا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ڈاکٹر شاید تم ٹھیک ہی کہہ رہی ہو ۔ یہاں یہ ممکن تو تھا لیکن شاید یہاں رہتے ہوئے اس کا مستقبل اتنا روشن نہ ہوتا جو وہاں ہوا ہے ۔۔۔ میرا خیال ہے ڈاکٹر تمھیں بھی اپنے روشن مستقبل کے لیے سوچناچاہیے ۔۔۔‘‘
اُس کے چہرے پر طنز پھیل گیا ۔
’’ اچّھا اگر میں یہاں سے دور سات سمندر پار چلی جاؤں تو تم میری غیر موجودگی کو برداشت کرسکوگے ۔۔۔؟ ‘‘
ایک لمحہ میں خاموش ہوگیااور پھربولا، ’’بالکل ۔۔میں تمھاری جدائی ۔۔ بلکہ طویل جدائی کو نہایت آسانی سے برداشت کرلوں گا ۔۔ ارے تم جاکر تو دیکھو ۔۔‘‘
وہ بولی ، ’’یہ بات میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو ۔۔۔ ‘‘ لیکن میں نظریں چُرانے لگا ۔ بلکہ نیچے زمین کو گھورنے لگا ۔
میرے کانوں میں زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں ۔
’’ یہ تمھاری کوئی نئی عادت تو نہیں ہے ۔۔۔ تم نے کبھی مجھے اپنے مائیکے میں ایک دن سے ذیادہ رہنے بھی دیا ۔۔۔؟ اور پھر جب میں مائیکے سے واپس تمھارے پاس آجاتی تو تمھیں میں ہمیشہ ہی عجیب سی لگتی ۔ ۔۔ ‘‘
’’ عجیب سی تو تم مجھے اُس وقت بھی محسوس ہوئی تھی جب پہلی بار تم مجھ سے ملی تھی ۔۔۔ نہیں شاید تم عجیب سی محسوس نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک عام سی لڑکی لگی تھیں ۔ اوسط شکل و صورت اور اوسط ذہانت کی مالک ۔۔۔ ‘‘
’’ اور شاید اِسی خوش فہمی میں تم نے مجھ سے شادی کرلی تھی ۔۔۔ ‘‘
’’ حیدر صاحب ۔۔۔ آپ آخر اس قدر گُم صُم کیوں رہتے ہیں ۔۔۔ ؟ کچھ کھوئے کھوئے سے ۔۔۔جیسے اندر ہی اندر کچھ ڈھونڈ ھ رہے ہیں ۔۔۔ ‘‘
’’ آں ۔۔۔؟ نہیں تو ۔۔۔ ‘‘ میں خیالات کے سمندر سے باہر نکلا ، ’’ اصل میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر تم میرے ساتھ اتنا خلوص کیوں برتتی ہو ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ اور اگر یہی سوال میں کروں تو ۔۔۔؟ ‘‘ اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیے اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی ، ’’ میں آپ کی کیا لگتی ہوں ۔۔۔؟ ‘‘ اُس کی آنکھوں میں شرارت مچلنے لگی ۔
’’ یہی سوال تو میں بار بار اپنے آپ سے کرتا ہوں ، بلکہ جب پہلی بار تم مجھ سے ملی تھیں تب سے سوچ رہا ہوں ۔۔ ‘‘میں نے اس کے گال تھپتھپائے، ’’بتاؤ ۔۔ آخر مجھے تمھارا انتظار کیوں رہتا ہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ اِس کا جواب بھی آپ اپنے آپ ہی سے پوچھیے اور مجھے یہ بھی بتائیے کہ آخر آپ میرے چہرے میں کیا تلاش کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’تم میں ۔۔۔ تم میں ۔۔۔ ‘‘بقیہ الفاظ میرے حلق کے اندر ہی اٹک گئے ۔
’’ ہاں ہاں ۔۔۔ کہیے نا ۔۔۔کہیں میری ۔۔۔ شباہت میں آپ کو کوئی اپنا تو یاد نہیں آتا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہاں شاید ۔۔۔ کچھ ایسا ہی ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’کیوں جھوٹ بکتے ہو ۔۔۔! ‘‘ میرے کانوں میں پھر آوازیں آنے لگیں ’’وہ جب پہلی بار تم سے ملی تھی تو وہ نہ صرف تم کو عجیب و غریب لڑکی محسوس ہوئی تھی بلکہ اُسے دیکھنے کے بعد تم نے اپنے ذہن کے حال تا ماضی تمام دریچوں کو کھنگال ڈالا تھا اور جب اُس کے بعد بھی تمھیں ناکامی ہوئی اور اُس کے چہرے میں تمھیں اپنا کوئی چہرا نظر نہ آیا تو تم زمین کی پرتوں کو چھوڑ کر آسمان کی وسعتوں تک نہیں پہنچے تھے ۔۔۔؟ اِس تصّور کے ساتھ کہ شاید عالمِ بالا میں تمھاری اس لڑکی سے ملاقات ہوئی ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ویسے تم کیا سوچتی ہو ۔۔۔ ؟ ‘‘
اُس کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ میں تو یہی سوچتی ہوں کہ میں اتنی لیٹ کیوں پیدا ہوئی ۔۔۔ ؟ ‘‘ اور پھر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی ، ’’ اچّھا بتائیے میں سب سے پہلے آپ کو کہاں پر ملی تھی ۔ ‘‘
’’ اِسی آرام گھر میں ۔۔۔‘‘
’’ نہیں جناب ۔۔۔‘‘ اُس نے دیدے مٹکائے ، ’’آپ ذرا یاد کیجیے ۔ اپنے ذہن کے دریچوںکو واکیجیے ۔ اپنی سوچ کو بلندی پر لے جائیے ۔ بہت بلندی پر ۔۔۔ عالمِ بالا میں ۔۔۔ ‘‘
’’ عالمِ بالا میں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ جی ہاں ۔۔۔عالمِ بالا میں ۔۔۔ ‘‘
’’ اوہ اب تو سب کچھ یاد آگیا ۔۔۔‘‘ شوخی میری عمر کی حدوں کو پھلانگ کر میرے لبوں پر مچلنے لگی۔ ’’ یہ بالکل سچ ہے کہ عالمِ بالا ہی میں میری اور تمھاری ملاقات ہوئی تھی ۔ وہاں ہم دونوں گھنٹوں۔۔۔ نہیں پتہ نہیں ۔۔۔عالمِ بالا میں وقت کا کیا پیمانہ ہے ۔۔۔؟ ہم ساتھ رہتے ۔ شرارتیں کرتے ۔ کبھی آبِ کوثر کے دامن میں۔ کبھی یاقوت و مرنجان کی پہاڑیوں میں ۔ کبھی موتیوں سے سجے محلوں میں ۔ کبھی زمرد فیروزہ لعل و جواہر کے د رختوں کے جھنڈ میں ۔ کبھی فرشتوں کی عبادت گاہوں کے قریب اور کبھی پھل دار ٹہنیوں کے آس پاس اور ۔۔۔اور کبھی دوزخ سے لگی سیڑھی کے آس پاس بھی۔۔۔ تمھیں بھی یاد آرہا ہے نا ۔۔۔؟ ‘‘ میں نے اُس کی طرف دیکھا تو وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی اور بولی ، ’’ ہاں مجھے بھی یاد آرہا ہے ۔ وہ تمام مقامات جن کا آپ نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے ۔ بے شک ہم دونوں وہیں پر ملا کرتے تھے ۔۔۔ البتہ دوزخ کی سیڑھی تک تو آپ ہی مجھے لے کر جاتے تھے ۔۔۔ ‘‘
’’میں۔۔۔ ؟ ‘‘ میرے تعجب نے اس سے سوال کیا تو وہ اور زور سے ہنسی اور پھر بولی ، ’’ بالکل ۔۔۔آپ ہی ۔۔۔‘ ‘‘
میں نے اُسے بے اختیار لپٹالیا اور پھر اس کے کان میں آہستہ سے کہا ، ’’ حوّا کی بیٹی ۔۔۔دوزخ کا راستہ تو صرف تم ہی جانتی تھیں اور تم ہی مجھے وہاں تک لے کر گئی تھیں ۔ ۔۔ ‘‘
وہ بولی ، ’’ ثبوت ۔۔۔ ؟ ‘‘
میں نے جواب دیا ، ’’ فرشتوں سے پوچھ لو ۔۔۔ ‘‘
تب وہ میرے سینے سے الگ ہوتے ہوئے بولی ، ’’ٹھیک ہے جب اُوپر واپس جائینگے تب پوچھ لیں گے ۔ ‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ میں تو ابھی پوچھوںگا ۔۔۔ ‘‘ اور پھر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور فرشتوں کا تصّور کرنے ہی لگا تھا کہ ۔۔ ’’ کیوں جی ۔۔۔ اب تم نے جھوٹ کہنا بھی شروع کردیا ۔۔؟ سچ کہو ۔۔۔ دوزخ کی سیڑھی تک کون کس کو لے کر گیا تھا۔ میں نے تو تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو وہ راستہ گھر کی طرف نہیں دوزخ کی طرف لے جاتا ہے لیکن تم سدا کے ضّدی رہے اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہم سے دور روشن مستقبل کی چاہ میں سات سمندر پار چلا گیا ۔۔۔پھر اُس نے وہیں گھر بسا لیا اور میں ایک کے بعد ایک زخم کھاتی رہی ۔۔۔ یہاں تک کہ میں بھی زمین کا پیوند ہوگئی ۔۔۔‘‘
’’ہاں ۔۔سب کچھ لُٹ گیا اور میں بھی اس تنہائی سے لڑتے لڑتے آخر اس آرام گھر میں شریک ہوگیا، آج میری بھی سمجھ میں آگیا کہ صرف دھن دولت ہی سے روشن مستقبل نہیں بنتا ۔۔۔‘‘جانے کتنے ہی مناظر میری آنکھوں میں گھوم کر رہ گئے ۔
’’لیکن حیدرصاحب - روشن مستقبل کے لیے دھن دولت بھی تو چاہیے؟ ‘‘
’’ تو اب تم بھی اس طرح سوچنے لگیں ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ میں تو صرف ایک بات کہہ رہی تھی ۔۔۔ ‘‘
’’ نہیں ڈاکٹر۔۔۔ تمہیںبھی اب سوچنا چاہیے ۔۔۔کیا کمی ہے تمہارے پاس، تم ذہین ہو ۔تمہارے ہاتھوں میں شفاء ہے ۔ تمہارا ایک نام بھی بن رہا ہے ۔ لوگ تمہاری عزت کرتے ہیں ۔ ۔۔ڈاکٹر تم گلف یا کسی مغربی ملک میں جانے کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتیں ۔۔۔؟
’’ تو آپ کو میرا یہاں پر آنا اور آپ سے گفتگو کرنا پسند نہیں ہے ۔ ۔۔۔؟ ‘‘
’’ نہیں ڈاکٹر صاحبہ یہ بات نہیں ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ تو پھر آپ مجھے یہاں سے دور کہیں اور بھیجنے کی بات کیوں کر رہے ہیں۔۔۔؟‘‘
’’ ڈاکٹر ۔۔۔! تم جانتی ہو مجھے تم سے کس قدر محبت ہے اور یہ بھی کہ میں تمہارے بغیر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ پاؤں گا ۔۔۔! ‘‘ شاید میں یہ سب کچھ دل ہی دل میں بول گیا تھا ۔ کیوںکہ جواب میں اُس کا ری ایکشنReaction) ( نہیں تھا ۔ شاید سبھی ایسی باتیں کہتے رہے ہونگے ۔۔۔ میری نظریں زمین پر ٹک گئیں ۔
’’ کسی اور کی بات کا کیا تذکرہ ۔۔۔ تم نے بھی تو اپنی سہاگ رات کے وقت مجھ سے یہی کہا تھا ، لیکن گذشتہ دس برسوں سے میں تنہا زمین کے نیچے پڑی ہوں ۔۔۔ اور تم ۔۔۔! ‘‘
’’ میں کیا ۔۔۔؟ تم نے بھی تو ساری زندگی ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا ۔ وعدہ تو تم بھی توڑ گئیں اور میں بھی تنہا زمین کے اوپر زمین کا بوجھ بنا سہاروں کی بیساکھیوں پر کھڑا ہوں ۔۔۔! ‘‘
’’ ارے آپ اس طرح اچانک کیوں کھڑے ہوگئے ۔۔۔؟ ‘‘ ڈاکٹر کے استفسار پر میں ایسا چونکا جیسے بے موسم برسات میں کوئی اچانک بھیگ جاتا ہے ۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا وہ ایک دم سنجیدہ ہوگئی تھی ۔ اس کی آنکھوں کی شوخی ماند پڑ گئی تھی ۔ وہ بولی،’’حیدر صاحب ۔۔۔میں اپنے ملک سے باہر کہیں نہیں جاسکتی ۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے میری اپنی کیا مجبوریاں ہیں ۔ میرا مستقبل تو اُس ہوائی جہاز کا ملبہ ہے جو اُڑان بھرنے سے پہلے ہی ہوائی اڈّے پر خود ہی ڈھیر ہوگیا ۔ اُس کی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے،’’کیا اپنے اور کیا پرائے سبھی کے طنز کے نشتر سہتے سہتے میں یہاں تک پہنچی ہوں ۔ ایک قدامت پرست خاندان کی کسی لڑکی کا ڈاکٹر بن جانا اتنا آسان تو نہیں تھا ۔ ۔۔! ‘‘
میں نے اُس کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھا تو وہ بے اختیار مجھ سے لپٹ گئی اور آنسؤں کا سیلاب جذبات کے کمزور ساحل کو توڑتا ہوا اپنے اطراف کے سارے ماحول کو ڈبو گیا ۔
’’ اس طرح کب تلک روتے رہوگے ۔۔۔؟ زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرو اور حقیقت یہی ہے کہ میں مرچکی ہوں ۔ اس دنیا میں ہم سبھی آدھے ادھورے ہیں ۔ اُمید کے روشن چراغوں کی مدھم روشنی میں ایک دوسرے کو دھوکا دیتے رہتے ہیں ۔ ہم سب مفاد پرست ہیں ۔ ایک دوسرے کی بیساکھیوں پر کھڑے ہوئے وہ کمزور لمحے ہیں جو معمولی سی آندھی کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ وعدے تو میں بھی کرتی رہی نا ۔۔۔؟ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں تو میں نے بھی تمہارے ساتھ کھائی تھی ۔ لیکن کیا میں اپنا وعدہ نبھا پائی ۔۔۔؟ وقت کے ہوائی اڈّے پر زندگی کے کتنے ہی ہوائی جہاز اُترتے ہیں ۔ اُڑانیں بھرتے ہیں ساتھی سنگی رشتہ دار ہاتھ ہلا ہلا کر اور کبھی آنسووں بھری مسکراہٹوں میں ہر لمحہ کسی نہ کسی کو وداع کرتے رہتے ہیں اور کبھی خوشیوں کے گہوارے میں خوش آمدید کہتے ہیں ، لیکن ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ سرائے میں کون کتنے دن ٹھہرے گا ۔ ۔۔ اپنے آنسووں کو روک لو ۔۔۔میرے جنازے کو رخصتی کی اجازت نہیں دوگے ۔ ۔۔؟ ‘‘
’’ تو تم جارہی ہو ڈاکٹر ۔۔۔! ‘‘ میں نے پوری شدّت کے ساتھ اپنے آنسووں کے سیلاب کو روکتے ہوئے پوچھا وہ میرے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔ اُس کے دل کی دھڑکنے بھی تیز ہوگئی تھی ۔ اس کے آنسو میرے بدن پر رم جھم برس رہے تھے ۔ ہم رشتوں کی دیوار کے پرے ایک دوسرے سے ملے تھے اور آج ایک خود ساختہ بندھن اپنے آپ آزاد ہورہا تھا ۔ اُس کے ہوائی جہاز کے اُڑان کا بار بار اعلان ہو رہا تھا ۔ وہ مجھ سے جدا ہوئی اور میرے طرف بنا دیکھے اپنے جہاز کی طرف قدم اُٹھانے لگی ۔ غالباً جہاز کے دروازے پر مسافر بردار سیڑھی لگ چکی تھی ۔ اچانک وہ پلٹی اور دوڑتے ہوئے میری طرف آئی اور پھر مجھ سے پوری شدّت کے ساتھ لپٹ گئی ، ’’ روشن مستقبل کی آڑ میں آپ ہی نے مجھے دوزخ کی سیڑھی تک پہنچا دیا ہے ۔ یہ بات کبھی بھولنا مت ۔۔۔! ‘‘ اتنا کہہ کر وہ جس رفتار سے مجھ تک پہنچی تھی اس سے بھی تیز ہوائی جہاز کی طرف دوڑ پڑی ۔ اُس کے قدموں کی چاپ یاقوت و مرنجان کی پہاڑیوں کو روندتی ہوئی موتیوں سے سجے محلوں کو پھلانگتی ہوئی زمرد ، فیروزہ ، لال و جواہر کے درختوں کے جھنڈ سے ہوتی ہوئی فرشتوں کی عبادت گاہوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی دوزخ کی سیڑھی کے پرے پہنچ گئی ۔۔۔!
میں ایک بار پھر ’ آرام گھر ‘ کے ایک خاموش گوشے میں یکا و تنہا رم جھم برسات میں بھیگ رہا ہوں ۔ رحم کرنے والے ، ثوابوں کی لالچ میں آنے والے ملاقاتیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔۔۔لیکن اب میرا دماغ بالکل خالی ہے ۔ اب نہ کوئی سوچ سر پر سوار ہے اور نا ہی انتظار ۔۔۔!
٭٭٭