وہ ایک دم چپ ہوگئی،پھراُس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے اوراُس نے اپنے بگڑے ہوئے لہجے پرقابوپاتے ہوئے کہا، ’’دیکھوجی۔۔۔ ! وہ لڑکاپھرہماری طرف دیکھ رہاہے !‘‘
میں نے پلٹ کردیکھا،واقعی وہ کھڑاتھا،اُس کے چہرے پرعجیب سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی،جونہی میری نظر یں اُس سے ٹکرائیں اُس کا سیدھاہاتھ خودبخود پیشانی تک اُٹھ گیااورمیں اندرہی اندردانت پیس کررہ گیا اوروہ چپ چاپ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔
خداجانے یہ لڑکاکون ہے؟کہاںسے آیاہے؟اورکیوںآیاہے؟لیکن جب سے آیاہے جینادوبھر ہوگیا ہے۔ جب بھی دیکھواُس کی آنکھیں میرے ہی گھرکے اندرہوتی ہیں،کیااُسے پتہ نہیںہے کہ تانک جھانک کی عادت اچھی نہیں ہوتی۔۔۔؟ ٹھیک ہے ،نوجوانی میں غلطیاںہوتی ہیں،لیکن اس طرح۔۔۔؟یہ تو جیسے چوبیس گھنٹے میرے ہی گھرکے اندرگذارناچاہتاہے !
جب وہ میری نظروںسے کافی دوٗر ہوگیا،تومیں اپنی بیوی کی طرف پلٹا،تاکہ اُس جھگڑے کومکمل کرلوںجوہم دونوںکے درمیان جاری تھا۔لیکن شایدوہ لڑنابھول گئی تھی،اُس کے چہرے پرگہری فکرمندی کی لکیریںاُبھرآئیں،اُس کی زبان سے نکلا،’’آخروہ ہمارے گھر میں اس طرح کیوںجھانکتارہتاہے ۔۔۔؟‘‘
’’یہ تو اُس سے پوچھنے کے بعدہی پتہ چلے گا ۔!‘‘میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
’’اُس سے آپ پوچھیں گے پاپا۔۔۔؟‘‘میرا بیٹاچائے کی پیالی ٹیبل پررکھتاہوابولا،’’کوئی ضرورت نہیں، اُس کا بُراوقت اب آگیا ہے ۔۔۔ارے اُس کی آنکھیں نہ پھوڑڈالوں تومیرانام شوکت خان نہیں -!‘‘
’’بیٹے شوکت خان!‘‘ میں اُس کی طرف پلٹا،’’کبھی کبھی سمجھ داری کا بھی ثبوت دیاکرو۔۔۔اوراپنانام مجھے کبھی اُس اخبارمیں بھی دکھادوجوامتحانوں کے نتائج چھاپتاہے۔۔۔ہونہہ۔۔۔بات کوخواہ مخواہ بڑھائیں گے۔۔۔داداگیری کریں گے ۔۔۔ارے دوسال سے مسلسل فیل ہورہے ہوتم۔۔۔اُس کا احساس ہے تمہیں -؟‘‘
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا اورغصّے سے اُٹھ کرچلاگیا۔
’’دیکھا تم نے اِس لڑکے کے تیور۔۔!‘‘میں بیوی کی طرف پلٹاتووہ بولی،
’’اصل قصہ توایک طرف رہ گیا اوریہاںآپس ہی میں جِھک جِھک ہورہی ہے۔‘‘
’’اصل قصہ‘‘میں دل ہی دل میں بڑبڑایا، اورپھرمیرے قدم زینے کی طرف اُٹھ گئے۔۔۔اس قصّے کاخاتمہ کیسے کروں-؟ کم بخت ایک عذاب کی صورت پورے گھرپرمسلط ہوگیا،جب دیکھو تب گلی میں کھڑاہے۔۔۔ بدتمیز کہیں کا، بداخلاق۔۔۔ نہیں شایداخلاق اچھے ہیں اُس کے ،کیونکہ جب بھی اُس سے نظریں ملتی ہیں وہ سلام ضرورکرتاہے، سلام کرتاہے یا مذاق اُڑاتاہے ؟ہاں ۔۔۔ مذاق ہی اُڑاتاہوگا، اُس کے چہرے پرہمیشہ کس قدرتمسخرآمیزمسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔۔ کیاسمجھتاہے اپنے آپ کو ؟ارے نیلی جینس پینٹ اورلال جرسی پہن لینے سے کیا کوئی ہیروہوجاتاہے؟ہونہہ۔۔۔کم بخت۔۔۔پتہ نہیں کیاچاہتاہے؟
سیڑھیاں چڑھ کرجونہی میں اپنے کمرے میں داخل ہواتواپنی بڑی لڑکی کو کھڑکی سے لگی ہوئی پایا، ایک لمحہ یوںمحسوس ہواجیسے میں نے اُس مچھلی کی آنکھ کو کھوج لیا ہے جس پرارجن کے بان نے ایک نئی جیون کتھالکھی تھی۔میں تیزی سے اُس کے قریب پہنچااورجونہی میں نے باہردیکھا۔میرا ساراجوش ٹھنڈاہوگیا۔سڑک سنسان تھی۔اور اُس کادوٗردوٗرتک پتہ نہ تھا،میں کسی قدرکھِسیانہ ہوگیا،’’کیادیکھ رہی ہوبیٹی شبانہ ۔۔۔؟‘‘
’’آں ۔۔۔ ‘‘ میرے اس اچانک سوال پروہ چونکی اورپھروہ اُسی طرح نیچے جھانکتی ہوئی بولی،’’پاپا۔۔۔ آسمان میں پتنگ تواُڑرہی ہے لیکن اُڑانے والانظرنہیں آرہاہے ۔۔۔ ؟‘‘
میں نے آسمان کی طرف دیکھا،سرخ رنگ کی ایک پتنگ کسی دلہن کی طرح کانپ رہی تھی،’’بیٹی! تم اُڑانے والے کی تلاش مت کرو۔۔۔بس اتناسمجھ لوکہ جب تک پتنگ کارشتہ ڈورسے بندھاہواہے۔وہ اسی طرح بے خوف آسمان میں اُڑتی رہے گی، مگر جونہی۔۔۔!‘‘
’’پاپا -!‘‘اُس نے میری بات کاٹی اورپھرمیری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولی،’’یہ آج آپ کیسی باتیں کررہے ہیں ۔۔۔؟ کیاہوگیاآپ کو ؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔کچھ نہیں !‘‘میں لاجواب ہوتے ہوئے بولا،’’شبانہ اب تم بڑی ہوگئی ہواوراب تمہیں۔۔۔!‘‘
’’پاپا۔۔۔ مجھے رشتوںکی اہمیت سمجھانے کی ضرورت نہیں۔۔۔وہ پتنگ ہی کیاجو صرف ڈورکے بھروسے آسمان میں اِترائے۔۔۔مجھے اپنے آپ پرپورا بھروسہ ہے۔‘‘
میں اُسے دیکھتارہ گیا،اوروہ پاؤں پٹختی ہوئی زینے کی طرف بڑھی،میں نے باہرجھانکا،پتنگ آسمان سے زمین کی طرف غوطہ لگا رہی تھی۔
میں سوچنے لگاکہ اب مجھے بھی اپنی پتنگ کو اُڑادیناچاہئیے۔اس سے پہلے کہ وہ ڈورکی اہمیت سے انکارکردے۔اچانک ہوامیں تیزی آگئی اورمیں نے جلدی سے کھڑکی کے پٹ بندکردئیے اورسوچنے لگا،میرے تصوّرمیں وہی لڑکاآدھمکااورمیں نے پوری شدّت کے ساتھ اُسے جھٹک دیا۔اُس کے چہرے پرمسکراہٹ کھیل رہی تھی،گویاوہ مجھے چیلنج کررہاتھا ۔۔۔ اچھاپھرکوئی اورسوچو۔۔۔ ؟ اورمیں جوں جوں اپنی سوچ کوکسی ایک نقطہ پرمرکوزکرتا،شکل اُسی لڑکے کی بن جاتی، تنگ آکرمیں گھر سے باہر نکل گیا۔
میں بے مقصداِدھراُدھربھٹک رہاتھاکہ میری ملاقات مدھوسدن سے ہوگئی وہ مجھے اپنے گھرپرچلنے کے لئے اصرارکرنے لگا۔ٹھیک اُسی وقت وہ لڑکامجھے نظر آگیا۔ اُس نے دوٗرسے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ مجھ پرڈالی اورپھرتیزی سے آگے بڑھ گیا۔میں سمجھ گیاکہ وہ اگلاموڑ کاٹے گااورپھرتنگ گلی سے ہوتاہواسیدھامیرے گھرکی طرف بڑھ جائے گا۔
’’کیاسوچ رہے ہویار -؟‘‘مدھوسدن نے مجھے ٹھوکادیا۔
’’میراخیال ہے مجھے فی الحال اپنے ہی گھرجاناچاہئیے ۔۔۔!‘‘میں اپنی کیفیت پرقابوپاتے ہوئے بولا،لیکن وہ مانانہیں اورمجھے اپنے گھرکی طرف گھسیٹتا ہوا بولا، ’’آج تومیں تجھے اپنے گھرلے جاکرہی رہوںگا -!‘‘
اورپھرہم دونوںاُس کے گھرکی طرف روانہ ہوگئے۔وہ پتہ نہیں کیاکچھ کہتا رہا،لیکن میرادماغ توکہیں اورتھا،اورپھرجیسے ہی ہم دونوںاُس کے دروازے پرپہنچے ، شیلابھابھی کی آواز کانوںسے ٹکرائی،’’اکیلے ہی آئے ہو ؟ تم ادیب لوگ بڑے خودپسندہوتے ہو، اپنے سِواکسی کو اہمیت نہیں دیتے !‘‘
’’بھابھی۔۔۔ اب آپ کِسے اہمیت دلواناچاہتی ہیں -؟‘‘
’’میں پوچھتی ہوں،کیافرق پڑتا،اگرتم سلمیٰ کوبھی اپنے ساتھ لالیتے ؟‘‘
’’اس عمرمیں ۔۔۔؟ اوراُسے ۔۔۔نابھابھی نا۔۔۔!‘‘میں نے ہاتھ جوڑے تووہ بولی،’’شرم تواُسے آناچاہئیے تمہارے ساتھ چلتے ہوئے،سارے بال سفیدہوگئے ہیں تمہارے۔۔۔اوروہ۔۔۔وہ تواب بھی ایسی لگتی ہے جیسے اپنی بیٹیوں کی بڑی بہن ۔ ‘‘
اچانک سلمیٰ کا چہرہ میری آنکھوں میں آگیااورمیرے چہرے پرایک خوش قسمت شوہرکی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’آپ لوگ باتیں کیجئے،میں ابھی ناشتہ لگواتی ہوں۔۔۔!‘‘ شیلابھابھی باورچی خانے کی طرف بڑھی اورہم دونوںڈرائینگ روم میں پہنچے ۔جہاںہم نے مختلف موضوعات پرگفتگوکی لیکن وہ لڑکاپھربھی میرے دماغ سے نکلانہیں۔۔۔مجھے عجیب سے بے چینی ہونے لگی اومیں کچھ دیرکے بعدوہاںسے اُٹھ گیا۔
میں تیزی سے اپنے گھرپہنچناچاہتاتھالیکن کوئی نہ کوئی مجھ سے ٹکراتارہا،کبھی میں کچھ دیرکسی ہوٹل میںٹک گیا،کبھی کسی کے گھر اورکبھی سڑک کے کنارے کھڑاگپ شپ لڑاتارہااوروہ لڑکاہربارکسی گِدھ کے مانندمیرے دماغ پراپنی چونچیں مارتارہا، یہاںتک کہ دن پورا غارت ہوگیاپھررات کی زلفیں کالی ہونے لگی یہاںتک کہ سڑکوںپربھی سنّاٹاہونے لگا۔میں تھکاماندہ اپنے گھرلوٹا،گھرکے تمام افرادسوچکے تھے، سوائے میری چھوٹی بیٹی رخسانہ کے۔جس کے کمرے کابلب روشن تھا۔میں سمجھ گیاوہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگی۔آخراُسے ڈاکٹر بنناہے نا۔۔میں دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھتاہوابالائی منزل پرپہنچا اورجونہی اپنے کمرے میںداخل ہوا،سرخ رنگ کے زیرو بلب کی روشنی میں سلمیٰ کاچہرہ بڑاہی دلکش محسوس ہوا،واقعی وہ اپنی بیٹیوںکی بڑی بہن ہی محسوس ہوتی ہے۔میں دل ہی دل میں پھرایک بارمسرور ہوگیا۔کپڑے تبدیل کرتے وقت معاًایک خیال سرعت کے ساتھ میرے دماغ میں داخل ہوا،اورمیں نے فوراًکھڑکی کھول دی اورجیسے ہی باہرجھانکا،مجھے جھٹکاسالگا۔جیسے کسی نے بجلی کے ننگے تارمیرے بدن میں چھبودیئے ہوں۔میرے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔مرزا صاحب کے مکان کے ایک کمرے کابلب اُسی طرح روشن تھا۔مجھے محسوس ہواجیسے وہ لڑکامجھے سلام کررہاہے اوراُس کے چہرے پرکسی فاتح کی مسکراہٹ بکھری ہوئی ہے۔ یہ رخسانہ کی بچّی میری ناک کٹواکرہی دم لے گی شاید ۔۔۔ایک تو غصّہ اورپھربے بسی۔ میری حالت عجیب سی ہوگئی۔میری آنکھوںمیں اندھیری سی آگئی اورمیں خاموش پلنگ کی پٹّی پرٹک گیا،لیکن پھربھی میری بیوی جاگ گئی اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھااورپھربولی،’’سنتے ہوجی۔۔۔وہ لڑکاآج دن تمام اپنے ہی گھرکے اطراف چکّرلگاتارہا۔۔۔کیاسمجھتاہے خودکو -؟‘‘
میںنے فوراً خودپرقابوپالیا۔دراصل میں شورکیے بناہی اس مسئلے کوسلجھانا چاہتاتھا۔میںنے لاپرواہی سے جواب دیا،’’سمجھا کرے۔۔ہمیں اُس سے کیا -؟‘‘
’’سمجھاکرے۔۔۔؟‘‘وہ غصّے سے اُٹھ بیٹھی،’’یہ لڑکیوںکاگھرہے ۔۔ ۔ خدانخواستہ بدنامی ہوگئی تواُن کی شادیاںایک مسئلہ بن جائینگی-!‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو !‘‘ میں نے آہستہ سے کہا،’’کچھ نہ کچھ بندوبست کرناہی پڑے گا ۔۔۔‘‘
’’لیکن کب ؟‘‘ اُس نے اپناسیدھاہاتھ ہوامیں نچایا،’’میں نے تواُسی وقت کہاتھا۔جب تم مجھے اپنی نئی کہانی سنارہے تھے اور وہ بے خوف اِدھرگھورے جارہاتھا،میں پوچھتی ہوں اُس وقت بھی کیاکیاتھاتم نے -؟ بس اُٹھ کراپنی کھڑکی بندکردی تھی اوراپنی کہانی میں مصروف ہوگئے تھے۔۔۔!‘‘
’’اورمیں اب بھی یہی کہوںگا۔۔۔اپنی کھڑکیاںبندرکّھاکرو،اگرتمہیں اپنی عزّت پیاری ہے تو -!‘‘میں نے فیصلہ کُن آواز میں کہااور بسترپردراز ہوگیا۔ اُس نے حیرت اورغصّے سے میری طرف دیکھااورپھراپنے آپ ہی بڑبڑانے لگی۔۔۔ ’’دیکھتی ہوں اب اُسے ۔۔۔ذراکل توآنے دو۔۔۔اُس کا چہرہ نہ نوچ ڈالوںتومیرانام دوسرارکھ دینا -!‘‘اُس نے پلٹ کرمیری طرف دیکھااورپھراُسی غصّے سے پلنگ سے نیچے اُترگئی اورکھڑکی کاپٹ بندکرکے وہیں فرش پرلیٹ گئی اورپتہ نہیں کب تک بڑبڑاتی رہی۔
دوسرے دن جیسے ہی میں گھرسے باہرنکلامرزاصاحب کواپنے چبوترے پراخبارپڑھتے ہوئے پایا،میں اُن کے قریب پہنچا،’’مرازا صاحب ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ مشرقی سمت والا کمرہ آپ نے کرائے پراُٹھادیاکیا -؟‘‘
انھوںنے اخبارسے سرباہرنکالا،’’وہ ۔۔۔ہاں۔۔۔اُس میں میرے مرحوم دوست کالڑکارہتاہے۔۔۔کیوں -؟‘‘مرزا صاحب نے مجھے ٹٹولتی ہوئی نظروںسے دیکھا۔
’’نہیں کچھ نہیں ۔۔۔وہ ۔۔۔!‘‘میں کہناتوکچھ اورچاہ رہاتھا لیکن منہ سے نکلاکچھ اور۔
’’اوہ سمجھا۔۔۔!‘‘انھوںنے میری آنکھوںمیں جھانکا،’’تمہیں دولڑکیاں ہیںنا -؟لیکن بھائی ابھی تووہ پڑھ رہاہے -!‘‘
مجھ پرتوجیسے گھڑوںپانی گرگیا،میں اُن کے پاس سے چپ چاپ نکل گیا۔ایک سوچ میرے سرپرسوارہوگئی کہ آخرمیں یہاںآیا ہی کیوںتھا؟ کیا لڑکیوں کا باپ ہرایرے غیرے لڑکے کوصرف للچائی ہوئی نظروںہی سے دیکھتاہے؟یہی سوچتے ہوئے میں اپنے گھرچلا آیا،پتہ نہیں کیوںاب مجھے اپنی لڑکیوںکی صورتیں زہرمعلوم ہونے لگی تھیں۔میری طبیعت خواہ مخواہ چڑچڑی ہورہی تھی۔میں ڈانٹ ڈپٹ کے بہانے تلاش کرنے لگا،مجھے ہرچیزمیں نقص نظرآنے لگا،اتنے میں شبانہ نے اطلاع دی،’’ممّی ! وہ پھرآیاہے اوربے تحاشہ اِدھرہی دیکھ رہاہے -!‘‘
لیکن سلمیٰ کے جواب دینے سے پہلے ہی میں غصّے سے دھاڑا،’’تم کیوں جاتی ہوکھڑکی کے قریب ؟آں۔۔۔کیامیری عزت خاک میں ملاکرہی دم لوگی-؟‘‘
’’میں ۔۔۔؟‘‘اُس نے میری طرف بے بسی سے دیکھا،لیکن میری آنکھوںمیں دوٗردوٗر تک رحم نہ تھا،’’ارے تم اگرشرافت سے رہو توکیامجال ہے کسی کی کہ اُس کی آنکھ اُٹھے؟‘‘
وہ پیرپٹختی ہوئی ،روتی ہوئی میرے سامنے سے چلی گئی۔
’’گھرمیں بیٹھے بیٹھے اُسے کیاڈانٹتے ہو -؟‘‘معمول کے مطابق سلمیٰ ،بیٹی کی طرف داری پراُترآئی،’’جاؤنا باہر۔۔۔ اوراُس لونڈے کی خبرلو ، وہ تونہیں ہوگاتم سے!‘‘
’’اچھا -!تواب میں لونڈوںکے منہ لگوں -؟ہاتھاپائی کروں -؟‘‘
’’ہاتھا پائی کرنے کوکون کہتاہے -؟پولیس میں اُس کی شکایت تودرج کرواسکتے ہیں؟‘‘
’’اوروجہہ کیالکھواؤں کہ کوئی لڑکا۔۔۔ ؟‘‘
سلمیٰ کالہجہ ایک دم بدل گیا،پھروہ سمجھانے والے انداز میں کہنے لگیں،’’یہ تومیںنے بھی نہیں سوچاتھا ،واقعی ہم پولیس میں اُس کی شکایت درج بھی نہیں کرواسکتے، بیٹی والے جوٹھہرے۔۔۔ہرحالت میں بدنامی ہماری ہی ہوگی -!‘‘
اُسے اس طرح ٹوٹاہوادیکھ کرمیں بھی ٹوٹ گیا۔میرادل بھی اندرسے بھر آیا، جی چاہتاتھاخوب روؤں لیکن میں خاموش ہی رہا۔ اُس نے کچھ کہناچاہا،لیکن اُس کی زبان ساتھ نہ دے سکی،اُس کی عجیب سی حالت ہوگئی۔اُس کی آنکھوںمیں آنسوں چھلک آئے اوروہ تیزی سے میرے سامنے سے نکل گئی۔
ایک باپ کی حیثیت سے میں جوکچھ احتیاط کرسکتاتھا،میں نے وہ سب کچھ کیا۔کھڑکیوںاوردروازوں پر دبیز پردے ڈال دئیے۔ لڑکیوںکابے جاگھرسے نکلنابندکردیا۔لیکن اس کے باوجودبھی نتیجہ کچھ نہیں نکلا،جب بھی اُسے موقع ملتاوہ جھانکتارہتا۔۔۔ اُسے کسی موسم کی شدّت بھی نہ روک سکی۔آخرمجھے اُس پرترس آگیا اورایک روزمیں نے سلمیٰ سے کہا،’’سلمیٰ !ہماری کوئی پابندی اُس لڑکے کوتوڑنہ سکی -!‘‘
’’پھرآپ کیاچاہتے ہیں -؟‘‘اُس نے میری طرف دیکھا۔
’’پتہ نہیںکیوںوہ مجھے سچّالگا،میراخیال ہے اُسے قریب کرلیا جائے!‘‘ میری باتیں سن کرسلمیٰ خوش ہوگئی،’’لیکن وہ ہماری کس بیٹی سے شادی کرناچاہتاہے ؟‘‘
میں نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا،’’یہ بات تمہیں اب تک معلوم نہیں۔۔۔؟‘‘
اُس نے انکارمیں گردن ہلائی۔
’’لیکن یہ بات ہم لڑکیوںسے کیسے پوچھیں گے ؟‘‘ میرے اس سوال پرکچھ لمحے تک وہ بھی پریشان رہی اورپھربولی،’’ ایک ترکیب ہے۔۔۔!‘‘
’’کونسی ۔۔۔ ؟‘‘میں نے بے تابی سے پوچھا،تووہ بولی،’’وہ جب بھی ہماری کھڑکی کے سامنے آئے گاہم کسی نہ کسی بہانے سے اپنی ایک لڑکی کوکھڑکی تک بھیجیں گے اوردونوںاُن کے تاثرات کامشاہدہ کریں گے،چورپکڑاجائے گا۔‘‘
ہم دونوںہی ہنس پڑے۔
دوسرے دن گھرکاساراماحول ہی بدلاہواتھا۔کھڑکیوںکے پردے ہٹ چکے تھے،ہم دونوںآنکھوںہی آنکھوںمیں ایک دوسرے سے باہرکامنظردریافت کررہے تھے۔لیکن آج اُس کاکہیں پتہ نہیں تھا۔کئی بارمیں کھڑکی تک ہوآیا،اورکئی بار میری بیوی گئی۔ لیکن وہ غائب تھا،انتظارکاایک ایک لمحہ بڑی مشکل سے گذر رہاتھا۔ وقت کوٹالنے کی خاطر میں اپنے کمرے میںواپس آگیااورپلنگ پرلوٹ پوٹ کرنے لگا۔ سلمیٰ کسی اورکام میں مصروف ہوگئی۔مجھے عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگی۔میں پھرایک باراُٹھ بیٹھااورکھڑکی تک جیسے ہی پہنچاوہ مجھے نظرآگیاوہ کالی جینس پینٹ اور سرمئی رنگ کی جرسی پہنے میرے گھرکی طرف ہی آرہاتھا۔میں تیزی سے نیچے پہنچا، اور سلمیٰ کو اشارہ کیا،سلمیٰ نے شبانہ کوحکم دیا،’’بیٹی ذراکھڑکی کاپٹ توسیدھا کرنا، ہوا بالکل نہیں آرہی ہے۔‘‘
وہ جیسے ہی کھڑکی کی طرف بڑھی ،ہم دونوںکھڑے ہوگئے اوراُسے نظرنہ آتے ہوئے اُس کامشاہدہ کرنے لگے،شبانہ نے کھڑکی کاپٹ پوری طرح کھول دیا، باہر جھانکا،اُس کے چہرے پرایک عجیب سے بیزارگی عودکرآئی ،اوروہ تیزی سے پلٹ گئی۔ لیکن میںنے دیکھا،اُس کے پلٹنے سے پہلے ہی وہ لڑکابھی پلٹ چکاتھا۔سلمیٰ نے میری طرف ایسی نظروںسے دیکھاگویااعلان کررہی ہوکہ چورپکڑاگیا۔ ہم دونوں کے چہروںپربھی مسرت کی لہردوڑگئی۔
شام کو میں نے سلمیٰ سے کہا،’’اُس کارحجان شبانہ کی طرف نہیں ہے!‘‘
’’ہاں-!‘‘اُس نے میری تائیدکی،’’وہ شاید رخسانہ کوچاہتاہے!‘‘
’’وہ توواضح ہوگیا،لیکن خودرخسانہ -؟‘‘
’’ہاں -! کل اُس کا بھی مشاہدہ کرلیں گے!‘‘
ہم دونوںپھرایک بارہنس پڑے۔
وہ رات ہم دونوںکوایسی نیندآئی کہ ساری زندگی اس طرح کی نیندکبھی نہیں آئی تھی۔یہاںتک کہ صبح ہم دونوںاُس وقت اُٹھے جب بچوںنے ہمیں آوازیں دیں۔
معمولات سے فراغت پانے کے بعدپھروہی انتظارتھا۔میری عجیب سی کیفیت تھی،میں سوچنے لگا،ایک وہ بھی وقت تھاکہ اُس کی آمدغصّے کاسبب ہواکرتی تھی اورآج۔۔۔
اچانک سلمیٰ نے آنکھوںسے اشارہ کیا،میں سمجھ گیاکہ وہ باہرسڑک پرکھڑاہے۔میرادل خوشی کے مارے بلیّوںاُچھلنے لگا،میں نے بڑی محبت کے ساتھ رخسانہ سے کہا،’’بیٹی زراکھڑکی سے جھانک کرتودیکھو،مرزاچاچااپنے چبوترے پربیٹھے ہیںیانہیں -؟‘‘
رخسانہ کھڑکی کی طرف روانہ ہوئی اورہم دونوںنے وہی محفوظ مورچے سنبھالے ،دونوںکی سانسیں رُکی ہوئی تھیں۔رُخسانہ نے باہرجھانکا،وہ اوپرہی دیکھ رہاتھا،لیکن نہ تواُس نے رخسانہ سے آنکھیں ملائیں اورناہی رخسانہ نے اُسے اہمیت دی،وہ سیدھامرزاصاحب کے مکان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی،’’پاپا۔۔۔وہ ابھی تک گھرسے باہرنہیں نکلے ہیں -!‘‘
ہم دونوںکے چہرے فق ہوگئے ہم دونوںنے ایک دوسرے کی طرف دیکھااورپھرہماری نظریں جھک گئیں۔ہمارے کانوںمیں شہنائیاںگونجتے گونجتے رہ گئیں۔میں چپ چاپ وہاں سے اُٹھ گیااورزینے کی طرف بڑھنے لگا۔ایک ایک سیڑھی مجھے پہاڑسی محسوس ہو رہی تھی پتہ نہیں کب میں اُن ساری سیڑھیوںپرسے ہوتا ہوااپنے کمرے میںپہنچااورکب پلنگ پرڈھیرہوگیا۔مجھے کچھ بھی یادنہیں رہا، صدمے سے میری آنکھیں بندہوگئیں اورپھرشایدمیںسوگیاتھا - بہت گہری نیند سوگیا تھا ۔
’’میں نے کہااُٹھواجی۔۔۔آج یہ بے وقت کیسی نیند -؟‘‘سلمیٰ نے مجھے بیدارکیاتومیں اُٹھ بیٹھا اوراُسے عجیب نظروںسے دیکھنے لگا،وہ بری طرح جھنیپ گئی اوربولی’’ایسے کیادیکھ رہے ہوجی -؟‘‘
’’سلمیٰ - میں نے بڑابھیانک خواب دیکھا ہے -!‘‘
’’خواب -؟‘‘سلمیٰ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری،’’صبح جوخواب ٹوٹااُس سے بھیانک توکوئی اورخواب نہیں ہوسکتا -؟‘‘اُس نے میری طرف اُداس نظروںسے دیکھا،’’تعجب ہے اُسے شبانہ بھی پسندنہیں ہے اوررخسانہ بھی نہیں ،توپھراِس گھرمیں کسے دیکھتاتھا؟‘‘
’’وہ تمہیں دیکھتاتھا -!‘‘ایک دم میری زبان سے نکل گیا۔
’’کیا۔۔۔؟؟؟‘‘سلمیٰ کی تقریباً چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی،’’ایسی ذلیل بات تمہاری زبان پر ۔۔۔؟ میں توسوچ بھی نہیں سکتی تھی -!‘‘ وہ دونوںہاتھوںمیں اپنے چہرے کوچُھپاکررونے لگی۔
’’سلمیٰ مجھے غلط نہ سمجھو!‘‘میں نے اپنے آپ پرجبرکرتے ہوئے بولا،’’میں نے پڑھاہے کہ بعض نوجوانوںکی جنسی نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے،اُنھیں اپنی ہم عمرلڑکیوںسے زیادہ بڑی عمرکی عورتیں پسندآتی ہیںاورشایداُس لڑکے کی بھی یہی نفسیات ہے -!‘‘
’’میں نہیں مانتی یہ سب کچھ -!‘‘
’’مانتاتومیں بھی نہیں ہوں،لیکن اب یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لیں گے۔!‘‘
’’کیا -؟؟؟‘‘
میں سلمیٰ سے آنکھیں چارنہ کرسکا۔
’’سمجھی! توتمہیں بھی مجھ پراس عمرمیں شک ہونے لگاہے ۔آنے دو اُسے، ارے تم کیاتجربہ کروگے۔۔ وہ آیاتومیں خود اُسے دیکھوںگی،تم کیا سمجھتے ہو ۔۔؟‘‘
وہ بڑبڑاتی ہوئی غصّے سے اُٹھی اورکھڑکی کی طرف بڑھنے لگی،وہ جیسے جیسے قدم اُٹھارہی تھی میں ویسے ویسے لرزرہاتھا،میرے کانوں میں شیلابھابھی کے الفاظ گونجنے لگے۔میں نے اُس کی طرف دیکھاتوجانے کیوںآج وہ مجھے اپنی دونوں بیٹیوںکی چھوٹی بہن محسوس ہونے لگی۔پھرمیںنے اپنے آپ کاجائزہ لیا - یہ کیامجھ پرتوپورابڑھاپاچھاچکاتھا۔وہ کھڑکی سے قریب اورقریب ہوتی جارہی تھی،میں اپنی ہڈیوںکوکڑکڑاتاہوااُٹھ کھڑاہوا،وہ کھڑکی تک پہنچ چکی تھی۔میںنے سڑک پراُ س لڑکے کوموجودپایا،جونہی اُس نے سلمیٰ کودیکھا،اُس کی آنکھوںمیں عجیب سی چمک پیداہوئی،پھراُس کاسیدھاہاتھ خودبخوداُس کی پیشانی کی طرف اُٹھا،وہ اُسے دیوانوں کی طرح تکے جارہاتھا، مجھے چکّرسے آنے لگے ،میرے کان سن ہوگئے یہاںتک کہ میری سماعت بالکل ختم ہوگئی اورمیں دیوارپکڑکردھم سے نیچے بیٹھ گیا اورپھر میری آنکھیں خودبخودبندہوگئیں۔
جب میں نے آنکھیں کھولیں توڈاکٹرمجھ پرجھکاہواتھا۔میراسرسلمیٰ کی گود میں تھااورمیرے اطراف میرے تینوںبچّے کھڑے تھے۔میں نے سلمیٰ کی طرف دیکھا،اُس کی آنکھوںمیں محبت کے سارے ہی سمندرموجزن تھے۔مجھے عجیب سااطمینان ہوااورپھرمیں نے اپنی آنکھیں موندلیں۔
سلمیٰ کی دن رات خدمت اوربچوںکی دیکھ بھال نے مجھے دوبارہ کھڑاکردیا تھا میں نے دیکھاکھڑکیوںاوردروازوںپر سے سارے ہی پردے غائب ہیں اور اب کسی کوبھی یہ خدشہ نہیں رہاتھاکہ باہرکون کھڑا ہے۔
میں رفتہ رفتہ پھرزندگی کے معمولات کی طرف لوٹ آیا،گھرمیںپھرایک بار خوشیاں رقصاں تھیں۔شبانہ اوررخسانہ اپنی پڑھائی میں مگن تھیں۔میرابیٹاہوسٹل میں شفٹ ہوگیاتھا اوروہ ۔۔۔وہ لڑکاخداجانے کہاںچلاگیاتھا۔اُس روز کے بعدسے پھروہ مجھے کبھی کالونی میں نظرنہ آیا،میں دل ہی دل میں اللہ کاشکراداکرتاکہ طوفان آیا بھی اوربناگزنذپہنچائے گذربھی گیا۔ایک روزمیں اپنی سائیکل پرگھومنے نکل گیا، مختلف دوستوںسے ملاقاتیں کرتاہواجب میںواپسی کے لئے پلٹاتوکافی تھک چکا تھا۔میں کسی طرح سائیکل چلارہاتھاکہ چڑھاؤ شروع ہوگیا،میری سانس پھولنے لگی تھی،مجبوراً میں سائیکل سے نیچے اُترگیا اورپیدل چلنے لگا۔
’’انکل آپ -؟‘‘اچانک پیچھے سے ایک آواز سنائی دی۔میں نے پلٹا، وہی لڑکاتھا۔جوبڑی تیزی سے میرے قریب آرہاتھا۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔میں نے اُس کی طرف گھورکردیکھاتووہ بولا،’’لائیے انکل ، سائیکل میرے حوالے کردیجئے،میں اُسے لے کرچلتاہوں۔۔۔!‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں !‘‘میرا لہجہ نہایت روکھاتھا۔
’’کمال ہے انکل ! اگرآپ کی جگہ میرے والدہوتے توکیامیں ایسانہیں کرتاتھا؟‘‘
’’لیکن میں تمہاراباپ نہیں ہوں-!‘‘میں آگے بڑھ گیا،تواُس نے میری سائیکل کوپیچھے سے پکڑلیا،’’والد نہ سہی ،آپ میرے انکل توہوسکتے ہیں -!لائیے سائیکل -!‘‘اورپھراُس نے اُسے میرے ہاتھوںمیں سے چھین لیا اورتیزتیزچلنے لگا۔میں جُزبُزاُس کے پیچھے قدم اُٹھانے لگا۔طبیعت چاہتی تھی کہ اُسے اس قدرباتیں سناؤں کہ اُس کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔لیکن پتہ نہیں کیوںزبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔کچھ دورچلنے کے بعداُس نے پلٹ کرمیری طرف دیکھااورپھر بولا، ’’انکل۔۔۔ واقعی آپ بہت کمزورہوگئے ہیں ۔!‘‘
’’اچھا ۔۔۔؟‘‘میںنے حقارت سے اُس کی طرف دیکھااورپھرتیزتیزقدم اُٹھاتاہوا،اُس کے قریب پہنچ گیا،اوراُس کی آنکھوں میںجھانکتے ہوئے بولا، ’’برخوردار اس گمان میں مت رہناکہ میں کمزورہوگیاہوں -!‘‘
وہ زورسے ہنسا،’’انکل آپ واقعی بہت اچھے انسان ہیں،خداآپ کوہمیشہ صحت مندرکھے !‘‘
’’وہ تورکھنے ہی والاہے،تم اطمینان رکھّو! اورصاحبزادے اب میری سائیکل میرے حوالے کردو،میرا مکان قریب آچکاہے اور اب راستہ بھی ہموار ہے۔!‘‘میں نے سائیکل کی طرف ہاتھ بڑھایاتووہ بولا،’’انکل آپ کی سانسیں تو ٹھیک ہوجانے دو۔۔۔ایسی حالت میں سائیکل چلانا ٹھیک نہیں ہوتا ، نہیں نہیں ، میں ابھی آپ کے ہاتھوںمیں سائیکل نہیں تھما سکتا۔۔۔چلئے آپ -!‘‘اور وہ پھرایک بارمجھ سے آگے ہوگیا۔
میرے تن بدن میں ایک آگ سی دہکنے لگی - تواب یہ مجھ سے ہمدردی جتا کرمیرے گھرکے اندررسائی چاہتاہے ،میںبے وقوف نہیںہوں،جواپنے ہی ہاتھوں اپنے گھرکاسکون بربادکردوں،بہت ہوشیارسمجھتاہے خودکو،میںچپ چاپ قدم اُٹھا رہاتھا۔میرے دل و دماغ میں ایک جنگ سی تھی۔سوچ کے دھارے کبھی کچھ منظر دکھاتے اورکبھی کچھ ۔۔۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلاکہ وہ کب میرے گھرکے دروازے تک پہنچ گیااورکب سے میراانتظارکررہاہے ۔میں جونہی اُس کے قریب پہنچا،اُس نے سائیکل میرے حوالے کردی اورپھرنہایت ادب سے مجھے سلام کیااورتیزی سے پلٹ گیا،میں اُسے دیکھتارہ گیا۔پتہ نہیں کیوںمیرے دل نے خواہش کی کہ مجھے اُس کا شکریہ اداکرنا چاہئیے۔میں نے اسے آوازدی تووہ بے تحاشہ دوڑتاہوامیرے پاس چلاآیا،میںنے اُس کاشکریہ اداکیاتو وہ بولا،’’انکل شکریہ کیسا؟ البتہ آپ اجازت دیں تومیںایک بات کہوں ؟‘‘
میراماتھاٹھنکا،خداجانے یہ اب کونسی بات کہنے والاہے۔لیکن میری اجازت سے پہلے ہی وہ بول پڑا،’’انکل -!میں جب جب بھی آنٹی کودیکھتاہوںمجھے اپنی مرحوم ماں کی یادآجاتی ہے،دونوںکے چہروںمیںبڑی مماثلت ہے۔۔۔لیکن انکل۔۔۔!‘‘
میں حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ کہے جارہاتھا،’’اُس روزپتہ نہیں آنٹی کوکیاہوگیاتھا،اُنھوںنے میری اس قدربے عزتی کی تھی کہ میں نے یہ کالونی ہی چھوڑدی۔ اب میں یہاں سے بہت دوٗر رہتاہوں،لیکن انکل۔۔۔!‘‘
وہ پتہ نہیں کیاکچھ کہتارہا،لیکن میرے کان سماعت کھوچکے تھے،میراپورابدن خوشی سے جھوم اُٹھاتھا،میں اپنے آپ میں ایک عجیب سی چُستی محسوس کررہاتھا۔وہ پتہ نہیں کب تک مجھ سے باتیں کرتارہااورمجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں اُس روزکب اپنے گھرمیں داخل ہوا -!
٭٭٭