میں ایک ناتھ گوسوامی ہوں ۔۔۔ !
میں محمدعلی ہوں۔۔۔ !
میرانام بھیم راؤ مورے ہے ۔۔۔ !
اورمیں انتھونی برگینزا ۔۔۔ !
کبھی ہم چاروں ایک ہی شہراورایک ہی کالونی میں رہتے تھے،ہمارے اسکول الگ الگ تھے،لیکن پھربھی ہم ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔ایک دوسرے کے گھردندناتے ہوئے جاتے تھے۔ساتھ کھیلتے کودتے،شرارتیں کرتے اوراپنے اپنے والدین کی تقلید میں اپنے اپنے مذہبی فریضے بھی اداکرتے تھے۔اُس وقت ذات پات اونچ نیچ زبان بھاشابولی ہمارے آڑے نہ آتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کبھی اسے محسوس ہی نہیں کیا تھا۔
لیکن بچپن کے حدودسے جوانی میں قدم رکھتے رکھتے سب کچھ بدل گیا۔ اب ہم چاروں بھی الگ الگ بستیوں میں آبادہیں۔ اس کی وجہہ بتانے کی ضرورت نہیں،کیونکہ حالات ہی ایسے ہوگئے تھے کہ ہرشخص اپنوںکے آس پاس ہی رہنے کو ترجیح دینے لگاتھا۔لیکن پھربھی ہماری دوستی اٹوٹ رہی،ہم چاروںنے اپنی دوستی کی خاطرایک ہی کالج میں داخلہ لے لیا،یوں ایک بارپھرہم لوگ ایک جگہ آگئے۔
جب بارہویں کانتیجہ نکلاتومیں ایک ناتھ گو سوامی۔۔۔!سب سے اچھی پوزیشن میں تھا۔کیونکہ میرے والدین شروع ہی سے تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے، اس لیے انھوںنے میرے اچھے نتیجے کی خاطر شہرکاسب سے قیمتی ٹیوشن لگایاتھا۔اس کی خاطرانھوںنے اپنی کن کن خواہشات کاگلاگھونٹاتھایہ تو وہی جانتے تھے۔
میں محمدعلی۔۔۔!میرانتیجہ بھی اچھاہی آیاتھا،ٹیوشن میں نے بھی لگاتھا، حالانکہ اس کاباراُٹھانے کے میرے والدین قطعی اہل نہ تھے۔ جس کانتیجہ یہ نکلاکہ میری بہن کی منگنی ٹوٹ گئی۔
میں انتھونی برگینزا ۔۔۔ !کسی سے پیچھے نہیں تھا۔میرے والدین نے بھی وہی سب کچھ کیاجودوٗراندیش والدین اپنے بچوںکی خاطر کرسکتے ہیں۔
اورمیں بھیم راؤ مورے ۔۔۔ ! مجھے تو صرف پاس ہونا تھا۔اس لیے میں نے ایک ناتھ ،محمدعلی اورانتھونی کے نوٹس ہی پرکام چلالیا۔ کیونکہ میرے والدین ٹیوشن توکجاتعلیم کی ضرورت سے بھی ناآشناتھے۔
ہم سب دوست اپنی اپنی کامیابیوں پرنازاں تھے۔ہماری آنکھوں میں ہمارے شاندارمستقبل جھلملارہے تھے۔کچھ بننے اورکچھ کر دکھانے کی اُمنگیں انگڑائیاںلے رہی تھیں ۔۔۔ ! مگر ۔۔۔ !
ایکناتھ گوسوامی کانمبرمیڈیکل کالج میں نہیں لگا۔
محمدعلی کاانجینئربننے کا خواب ادھورارہ گیا۔
انتھونی نے خاموشی سے آرٹس کی کلاسیس جوائن کرلیں۔
اوربھیم راؤ مورے! ریزرویشن کے بل بوتے پرگورنمنٹ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں منتقل ہوگیا۔
یہیں سے ہماری زندگیوںمیںایک تناؤ پیداہوگیا۔
میں محمدعلی بالکل سچ سچ کہہ رہاہوں،اس سارے تناؤکے باوجودبھی ہم چاروںایک دوسرے کے گھرجاتے ہیں۔گوہمارے قدم اب صرف ایک دوسرے کے ڈرائینگ روم سے آگے نہیں بڑھتے،لیکن ہم لوگ پھربھی ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں برابرشریک ہوتے ہیں۔ایسے ہی ایک بارعیدکی مبارک باددینے میرے گھرایکناتھ گوسوامی آیاتھااورشہرمیں اچانک فسادپھوٹ پڑاتھا۔مذہبی جنون گھرگھر دستک دے رہاتھا۔میرے گھربھی دستک ہوئی اورہجوم نے نعرہ لگایا،’’اس گھرمیں ایک ہندوہے ،اُسے باہر نکالو -!‘‘
یہ نعرہ سُن کرایکناتھ لرزگیا۔
میں محمدعلی! مجھے پہلی باراحساس ہواکہ میراگھرایک مسلمان کاگھرہے،میں نے پہلی بارایک مسلمان کی نظروںسے ایکناتھ کودیکھا تووہ خوف کے مارے رونے لگا۔اُس وقت میں اپنے صدردروازے اورایکناتھ کے بیچوں بیچ کھڑاتھااورمسلسل نعرے گونج رہے تھے،’’ کافر بچّے کو ہمارے حوالے کردو!‘‘
ٹھیک اُسی وقت میرے اندرایکناتھ کے بچپن کادوست محمدعلی داخل ہوگیا اورمیں نے حمام میں ایک بالٹی پانی رکھ کراُسے اپنی بہن کے ساتھ بندکردیا اورپھر صدردروازے کوکھول دیا۔ہجوم پوری شدّت کے ساتھ میرے گھرمیں داخل ہوا۔وہ مجھ سے کسی ہندوکی موجودگی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔میں نے کہا،’’یہاںکوئی کافرنہیں ہے۔‘‘
میرے گھرکے ایک ایک کمرے کی تلاشی لی گئی۔میرے والدین اورمیرے چھوٹے بہن بھائی حیرت سے کبھی مجھے اورکبھی بپھرے ہوئے ہجوم کو دیکھ رہے تھے۔ پھرسب کے سب حمام کے مقابل کھڑے ہوگئے تومیں نے ڈرتے ڈرتے کہا،’’میری بہن غسل کررہی ہے۔ انھوںنے تصدیق چاہی اورجب اندرسے میری بہن کی آواز نے اُنھیں مطمئن کردیاتووہ سب واپس ہوگئے۔
اُسی رات آگ اورخون کی ہولی سے گزرتے ہوئے میں نے ایکناتھ کو خیرخوبی کے ساتھ اُسے اُس کے گھرتک پہنچادیا اورپھر جونہی واپسی کے لیے پلٹاتو اُس کے والد نے کہا،’’بیٹا -! باہرمت جاؤ - تم اپنی کالونی سے ہمارے گھرتک تو پہنچ گئے ہو،لیکن یہاں سے اپنے گھر تک زندہ نہ جاسکوگے -!‘‘
میں نے کہا،’’جب میں اپنے گھرسے ایکناتھ کویہاںتک پہنچاسکتاہوں تو یہاں سے اپنے گھرتک کیوں نہیں جاسکتا -؟‘‘
وہ بولے،’’بیٹا ۔۔۔ ! ایکناتھ صرف ہندوہے !‘‘
’’اورمیں ۔۔۔ کیامیں صرف مسلمان نہیں ہوں -؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔ !‘‘ اُنھوںنے میرے سرپرہاتھ رکّھا،’’میرے لال اگرتم فسادیوںکے ہاتھوںبچ بھی گئے توپولیس کے ہتھے چڑھ جاؤ گے ،پھرقانون کوتمہارے اند ر سی ۔آئی۔اے۔کی شکل نظرآئیگی اورپھرتم ایک دہشت گردقراردیے جاؤ گے ۔ !‘‘
میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا۔ایک لمحے کے لیے میری انکھیں بندہوگئیںاورمیںنے تاج محل کو جمنامیں بہتے ہوئے دیکھا،پھرشالیمارباغ ڈل جھیل میںغرق ہوگیااورلال قلعے کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔میں نے آنکھیں کھولیںتو محسوس ہوا تاریخی عظمتوںکاایک بڑا پشتا را میری پیٹھ پرسے کسی نے چھین لیاہے۔ اپنی ساری ناکامیوںاورمحرومیوںکے باوجودپہلی بارمجھے یہ احساس ہوا کہ میں اپنوںکے درمیان بھی اجنبی ہوں،بس تب ہی میں نے سوچ لیاتھاکہ میں اب اس شہرمیں نہیں رہوںگا - لیکن جاؤں گاکہاں ۔۔۔؟ ٹھیک اُسی وقت میری آنکھوںمیں زمین کاوہ ٹکڑااُبھرآیاجس کے تین طرف پانی اورایک طرف گھنی جھاڑیاںتھیں۔میرے چہرے پراطمینان بحال ہوگیا۔اورمیں نے طے کرلیاکہ میں وہاںآبادہوجاؤںگا اورایک نئی دنیابساؤں گا۔ جہاں کوئی دنگافسادنہیں ہوگا۔کوئی مجھے سی۔آئی۔اے کا ایجنٹ نہیںسمجھے گا۔میں وہاںپھرایک باراپنے کردار کی ایک نئی تاریخ مرتب کروںگا۔
میں ایکناتھ گوسوامی ۔۔۔ ! لفظ لفظ سچ کہہ رہاہوں،’’کبھی بڑی ذات میں پیداہونافخرکی بات سمجھی جاتی تھی۔لیکن آج میں بڑی ذات میں پیداہونے کی سزا بھگت رہاہوں،قدم قدم پرلوگ مجھ سے وہ سوال کرتے ہیں جس کا میں جواب دہ نہیں ہوں،میں توایک سیدھا ساداعام ساشہری ہوں،اورسب کے ساتھ جیناچاہتاہوں، بھلاسیاسی بازیگروںکی بچھائی ہوئی بساط سے مجھے کیالینادینا ہے ۔۔۔ ؟ ابھی کل ہی کی بات ہے۔میں ایک فرم میں ملازمت کے لیے انٹرویودینے گیاتھا۔لیکن وہاں میرے ساتھ ایسا سلوک ہواکہ مجھے اپنے آپ سے، اپنے ماحول سے نفرت سی ہوگئی ہے۔جانتے ہووہاںکیاہوا ۔۔۔؟جونہی میں نے اپنے سر ٹیفکیٹ سامنے کیے،اُس فرم کے مینیجرکی غصّے سے آنکھیں تن گئیں،پھراُس کے چہرے پرعجیب وغریب طنزاُبھرآیااوروہ بولا،’’ہوں ۔۔۔ ! توتم ایکناتھ گوسوامی ہو -؟‘‘
’’جی -!‘‘
’’یعنی ذات کے برہمن ہو ۔۔۔ ؟‘‘ اس نے نہایت کرخت لہجے میں سوال کیا۔
’’جی -!‘‘
’’فوراً میرے سامنے سے اپنے سر ٹیفکیٹ اُٹھالو ۔۔۔ !‘‘ پھراُس نے نہایت حقارت سے میری طرف دیکھا،’’تمہیں اس فرم میں برہمن راج قائم کرنے کا موقع نہیں دیاجائے گا -!‘‘
’’سر ۔۔۔ ! یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں ۔۔۔ ؟‘‘ میں نے نہایت ادب سے کہاتووہ دھاڑا،’’میں تم لوگوںکی ذہنیت کوخوب سمجھتاہوں۔صدیوںتک چھوت چھات کابرتاؤکرنے والے تم لوگ،نچلی ذاتوںپرمندرکے دروازے بندکرنے والے تم لوگ،ہندوتوو کانعرہ لگاکرملک کی گنگاجمنی تہذیب کادیوالیہ نکالنے والے تم لوگ ،رام مندرکے نرمان کابہانہ بناکرانسانوںکاخون بہانے والے تم لوگ ۔۔۔تمہارایہاںکیاکام۔۔۔ ؟یہاں اگرتم داخل ہوگئے توکیاعجب پھرسے ایک اورمنوسمرتی لکھنے بیٹھ جاؤ گے؟‘‘
میرے صبرکاپیمانہ لبریز ہوگیااورمیںایکناتھ گوسوامی اپنی ساری محرومیوں کو بھول کرپوری شدّت سے چلایا،’’آپ اُن الزاموں کو مجھ پرتھوپ رہے ہیں جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سرمیں صدیوںپرانی تاریخ کا ڈھانچہ نہیں،آج کے اس پل میں سانسیں لینے والا انسان ہوںجس کا ایک حصّہ آپ بھی ہیں۔کیاآج کسی پر مندرکے دروازے بندہیں؟کیاآج چھوت چھات باقی ہے؟ کیاآج علم کے دروازے صرف برہمنوںکے لیے ہی کُھلے ہیں؟کیاآج عزت ووقارکاتاج صرف برہمنوںکے سرپرہے؟ حقیقت تویہ ہے سرکہ آج آپ بھی مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی علمیت اورقابلیت کی فائل کوآپ کے سامنے سے اُٹھالوں! منوسمرتی میں نے نہیں لکھی،ہندوتووکا نعرہ میںنے نہیں دیا۔نہ میں کسی مسجدکے توڑنے کامجرم ہوں اور ناہی میں عبادت گاہوںکی خاطرخون خرابے کوپسندکرتاہوں ۔ سرمیں آپ کوکیا بتاؤں ۔۔۔ آج میں کسی سدھارتھ کے ساتھ کھاناکھاتاہوں،کسی محمدعلی سے میراگہرا یارانہ ہے، بھیم راؤ میرے بچپن کادوست ہے۔میں پھرکہتاہوںآپ مجھ پرجو الزامات لگارہے ہیں اُن سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں اگرتعلق ہے توبس اتناکہ میں آپ کے ساتھ آپ کی طرح جیناچاہتاہوں،نہ مجھے سیاست سے کچھ لینا دیناہے اورناہی مذہبی جنونیوںسے میرا واسطہ ہے۔پھرآپ کیوںمجھ سے وہ باتیں کرتے ہو جس کا میں ذمّہ دارنہیں ہوں -!‘‘
شایدمیںاوربھی کچھ کہتا،لیکن وہ میرے سامنے سے اُٹھ کر چلاگیااورمیں سمجھ گیاتھا کہ مجھے یہ نوکری ملنے والی نہیں ،میںوہاںسے باہرآگیا۔میرے دل ودماغ کوایسی ٹھیس پہنچی کہ میں اپنے آپ سے اوراپنے ماحول سے بیزارہوگیا۔معاً میری آنکھوںمیں میرے سپنوں کی وہ زمین آگئی جس کے تین طرف پانی اورایک طرف گھنی جھاڑیاںتھیں۔میں سوچنے لگامیں اس شہرکواب چھوڑدوگااوروہیں آباد ہوجاؤں گا۔جہاںکوئی مجھ پرماضی کاعذاب تھوپنے والانہ ہوگا۔جہاںکوئی میرے پُرکھوں کے عمل پرمجھ سے نفرت نہیں کرگا۔
میں بھیم راؤمورے! آج ایک ڈاکٹرہوں،لیکن اب بھی میرے ماتھے پر پس ماندہ قوم کا لیبل لگاہواہے۔میں آج بھی حقارت بھری نظروںکا سامناکرتاہوں، صدیوںسے کچلی جانے والی ہماری قوم آج بدھست ہونے کے باوجود و ہ عزت اوروقار نہ پاسکی جودنیاکے دیگرممالک میں بدھشٹوںکوملی۔ہماری ذات کو بھی اگرچہ ہندوقوم ہی کا ایک حصّہ ماناجاتاہے لیکن پھربھی ہم اندرونی نفرتوںکے شکارہیں۔ پچھلے پچاس برسوںسے گورنمنٹ نے ہمیں ہرطرح کی سہولتیں دے رکھی ہیں۔آج ہماری قوم کا ایک بڑا طبقہ تعلیم یافتہ ہے،اونچے عہدوں پرفائزبھی ہے لیکن پھربھی ہم سے ذلّت آمیز سلوک ہی کیاجاتاہے۔ یہ بات کہتے ہوئے خودمجھے شرم آتی ہے،جب میں نے اپنادواخانہ کھولااورمس شالینی پانڈے نامی مریضہ میرے پاس علاج کے لیے آئی ،اورمیں نے اُسکا بخارناپنے کے لیے اپناتھرمامیٹراُس کے منہ میں رکھنا چاہا تو اُس نے صاف انکارکردیااورپھراپنے بیگ میں سے اپناتھرمامیٹرنکالا،خودہی اپنے منہ میںرکھااوراُس کی شدّت بھی بتائی،تو مجھے ایک دھکا سالگا۔ویسے بھی میرے ساتھ یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں تھا۔طالب علمی کے زمانے میں میری دوستی سر یتا دیشمکھ نامی ایک لڑکی سے ہوئی تھی اوربہت جلدیہ دوستی محبت میں تبدیل ہوگئی۔کالج میں ہمارے عشق کاچرچاتھا،لیکن اس کے باوجودمیں اُس سے شادی نہ کرسکا، میری ڈاکٹری کو پس پشت ڈال کرمیری ذات کوسامنے لایاگیا۔میں نے ذلّت اورحقارت کے بول برداشت کیے اورپھرمجھے محبت سے نفرت ہوگئی۔میں آج بھی کنوارہ ہوں،میری زندگی ویران ہے۔فرصت کاہرپل مجھے ناگ بن کرڈستاہے۔خودمیرے اپنے لوگ بھی مجھ سے نفرت کرتے ہیںکیونکہ میں اُن میں ہوتے ہوئے بھی اُن سے مختلف ہوگیاہوں،میرارہن سہن بدل گیاہے،طورطریقے بدل گے ہیں، میری سوچ بدل گئی ہے،میرے آدرش بدل گئے ہیں ۔کبھی کبھی تومیں یہ بھی سوچتاہوںکہ پڑھ لکھ کرمجھے کیاملا-؟ نہ میں اِدھر کارہا نہ اُدھرکارہا۔
انسان ہمیشہ ہی سے سماجی مرتبے کاطالب رہاہے اورمیں اسے حاصل کرنے میں ناکام رہا - اس لیے سوچتاہوںکسی ایسی جگہ منتقل ہوجاؤں جہاںکوئی مجھ سے میری ذات پوچھنے والانہ ہو،لیکن ایسی جگہ ہے کہاں -؟
کیامیں کبھی کسی ایسی جگہ کو ڈھونڈ ھ سکوںگا -؟
٭٭٭
میں انتھونی برگینزا -! اسی ملک میں پیداہوا،کہتے ہیں کہ میرادادا انگریز تھا۔اُس نے ایک ہندوستانی خاتون سے شادی کرلی تھی، جس کے نتیجے میں ملک کی آزادی کے بعدبھی وہ انگلستان نہیں گیااوریہیں پررہ گیا۔میرے والدنے ساری زندگی ریلوے میںملازمت کی،لیکن داداکی وصیت کے مطابق اپنی ساری جائداداور مجھے ایک چرچ کے نام وقف کردیا۔میں اب اُسی چرچ میں’’برادر‘‘ کہلاتا ہوں۔ پچھلے کئی برسوںسے ہماری قوم یہاںپرعجیب نفرت کو جھیل رہی ہے۔ہماری مشنری جوسماجی فلاح وبہبودکے کام کرتی ہے۔آج مشکوک ہوگئی ہے۔ہم پرالزام ہے کہ ہم لوگوںکودولت کالالچ دے کراُن کے آبائی مذہب کوبدلنے پرمجبورکرتے ہیں،اُنھیں عیسائی بناتے ہیں۔
پچھلے دنوںہمارے ٹھکانوںپرکئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ہماری املاک کوآگ لگادی گئی۔ہم پرزندگی کی راہیں مشکل کی جارہی ہیں۔ تنگ نظرہمیں حقارت سے دیکھتے ہیں،لیکن میںانتھونی برگینزاحالات سے جوجھ رہاہوں،جب تک مجھ میں صبر کی طاقت ہے تب تک میں حالات کامقابلہ کرتارہوںگا اورجب تھک جاؤںگاتو میں کدھرجاؤںگا-؟میرے اجدادکاوطن انگلستان ،اب مجھے اپنا شہری تسلیم نہیں کرے گا،میرے لیے اب بس دوہی راستے رہ گئے ہیں یاتواپنے آپ کوحالات کے سپردکردوںیاپھرکسی ایسے مقام کی تلاش میں نکل پڑوں جہاںمذہب کے نام پرنفرت نہ ہو،جہاںسُکھ اورشانتی کاراج ہو،جہاںمیں ایک نئی دنیاآباد کرسکوں -!
٭٭٭
میں ایکناتھ گوسوامی ہوں -!
میں محمدعلی ہوں -!
میرانام بھیم راؤ مورے ہے -!
اورمیں انتھونی برگینزا -!
ہم چاروں دوست مدت کے بعدپھرایک جگہ مل بیٹھے ہیں اورایک دوسرے کو اپنی حقیقت سُنارہے ہیں۔
میں ایکناتھ گوسوامی-! اپنی تمام تعلیمی ڈگریوںکواپنے گھرکی دیواروں پر ٹانگ کراب صرف پوجاپاٹ اورمنگل دھونی گاکرپیٹ بھرتا ہوں۔
میںمحمدعلی-!ریاضی سے ایم۔ایس۔سی۔کرنے کے باوجودکہیںبھی ملازمت کو خریدنہ سکااورآج ایک چھوٹے سے نکّڑپرایک چھوٹا سا چائے خانہ چلاتا ہوں۔
میں بھیم راؤ مورے-!ڈاکٹربن کربھی ادھوراہوں،اورذلّت بھری نظروں سے دیکھاجاتاہوں۔
میں انتھونی برگینزا-!اپنے دل میں ہزارہاخواہشات کے باوجود ایک چرچ میں ’’برادر‘‘ہوںاورآج بھی حسرت بھری نظروں سے اپنے اُس مستقبل کودیکھتاہوں جوکبھی خواب بن کرمیری آنکھوںمیں جھلملایاتھا۔
اورشہرکے وہ سارے غنڈے بدمعاش جوکل تک اچھّی نظروںسے نہیں دیکھے جاتے تھے آج سیاست کا مکھوٹا پہن کردولت کاانبار پربیٹھے عزت ِ مآب بن چکے ہیں۔اورہمارے شاندارمستقبل پرندوںکی صورت ہمیں چھوڑکرخدا جانے کہاں اُڑگئے ہیں۔
میں ا یکناتھ گوسوامی پورے ہوش وحواس کے ساتھ کہہ رہاہوںکہ ہندوتوو میرا نعرہ نہیں ہے۔
میں محمدعلی خداکوحاضروناظرجان کرکہتاہوںکہ میں نہ تودہشت گردہوں اور نہ ہی میں سی۔آئی۔اے۔ کا ایجنٹ ہوں۔
میں بھیم راؤ بنتی کرتاہوںکہ مجھ پرنہ سی میری ڈاکٹری پربھروسہ کیاجائے اُسے عزت بخشی جائے۔
میں انتھونی برگینزا صرف یہ چاہتاہوںکہ بناتحقیق کے ہم پرزندگی کے دروازے بندنہ کئے جائیں۔
ہمارا مسئلہ روزی روٹی اورتعلیم ہے - مذہبی جنون نہیں۔
ہماری ضرورت سکھ ،چین امن اورامان ہے - دنگے اورفساد نہیں۔
ہماری خواہش ،بہترماحول ہے - تنگ نظری نہیں۔
ہمارانصب العین عزّت اوروقارکی زندگی ہے - لوٹ کھسوٹ اوربے ایمانی نہیں ۔
لیکن ہمارے مسائل پرکسی نے توجہہ ہی نہیں دی۔
ہماری ضروریات کوکسی نے محسوس ہی نہیں کیا۔
ہمارا نصب العین صرف ہمارے خواب ہی ثابت ہوئے۔
٭٭٭
سیاسی بازیگروںکے داؤ پیچ،مذہبی جنونیوںکی کٹّرذہنیت ،آگ اورخون کی ہولی کھیلتے کھیلتے ،اپنی چھوٹی بڑی خواہشات کاگلا گھونٹتے گھونٹتے اپنی محرومیوں اور ناکامیوںکوجھیلتے جھیلتے ،اپنے مقدّرات سے مایوس ہوکرمیں ایکناتھ گوسوامی اپنے خوابوںکی سرزمین پر پہنچ گیاہوں۔جس کے تین طرف پانی اورایک طرف گھنی جھاڑیاںہیں،لیکن کیادیکھتاہوںکہ وہاںمحمدعلی پہلے سے موجودہے اوروہ چار دیواری کاپایاکھودرہاہے،مجھے دیکھتے ہی وہ خوشی سے چلاّیا،’’اچھاکیاتم بھی یہاں آگئے۔آؤ - ہم دونوںمل کرایک نئی دنیاکوآبادکریں گے۔ایک ایسی دنیاکوجس کامذہب صرف محبت ہوگا - محبت !‘‘
میں نے کہا،’’محمدعلی تم نے اس عمارت کاپایاکھوددیاہے،میں پتھراورگارے کاانتظام کرتاہوں اورجونہی میں ایکناتھ گوسوامی گھنی جھاڑیوںکی طرف نکلا مجھے بھیم راؤ نظرآیا،اُسے دیکھ کرمجھے بھی وہی خوشی ہوئی جومجھے دیکھ کرمحمدعلی کوہوئی تھی۔میں نے کہا،’’بھیم راؤ بہت اچھا کیاجوتم بھی ذلّت کی نظروںکوٹھکراکریہاںآگئے۔چلوہم یہاںایک نئی دنیا بسالیں گے۔ جس میں تم کو کوئی ذلیل نہیں کریگا۔محمدعلی نے پایا کھودلیاہے ،میں پتھراورگارے کا انتظام کررہاہوںاورتم چھت کا بندوبست کرو -!‘‘
بھیم واؤ اپنے مقصدکی تکمیل کے لئے دو قدم ہی چلاتھا کہ اُس کی نظریں انتھونی برگینزا پرٹھرگئیںاوروہ بھی خوشی سے چیخا،’’ویل کم انتھونی ! آخرتم بھی زمین کے اِس حصّے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے ہو،آؤ ہم چاروں دوست مل کرایک ایسی دنیاکانرمان کریں گے جس میں کوئی ظالم نہیں ہوگا،کوئی دنگے اورفساد نہیں کریگا،نہ کسی کاگھرجلے گااورنہ کوئی بے گھرہوگا۔محمدعلی نے پایاکھودلیاہے،ایکناتھ گوسوامی پتھراورگاراتیارکررہاہے ،میں چھت کا بندوبست کررہاہوں اورتم اپنے اس خوابوں کے مسکن کوپھولوںسے سجادو -!‘‘
غرض ہم چاروںدوست اپنی اپنی دانست میں اپنی ایک نئی دنیا تعمیر کررہے تھے کہ اچانک کہیں سے ایک بنت حوّا آگئی اوربولی ،’’ میں عورت ذات صدیوںسے ظلم کی چکّی میں پستے پستے اوراپنے حق کے لئے لڑتے لڑتے بیزار ہوکریہاںچلی آئی ہوں - میں نے سُنا ہے کہ تم لوگ ایک نئی دنیاآبادکررہے ہو،لیکن کیا تم اس راز سے واقف نہیںہو کہ عور ت کے بغیر کوئی دنیاآباد نہیں ہوسکتی۔
ہم چاروںنے چونک کراُس کی طرف دیکھا۔
اُس نے بھی ہم چاروںکی طرف باری باری سے دیکھااورپھربولی ،’’میں اس برہمن زادے سے شادی کرنے تیارہوں، اگریہ وعدہ کرے کے وہ مجھ سے ایسی اولادپیداکریگاجومذہبی جنون سے پاک وصاف ہوگی،اوراپنی عبادت کی خاطر دوسروں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیںپہنچائے گی!‘‘
ہم تینوںنے ایکناتھ گوسوامی کی طرف دیکھا،اُس نے پھرکہا،’’میں اُس مسلمان محمدعلی کے نکاح میں آنے کے لئے بھی تیارہوں بشرطیکہ وہ مجھے اس بات کایقین دلادے کہ وہ مجھ سے ایک ایسی صالح قوم پیداکرے گاجو دنیامیں امن وامان اورانصاف کوقائم کریگی-!‘‘
اب محمدعلی نظروںکے بیچ تھا،اُس نے بھیم راؤ کی طرف یکھا اورپھر کہنا شروع کیا،’’میں اس بھیم راؤ مورے سے بھی بیاہ رچانے تیارہوں،اگرمجھے یہ اس بات کا اطمینان دلادے کہ وہ مجھ سے ایک ایسی قوم پیداکر یگاجو عزت ووقارکے ساتھ جینا جانتی ہو،جو سہولتوں اور رعایتوںکے بغیراپنے قدموںپرآپ کھڑاہونیکاحوصلہ رکھتی ہو -!‘‘
ہم سب نے بھیم راؤ کی طرف دیکھا،اوروہ انتھونی برگینزاکی طرف جھکی اوربولی ،’’میں اس عیسائی کی بھی بیوی بننے کو تیارہوں،اگر یہ اقرار کرے کہ وہ مجھ سے ایسی اولاد پیداکریگاجو دوسروںکی زمینات کوہتھیانے کی کوشش نہیں کریگی۔ اورامن کے نام پردوسروں کی زمینوںپرفوج کشی نہیں کرے گی،اس کے ساتھ ہی ساتھ جو Divide & Ruleکی پالیسی سے بھی توبہ کرے گی -! - بولوتم میں سے کون ہے جو میری ان شرائط پرمجھ سے شادی کرکے اس نئی دنیاکو آبادکرناچاہتاہے -؟‘‘
اُس نے ہم چاروںکی طرف باری باری اُمیدبھری نظروںسے دیکھا،ہم چاروںکے خون میں عجیب سے گرماہٹ دوڑی ،پھرہم نے کچھ سوچا،اوراُس کی جانب ایک ایک قدم اُٹھایا،اورپھرہم چاروںہی چارچارقدم پیچھے ہٹ گئے۔
٭٭٭