ٹھاکر جرنیل سنگھ کی نظریں جونہی سنگھاردان کے قدآدم آئینہ پرپڑی تواُسے دھچکا سا لگا۔شرافت کی زندگی اور بڑھتی ہوئی عمرنے اُس کے چہرے کے وہ سارے ہی نقوش مٹادیے تھے جن کو دیکھتے ہی لوگوں کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا۔ اب چہرے پربس مونچھیں رہ گئیں تھی۔گھنی سفید مونچھیں ،اُس کے ہاتھ بے اختیاراپنی مونچھوں کی طرف اُٹھے اوروہ اُنھیں بل دیتا ہوا آئینے کے سامنے سے ہٹ گیااوراُس کی نظروں میں اُس کی پچھلی زندگی کاایک ایک منظر اُبھر آیا، چمبل کی خطرناک گھاٹیاں، اُس کا بے رحم جتھّا،گولیاں اُگلتی بندوقیں،برق رفتار دوڑتے ہوئے گھوڑے ،وہ جس گاؤں پر بھی دھاوا بولتے اُسے تاراج کرکے رکھ د یتے ،چاروں طرف آہ وفغاں کا بازار گرم ہوجاتا اور وہ لوٹ کامال گھوڑوں پر لادے جس رفتارسے آتے اُسی رفتارسے غائب بھی ہوجاتے تھے۔پولیس اُن کی دھول تک بھی نہ پہنچتی تھی وہ خاندانی ڈاکوتھا۔ اُس کے باپ دادابھی اپنے وقت کے نہایت مشہوراورسفاک ڈاکوتھے۔وہ اپنی ان ہی سونچوں میں گم تھاکہ ٹھکرائین کی آوازاُبھری،’’ٹھاکر کیا آج سبجی ترکاری لانے باجار جانا نہیں ہے ۔۔۔ ؟‘‘
اُس نے پلٹ کر دیکھا۔گھر میں نوکر چاکرکی کمی نہیں تھی۔لیکن بازارسے سبزیاںاورترکاریاںلانے کا کام خود اُس نے اپنے سرلے رکّھاتھا۔اُس کے چہرے پرعجیب ساتناؤ نظر آ رہاتھا۔اُس نے گھورکربیوی کی طرف دیکھاتووہ گبھراگئی،’’ایسے کیادیکھ رہے ہوٹھاکر ۔۔۔ ؟‘‘
کچھ نہیں ٹھکرائین ۔۔۔ !‘‘وہ قریب کے صوفے پراپنے اندازسے بیٹھتاہوابولا،’’پچھلاجمانہ یادکررہاتھا۔جب تم سبجی ترکاری کانہیں،کسی گاؤںپر دھاوا بولنے کی یاددلاتی تھی۔‘‘
ٹھکرائین کے چہرے پرہنسی دوڑگئی،’’وکھت وکھت کی بات ہے۔‘‘وہ اُس کے قریب بیٹھتی ہوئی بولی،’’پر اب تو تم اورتمہاراجتھا حکومت کے معاپھ کردینے والے اعلان پرڈاکوگیری چھوڑچکے ہو۔‘‘
ٹھاکراُداس نظروںسے چھت کی طرف دیکھنے لگا۔
’’پرٹھاکراس سے کیاپھرک پڑتاہے ۔لوگ باگ تواب بھی تم سے ویساہی ڈرتے ہیں بلکہ تم کوسلام اورنمستے بھی کرتے ہیں ۔۔۔ !‘‘
’’کہاں ڈرتے ۔۔۔ ؟‘‘جرنیل سنگھ کی آوازکسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی،’’ٹھکرائین ۔۔۔ لوگ اب ڈرتے نہیں ہیںبلکہ میں اب اُن کے لیے کسی سرکس کابے بس شیرہوں،جسے دیکھنے کے لیے وہ آتے ہیںاورنظریں ملنے پرسلام نمستے کرتے ہیں۔۔۔ نہ ڈرکر،نہ عجَّت سے،نہ دل سے ۔۔۔بس یونہی۔۔۔!‘‘ ٹھاکر پھر کہیں کھوگیاتھا۔ٹھکرائین کو اپنے شوہرکی اس بے بسی میں عجیب سا لطف آنے لگاتھاوہ اُسے چھیڑنے لگی،’’بھگوان کاشکرکروٹھاکر۔۔۔اُس نے اب بھی تم کودیکھنے کی چیج بنارکھاہے -!‘‘
’’یہ ٹھٹھے کی بات نہیں ہے،ٹھکرائین ۔۔۔ !‘‘وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کرکھڑا ہوگیا،’’تم کومعلوم ہے،سرکارمیرے سرکا انعام پچاس ہجا ر رکھی تھی۔پن میں نے پولیس والوںکوایک لاکھ روپیہ دے دیاتھا۔پھربھلاکون میرے کو ہتھکڑیاں لگاتا-؟ میرادل جہاںچاہتاوہاںلوٹ مارمچادیتااورمیرابال بھی بیکانہیں ہوتا ۔۔۔ !‘‘اُس کے سینے میںدردکی لہراُٹھی اور اُس نے اپنی آنکھیں بندکرلیں ،’’کبھی کبھی میرادل چاہتا ہے کہ پھرسے اپنے باپ داداکے دھندے کواپنالوں،نکل جاؤں چمبل کی گھاٹیوں کی طرف اوربنالوںپھرسے ایک باراپنا جتھا ، مگر ۔۔۔ !‘‘
’’مگرکیا ۔۔۔ ؟‘‘ ٹھکرائین لرزگئی۔ایک لمحے کے لئے اُسے اپنی موجودہ آرام دہ زندگی کادامن چھوٹتا ہوامحسوس ہوا،وہ مجسم حیرت بنی اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’تمہارے ڈاکٹرٹھاکرنے بے بس کرکے رکھ دیاہے۔بڑاڈاکٹربن گیاہے نکمّاکہیں کا -!‘‘اُس نے غصّے سے اپنی دونوںمٹھیوںکوزورسے ٹکرایا۔
’’اب تم نے ہی توپڑھایالکھایاہے اُسے -!‘‘ٹھکرائین کی آوازاب بھی کانپ رہی تھی۔
’’میں نے پڑھایا ۔۔۔ ؟‘‘جرنیل سنگھ کی آنکھیں غصّے سے باہرنکل آئیں ، ’’ارے میں اگراُسے پڑھاتاتوبندوق کاپاٹ پڑھاتا،اُسے توسرکارنے خودہی پڑھایاہے -!‘‘
’’ہاں۔۔!‘‘ٹھکرائین نے گردن جُھکادی،’’ایک تمہارے ہی بیٹے کو نہیں، بلکہ جتھے کے سارے ہی ڈاکوؤںکے بیٹوںکواُنھوںنے اسکول میں ڈال دیاتھا۔‘‘
’’ اَپھسوس تواسی بات کاہے ٹھکرا ئین،ہماری ساری نسل ہی غارت ہوگئی۔۔!‘‘ اُس نے ایکیورم (Acquarium)میں تیرتی ہوئی مچھلیوںکی طرف دیکھتے ہوئے بولا،’’سرکارنے توہماری پہچان ہی کھتم کردی ہے !‘‘
ٹھیک اُسی وقت ڈاکٹرٹھاکرکی کارمین گیٹ میں داخل ہوئی،جرنیل سنگھ نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا،’’یہ تمہاراڈاکٹربیٹاآج اتنی جلدی کیسے واپس آگیا -؟‘‘
’’ہاں - اُس کااسپتال تودوبجے بندہوتاہے۔‘‘
ڈاکٹرٹھاکرگھرمیں داخل ہوا۔اُس کے چہرے پرعجیب فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی پھراُس نے بریف کیس میں سے نوٹوںکے بنڈل نکالے اوراُنھیں ماںکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا،’’ماں ۔۔۔ انھیں حفاظت سے تجوری میں رکھ دو۔۔۔ !‘‘
ماںباپ نے حیرت سے اپنے ڈاکٹربیٹے کی طرف دیکھاتووہ کہنے لگا، ’’باپو۔۔۔ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ایک بڑے ساہوکارکامعمولی ساآپریشن تھا - بس یہ اُسی کی کمائی ہے،اورکچھ نہیں ۔۔۔ !‘‘
اچانک ٹھاکرجرنیل سنگھ کے چہرے پرمسکراہٹ دوڑگئی۔اُس نے نہایت محبت بھری نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اورپھرپوچھا،’’ا چھا بیٹے یہ توبتا - میرے ساتھیوں کے بیٹے آج کل کیاکررہے ہیں ۔۔۔ ؟‘‘
’’خوب کمارہے ہیں۔۔!‘‘ڈاکٹرنے بریف کیس بندکرتے ہوئے جواب دیا،’’باپو اُن میں کوئی پولیس انسپکٹرہے ،کوئی بڑا سرکاری کرمچاری ہے،کوئی لیڈری کررہاہے اورکوئی۔۔۔اب میں آپ کو کیا کیا بتاؤں ۔۔۔ سب مزے میں ہیں۔‘‘
ٹھاکرجرنیل سنگھ کے چہرے کاساراتناؤ یک لخت غائب ہوگیا،اُس نے ایک بارپھراپنی بوڑھی مونچھوں کوتاؤ دیا اوردل ہی دل میں بڑبڑایا ، ’’ مطبل ۔۔۔ میرا ساراجتھا پھرسے ایک بارسکریہ ہوگیا۔‘‘
٭٭٭