اندھیرا گہرا ہو چکا تھا، طویل پہاڑی سلسلے سے وحشت ٹپک رہی تھی۔جلال خان نے کندھے سے راکٹ لانچر اُتار ااور اُسے زمین پر رکھتے ہوئے خود بھی بیٹھ گیا۔اُس کے دل ودماغ میں عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی اور چہرے سے مایوسی اورغصّہ ٹپک رہا تھا۔ پچھلے کئی برسوں سے اُس کی یہ زمین جنگ کے ختم ہوجانے کے باوجود بھی جنگ کاعذاب جھیل رہی تھی۔بارودی سرنگیں آج بھی بوڑھے ،جوان اور بچوں کوموت کی نیندسُلارہی تھیں۔آج بھی کبھی طیارے اورکبھی ہیلی کوپٹرآتے اورمطلوبہ افرادکی تلاش کے بہانے بمباری کرکے چلے جاتے۔آبادی کابڑاحصّہ معذوروں میں تبدیل ہوچکاہے،لیکن دنیاخاموش ہے۔اُس نے وادی کی طرف دیکھا، دور بہت دور بستی پرہونے والی شدید بمباری نے مکانات کو کھنڈر بنا دیا تھا اورایک عجیب ساہیبت ناک سنّاٹا سائیں سائیں کررہاتھا ۔اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ذہن سے سوال پوچھا! آخروہ کیا کرے ۔۔۔ ؟ تواُسے جواب ملا ۔۔۔ سنو! اگرتم نے استقلال اورتقوے کو تھام رکّھا تو یقین کرو دشمن کی ساری تدبیریں تمھیں کوئی ضررنہیں پہنچا سکیں گی۔بلاشبہ اللہ تعالی اُن کے اعمال پراحاطہ کرے گا ۔۔۔ !
اُس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اورآسمان کی طرف دیکھا، چاندبادلوں سے نبردآزماتھا اورتارے ایک کے بعدایک بے خوف روشن ہورہے تھے۔
’’بابا۔۔۔ ہم اپنے گھرکب جائینگی ۔۔۔ ؟ ‘‘ بارہ برس کے نوخیز لڑکے نے اپنے باپ کے کندھوں پرہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا۔جلال خان نے پلٹ کر دیکھا، دھول اورگرد سے اُس کا چہرہ اٹا ہوا تھا۔صرف آنکھیں چمک رہی تھیں۔
’’گھر ۔۔۔ ؟؟؟‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا،اس ایک لفظ نے اُسے کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا تھا،اُس نے پھرایک باراپنی نظریں سامنے کیں، مدھم چاندنی میں کھنڈرنمامکانات روشن ہونے لگے۔اونچی اونچی دیوڑیاں، چوبارے ،مٹی کے ردّوں سے بنی ہوئی موٹی موٹی دیواروںکے بیچ بڑے بڑے دالان، چھوٹے چھوٹے دبک گھروںکے سلسلے،چھوٹی بڑی دکانیں اورگلی کے آخری حصّے پرخوداُس کا اپنامکان ، اخروٹ ،زرتالو،ناشپاتی اوربادام کے درخت ،اناروں کے وزن سے جُھکی ہوئی ڈالیاں،جُگالی کرتے ہوئے جانوراورہنہناتاہواسپیدبراق گھوڑا۔۔ اورپھرگھوڑے نے برق رفتاردوڑناشروع کیا اورپھروہ دیکھتے ہی دیکھتے بُزکشی کے مقابلے میں شریک تھا۔ایک سے بڑھ کرایک سورمااپناانداز دکھارہاتھا۔بلندی پرکھڑ ی لڑکیاںشورمچارہی تھیں۔دف اور باجوںکاشورتھا۔وقت نے یاری کی اوراُس نے جیت اپنے نام کروالی،رقص وسرورکی محفل کاآغاز ہوا،دعوت شروع ہوئی اوراعلان کے مطابق بطورانعام سردارخان نے اپنی بیٹی گریزخانم کواُس کے نکاح میں دے دیا۔
وہ پھولے نہ سمایا،گلریز خانم تھی بھی چاند کا ٹکڑا،بادام جیسی خو بصورت آنکھیں،سیب جیسے گال،ستواں ناک،سرخ و سپید رنگت،ہونٹوں پر گویا سرخ اناروں کا سارا رنگ کسی نے مل دیا ہو۔وہ مسکراتی تو لب کا دایاں حصّہ کچھ ٹیڑھا ہو جاتا جو اُس کی مسکراہٹ کو اور بھی دلفریب بنا دیتا۔قدوقامت بھی لاجواب تھا۔جوبھی دیکھتابس دیکھتارہ جاتا۔جلال خان اُسے پاکرایسانہال ہواکہ پھردوبارہ کسی نامحرم پراُس نے نظریں ڈالی ہی نہیں۔
’’بابا ۔۔۔ !‘‘ بیٹے کی آواز اُسے پھرپہاڑی پرواپس لے آئی،اُس نے اُس کی طرف سوالیہ نظروںسے دیکھاتوبیٹے نے پھراپناوہی سوال دوہرایا، ’’باباہم اپنے گھرکب جائینگی ؟‘‘
جلال خان نے اُسے اپنے سینے سے لپٹا لیااوراُس کے ماتھے کوچومنے ہی والا تھا کہ وہ چلّایا،’’بابا ہیلی کوپٹر ۔۔۔ ! وہ ادھرکوآتی ہے ۔۔۔ !‘‘
جلال خان نے فوراً بیٹے کواپنے سے علیحدہ کیا اورراکٹ لانچرکواُٹھالیا اور ہیلی کوپٹرکانشانہ لیتاہوا بڑبڑایا، ’’گدھے کاپٹم ہم ابھی تیرامٹّی پلیدکرتی ہے ۔۔۔ ! ‘‘
لیکن نشانہ چوک گیااورہیلی کوپٹرجھکولے لیتاہواتیزی سے اوپربہت اوپر اُٹھ گیا۔
’’لالے خان ابھی جلدی سے اُٹھو ۔۔۔ !‘‘ اُس نے لانچرکوکندھے پر اُٹھایا، ’’بھاگواِدھرسے ،وہ ابھی اوپرسے ادھر بم ڈالے گی!‘‘
اورپھروہ دونوںبے تحاشہ وہاں سے دوسری چوٹی کی طرف دوڑے ،وہ ابھی پندرہ منٹ کی مسافت ہی طے کرپائے ہونگے کہ ایک زورداردھماکہ ہوا،دھول ،گرداورپتھرچاروںطرف اُڑنے لگے،وہ دونوںتیزبہت تیزبھاگ ہی رہے تھے کہ ایک پتھرکاٹکڑااُڑکرجلال خان کی پیٹھ پرلگااوروہ زمین پرگرپڑا لالے خان باپ سے ٹکرایااورمنہ کے بل گرپڑا،کراہتی ہوئی آوازوںمیںانھوںنے پلٹ کردیکھا، پہاڑ کا وہ حصہ جہاںکچھ دیرپہلے وہ دونوںتھے تہس نہس ہوچکاتھا،گرداوردھول اب بھی اُڑ رہی تھی۔جلال خان کی پیٹھ خون سے لت پت ہوچکی تھی وہ بُری طرح زخمی ہوگیاتھا،اُس نے اُٹھناچاہالیکن اُٹھ نہ سکا،بیٹے نے فوراً سہارادیااورکسی طرح ایک بڑی چٹان کی آڑ میں اُسے پہنچادیا،پھراُس نے اپنی پگڑی اُتاری اورباپ کی پیٹھ اورسینے پرلپیٹ کراُسے کس کرباندھ دیا۔
خون اب بھی رِس رہاتھا۔
’’بابا ۔۔۔ آپ تو بہت زخمی ہوگئی ۔۔۔ !‘‘ لالے خان کی آواز رونے میں بدلنے لگی۔
’’اوئے گدھے کاپٹم - ! رو تی کیوںہے؟ ابھی ہم زندہ بیٹھی ہے ۔۔۔!‘‘ اُس نے لالے خان کے سرپرہاتھ پھیرا۔ ’’لالے اس طرح رونا بُزدلی ہے۔ تم جلال خان کا اولاد،لالے کامافق سُرخروہونگی،پسرم ہمت نہیں ہارتی ۔۔۔! ‘‘
تکلیف کی شدت سے جلال خان کی آوازخودکانپ رہی تھی۔وہ اوندھا لیٹ گیا۔لالے خان کاچہرہ آنسوئوںسے بھرگیا،اُس کی سمجھ میںکچھ نہیں آرہاتھاکہ وہ کرے توکیاکرے ۔۔۔ ؟ جلال خان کی دبی دبی کررہیں جگرکوچھلنی کررہی تھیں۔وہ باپ کی پیٹھ کوآہستہ آہستہ سہلانے لگا۔آسمان میں چاندبھی گھبراگیاتھااوروہ بھی بادلوںمیںمنہ چھپاکراپناغم ہلکاکرنے لگا۔لالے خان کاہاتھ باپ کے سرپرپہنچااور اورپھراُس کی انگلیاںآہستہ آہستہ بالوںمیں حرکت کرنے لگیں۔جلال خان کو عجیب ساسکون محسوس ہونے لگا۔اُس نے اپنی آنکھیں موندلیں،نینداورجاگ کاسفر شروع ہواتوگلریزخانم آنکھوںمیں درآئی۔
’’خان تم کوہم کتنی باربولی ،یہ تلواربازی کاکھیل کھیلناابھی بندکرو ۔۔۔ !‘‘ وہ اُس کے سینے پرلگے زخم میں دواکی بُکنی بھرتے ہوئے بولی، ’’ابھی تم باپ بن گئی،سوچو ، لالے خان چار سال کا ہو گئی۔ ‘‘
خان نے قہقہہ لگایا ، ’’ اوئے جلال خان کی جا ن ہم تلواربازی نہیں کریں گی توکیا پھرسے بُزکشی میں شریک ہونگی-؟‘‘
گلریزخانم نے ایک ادائے خاص سے اُ س کی طرف دیکھا،’’شریک ہوکردیکھ لو،پرتم کو گلریزخانم کاجواب نہیں ملے گی-!‘‘
جلال خان کواُس کی ان ہی اداؤںپرپیارآتاتھا،وہ مچل اُٹھا،’’چشم بدور خانم-!‘‘ وہ اُس پرجھپٹااوراُسے پلنگ پرلے کرگرا،’’اس دنیامیں دوسرا گلریزخانم واللہ پیدابھی نہیں ہوسکتی-!‘‘
’’خان-!‘‘ وہ تڑپ اُٹھی،’’مجھے چھوڑو،زخم سے خون رِس رہی ہے۔اُس کاخیال کرو،ورنہ تمہار اجان کی جان نکل جائینگی -!‘‘ خانم کی آنکھیں بھرآئیں۔
’’گلریز -!‘‘وہ بھی تڑپ اُٹھااوراُس کی آنکھوںپراپنے پیارکے بوسے ثبت کرتاہوابولا،’’جانم ہم ہزارزخم کاتکلیف برداشت کرسکتی واللہ تمہارا آنسو نہیں -!‘‘
خان نے اُسے چھوڑدیااوروہ اپنے دوپٹّے کے پلّوسے اُس کے گھاؤ کے رِستے خون کو صاف کرنے لگی۔
’’تم خواہ مخواہ ڈرتاہے،خانم یہ زخم ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتی!‘‘ جلال خان کے منہ سے ایک کراہ نکلی۔
’’بابا۔۔۔!‘‘لالے خان تڑپ اُٹھا،’’بابا ۔۔۔ !‘‘اُس نے پھرآوازدی۔جلال خان کہنیوںکے بل اُٹھتاہوابیٹے کی طرف پلٹا۔
’’بابا ۔۔۔ یہ زخم توکیاانشاء اللہ کوئی زخم آپ کوضررنہیں پہنچاسکتی ۔۔۔ !‘‘
جلال خان نے ایک لمبی سانس لی اورپھروہ کسی طرح اُٹھ کربیٹھ گیا،مدھم چاندنی میں وہ دنوںایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
’’بابا - دن نکلتے ہی ہم اپنے گھرکوواپس چلیں گی -!‘‘
’’گھر ۔۔۔ ؟‘‘جلال خان نے گردن جھکادی،’’لالے گھراگرسلامت ہوتی توہم گھربھی جاتی ۔۔۔ !‘‘
’’کیا ؟؟؟‘‘لالے خان کے چہرے پرہزارہاسوالات اُبھرآئے۔
’’لالے بڑی المناک کہانی ،تم کچھ نہیں جانتی،تم کئی برسوںسے ہمارے ساتھ ان پہاڑی دروّں میں گھوم رہی۔باہرکیاہورہی تم کو خبرنہیں ہم تم کو کبھی کچھ نہیں بتائی ۔۔۔ آج سنو ۔۔۔لالے خان ۔۔۔ تم گھرسے بہت دو‘رجبل السراج کے مدرسے میں پڑھتی تھی۔تمہاری امّاں تم کو بڑاآدمی بناناسوچتی تھی، ہم بولتا،اوئے گلبدن! اُس کو بلالو،وہ مارکیٹ میں ہماراہاتھ بٹائے گی۔پڑھ لکھ کروہ بُزدل ہوگئی توبرادری میں ہماراناک کٹ جائینگی ، مگروہ کبھی ہمارابات نہیں سنی ، شایدوہ جانتی تھی اُس کے ملک میں آگے کیاہونیوالی ہے ۔۔۔ !‘‘
جلال خان کی آواز بھراگئی،اُس نے آسمان کی طرف دیکھا،گویابیان کی اجازت طلب کررہاہو ۔۔۔ اورلالے خان دم سادھے اُس انہونی بات کا منتظرتھا جو اُس کاباپ اُسے سنانے والاتھا،جب جلال خان نے اپنے آپ پرقابوپالیاتواُس نے پوچھا،’’پھرکیاہوی بابا -!‘‘
جلال خان نے بیٹے لی طرف دیکھا اورپھرکہناشروع کیا،’’ایسی ہی ایک رات تھی لالے،دشمن فوجی اڈوں کو چھوڑکردہشت پھیلانے بستی پرایسا بمباری کی کہ کچھ نہیںبچی،ہم سب کچھ اپنی ان ہی آنکھوںسے دیکھی۔چاروںطرف آگ ہی آگ تھی،ملبے کے ڈھیرتھے،انسانی جسم ٹکڑے ٹکڑے بکھرے پڑی تھی۔لالے اُن پہ رونے کے واسطے کوئی نہیں بچی تھی ہم جدھربھی دیکھتی ،موت ہی موت نظرآتی تھی۔ لالے انسانی جسم کے اُن ٹکڑوںمیں ہم تمہارا امّاں کے بھی ٹکڑے دیکھی ،’’آہ -!‘‘ اُس نے ایک چیخ ماری،’’مولا پیر،یہ کیسا مشکل گھڑی تم ہم کو دکھائی۔؟‘‘آنسوں اُس کی آنکھوںسے رواں ہوگئے۔ لالے خان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ وہ بھی دھاڑیں مارمارکررونا چاہتاتھا۔لیکن باپ کی بے بسی نے اُس کی آنکھوںسے اُس کے آنسوں چھین لیے تھے، وہ بس جلال خان کے آنسوںپوچھ رہا تھا ۔
’’لالے خان اُس دن ہم پاک پروردگارکا قسم لی،جب تک دشمن کو اپنی سرحدسے باہرنہیں کردیں گی ہم گھرنہیں بنائینگی،نرم بسترپرنہیں سوئینگی،آرام نہیں کرئینگی - بس اُسی دن ہم تجارت کا پیشہ چھوڑی اورہتھیاراُٹھالی،تمہارامدرسہ پہنچی ،تم کواپنے ساتھ ادھرلائی۔اب تم بولتی ،باباگھرچلو۔۔۔ !‘‘اُس کی آواز پھرایکبار بھرّاگئی،’’اب تم بولوہم تم کو کونسے گھرلے کرجائینگی -؟‘‘
’’بابا ابھی ہم مقدّر سے لڑئینگی-!‘‘لالے خان نے باپ کے کندھے پراعتمادکاہاتھ رکھا۔
’’واللہ۔۔۔ تم ہمارادل خوش کردی۔۔۔ !‘‘ شکست خوردہ اُداس چہرے پرایک عجیب سی مسرت بخش مسکراہٹ نمودارہوئی،جلال خان نے ڈھلتی رات کا جائزہ لیا ،اورپھرکہنا شروع کیا،’’باباکاجان ۔۔۔! باپ اوربیٹابھی تورات اوردن کا مافق ہوتی ہے۔ہرباپ دن ہوکررات ہوجاتی،اورہربیٹارات کے پہلو سے پیداہوکردن ہوجاتی۔۔۔ یہی اللہ کا مرضی ہے۔۔۔ !‘‘ اُس نے اپنے بیٹے کی آنکھوںمیں جھانکا،’’تم اِس کو سمجھا لالے خان -؟‘‘
لالے خا ن نے اقرارمیں گردن ہلائی۔جلال خان کے چہرے پرایک عجیب سااطمینان پیداہوا۔اُس نے آسمان کی طرف ممنویت سے دیکھااور پھرجیسے ہی نظریںسامنے کیں،اُسے دو‘ر بہت دو‘ر فوجی ہلچل نظرآئی۔دشمن کے سپاہی ہیلی کوپٹرز میںسوارہورہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ پہاڑی سلسلے پر پھر ایک بارہلّہ بولنے والے ہیں۔اُس نے فوراً لالے خان کو اپنے سینے سے لگالیااوربولا،’’لالے خان ! اللہ کبھی پیغمبرابراھیم ؑ پررحم کھائی تھی،دنیاسمجھی وہ اسماعیل ؑ پرکرم تھی کہ وہ زندہ بچ گئی،نہیں جلال خان کی جان نہیں ،وہ بیٹے پرکرم نہیں تھی بلکہ اُس دن سے آج تک بیٹا باپ کے اُس کرم کااحسان چکارہی ہے -!‘‘
لالے خان نے باپ کی طرف دیکھا تو اُس نے سامنے اشارہ کیا،ہیلی کوپٹرتیزی سے پہاڑی سلسلوں کی طرف آرہے تھے۔
’’ابھی تمہاراباری ہے لالے خان ،اُٹھاؤ یہ راکٹ لانچراور آگے بڑھو ‘‘ لالے خان نے راکٹ لانچر کوکندھے پراُٹھایا،سامنے نظریں دوڑائیں،آنے والے ہیلی کوپٹرزکی طرف دیکھاایک قدم آگے بڑھایااورپھرپیچھے پلٹ کرباپ کی طرف دیکھا۔
’’لالے۔۔۔ ایک بات اورسُن لو،جو کچھ بھی کرنی ہے وہ تم کو خودکرنی ہے،تمہارے واسطے ابھی کوئی دُنبہ آسمان سے نہیں اُترے گی۔ابھی اپنی تاریخ تم کو خود ہی لکھنی ہے - جاؤ بیٹاجاؤ ۔۔۔ بسلامت روی باز آئی -!‘‘
جلال خان کی آنکھیں بھیک گئیں۔
لالے خان پورے استقامت کے ساتھ آ گے بڑھ رہاتھا۔جلال خان اپنی زندگی بھرکی کمائی کو اپنی آزمائش کے پل صراط پرجاتے ہوئے دیکھ رہاتھا ۔۔۔ بلاشبہ اللہ صبرکرنے والوںکے ساتھ ہوتاہے ۔۔۔ اُس کے سرپرہیلی کوپٹر اُڑ رہے تھے۔اُن کی آگ اُگلتی ہوئی بھیانک آوازوںسے پوری وادی گونج رہی تھے۔لالے خان نے لانچرکوسامنے کیا۔اُس کے چہرے پرایک عجیب سااطمینان تھا ۔اُس نے نشانہ باندھا،ایک زوردار دھماکہ ہوا،ہیلی کوپٹرآگ کے شعلوں میں تبدیل ہوگیا اورپھردوسرے ہی لمحے اُس کے پرخچے اُڑگئے ۔۔۔لالے خان کا نعرہ آسمان کی وسعتوں تک گونج اُٹھا۔
اورپھردیکھتے ہی دیکھتے سارا پہاڑی سلسلہ روئی کے گالوں کی طرح اُڑرہاتھا -۔
٭٭٭