اخلاص اور محبتوں میں ڈوبا ہوا خاندان، امّی چولہے کے سامنے کھڑی روٹیاں بیل رہی ہیں ۔ چچی جان چٹائی پر بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہیں ۔ رُخسانہ پھوپھی دھوبن کو کپڑے دے رہی ہیں ۔ دادی امّاں تخت پر بیٹھی پان لگارہی ہیں ۔ دادا جان بازار سے سودا سلف لانے جاچکے ہیں ۔دالان میں چھوٹے چھوٹے پنگوڑوں میں رضیہ اور الطاف ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ ابّا جان اخبار کی تازہ خبروں میں اُلجھے ہوئے ہیں اور چچا جان آئینے کے سامنے کھڑے بال سنوار رہے ہیں ۔ رحیمن بوا صحن میں برتن مانج رہی ہے ۔ صحن کے ایک کونے میں بکریاں ممیا رہی ہیں ۔ مُرغیاں زمین کُرید رہی ہیں اور کچھ فاصلے پر کھڑا ٹامی دُم ہلا رہا ہے ۔
یہ سارا منظر ٹکڑوں ٹکڑوں میں جمع ہوتا ہے اور پھر ساکت ہوجاتا ہے ۔ کچھ دیر اُسی طرح رُکا رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دھندلا جاتا ہے ۔
٭٭٭
منّو میاں روتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔
گھٹنے کے پاس پاجامہ کھسک گیا ہے۔خون کا ایک چھوٹا سا دھبّہ اُبھر آیا ہے۔
’’منّو میاں اسکول کی سیڑھیوں پر سے گِر گئے ہیں ۔۔۔! ‘‘ رمضانی اِطلاع دیتے ہوئے اُن کا بستہ کھوٹی سے ٹا نگتا ہے ۔
ساری نگاہیں برق رفتار منّو میاں کی جانب دوڑتی ہیں ۔
’’ہائے میرا بچّہ ۔۔۔ ! ‘‘ امّی جان بے تحاشہ دوڑتی ہوئی آتی ہیں اور گود میں اُٹھالیتی ہیں ۔
’’منّو میاں کیسے گِرگئے۔۔۔؟‘‘چچی جان رمضانی پر برس رہی ہیں ۔ رخسانہ پھو پھی صحن سے زخمِ حیات کا پتہ لے کر دوڑتی ہوئی آتی ہیں ۔
’’ہائے ہائے ۔۔۔ یہ اسکول والے خدا جانے اتنی سیڑھیاں بنواتے کیوں ہیں ۔۔۔؟ ‘‘ دادی امّاں بھی کسی طرح منّو میاں کے پاس پہنچ گئی ہیں ۔
منّو میاں ہنوز ٹُھنک رہے ہیں ۔
کوئی اُن کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہے ۔
کوئی اُنھیں پنکھا جھل رہا ہے ۔
اُن کے سامنے ٹافیوں کا انبار لگ گیا ہے ۔
رخسانہ پھو پھی معمولی زخم کو صاف کر کے زخمِ حیات کا پتہ باندھ رہی ہیں ۔ منّو میاں کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے ۔
یہ منظر بھی کچھ دیر جھلملاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ معدوم ہوجاتا ہے ۔
٭٭٭
برسات کا موسم ٹ رِم جھم پھواریں برس رہی ہیں ۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔صحن پانی سے بھر گیا ہے ۔ باورچی خانے میں ا نگیٹھی پر مکئی کے بُھٹے بُھنے جا رہے ہیں ۔ کھپریل کی چھت سے کہیں کہیں پانی ٹپک رہا ہے ۔
دالان میں تخت پر دادا جان آنکھیں موندے حُقّہ گُڑ گُڑا رہے ہیں ۔ ابّا جان اور چچا جان ابھی تک دفتر سے واپس نہیں آئے ۔ رخسانہ پھو پھی دوڑ دوڑ کر بُھنے ہوئے بُھٹّے ایک ایک تک پہنچا رہی ہیں ۔ امّی جان اور چچی جان آپس میں گفتگو کر رہی ہیں ۔
منّو میاں کاغذ کی ناؤوں سے ایک بحری بیڑہ تیار کر چکے ہیں ۔ اُن کے عقب میں رضیہ اور الطاف کھڑے ہیں ۔ دادی اماں مسلسل ٹوک رہی ہیں کہ بچّوں کو روکو ، پانی میں بھیگ جائیں گے تو بیمار ہوجائیںگے ۔ صحن کی جانب قدم اُٹھانے کے لیے منّو میاں مچل رہے ہیں ۔ دادی امّاں اُنھیں ڈپٹ رہی ہیں ۔ وہ تصّور میں اُنھیں منہ چڑھاتے ہیں اور پھر رخسانہ پھو پھی کی جانب ملتجی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ وہ دوڑی دوڑی اُن کے پاس پہنچتی ہیں اور دوسرے ہی لمحے بحری بیڑہ روانہ ہوجاتا ہے ۔ منّومیاں تالیاں بجاتے ہیں ۔ امّی جان کے چہرے پر مسکراہٹ کِھل اُٹھتی ہے ۔ چچی جان اپنی جگہ سے چیخ رہی ہیں ، ’’ ارے پائینچے تو اُوپر کرلو ۔ بھیگ جائیں گے تو آفت آجائینگی ۔ ۔۔ ! ‘‘
ہنسی مذاق کے پھوارے چھوٹ رہے ہیں ۔
دادی امّاں کا موڈ خراب ہوگیا ہے ۔ وہ ہر ایک کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھ رہی ہیں لیکن سب ہی کا موڈ شوخ ہوگیا ہے ۔
امّی جان اور چچی جان آنکھوں آنکھوں میں کچھ اِشارے کرتی ہیں ۔ رخسانہ پھو پھی کی آنکھیں بھی خوشی سے چھلک اُٹھی ہیں ۔ اور پھر دادی امّاں اور دادا جان کو چھوڑ کر گھر کے سارے ہی افراد صحن میں پہنچ گئے ہیں اور رِم جھم پھواروں کا لطف اُٹھارہے ہیں ۔
دادی امّاں غُصّے کے مارے پن کُٹّی میں تیز تیز پان کوٹ رہی ہیں ۔
پورا منظر آنکھوں کے فریم میں ٹھہر گیا ہے اور پھر تھمے ہوئے پانی میں جیسے ہی کوئی کنکری گِرتی ہے اور ارتعاش اُن سارے بننے والی تصویروں کو غائب کرنے لگتا ہے ۔ ایسے ہی یہ منظر بھی غائب ہوجاتا ہے ۔
٭٭٭
پتہ نہیں امّی جان اور ابّا جان کے درمیان کب حُجّت ہوگئی ہے ۔ امّی جان شرمندہ شرمندہ سی ہیں ۔ ابّاجان فجر کی نماز سے فراغت پانے کے بعد دوبارہ بِستر پر لیٹ گئے ہیں ۔ امّی جان بے سبب بار بار کمرے میں چکّر لگارہی ہیں ۔ کسی نہ کسی بہانے اپنی موجودگی کا احساس دِلا رہی ہیں لیکن ابّا جان گھڑی کی سوئیوں کو بِنا مقصد گھور رہے ہیں ۔
سامنے ٹیبل پر چائے اور بٹر ویسے ہی پڑے ہیں ۔
ناشتے کے دستر خوان پر ابّا جان کی غیر مؤجودگی کو سبھی محسوس کرتے ہیں ۔ امّی جان سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں لیکن جواب میں اُن کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ہے اور آنکھوں میں اُمڈے ہوئے آنسوں آپ ہی آپ ضبط ہوجاتے ہیں ۔
دادی امّاں کی پیشانی پر فِکر مند لکیریں اُبھرتی ہیں ۔
پورے گھر میں ایک تناؤ کی سی کیفیت ہے ۔ امّی جان ابّا جان کا پسندیدہ حلوا تیار کر رہی ہیں ۔ دادی امّاں ابّا جان کے پاس بیٹھی ہیں اور اُن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھ رہی ہیں،’’بیٹے کیا تمہاری طبعیت خراب ہے ۔۔۔؟ ‘‘
ابّا جان مسکراکر اُن کی طرف دیکھتے ہیں ، ’’ نہیں تو ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’پھر تم ناشتے کے لیے کیوں نہیں آئے ۔۔۔؟ ‘‘
ابّا جان خاموش ہیں ۔
’’بھابھی جان آپ کے لیے حلوا تیار کررہی ہیں۔!‘‘چچی جان بھی وہاں پہنچ گئی ہیں،’’بھائی میاں بیچاری صبح سے بہت ہی اُداس ہے۔۔کیاہوگیاآپ کو ۔۔؟‘‘
’’مجھے نہیں کھانا ہے حلوا ۔۔۔!‘‘ابّا جان کا روکھا سا جواب فضاء میں بلند ہوتا ہے ۔
’’ارے۔!‘‘دادی امّاں پچکارتی ہیں ، ’’بیٹے یہ کُفرانِ نعمت ہے ۔۔۔ اللہ ناراض ہوتا ہے ۔‘‘
’’بھائی میاں۔۔۔!‘‘رخسانہ پھو پھی ابّا جان کے پائینتی کھڑی ہیں،’’میں آپ کے لیے ٹماٹر کی چٹنی تیار کرتی ہوں ۔ وہ تو آپ بہت شوق سے کھاتے ہیں ۔ ‘‘
ابّا جان کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے ۔
’’چل اُٹھ ۔۔۔! ‘‘دادی امّاں اُنھیں ٹھوکا دیتی ہیں ، ’’ چھوٹی بہن کو کیوں ناراض کرتا ہے ۔۔! ‘‘
’’ اچھا بھائی میاں مجھ سے کہیے میں کیا بناؤں آپ کے لیے ۔۔۔؟ ‘‘ چچی جان سوال کرتی ہیں ۔
سارے فِکر مند چہرے ابّا جان کو تک رہے ہیں ۔ اچانک ان کے چہرے کی پھیکی مسکُراہٹ مسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
’’دُلہن بیگم دستر لگاؤ۔۔۔ ! ‘‘ دادی امّاں کا حُکم جاری ہوتا ہے اور پھر دستر خوان سج جاتا ہے ۔ ابّا جان کھانا کھا رہے ہیں ۔ سب اُنھیں گھیرے ہوئے ہیں اور حلوا اُن کا حلق میٹھا کر رہا ہے ۔ سب کے چہروں پر خوشی کھِل اُٹھتی ہے ۔
یہ منظر بھی ٹھہر جاتا ہے ۔ کچھ دیر تک جِھلملاتا ہے اور پھر جِس طرح ہوا کے بگولے سوکھے پتوں کو اُڑالے جاتے ہیں آنکھوں سے یہ منظر بھی اُسی طرح اُڑ جاتا ہے
٭٭٭
گھر کے باہر تانگے کھڑے ہیں ۔ کوچوان پردے لگا رہے ہیں ۔ گھر میں سب بن سنور رہے ہیں ۔ایک دوسرے سے آنکھوں آنکھوں میں اِشارے ہو رہے ہیں ۔ خوشی کی لہر گھر پر چھائی ہوئی ہے ۔ دادی امّاں پان کوٹ رہی ہیں ۔ دادا جان اپنے پان کا انتظار کر رہے ہیں ۔ رخسانہ پھو پھی جلدی جلدی بال سنوار رہی ہیں ۔
’’یہ سب لوگ آج کہاں جارہے ہیں ۔۔۔؟ ‘‘ دادا جان دادی امّاں سے دریا فت کرتے ہیں ۔ ، ’’ وحید میاں کے کسی دوست کے گھر میلاد کی محفل ہے ۔ ‘‘
دادی امّاں کا یہ جملہ رخسانہ پھو پھی کے کانوں سے ٹکراتا ہے ۔ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ دِل ہی دِل میں بڑ بڑاتی ہیں ، دادا جان یہ محفلِ میلاد کی تیاری نہیں ہے ۔ ہم لوگ فلم مغلِ آعظم دیکھنے جا رہے ہیں ۔
’’ارے بھئی تیار ہوئے یا نہیں ۔۔۔؟ ‘‘ ابّا جان کی آواز گونجتی ہے ۔
’’بھابھی جان چلیے بھی۔۔۔اگرمحفلِ میلاد شروع ہوگئی تو ابتدائی حصّہ چھوٹ جائے گا ۔۔۔ اور پھر کیا خاک مزہ آئیگا ۔۔۔؟ ‘‘
امّی جان ہنس پڑتی ہیں ۔ چچی جان برقعہ پہن چُکی ہیں ۔ امّی جان اپنی چپل تلاش رہی ہیں ۔ رخسانہ پھو پھی کا سر دوپٹّے سے ڈھپ جاتا ہے اور چچا جان گھر سے باہر قدم اُٹھاتے ہیں ۔
تانگے موہن ٹاکیز کی طرف دوڑنے لگتے ہیں اور اندر سے گُھٹی گھُٹی آوازیں نکل رہی ہیں ۔ بسم اللہ بسم اللہ بسم اللہ ۔۔۔
یہ منظر بھی ڈوبتے سورج کی طرح اُفق کی دھلیز پر کچھ لمحے ٹھہر جاتا ہے اور پھر ذہن کا اسکرین دُھل جاتا ہے ۔
گھر میں سنّاٹا ڈسنے لگتا ہے اور کوئی بھٹکی ہوئی چِڑیا اچانک کمرے میں داخل ہوکر پھڑ پھڑانے لگتی ہے ۔
٭٭٭
گھر کے باہر نوبت بج رہی ہے ۔ آخر دادا جان قاضیِ شہر جو ہیں ۔ حمّام میں نہانے کے لیے نمبر لگے ہوئے ہیں ۔ امّی جان سوئیاں اُبال رہی ہیں ۔ چچی جان شیر خورمے کا سامان تیار کر رہی ہیں ۔ رخسانہ پھوپھی خالی سماور میں پانی اونڈھیل رہی ہیں۔ سماور کی نالی سانچے کوئلوں سے دہک رہی ہے ۔ دادی امّاں اپنی نگرانی میں رحیمن بُوا سے فرش بچھوا رہی ہیں ۔ ابّا جان غسل کرچکے ہیں ۔ چچا جان اپنا تولیہ ڈھوندھ رہے ہیں ۔ دادا جان کی وقفے وقفے سے آواز اُبھر رہی ہے،’’ارے میاں جلدی کرو ۔اگر قاضی اور اُس کے گھر والے ہی عیدگاہ دیر سے پہنچیںگے تو عام لوگوں پر اس کا کیا اثر پڑیگا۔۔۔؟ ‘‘
رخسانہ پھو پھی منّو میاں کی شیروانی کے بٹن لگا رہی ہیں ۔ باورچی خانے سے میٹھی میٹھی خوشبو مہک رہی ہے ۔ دادی امّاں تخت پر سوار ہوگئی ہیں اور اُن کے ہاتھ تیزی سے پان کے بیڑے تیار کر رہے ہیں ۔ آج چھوٹوں کو عیدی کے ساتھ ہی ساتھ پان کھانے کی بھی اجازت ہے ۔ ورنہ عام دنوں میں پان کھانے پر سزا ملتی ہے ۔
گھر کے باہر بستی کے لوگ جمع ہوگئے ہیں ۔ سب کے چہروں سے خوشی جھلک رہی ہے ۔ آگے نوبت بج رہی ہے اور پیچھے دادا جان کی قیادت میں قافلہ عیدگاہ کی جانب روانہ ہوگیا ہے ۔
یہ منظر بھی بہت دیر تک یونہی ساکِت رہا ۔ پھر نوبت کی آوازیں بند ہوگئیں ۔ قافلے کے افراد کم ہوتے گئے اور پھر یہ منظر بھی ڈوب گیا ۔
٭٭٭
’’ امّی جان ۔۔۔منّو بھائی کا غُصہ ابھی تک نہیں اُترا ۔۔۔۱‘‘ چھوٹی بہن رضیہ نے اطلاع دی ۔
’’ کیا مشکل ہے ۔ یہ لڑکا بہت ہی ضدّی ہوگیا ہے ۔۔۔! ‘‘ امّی جان اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔
’’ ہاں ۔۔۔! بچپن ہی سے تم نے اُسے سر چڑھا رکھا ہے ۔۔۔! ‘‘ ابّا جان نے دوبارہ اخبار کے صفحات میں اپنے آپ کو جھونک دیا ، ’’ گریجویٹ ہوگیا ہے لیکن عقل نام کو نہیں ہے ۔ ‘‘
’’ تم چپ رہو جی ۔۔۔! ‘‘ امّی جان سیدھے منّو بھائی کے کمرے میں داخل ہوتی ہیں ، ’’ دیکھو بیٹے کھانا کھالو ۔ کہہ تو رہی ہوں کہ بندوق دلادوں گی ۔۔۔ بس ذرا صبر کرو ۔۔۔ ! ‘‘
منّو میاں پلنگ پر اوندھے پڑے ہیں ۔
’’ ارے منّو میاں مان بھی جاؤ ۔۔۔! ‘‘ چچی جان بھی وہاں آجاتی ہیں ،
’’ دیکھو میں تمہارے لیے گاجر کا حلوا لے کر آئی ہوں ۔۔۔! ‘‘
منّو میاں اُسی طرح پلنگ پر اوندھے پڑے رہے۔
’’ منّوسے مُنیر ہوگیا لیکن حرکتیں وہی ہیں! ‘‘ ابّا جان نے زور سے کھنکھارا ۔
’’ ارے بچّے اگر ضدّ نہ کریں تو کون کرے گا ۔۔۔؟ ‘‘ دادی امّاں لکڑی ٹیکتے ہوئے وہاں پہنچتی ہیں ، ’’ بندوق ہی تو چاہیے نا ۔۔۔؟ میں دِلا دیتی ہوں ۔۔۔! ‘‘ دادی امّاں نے روپوں سے بھری تھیلی منّو میاں کے سامنے رکھ دی ۔
’’ سچ دادی امّاں ۔۔۔؟ ‘‘ منیر میاں ایکدم خوشی سے اُچھل جاتے ہیں ۔
’’ ہاں ۔۔۔ مگر پہلے تجھے کھانا کھانا پڑے گا ۔۔۔! ‘‘
اور پھر کئی فائر گونجتے ہیں ۔
یہ منظر بھی آنکھوں میں فریز ہوجاتا ہے اور کچھ ہی دیر کے بعد آپ ہی آپ تحلیل ہوجاتا ہے ۔
٭٭٭
’’ مُنیر میاں یہ کھڑ کی سے کیا تاک جھانک کرتے رہتے ہو ۔۔۔؟ ‘‘ چچی جان نے کان کھینچا ، ’’ لگتا ہے اب تمہارا بیاہ کردینا چاہیے ۔۔۔! ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ ! ‘‘ منیر میاں نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ، ’’ لیکن رخسانہ پھو پھی کی طرح نہیں ۔ ‘‘
’’ کیوں ۔۔۔؟ ‘‘ چچی جان کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں ، ’’ اُس کی شادی میں کیا خرابی تھی ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ ارے وہ بھی کوئی شادی تھی ۔نہ اُن کی مرضی پوچھی گئی اور نا ہی شادی سے پہلے اُنھیں پھو پھا صاحب کو دکھایا گیا ۔ بس دُلہن بنادیا تھاآپ لوگوں نے ، اور وہ بیچاری روتی بسورتی سسرال چلی گئیں ۔ ‘‘
’’ سن لڑکے ۔۔۔! ‘‘ چچی جان نے مصنوعی غصّے سے کہنا شروع کیا ، ’’ شادی پر ہر لڑکی روتی ہے لیکن دولہا کے ساتھ جانے پر نہیں ، بلکہ مائیکے کے چھوٹنے کے غم میں ۔۔۔ دیکھا نہیں تم نے ۔۔۔وہ اپنی سسرال میں کس قدر خوش ہے ۔۔۔! ‘‘
منیر میاں لاجواب ہوگئے ۔
’’ لیکن تیری شادی تو میں اپنی پسند سے کرونگی ۔۔‘‘
’’ لگتا ہے مجھے پھر ایک بار اور روٹھنا پڑے گا ۔ ‘‘
دونوں کا قہقہہ فصاء میں بلند ہوتا ہے ۔
پھر شہنائیاں گونج اُٹھیں ۔ منیر میاں اپنی پسند کی بیوی لے آئے اور سارا گھر خوشیوں سے بھر گیا ۔
یہ منظر بھی جس طرح اُبھرا تھا اُسی طرح اُبلتے دودھ کی طرح خود ہی بیٹھ گیا
پتہ نہیں یادوں کے جگنو آج میری آنکھوں میں کیسے در آئے ہیں ۔ جانے کتنے ہی منظر میری آنکھوں میں اُبھرے اور ڈوب گئے ۔۔۔ اور پھر وہ مناظر بھی میں نے دیکھے جو میرے چاہنے نہ چاہنے سے پرے وقت نے مجھے دکھایا ۔ سارا خاندان بکھر گیا ۔ دادا جان تو پہلے ہی رخصت ہوگئے تھے پھر دادی امّاں بھی چلی گئیں ۔ اس کے بعد اِسی آبائی گھر میں پہلی بار دو چولہوں سے آگ روشن ہوئی اور وہ وہ چیزیں روشن ہو نے لگیں جنھیں پہلے کبھی کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آبائی گھر فروخت ہوگیا ۔ سارا شیرازہ بکھر گیا ۔ چچا جان شالیمار کالونی کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے اور ہم لوگ روشن پور میں آباد ہوگئے ۔۔۔ اب نہ ابّا جان باقی ہیں اور نا ہی امّی جان ۔۔۔ کل شام بیوی سے ان بن ہوگئی تھی ۔تب سے تنہا بھوکا پیاسا پلنگ پر اوندھا پڑا ہوں ۔ منانے والی کوئی آواز میرے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے کیونکہ مقابل کے کمرے میں ناراض بیوی اور بچّے ٹی۔ وی دیکھ رہے ہیں اور میں انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی چُپکے سے آکر مجھے منا لے۔
٭٭٭