سرکاری اسپتال کی رات یعنی خوف و ہ ہیبت کی رات ، کرا ہتی آوازیں ، بے مروت وارڈ بوائے ،اونگھتی نرسیں ، اور بے فکر ڈاکٹرز ، کہیں گِڑگِڑاتے متعلِقین اور کہیں دم توڑتے مریض ، عجیب سی بے حسی ، تنہائی اور پُراسرار ماحول ۔۔۔ ایسی ہی ایک رات تھی ۔اسپتال میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ جیسے موت کا فرشتہ اُتر چکا ہو اور زندگی خوف سے لرز رہی ہو ،ایسے مُردہ ماحول میں کبھی کبھار کوئی نرس کھٹ کھٹ کی آوازوں سے سنّاٹے کو زندہ کرتے ہوئے گزر جاتی ۔ مریضوں کے کراہنے کی آوازیں عجیب سی بے چینی پیدا کررہی تھی ۔رات کے دو بج رہی تھے ۔ دودھیہ بلب روشن تھے ۔ اپنے اپنے وارڈوں میں نرسیں اونگھ رہی تھیں اور ڈاکٹر آرام کررہے تھے ۔ کاری ڈار کے آخری سرے سے ایک اسٹریچر نمودار ہوا ۔ اس کے آگے آگے دو نرسیں تھیں اور وارڈبوائے جمائیاں لیتے ہوئے اُسے آپریشن تھیٹر کی طرف دھکیل رہے تھے۔ اسٹریچر کے ساتھ ساتھ ہواس باختہ راجندر بھی قدم اُٹھا رہا تھا ۔ اُس نے سٹریچر لیٹی ہوئی اپنی بیوی پر نگاہ ڈالی ۔ وہ بے ہوش تھی ۔ راجندر کا دل بے اختیار چاہا کہ بیوی سے لپٹ جائے اور خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے لیکن جس رفتار سے وارڈ بوائے اُسے دھکیل رہے تھے وہ یہ سب کچھ کرنے سے قاصر تھا ۔ اُس کی آنکھیں بھیگتی جارہی تھیں ۔ اچانک آگے آگے چلنے والی نرسوں میں سے ایک رُک گئی اور پھر اس نے راجندر کو وہیں ٹھہر جانے کا اِشارہ کیا ۔ وہ وہیں پر رک گیا ۔ بیوی پر الوداعی نظریں ڈالیں اور چپ چاپ اسٹریچر کو آگے جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔۔۔۔
آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور وہ سب اندر داخل ہوگئے ۔باہر بلب روشن ہوگیا اور اس سے اوپر لٹکی ہوئی دیوار گھڑی اپنا سفر طئے کرنے لگی ۔ راجندر کا دل بھر آیا ۔ وہ بلبلا کررونا چاہتا تھا لیکن دواخانے کے آداب اس کے عصاب پر سوار ہوگئے ۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا وہیں ایک بینچ پر بیٹھ گیا ۔ سگریٹ سُلگایا اور لمبے لمبے کش لینے لگا ۔
’’جانے اب کیا ہوگا ۔۔۔؟ ‘‘ کسی نے اس سے سوال کیا ، وہ چونک اُٹھا ، اس کی نظریں دیوار گھڑی پر اُٹھیں ، ٹک ٹک ٹک کی آوازیں اس کے پورے وجود کے اندر گونجنے لگیں ۔ اُس نے ایک طویل کش لیا اور اپنے اطراف کا جائزہ لینے لگا ۔ پورے ماحول پر گھڑی کی ٹک ٹک ٹک کی حکمرانی تھی ۔ اُسے چکّر سے آنے لگے ۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور پھر آہستہ سے اپنا سر بینچ کی پشت پر ٹکادیا ۔ اس کی آنکھوں میں دھواں سا بھر گیا ار جب اس نے آنکھیں کھولیں تو منظر بدلا ہوا تھا ۔وہ پلنگ پر لیٹا ہوا تھا اور اوشا سنگھار میز کے سامنے کھڑی بال جھٹک رہی تھی ۔اُس نے خمار آلود نظروں سے اُس کی طرف دیکھا ، جمائی لی ،اور پھر آہستہ سے پلنگ سے اُٹھا اور پیچھے سے اُسے اپنی باہنوں میں بھرلیا ۔ اوشا نے بالوں کو ایک جھٹکا دیا اور پھر ترچھی نظروں سے پوچھا ، ’’ اُٹھ گئے آپ۔‘‘
راجندر نے اس کے کاندھے پر اپنا سر رکھتے ہوئے جواب دیا ، ’’ سویا ہی کب تھا ۔۔۔؟ ‘‘
’’آپ سوئے نہیں تھے ؟‘‘ او شا نے شریر نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔
’’اوں ہوں ۔۔۔ میں تو جاگتی آنکھوں سے ایک خواب دیکھ رہا تھا ۔۔۔! ‘‘
اوشا اس کی باہنوں میں گھوم گئی اور پھر اس کی آنکھوں میں سچّائیاں تلاش کرنے لگیں ۔
’’ ارے بھئی بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ سناؤں تمھیں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ سّناؤ ۔۔۔! ‘‘ اوشا نے پلکیں جھپکائیں ۔
اُس نے کان میں آہستہ سے کچھ کہا اور اوشا نے پوری قوت سے اُسے پرے دھکیل دیا ۔ اس کے چہرے پر حیا کی سُرخی دوڑگئی،’’بڑے بے شرم ہیں آپ! ‘‘
راجندر کے لبوں سے قہقہہ نکل گیا ۔ وہ پھر ایک بار اس کی طرف بڑھا ، ’’ کمال کرتی ہو تم بھی ۔۔۔ آدمی شادی کس لیے کرتا ہے ۔۔۔آں ۔۔۔؟ ‘‘
اوشا اور بھی شرما گئی ۔
’’اوشا ۔۔۔! ‘‘ راجندر نے بڑے پیار سے اُسے پکارا ، اس نے نظریں اوپر کیں ایک لمحہ راجندر کی طرف دیکھا اور پھر دونوں ہاتھوںمیں اپنا چہرا چھپالیا ۔ راجندر نے اسے پھر ایک بار اپنی باہنوں کے سخت جال میں کس لیا اور اس کے کان میں سرگوشیاں کرنے لگا ، ’’ اس طرح شرماؤگی تو تو کیسے ہوگا ۔۔۔؟ سنو ۔۔۔! بچّے مجھے بے حد پسند ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارا گھر ان سے بھر جائے ۔ جدھر بھی نگاہ اُٹھے بچّے ہی بچّے نظر آئیں ۔۔۔ کیا تم میری اس خواہش کو پورا کرسکتی ہو ۔۔۔؟ ‘‘ اُس نے اُنگلی سے اس کی تھوڑی کو اوپر اُٹھایا اور اوشا بے قابو ہوکر اس کے سینے سے لگ گئی ۔ ایک طوفان اس نے اپنے اندر بھی محسوس کیا تھا اور پھر کچھ ہی لمحوں میں پورا گھر دونوں کی ملی جلی ہنسی کی آوازوں سے مہک اُٹھا ۔
اچانک ہوا کا ایک باغی جھونکا طوفانِ بد تمیزی کے ساتھ کمرے کی بند کھڑکیوں سے ٹکرایا اور اُن کے پٹوں کو کھولتا ہوا اندر تک در آیا اور ٹیبل پر رکھے ہوئے سارے ہی کاغذات بکھر گئے ۔ راجندر اُنھیں سمیٹنے لگا اور اوشا کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی ۔ باہر موسم بدل رہا تھا ۔ آسمان پر بادل چھاگئے تھے ۔ ہوائیں شدّت احتیار کرتی جارہی تھیں ۔ کاغذات کو دوبارہ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ بھی کھڑکی کے پاس چلا آیا اور باہر جھانکنے لگا ، ’’ کیا دیکھ رہی ہو اوشا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ لگتا ہے برسات ہوگی ۔۔۔! ‘‘ وہ اُسی طرح کھڑی رہی ۔ راجندر نے پھر ایک بار اُس کے کانوں میں سرگوشی کی ، ’’جانتی ہو برسات ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ ‘‘ اوشا نے پلٹ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔
’’ ویاکُل دھرتی کی پیاس مٹ جاتی ہے اور پھر اس کی گود میں ننھی ننھی کونپلیں کھیلنے لگتی ہیں ۔۔۔ تم بھی تو دھرتی ہو ۔۔۔! ‘‘
اوشا تیزی سے اُس کی گرفت سے نکلی ۔ باہر ہلکی ہلکی پھوار شروع ہوچکی تھی اُس نے راجندر کو آواز دی ، ’’ راجندر ۔۔۔ یہاں آؤ ۔۔۔جی بھر کر بھیگتے ہیں ۔ ‘‘
اور پھر دونوں برسات میں بھیگنے لگے ۔
کھٹ کی آواز کے ساتھ آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ایک نرس بے تحاشہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی ۔ راجندر کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ وہ بینچ سے ا ٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے آپریشن تھیٹر کے پاس پہنچ گیا ۔ دروازہ اندر سے بند تھا ۔ وہ وہیں پر کھڑا رہ گیا ۔ اُس نے نظریں اوپر کیں ، گھڑی اب بھی اُسی رفتار سے چل رہی تھی ۔ وہ دوبارہ اُسی بینچ پر آکر بیٹھ گیا ۔ سگریٹ اس کی اُنگلیوں میں جل رہی تھی اور منہ سے دھواں نکل رہا تھا اور بھائیں بھائیں کرتی رات کسی چُڑیل کی طرح دانت اِچک رہی تھی ۔۔۔
’’ جانے اوشا اب کیسی ہوگی ۔۔۔ ‘‘کسی نے پھر سرگوشی کی تھی اور وہ جلدی جلدی کش پر کش لینے لگا ، ’’ بہت شوق تھا نا تمھیں باپ بننے کا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ یہ غلط ہے ۔۔۔ مجھے یہ شوق تھا ہی نہیں ۔۔۔ مجھے تو یہ احساس دلایا گیا تھا ۔۔۔ ورنہ میں اپنی زندگی سے ہر طرح سے مطمین تھا ۔ کوئی تناؤ نہیں تھا ۔ ہم دونوں ہر روز سیر سپاٹے کو جاتے اور زندگی کی مسرتوں سے اپنا دامن بھرلیتے ۔۔۔ اُس دن بھی ہم دونوں معمول کے مطابق سدھارتھ گارڈن گئے تھے ۔۔۔ لیکن کاش اُس روز ہم نہ جاتے ۔۔۔ اُس کا سر پھر ایک بار بینچ کی پُشت سے ٹک گیا ۔ اس نے آنکھیں موند لیں ۔۔۔ اور پھر بند آنکھیں چپکے سے سدھارتھ گارڈن میں کھل گئیں ۔ ۔۔
ناریل کے درختوں سے گُل مہر کے پیڑوں تک دوڑنے کی اُن دونوں میں شرط لگی تھی ۔ وہ کسی ہرنی کی طرے چھلانگتی ہوئی اُس سے بہت دور نکل گئی تھی اور وہ دس منٹ کے بعد ہی ہانپنے لگا تھا ۔ وہ اسی طرح بھاگی جارہی تھی اور راجندر ۔۔۔ ایک پیڑ کی آڑ میں چھپا تیز تیز سانسیں لے رہا تھا ۔ بہت دور جاکر جب اوشا نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اکیلی تھی ۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر آوازیں دینے لگی اور وہ اپنی جھینپ مٹانے پیڑ کی آڑ میں ہانپ رہا تھا ۔۔۔ وہ واپس لوٹی اور جونہی اُس پیڑ کے قریب آئی ۔ راجندر نے اُسے اپنی باہنوں میں بھرلیا ۔ اُس کی سانسیں اب بھی اُسی رفتار سے چل رہی تھیں ۔
’’ کیا ہوا راجندر ۔۔۔تھک گئے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔! ‘‘ اُس نے جواب دیا ، ’’ تھک بھی گیا اور ہار بھی گیا ۔۔۔! ‘‘
’’ ارے تھک تو میں بھی گئی ہوں ۔۔۔آج تم تھوڑی محنت اور کرلیتے تو شاید مجھے ہرا دیتے ۔!‘‘
راجندر نے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا ، ’’ میں تمھیں شکست خوردہ دیکھنا نہیں چاہتا ہوں ۔۔۔! ‘‘
’’ جھوٹے کہیں کے ۔۔۔! ‘‘ وہ خود سپردگی کے عالم میں اُس سے لپٹ گئی ۔
’’ اوشا ۔۔۔! میں عمر میں تم سے پورے بیس برس بڑا ہوں ۔ ہار نہیں جاؤں گا تو کیا ہوگا ۔ ۔۔؟ تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ وقتِ شام آخر سورج کو ڈوبنا ہی پڑتا ہے ۔ ‘‘
اوشا نے چونک کر راجندر کی طرف دیکھا ، لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا پھر وہ بلاوجہ ہی ہنسنے لگی ۔
سورج غروب ہورہا تھا ۔ وہ دونوں گارڈن سے باہر نکلے اور بس کا انتظار کرنے لگے ۔ بس اسٹاپ پر معمول کے مطابق اچّھی خاصی بھیڑ تھی ۔ اچانک دونوں کے کانوں سے ایک سرگوشی ٹکرائی ، ’’سدھا ۔۔۔وہ ۔۔۔ وہ جو شخص کھڑا ہے تم اُسے جانتی ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’نہیں تو ۔۔۔! ‘‘ عورت کے چہرے پر حیرت تھی ۔
’’ارے بہت بڑا اد یب ہے وہ ۔۔۔ راجندر سہائے ۔۔۔! ‘‘
راجندرکے چہرے پر فخرتہ مسکراہٹ ابھری اور اوشا نے کسی مورنی کی طرح اس کے غرور کو اپنی آنکھوں میں سمیٹ لیا ۔
’’اور وہ لڑکی ۔۔۔ جو اُس کے ساتھ ہے ۔۔ وہ ۔۔۔؟ ‘‘ عورت نے اوشا کو دیکھ کر سوال کیا ۔
’’ اُس کی بیوی ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ بیوی ۔۔۔؟ عورت کے چہرے اور لہجے میں طنز اُبھر آیا ، ’’ میں سمجھ رہی تھی اُس کی بیٹی ہے ۔ ‘‘
راجندر کا چہرا ایک دم اُتر گیا اور اوشا زمین کو گھورنے لگی ۔
’’ شش آہستہ بولو ۔۔۔ انھیں کوئی اولاد بھی نہیں ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ ہو بھی نہیں سکتی ۔۔۔ عمروں میں اتنا فرق ہو تو اولاد ہوگی کیسے ۔۔۔؟ ‘‘
اوشا نے تیزی سے راجندر کی طرف دیکھا اور راجندر کی گردن جھک گئی ۔ اس نے بہت کوشش کی کہ اپنی گردن کو اوپر اُٹھا سکے لیکن ناکام رہا ۔ اُس کی گردن ا سی طرح جھّکی رہی ۔
دیوار گھڑی کسی جلّاد کی طرح ہنٹر برسانے لگی اور راجندر نے نیند سے آنکھیں کھولیں زیرو بلب روشن تھا ۔ اوشا اس کی بغل میں سو رہی تھی ۔ اس نے چاروں طرف دیکھا اور پھر اُس کی نظریں گھڑی پر ٹِک گئیں ۔ ۔۔ ٹک ٹک ٹک کی آوازوں میں ایک طنزیہ قہقہہ اُسے سُنائی دیا ، ’’ ہو بھی نہیں سکتی ۔۔۔ عمروں میں اتنا بڑا فرق ہو تو اولاد کیسے ہوگی ۔۔۔؟ ‘‘
وہ اُٹھ بیٹھا ۔ سرہانے سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور اُسے سلگانے کی خاطر جونہی لائٹر کا بٹن دبایا ، آواز آئی ، ’’ عمروں میں اتنا بڑ ا فرق ہو تو اولاد ہوگی کیسے ۔۔۔؟ ‘‘
وہ گھبرا گیا ۔ اُس نے سوئی ہوئی اوشا پر نظریں ڈالیں ، تو اُس کے پیٹ نے بھی وہی سرگوشی کی ۔ وہ کھڑا ہوگیا ۔ کمرے کی ہر دیوار اب بولنے لگی تھی ۔ وہ بے تا بانہ ٹہلنے لگا ۔ اُس کے چاروں طرف وہی جملہ گونج رہا تھا ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے لیکن آوازوں کا شور اُس کے اپنے اندر سنائی دینے لگا ۔ وہ آنکھیں بند کیے کسی مجرم کی طرح کھڑا تھا ۔
رفتہ رفتہ آوازیں کم ہوتی گئیں اور جب مکمل سنّاٹا ہوگیا تو اُس نے چپکے سے سنگھار میز میں جھانکا ۔۔۔ آئینے نے بھی وہی بات دُہرائی ۔وہ پلٹ کر کھڑا ہوگیا ۔ تو آئینے نے سوال کیا ، ’’راجندر ۔۔۔! اِس عمر میں تمھیں شادی کا شوق کیوں چرایا تھا۔۔۔؟ جواب دو ۔۔۔ ہر عورت کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ ماں بن جائے ۔ اُس کی گود آباد ہوجائے ۔ اُس کے اطراف بچوں کی کلکاریاں ہوں ۔ ایک ہنگامہ ہو ۔۔۔اور وہ سارے سماج کے سامنے سر اُٹھا کر کہہ سکے کہ دیکھو ۔۔۔ میں ماں ہوں ۔۔۔ ماں ۔۔۔لیکن تم نے اوشا کو کیا دیا ۔۔۔؟ آج شادی ہوکر پورے پانچ برس ہوچکے ہیں ۔ اُس کی گود آج بھی خالی ہے ۔ سونی ہے ۔ اُداس ہے ۔ کیا دیا تم نے اوشا کو ۔۔۔ اور کیا پتہ آئیندہ بھی کچھ دے سکو۔۔۔ ؟ کیا سوچ رہے ہو راجندر ۔۔۔ میرے سوالوں کا جواب دو ۔۔۔! ‘‘
’’ اِس شادی کے لیے میں کب تیار تھا ۔۔۔، اُسی نے تو یہ پرستاؤ رکھا تھا ۔ مجھے مجبور کیا تھا ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ تو میری دیوانی تھی ۔۔۔! ‘‘
’’ جھوٹ ۔۔۔! ‘‘ آئینہ پوری شدّت سے چیخا ، ’’ وہ تمھاری نہیں ، تمھارے لکھے ہوئے لفظوں کی دیوانی تھی ۔ تمھارے لفظ اور تم میں بہت بڑا فرق ہے راجندر۔ لفظ کی عمر کبھی نہیں ڈھلتی ، لیکن انسانی عمر کا سورج تو ڈھلتا بھی ہے ۔۔ ہے نا ؟ یہ بات تو تم اچھی طرح جانتے تھے ۔۔۔ پھر ۔۔۔پھر تم نے ۔۔۔! ‘‘
’’ تم مجھے اُس گناہ کا قصوروار ٹھہرانا چاہتے ہو جس کا مجرم میں ہوں ہی نہیں۔ ۔۔میں کہہ چکا ہوں کہ شادی کا پرستاؤ خود اوشا ہی لے کر آئی تھی ۔۔۔! ‘‘
’’ آئی ہوگی ۔۔۔وہ تو کم سن بھی ہے اور نادان بھی ۔۔۔ لیکن تم ۔۔۔ تم تو نادان نہیں تھے ۔ کیا تم اُسے سمجھانہیں سکتے تھے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ یہ بھی جھوٹ ہے ۔۔۔! ‘‘ راجندر کی آواز بھراگئی ، ’’ میں نے اُسے بہت سمجھایا تھا ، لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی ۔۔۔! ‘‘
’’ تو پھر اب پچھتاتے کیوں ہو ۔۔۔؟ ایک بات اور سُن لو راجندر ۔۔۔ زہر کے اس پیالے کا انتخاب خود تم نے کیا ہے اور اب یہ تمہاری مرضی ہے ، چاہو تو اسے گھونٹ گھونٹ پیو ۔۔۔ چاہو تو ایک دم پی لو ۔۔۔؟ ‘‘
وہ اپنا سر پکڑھ کر بیٹھ گیا ۔
’’ راجندر۔۔۔! ‘‘ اوشا کی حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی ۔ اُس نے جلدی سے اپنی آنکھوں کو خشک کیا، اور جونہی اُس کی طرف پلٹا ۔ وہ اُس کے بہت قریب پہنچ چکی تھی ، ’’کیا بات ہے راجندر ۔۔۔ تم ابھی تک سوئے نہیں ۔۔۔؟ ‘‘ اُس نے محبت سے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں اور راجندر اُس سے بُری طرح لپٹ گیا اور پھر چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، ’’ اوشا ۔۔۔ اوشا میں سونا چاہتا ہوں ، بہت گہری نیند سونا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں نیند میری آنکھوں سے چوری ہوگئی ہے اور میرے چاروں طرف جاگ کے راکھشس نیزے لیے کھڑے ہیں ۔ میرے دل و دماغ کو زخمی کر رہے ہیں ۔ میں کیا کروں اوشا ۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔؟
اوشا کچھ بھی نہ سمجھ سکی تھی ۔ وہ اسے بستر پر لے آئی اور پھر کسی معصوم بچّے کی طرح اپنی آغوش میں سمیٹ کر سوگئی ۔
’’بابوجی ماچِس ۔۔۔؟ ‘‘
کسی کی ایک تیلی کی خواہش نے اُسے احساس دلادیا کہ اس وقت وہ کہاں پر ہے ۔ اُس نے آنکھیں کھولیں اور وارڈ بوائے کی طرف گھور کر دیکھا ۔
’’ میں نے کہا بابوجی ماچس ہے آپ کے پاس ۔۔۔؟ ‘‘
راجندر نے اپنا لائٹر اُس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔ اُس نے لائٹر کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا ۔ بیڑی سلگائی اور پھر واپس کرتا ہوا بولا ، ’’ امپورٹیڈہے ۔۔۔؟ ‘‘
راجندر نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
وہ ایک لمحہ وہیں کھڑا رہا اور پھر آگے بڑھ گیا ۔
’’ اوشا کو کچھ ہوگیا تو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ تم چپ کیوں نہیں بیٹھتے ۔۔؟ بار بار میرے کانوں میں سرگوشیاں کیوں کرتے ہو ۔۔۔؟ ‘‘ اُس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ پتہ نہیں کون ہے ۔ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب دیتا ہے ۔۔۔ یہ سرگوشیاں میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتیں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ چھوڑا سکتے ہو پیچھا ۔۔۔؟ انسان اور گھڑی میں یہی فرق ہے ۔ گھڑی راستہ طئے کرتی ہے اور ہر گزرے ہوئے لمحے کو بھول جاتی ہے لیکن انسان ہر گزرے ہوئے لمحے کی یاد میں آنے والے لمحات کو بھی ضائع کردیتا ہے ۔۔۔! ‘‘
اُس نے نظریں اوپر کیں
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔۔۔
گڈ مارنگ سر
گڈ مارنگ سر
گڈ مارنگ سر
وہ راستہ طئے کرتا ہوا اپنے کیبین میں پہنچ گیا ۔ سامنے ٹیبل پر تازہ ڈاک اُس کی منتظر تھی ۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا تبھی کیبین کی چٹخنی سے آواز آئی ، ’’ میں اندر آسکتا ہوں ۔۔۔! ‘‘
اُس نے گردن اوپر اُٹھائی ، مسٹر مہتہ نے اُس کے سامنے فائل پھیلا دی اور اِس سے پہلے کہ اس کا غصّہ اپنی زبان کھولتا ، مسٹر مہتہ نے کہنا شروع کیا ، ’’ سر مسٹر گپتا کی اپلی کیشن آگئی ہے ۔ انھوں نے ایک مہینے کی رخصت اور مانگی ہے ۔۔۔ اُن کی لڑکی کی شادی ہے ۔۔۔! ‘‘
اُس کا غصّہ مسکراہٹ میں تبدیل ہوگیا اور اُس نے فوراً فائل پر دستخط کر دیے ۔ اُسے اپنے اطراف عجیب طرح کی مسرتوں کا احساس ہونے لگا تھا ۔ جونہی مسٹر مہتہ جانے کے لیے پلٹے اس نے اُنھیں آواز دی ، ’’ مسٹر مہتہ ۔۔۔ گپتا صاحب کو لکھو ، اگر انھیں پیسوں کی ضرورت ہو تو فوراً معلوم کریں ۔ انتظام کردیا جائے گا ۔۔۔! ‘‘
مسٹر مہتہ نے راجندر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ اُنھیں اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔ آج پہلی مرتبہ انھوں نے آگ کو پانی میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا تھا ، ’’ لیکن سر ۔۔۔ وہ تو سارے ہی ایڈوانسس اُٹھا چکے ہیں ۔۔۔! ‘‘
راجندر نے سگریٹ کا طویل کش لیا ، ’’ تم اِسے نہیں سمجھوگے مسٹر مہتہ ۔۔۔میں انھیں اپنے کریڈٹ پر دے دوںگا ۔۔۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی زندگی شروع کی تھی ۔ اس فرم میں وہ کلرک سے سینئر کلرک ہوگئے اور میں آفیس سپرنٹنڈنٹ سے مینجر ہوگیا ۔۔۔! ‘‘
مسٹر مہتہ کیبین سے باہر نکلے تو آفیس کے سارے ہی اسٹاف نے انھیں گھیر لیا ۔ مینا کشی نے اِٹھلاتے ہوئے سوال کیا، ’’ مہتہ جی ۔۔۔آج کس کے نام میمو اِشو کرنا ہے ۔۔۔؟ ‘‘
مہتہ کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی مرید اپنے پیر کی بارگاہ سے تسخیرِ کائنات کا نسخہ لے کر آیا ہو ۔۔۔ انھوں نے سب پر اُچٹتی ہوئی ایک نگاہ ڈالی ، ’’ کل تک گپتا صاحب کی غیر حاضری پر صاحب کس قدر برہم تھے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ اور آج ۔۔۔؟ ‘‘ ساری سرگوشیاں اُڑ کر راجندر کی کیبین میں آپہنچی ۔ اُس نے اخبار کی سرخیوں سے اپنی نظریں بلند کیں تو ہوا کے قلم سے لکھی ہوئی تحریریں سانسوں کی طرح اُس کے اطراف گردش کرنے لگیں ۔
’’ صاحب تو کہہ رہے تھے کہ گپتا صاحب کو لکھو ، اگر انھیں پیسوں کی ضرورت ہوگی تو وہ اپنے کیریڈٹ پر انتظام کر دیں گے ۔ ‘‘
’’ یہ تو چمتکار ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ بتا رہے تھے کہ دونوں نے ساتھ ہی زندگی شروع کی تھی ۔ ‘‘
’’ اچھّا ۔۔۔ ! ‘‘ میناکشی پھر طنز پر اُتر آئی ، ’’ ایک گپتا صاحب ہیں جو اس وقت اپنی بیٹی کی شادی کر رہے ہیں اور ایک یہ ہیں ، جو اس عمر میں شادی کرکے ہنی مون منا رہے ہیں ۔ ‘‘
قہقہہ اتنی شدّت کے ساتھ گونجا کہ راجندر کی کیبین کی ہر چیز لرز اُٹھی ، وہ اس کے بعد یہ بھی نہ سن سکا کہ مسٹر مہتہ نے کیا کہا ۔ اُس کے منہ سے دھواں نکل رہا تھا اور انگلیوں میں سگریٹ جل رہی تھی ۔
’’ راجندر بابو ۔۔۔! ‘‘ عبداللہ میاں اچانک کیبین میں داخل ہوئے اور اُس نے اپنی سوچ کے کھلے ہوئے دروازوں کو بند کیا ، عمر کی مسافت میں عبداللہ میاں اُس کے لیے کوئی سایہ دار درخت تو نہ تھے لیکن پھر بھی ایک ایسا احساس ضرور تھے جن سے مل کر وہ اپنی محرومیوں کا ازالہ کرلیا کرتا تھا ۔ اُس کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’ اب آپ سے کیا کہوں گھر کی باتیں ۔۔۔ شرم بھی آتی ہے ۔مگر کیا کروں صبر نہیں ہوتا ۔۔۔ ‘‘ عبداللہ میاں کی آنکھیں تقریباً بھیگ گئیں ۔ راجندر اپنی کرسی سے اُٹھا اور اُن کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا اور پھر اُن کے کاندھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ، ’’ عبداللہ میاں اب کیا پریشانی ہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ راجندر بابو آخر یہ اولاد اتنی بے رحم کیوں ہوتی ہے ۔ کیا سمجھتی ہے یہ ماں باپ کو ۔۔۔؟ ‘‘ عبداللہ میاں خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہے جارہے تھے ، ’’ پاگلوں کی طرح ان کے لیے مر مر کرو ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن اُنھیں کوئی احساس نہیں ۔۔۔ آپ کو پتہ ہے وہ بڑے صاحبزادے ۔۔۔‘‘
’’ ارے بھئی شادی کرکے الگ ہوگیا ۔۔۔ ٹھیک ہے گزارنے دیجیے اُسے اُس کی مر ضی کی زندگی ۔۔۔! ‘‘ راجندر پھر ایک بار اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔
’’ لیکن ماں باپ کی بھی تو کوئی خواہش ہوتی ہوگی ۔۔۔؟ ‘‘ عبداللہ میاں کی آواز قدرے اونچی ہوگئی ، ’’ چھوٹے سے بڑا کیا ، پڑھایا لکھایا۔ کیا نہیں کیا اُنکے لیے ۔۔۔ آج نوکر ہوگئے ۔ دو پیسے کمانے کے قابل ہوگئے تو الگ ہوگئے ۔۔۔؟ ہمیں کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ لیکن کبھی کبھار تو آکر اپنا چہرا ہی دکھایا کرو ۔۔۔؟ یہ بھی نہیں ہوتا اُن سے ۔۔۔ راجندر بابو کس قدر زمانہ بدل گیا ہے ۔ ‘‘
’’ عبداللہ میاں جب زمانہ ہی بدل گیا ہے تو آخر تم کیوں نہیں بدل جاتے ۔۔۔؟ وہ اگر صورت نہیں دکھانا چاہتے ہیں تو نہ دکھائیں ۔۔۔ کیا تم صبر بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ صبر ۔۔۔؟ ‘‘ عبداللہ میاں اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور پھر بے چینی سے ٹہلنے لگے اُن کے دل میں چھریاں سی چل رہی تھیں ، ’’ صبر ۔۔۔ باپ ہوکر بھی صبر ۔۔۔؟ ارے صبر تو وہ ابھاگا کرے گا جس کو اولاد ہوئی ہی نہ ہو ۔۔۔؟ ‘‘
دونوں کی نظریں ٹکرائیں اور عبداللہ میاں کو جیسے ایکدم ہوش آگیا کہ یہ میں نے کیا کہہ دیا۔ وہ نظریں چُرانے لگے ۔ راجندر نے اپنے آپ کو بہت سنبھالنے کی کوشش کی لیکن اُس کی نظریں نیچے سے اوپر نہ اُٹھ سکیں ۔ عبداللہ میاں نادم سے کھڑے تھے اور کیبین سے باہر ٹائپسٹ وقت کو ٹائپ کر رہا تھا ۔ ٹک ٹک ٹک ۔۔۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔
اوشا نے گھڑی کی طرف دیکھا ، ’’ بہت دیر لگادی آج آپ نے ۔۔۔؟ ‘‘ وہ ٹیبل پر کھانا لگانے لگی ۔
’’ ہاں ۔۔۔ دیر ہوگئی ۔۔۔‘‘ اُس نے مختصر سا جواب دیا اور چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گیا ۔ دونوں کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے ۔
اوشا نے اُس کی طرف دیکھا ، آج اُس کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی چھلک رہی تھی ، ’’ ابھا ملی تھی آج ۔۔۔‘‘ اُس نے آہستہ سے اطلاع دی ۔ راجندر کے کان کھڑے ہوگئے اور نوالہ ہاتھ ہی میں رُک گیا ۔ وہ اوشا کی طرف تیز نظروں سے دیکھنے لگا ۔
’’ وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔‘‘ دونوں کی نظریں ملیں اور اوشا خاموش ہوگئی ۔ اُسے بے چینی سی ہونے لگی ۔’’ کیا کہہ رہی تھی وہ ۔۔۔؟ ‘‘ اُس کا لہجہ قدرے اونچا ہوگیا ۔
’’ آپ اس قدر گھبراتے کیوں ہیں ۔۔۔؟ ‘‘
راجندر نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اُس کے کان اب بھی کسی سخت طنز کا انتظار کر رہے تھے ۔ دونوں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ راجندر کا دل دھڑکنے لگا ۔ اُسے عجیب سے وسوسے ستانے لگے ۔ اُس کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثار نمودار ہونے لگے ، اور پھر وہ اُسی لہجے میں بولا ، ’’کہتی کیوں نہیں ۔۔۔ آخر کیا کہا اُس نے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ سنیں گے تو جناب اِترانے لگیں گے ۔‘‘
راجندر کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اوشا کی طبعیت کی شوخی عود کر آئی ۔
’’ یعنی اُس نے میرے متعلق کچھ کہا ہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ جی ہاں ۔۔۔ کہہ رہی تھی ، اوشا تیرا ہسبنڈ کتنا بڑا لیکھک ہے ۔ کتنا فیمس ہے ۔ لوگ تو تیرے نصیب سے جلتے ہونگے ۔‘‘
راجندر کے اندر کا ادیب پورے فخر کے ساتھ باہر آیا ، ’’ پھر کیا جواب دیا تم نے اُسے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ میں کیا جواب دیتی ۔۔۔؟ بس اترانے لگی تھی تم پر ۔۔۔ اچھّا راجندر اگر کوئی شخص تمہارے سامنے میری تعریف کرے تو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ تو میں اُس کی جان لے لوں گا ۔۔۔ بیوی میری ہے ۔ تعریف کا حق بھی صرف مجھے ہی حاصل ہے ۔۔۔ سمجھیں ۔۔۔؟ ‘‘
اوشا نے سہمی ہوئی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور پھر چپ چاپ کھانے میں مصروف ہوگئی ۔
دیوار گھڑی نے دس بجنے کا اعلان کیا اور وہ خاموشی سے اپنے رائٹنگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا ۔ آج اُس کے دماغ میں ایک جوالا مکھی تھا اور لفظ شعلوں کی صورت کاغذ پراُترتے جارہے تھے کہ اچانک اوشاکی آوازاُس کے کانوںسے ٹکرائی، ’’راجندر، رات کافی ہوچکی ہے ۔ آج سونا نہیں ہے کیا ۔۔۔؟ ‘‘اُس نے پلٹ کر دیکھا شب خوابی کے لباس میں اوشا قیامت ڈھا رہی تھی ۔ ایک لمحے کے لیے وہ بے قابو ہوگیا اور جونہی اُس نے اُس کے بدن کو چھوا ، وہ خود سپردگی کے عالم میں اُس سے لپٹ گئی ، ‘‘ راجندر۔۔۔ میں بھی ایک کاغذ ہوں ۔۔‘’ اُس کی آواز میں ایک نشہ تھا اور آنکھوں میں کئی کہانیاں پھڑ پھڑا رہی تھیں ۔ راجندر کے دماغ میں بسی کہانی دم توڑ گئی اور وہ اُٹھ گیا۔دورریلوے اسٹیشن پر ایکسپریس ٹرین بنا رُکے دندناتی ہوئی گزر گئی۔۔۔۔
موذن نے اذان دی ۔ مندروں کی گھنٹیاں بج اُٹھیں ۔ پرندوں کی ڈاریں آسمانوں میں پرواز کرنے لگیں اور سورج نے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ راجندر چپکے سے بستر سے نکلا اور روٹھی ہوئی کہانی کے کلائمکس کو منانے لگا ۔
’’ آپ پھر لکھنے بیٹھ گئے ۔۔۔؟ ‘‘ اوشا گیلے بالوں پر تولیہ کستے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی ۔
’’ کیا کروں ۔۔۔ رات کو تم نے لکھنے نہیں دیا تھا ۔۔۔ اب اُسے مکمل کر رہا ہوں ۔۔۔‘‘ راجندر نے بنا گردن اُٹھائے جواب دیا اور وہ اِٹھلاتے ہوئے اُس کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ۔
’’ آپ کتنی شردھا سے کہانیاں لکھتے ہیں ۔۔۔! ‘‘
’’ اوشا ۔۔۔! ‘‘ راجندر اُس کی طرف دیکھنے لگا ، ’’ یہ کہانیاں نہیں ، بلکہ یہ وہ بستیاں ہیں جنھیں میں آباد کر تا ہوں ۔ اس میں آباد ہر فرد میں ہی ہوں ۔ میں اِن بستیوں میں ہنستا ہوں ، روتا ہوں ، کھیلتا ہوں ، باتیں کرتا ہوں ، اور کاغذ پر آباد ان سارے کرداروں کو وہ سب کچھ دیتا ہوں جو وہ چاہتے ہیں ۔‘‘
’’ اور میں جو چاہتی ہوں ۔۔۔؟ ‘‘ اوشا اس کے آگے ایک لفظ بھی نہ کہہ سکی ۔ اُس کی آواز بھراگئی ۔ راجندر تڑپ کر رہ گیا ۔ پہلی بار اُسے احساس ہوا کہ کاغذ پر جس دنیا کو وہ آباد کر رہا ہے وہ کتنی مصنوعی ہے ۔ بیجان ہے ۔ اُس نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان کڑ کھڑاکر رہ گئی ۔۔۔ٹھیک اُسی وقت کال بیل بجنے لگی ۔
’’ دیکھو۔۔۔ شاید دودھ والا ہوگا ۔‘‘
اوشا کچن میں داخل ہوئی ۔ وہ بھی اس کے پیچھے چلا آیا ، وہ دودھ کا برتن دھونے لگی ۔ ٹھیک اُسی وقت دونوں کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی ، ’’دودھ والے ، تم سے ہزار مرتبہ کہا ہے کہ پہلے دودھ ہمارے گھر دیا کرو ۔۔۔ لیکن تمہاری سمجھ میں نہیں آتا ۔ ارے ان لوگوں کو دودھ کی اہمیت کا کیا اندازہ ۔۔؟ بال نہ بچّہ ۔۔۔؟ ‘‘
دونوں جہاں تھے وہیں ساکت ہوگئے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ دونوں کے دماغ میں عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ دونوں کی نظریں جھُک گئیں۔ اور کچھ ہی لمحوں کے بعد اوشا تیزی سے صدر دروازے کی طرف بڑھی ۔۔۔ راجندر کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اُس نے سامنے کی دیوار کی طرف دیکھا ۔ دیوار پر کلینڈر آویزاں تھا اور کرشن بھگوان اپنی گوپیوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھے ۔۔۔
وہ چپ چاپ پھر ایک بار اپنے رائٹنگ ٹیبل پر چلا آیا اور لکھنے میں مصروف ہوگیا ۔ دودھ کا برتن لیے اوشا اس کے مقابل کھڑی تھی ، ’’ جگ بیتی لکھنے والے ادیب اگر حوصلہ ہے تو آپ بیتی لکھو ۔۔۔ لکھو کے کس طرح ہماری زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔۔۔! ‘‘ اُس کی آنکھوں سے آنسووں کا ایک سیلاب جاری ہوگیا ۔
’’ اوشا ۔۔۔! ‘‘ اُس نے بڑے پیار سے اُسے پکارا ، ’’ اس طرح روتے نہیں ۔۔۔! ‘‘ پھر وہ سمجھانے لگا ، ’’ ارے پگلی اولاد تو میرا بھی دکھ ہے ۔ طنز کے نشتر میں بھی سہتا ہوں ۔۔۔ بلکہ میں تو اس کے علاوہ بھی بہت کچھ سہتا ہوں ۔۔۔ لیکن کیا ان بے پر کی باتوں میں اُلجھ کر ہم اپنا سکون بھی برباد کرلیں ۔۔۔؟ نہیں نہیں اوشا ۔۔۔ مجھے بھگوان پر پورا وشواس ہے وہ ہمارے ساتھ انصاف کرے گا ۔۔۔! ‘‘
اوشا نے اس کی طرف دیکھا ۔ اُسے اس کے چہرے پر عجیب سا اطمینان نظر آیا ۔ پھر وہ رفتہ رفتہ سنبھل گئی ۔ اُس نے اپنے آنسوں پونچھ ڈالے لیکن مایوسی کی نقاب اب بھی اُس کے چہرے پر پڑی ہوئی تھی ، ’’لیکن راجندر، یہ انصاف وہ کب کرے گا ۔‘‘
’’ یہ راز جاننے کے لیے ہمیں اپنا میڈیکل چیک اپ کروانا ہوگا ۔۔۔! ‘‘
’’ میڈکل چیک اپ ۔۔۔؟ ‘‘ وہ پلٹ کر کھڑی ہوگئی ، ’’ مجھے نہیں کروانا ہے میڈیکل چیک اپ ۔۔۔! ‘‘
راجندر اپنی جگہ سے اُٹھا اور اُس کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا ، ’’ ارے اس میں برائی کیا ہے ۔ دیکھو تم تیار ہوجاؤ ۔۔۔ ہم ابھی چلتے ہیں ۔ میرا ایک دوست ہے اویناش ۔۔۔ ڈاکٹر اویناش ۔۔۔اُس سے ملتے ہیں وہ ہمیں ضرور بتائے گا کہ آخر ہماری گود کب ہری ہوگی ۔۔۔؟ ارے اُس طرح کھڑی کیا سوچ رہی ہو ۔۔۔؟ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔۔؟ جاؤ اور تیار ہوجاؤ ۔۔۔ میں بھی ابھی تیار ہوجاتا ہوں ۔‘‘
کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہوگیا ۔اورٹائی کی ناٹ درست کرنے کے لیے جونہی اُس نے سنگھار دان میں جھانکا ، تو آئینہ نے پھر سوال کیا ، ’’ تو تم میڈیکل چیک اپ کو جارہے ہو ۔۔ راجندر اگر خرابی تم میں نکلی تو ۔۔؟ یہ سوچا ہے تم نے ۔۔؟ اوشا پر اُس بات کاکیا اثر ہوگا ۔۔؟ ‘‘ آئینے سے طنزاً قہقہہ بلند ہوا ، ’’اپنے آپ کو بڑا سچّا ادیب سمجھتے ہو ، لیکن کمزور مرد ثابت ہونے کے بعد اپنی بیوی کو مکتی دے سکوگے ۔۔؟ اپنا بنجر سایہ اُس کی زندگی سے نکال سکوگے ۔۔؟ کیا سوچ رہے ہو راجندر ۔۔جواب دو۔۔‘‘
اس کا سارا بدن پسینے سے شرابور ہوگیا ۔ اُسے عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی ۔
’’ راجندر ۔۔۔ میں تیار ہوں ۔۔۔! ‘‘ اوشا نے اطلاع دی
’’ تیار تو میں بھی ہوں ۔۔۔ چلو چلتے ہیں ۔۔۔! ‘‘ وہ آئینے کے سامنے سے پلٹا اور پھر دونوں ڈاکٹر اویناش کے دواخانے کی طرف چل پڑے ۔
کتنا سخت امتحان تھا ۔۔۔ وہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور راجندر بے چینی سے ٹہل رہا تھا ۔ سگریٹ کا دھواں پورے کمرے میں بھر گیا تھا ۔
’’ بہت بے چین ہو ؟ ‘‘ اوشا نے خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی ، لیکن راجندر نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اُس کے دل و دماغ میں شدید جنگ ہورہی تھی۔
’’ میں کیا پوچھ رہی ہوں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ اُس کا جواب میرے پاس ہے ۔۔۔! ‘‘ ڈاکٹر اویناش رپورٹ لے کر اُن کے پاس پہنچ گیا ۔ راجندر کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا ۔ اور اوشا کہیں تحت الثریٰ میں بھٹک گئی ۔ ڈاکٹر نے دونوں کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا ۔ پھر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ بولا ، ’’ مبارک ہو ۔۔۔ جسمانی طور پر تم دونوں ہی تندرست ہو ۔۔۔! ‘‘
اوشا کا چہرا کھِل اُٹھا ۔ لیکن راجندر اب بھی اُسی کرب میں مبتلا تھا ، ’’ دیکھو ڈاکٹر ۔۔۔! اس معاملے میں مذاق مت کرنا ۔۔۔ مجھے جھوٹے دلاسوں کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ میں تمھیں سمجھتا ہوں راجندر ۔۔۔! ‘‘ ڈاکٹر نے اُس کی پیٹھ تھپتھپائی ، ’’ میں تمہاری کسی کمزوری کو کیوں چھپاؤں گا ۔۔۔؟ جبکہ میں اس سلسلے کی ہر کمزوری کا علاج کرسکتا ہوں ۔ میری رپورٹ پر یقین کرو ۔ میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔ بس وقت کا انتظار کرو ۔ ‘‘
’’ وقت ۔۔۔! ‘‘ اوشا نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور راجندر کی نظریں بے اختیار گھڑی پر ٹھہر گئیں۔۔۔
گھڑی معمول کے مطابق چل رہی تھی ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔۔
’’ عجیب وقت آگیا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ بڑا عجیب وقت آگیا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ تم چپ رہو ۔۔۔! ‘‘
’’ میں چپ رہوں ۔۔۔؟ ڈرتے ہو کہ کہیں میں تمہارے اندر کی سچائیوں کو ظاہر نہ کردوں ۔؟ ‘‘
’’ میرا ظاہر اور باطن آئینے کی طرح شفّاف ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ کیوں نہیں ۔۔۔ آئینے کی ہر بات میں بھی سنتا رہتا ہوں ۔۔۔! ‘‘
’’ تم چپ نہیں بیٹھ سکتے ۔۔۔؟ ‘‘ راجندر نے اپنے دونوں ہاتھ بینچ پر مارے اور پھر خود ہی چونک اُٹھا ۔ آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھل گیا تھا ۔ بلب خاموش تھا ۔ ڈاکٹر اور نرسیں باہر نکل رہی تھیں ۔ وہ تیر کی طرح اُٹھا اور تقریباً دوڑتا ہوا اُن لوگوں کے قریب پہنچ گیا ۔ اُس کی عجیب حالت تھی ۔ آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی اور گھبراہٹ نے سوال کیا ، ’’ ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ڈاک ۔۔۔! ‘‘
’’ صبح ہوش آجائے تو خطرے سے باہر ہے ۔۔۔! ‘‘
ڈاکٹر اور نرسوں کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔ وہ اُن کے پیچھے لپکا ، ’’ ڈاکٹر صاحب ۔۔پلیز ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔‘‘
لیکن ڈاکٹر نے پلٹ کر دیکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ البتہ اپنا ایک ہاتھ اوپر اُٹھاکر دلاسہ دینے کی کوشش ضرور کی تھی ۔ وہ دیوانوں کی طرح اُنھیں دیکھتا رہ گیا ۔
یکایک اُسے ہوش آیا اور وہ آپریشن تھیٹر کی جانب دوڑا ، لیکن دروازہ اندر سے بند تھا ۔ اُس کا جی بے اختیار چاہا کہ وہ دروازے کو زور زور سے پیٹے ۔ لیکن اس کے ہاتھ اُٹھے نہیں ۔ اس کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے اور وہ آپریشن تھیٹر کے دروازے کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا ۔
گھڑی اپنا سفر طئے کر رہی تھی ۔ ٹک ٹک ٹک ۔۔۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ اُس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں ۔ ۔۔۔
’’ محض اولاد کی لالچ میں تم نے اوشا کو اس حال میں پہنچادیا ۔۔۔! ‘‘ پھر کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
’’ تم بار بار مجھ پر الز ام کیوں عائد کرتے ہو ۔۔۔؟ حالانکہ اس کے ذمہ دار تم خود ہو ۔۔۔ تم ۔۔۔تم اور تمہارے جیسے افراد ہی نے ہمارا جینا دوبھر کر رکھا تھا ۔۔۔ اور آج ۔۔۔۔؛ ‘‘
’’ جھوٹ ۔۔۔! ‘‘ اوشا کے کان میں سرگوشیاں کون کرتا تھا ۔۔۔؟ کس نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں اپنے گھر کو بچوں سے بھرا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔؟ جواب دو ۔۔۔! ‘‘
’’ وہ ایک فطری تقاضہ تھا،لیکن میں نے اس پر بھی قابو پالیا تھا اور ایک روز اُسے صاف صاف بتا دیا تھا ۔
’’ تمہاری باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں راجندر ۔۔۔! ‘‘
اوشا اُس کے بغل میں لیٹی ہوئی تھی اور وہ چھت کو گھور رہا تھا ۔ جب اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو اُس نے پھر آواز دی ، ’’ راجندر ۔۔۔ راجندر ۔۔۔! ‘‘
’’ ہوں ۔ ‘ ‘
’’ کہاں کھوگئے ہو ۔۔۔ دیکھو دو برس اور بیت گئے ۔‘‘ وہ اس کے چہرے کو گھورنے لگی
’’ ہاں دو برس ۔۔۔‘‘ ایک سرد آہ اس کے لبوں سے نکلی ۔ اوشا کا چہرا اُتر گیا اور وہ بھی چھت کو گھورنے لگی ۔ دونوں کے درمیان پھر وہی خاموشی تھی ۔ کچھ لمحوں کے بعد راجندر کو احساس ہوا اور وہ اُ ٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اس نے اوشا کی طرف دیکھا ، ’’ اوشا ہمت ہار گئیں ۔۔۔ ارے حوصلہ رکھّو ۔۔۔! ‘‘
’’ حوصلہ ۔۔۔؟ ‘‘ وہ بھی اُٹھ بیٹھی ، ’’ راجندر اب تمہاری یہ کہانیاں بھی مجھے تسلیاں نہیں دے سکتیں ۔۔۔ میں واقعی نا اُمید ہوگئی ہوں ۔۔۔ ہار گئی ہوں ۔۔۔‘‘
’’ نہیں ۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں ایک اعتماد تھا ۔ اُس نے اوشا کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا ، ’’ میں تمھیں کبھی بھی شکست خوردہ نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔! ‘‘ وہ پلنگ سے نیچے اُتر گیا اور پھر ٹہلنے لگا ۔ اوشا اُسے گھورے جارہی تھی ۔
’’ اوشا ۔۔۔ اب بھی ایک صورت باقی ہے ۔ اگر تم تیار ہو تو میں بھگوان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قسمت کو بدل سکتا ہوں ۔۔۔! ‘‘ وہ اس کے پاس لوٹ آیا اور پلنگ پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر جھک گیا اور اوشا کی آنکھوں میں اعتماد کو تلاش کرنے لگا ، ’’ اوشا ۔۔۔ اگر اُس نے رات بنائی ہے تو میں چراغ روشن کرسکتا ہوں ۔۔۔ بولو ۔۔ تم تیار ہو ۔۔۔؟ ‘‘
اوشا نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولا ، ’’ ہم کسی بچّے کو گود تو لے سکتے ہیں ۔ ‘‘
اوشا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ بالکل ۔۔۔ یہ بات تو کبھی ہم لوگوں نے سوچا ہی نہیں ۔۔ لیکن راجندر میں کسی اناتھ آشرم کا بچّہ نہیں لونگی ۔۔۔ مجھے جسٹ بارن بے بی چاہیے ۔۔۔! ‘‘
اُس کے چہرے پر بھی اطمینان بحال ہوگیا لیکن وہ سوچنے لگا کس کا نوزائدہ بچّہ لیا جاسکتا ہے ۔۔۔؟ اچانک اُس کے ذہن میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں اور معصوم علی کا چہرہ گھوم گیا ۔۔۔ معصوم علی کثیرالعیال ، مفلس شخص ، کل ہی کہہ رہا تھا کہ اُس کے گھر آٹھویں بچّے کی پیدائش ہونے والی ہے ، ’’ ہم معصوم علی سے اُس کا ہونے والا بچّہ مانگ لیں گے ۔۔۔! ‘‘
اوشا خوشی سے جھوم اُٹھی ۔ اُسے اپنے پورے بدن میں عجیب سی تبدیلی کا احساس ہونے لگا اور پھر ممتا سہانے خوابوں میں ڈوب گئی ب۔
لیکن جب آنکھیں کھلیں تو ماں بلبلا رہی تھی ۔
’’ ارے بڑے آدمی ہونگے تو اپنے گھر کے ۔۔۔؟ کسی ماں کو بے عزّت کرنے کا اُنھیں کیا حق حاصل ہے ؟ بچے یونہی درخت پر تو نہیں لگتے ، جو میں اُنھیں توڑ کر دے دوں ۔۔۔؟ زندگی داؤ پر لگانا پڑتی ہے جب نظر آتی ہے اولاد کی صورت ۔۔۔ اور میں انھیں ایسے ہی دے دوں ۔۔۔؟ میں بالکل نہیں دوں گی ۔ ارے تم غربت سے ڈرکر اولاد کو خیرات کرنا چاہتے ہوتو میں زہر پی لوں گی ۔۔۔ جاؤ اور ان سے کہدو کسی یتیم خانے کا راستہ دیکھیں یا پھر سڑکوں پر تلاش کریں ۔ گناہ کے بیج سے بوئی ہوئی فصل سڑکوں ہی پر دم توڑتی ہے ۔ حوصلہ ہے تو کسی گناہ کی قسمت بدل دو ۔۔۔ ان بچوں کی تو ماں ابھی زندہ ہے ۔ ۔۔! ‘‘
ایک دھچکا سا لگا اور وہ گرتے گرتے بچا تھا ۔ نرس نے اُس کی طرف تعجب سے دیکھا ۔
’’ سسٹر ۔۔۔سسٹرپلیز ۔۔۔ اب اوشا کیسی ہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ اوشا۔۔۔؟ ‘‘ نرس نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر خود ہی یاد کرتی ہوئی بولی ، ’’
اوہ ۔۔ ۔ وہ جس کا ابھی ابھی آپریشن ہوا ہے ۔۔۔؟ دیکھیے وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی ہے ۔ اُسے اِن ٹین سیوکیر ( INTENSIVE CARE ) میں رکھا گیا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ کیا میں اُسے ایک نظر دیکھ سکتا ہوں! ‘‘ راجندر کی آواز کانپ رہی تھی ۔
’’ سوری ۔۔۔! ‘‘ نرس نے قدم بڑھائے ، ’’ ابھی ممکن نہیں ۔۔۔ آپ صبح آجائیے ۔۔۔صبح ۔ ‘‘
’’ صبح۔۔۔؟ ‘‘ وہ اس کے پیچھے دوڑا ، ’’ پلیز ۔۔۔‘‘
لیکن نرس رکی نہیں اور تیز تیز قدموں سے چلی گئی ۔ اس نے پلٹ کر آپریشن تھیٹر کی جانب دیکھا ، اور پھر چپ چاپ دواخانے کی سیڑھیاں اُترنے لگا ۔ کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔۔
کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔۔
دواخانے کی ڈراؤنی رات بھی اُس کے پیچھے پیچھے قدم اُٹھا رہی تھی ۔ چاروں طرف سنّاٹا تھا ۔ بس قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی ۔ کھٹ کھٹ ۔۔۔
کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔
کھٹ ۔۔۔
مبارک سلامت کا شور بلند ہوا ۔
’’ بھائی سکھ دیو ، بچّے کے نام کرن کی خاطر کتنے لوگوں کو بلا رہے ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ارے بھائی پہلا بچّہ ہے دھوم دھام تو ہوگی ہی ۔۔۔! ‘‘
آواز کیبین میں صاف سنائی دے رہی تھی ۔ اُس نے سگریٹ سلگائی اور ایک طویل کش لے کر کرسی کی پشت پر جھول گیا ۔
’’ سکھ دیو بھیا ۔۔۔ ہمارے ساتھ ساتھ کیا ہمارے صاحب کو بھی دعوت دینے کا اِرادہ ہے ۔؟ ‘‘ مینا کشی کی سرگوشی سنائی دی ۔
’’ جی بہن جی ۔۔ بھلا میں صاحب کو کیسے بھول سکتا ہوں ان کے تو بڑے احسانات ہیں مجھ پر ۔‘‘
’’ پھر سے ایک بار سوچ لو ۔۔۔ تمہارا پہلا بچّہ ہے ۔ اُس لیے کہہ رہی ہوں۔۔۔ میری ماں کہتی ہے ایسی مبارک گھڑی پر ایسے ابھاگوں کو بلانا نہیں چاہیے ۔۔۔نظر لگ جاتی ہے بچّے کو ۔۔۔! ‘‘
’’ بکواس مت کرو تم مینا کشی ۔۔۔! ‘‘ مہتہ کی آواز بلند ہوئی ، ’’ سکھ دیو تم اپنا کام کرو یہ فرسودہ باتیں کر رہی ہے ۔ ‘‘
’’ سکھ دیو بھائی ان کے لیے میری باتیں بکواس ہوسکتی ہیں ۔ لیکن بچّہ آپ کا ہے ۔‘‘
راجندر کی آنکھوں میں اندھیری سی آگئی ۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ آنسووں کا سیلاب بار بار پلکوں پر دستک دینے لگا تھا ۔
کھٹ ۔۔۔ چٹخنی نے اطلاع دی ۔ را جندرنے آنکھیں کھولیں ۔ اس کے سامنے خوف زدہ سکھ دیو کھڑا تھا ۔ اُس نے لرزتے ہاتھوں سے دعوت نامہ راجندر کی طرف بڑھایا ۔ راجندر نے بڑی محبت سے اُسے کھولا ، ’’ بھئی مبارک ہو سکھ دیو ۔۔۔ میں ضرور آ ؤں گا ۔ ‘‘
’’ اور بھابھی جی ۔‘‘ سکھ دیو کی لرزتی ہوئی آواز سنائی دی ۔
’’ انھیں بھی ساتھ لیتا آؤنگا ۔۔۔! ‘‘ راجندر نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ جہاں خوف اور تذبذب کی ملی جلی کیفیت تھی ۔ جانے کیوں اُس کے چہرے پر سفّاک مسکراہٹ طلوع ہوئی ۔ وہ دعوت نامے کو غور سے دیکھنے لگا ۔ کیبین میں سنّاٹا چھایا ہوا تھا اور باہر سر گوشیاں بدروحوں کی طرح بھٹک رہی تھیں ۔
’’مجھے ایسے فنکشن بے حد پسند ہیں ۔ بچّے کو پھولوں سے لدے جھولے میں لٹایا جاتا ہے ۔ عورتیں گاتی بجاتی ہیں ۔ باجے تا شے شور مچاتے ہیں ۔ چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے ۔ بڑا لطف آتا ہے ۔ میں تو اُس ننّھی سی جان کو اپنی چھاتی سے لگا لوں گی ۔۔۔ اور ۔۔۔اور ۔۔۔! ‘‘ اوشا خوشی میں بولے جارہی تھی ۔
’’ تم ایسا کچھ نہیں کروگی ۔‘‘ راجندر نے تیز لہجے میں کہا ، ’’ ہم دونوں اس فنکشن میں جائیں گے ضرور ۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ نہیں کریں گے ۔ ‘‘
’’ کیوں ۔۔۔؟ ‘‘ اوشا نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا تو وہ پلٹ کر کھڑا ہوگیا اور پھر جیسے ساری باتیں آپ ہی آپ وہ سمجھ گئی ۔ دل ٹکڑے ہوکر اُس کی آنکھوں سے باہر نکل آیا ۔ راجندر نے اُس کی طرف دیکھا ۔ ایک بیمار سی آرزو زدہ عورت اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔ کیا یہ وہی اوشا ہے ۔؟ چنچل ، شوخ، ہنس مکھ ۔۔۔ جس سے میں نے شادی کی تھی ۔۔۔؟ وہ چنچلتا ، وہ شوخی ، وہ قہقہے اب کہاں گُم ہوگئے ہیں ۔
محرومی اور زنگ اندر ہی اندر اپنے شکار کو چاٹ جاتے ہیں ۔ نہ شعلہ بھڑکتا ہے اور ناہی دھواں اُٹھتا ہے ۔ اوشا نے تو اب بات چیت بھی بہت کم کردی تھی ۔ گھنٹوں کسی گہری سوچ میں ڈوبی رہتی یا پھر بستر پر پڑی رہتی ۔۔۔ آج اُسے دیکھ کر راجندر کو گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی ۔۔۔
’’ میرا جی بہت گھبرا رہا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔فنکشن ہو تو لوگ جمع ہونگے ہی۔۔۔ ہم سکھ دیو کی بیوی کے ہا تھو ں میں تحفہ رکھیں گے اور پھر کسی جگہ چپ چاپ بیٹھ جائیں گی ۔۔۔! ‘‘
وہ دونوں آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہے تھے ۔ اُن کے اطراف چہل پہل تھی ۔ وہ جیسے جیسے مکان کے اندر داخل ہوتے گئے ان کے اطراف اُٹھنے والی نظریں خوف سے کانپ رہی تھیں اور ڈر گیت کا لباس پہن کر ڈھول کو زور زور سے پیٹ رہا تھا ۔ اوشا نے راجندر کی طرف دیکھا تو اُس نے آنکھوں سے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔ سکھ دیو کی بیوی نے بچّے کو اپنے آنچل میں چھپالیا اور سکھ دیو دم سادھے کھڑا ہوگیا ۔ اوشا نے اُس کے طرف دیکھا تو اُس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی ۔ آس پاس بیٹھی ہوئی عورتوں کے خاموش چہروں سے کئی سوالات اُٹھ رہے تھے ۔ اوشا نے جلدی سے تحفہ سکھ دیو کی بیوی کے ہاتھوں میں تھمایا اور پھر اُتنی ہی تیزی سے پلٹ گئی ۔۔۔
’’ اے ہے بہن ۔۔۔بچّے کی صورت تک دیکھنا گوارہ نہ کیا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ بنجوٹی ۔۔۔ بال نہ بچّہ ۔۔۔کیا جانے اولاد کی محبت ۔۔۔؟ ‘‘
وہ دونوں تیز تیز قدم اُ ٹھارہے تھے اور سرگوشیاں اُن کا پیچھا کر رہی تھیں ۔ اوشا کو چکر سے آنے لگے اور اس سے پہلے کہ وہ وہاں پر کہیں بیٹھ جاتے ، راجندر اوشا کو لے کر دواخانے کی طرف چل پڑا ۔ڈاکٹر اویناش نے آخر وہ خوشخبری سنادی جس کی خاطر وہ گذشتہ دس برسوں سے تڑپ رہے تھے ایک ہی لمحے میں ماضی کے دس سال پانی کی طرح بہہ گئے ۔۔۔ طنز کے سارے ہی نشتر کُند ہوگئے ۔ آئینہ اپنی قوتِ گویائی کھو بیٹھا ۔ وہ جدھر بھی دیکھتے انھیں ہر چیز خوشیوں میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ۔ گھر کا کونا کونا کھلونوں سے سج گیا اور دونوں کا بچپن جیسے پھر سے ایک بار واپس آگیا ۔ اکثر و بیشتر وہ دونوں ایک دوسرے سے توتلی زبان ہی میں باتیں کرنے لگے تھے ۔
وقت کس قدر تیزی سے گزر رہا تھا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا ۔ ایسی ہی ایک صبح تھی ۔ اوشا معمول کے مطابق غسل سے فارغ ہوکر بال پونچھ رہی تھی اور راجندر بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ کال بیل کی آواز نے اُسے متوجہ کیا ۔۔۔ اوشا تیزی سے کچن کی طرف لپکی ۔ راجندر کے چہرے پر انتقامی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ وہ اوشا کے پاس پہنچا ۔ وہ دودھ کے لیے برتن دھو رہی تھی ۔
’’ اوشا ۔۔۔آج دودھ میں لوں گا ۔۔۔! ‘‘
وہ برتن لیے باہر نکلا ۔ ایک نظر کالونی کے گھروں پر ڈالی اور پھر اونچے لہجے میں بولا ، ’’ بھائی دودھ والے آئیندہ سے اس کالونی میں سب سے پہلے ہمارے گھر دودھ دینا ۔۔۔ دودھ اب ہمارے لیے بھی بہت اہم ہوگیا ہے ۔۔۔! ‘‘
اوشا کا قہقہہ اس کے کانوں سے ٹکرایا ۔ دودھ والے نے اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا اور وہ دودھ لے کر نہایت فخر کے ساتھ مکان میں داخل ہوا ۔
’’ کردیا اعلان ۔۔۔؟ ‘‘ اوشا پھر ہنس پڑی ۔
’’ ہاں ۔۔! ‘‘ راجندر نے اوشا کی طرف دیکھا ، ’’ کیاکروں ۔۔ میر ے اندر دنیا کے سارے ہی عظیم فاتح ایک ساتھ سانسیں لینے لگے تھے ۔۔۔ اوشا ۔۔۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بچّہ ہونے کے بعد عورت مکمل ہوتی ہے ۔ لیکن ۔۔۔ اس بچے کے آنے سے میں مکمل ہوجاؤں گا ۔۔۔! ‘‘اوشا کا سر غرور سے اونچا ہوگیا اور وہ اُس کے سینے سے لگ گئی ۔ اُس نے دیوار پر آویزاں کیلنڈر پر نظریں ڈالیں ۔ بال کرشن چپکے چپکے دہی کی ہانڈی پر ہاتھ صاف کر رہے تھے ۔ اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
اور گھڑی اپنا راستہ طئے کر رہی تھی ۔ ٹک ٹک ٹک ۔۔۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ اُس نے آنکھیں کھولیں کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ ابھی اندھیرے کی سلطنت باقی تھی ۔ اوپر گھڑی چار بجنے کا اعلان کر رہی تھی ۔ وہ آرام کرسی سے اُٹھا ۔
’’ جانے اوشا کیسی ہوگی ۔۔۔؟ ‘‘
’’ جیسی بھی ہوگی ۔۔۔ اُس کے ذمہ دار تم ہی ہونگے ۔۔۔! ‘‘
’’ تو تم یہاں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑو گے ۔۔۔! ‘‘
’’ میں تو آخری سانس تک تمہارا پیچھا کرتا رہوں گا ۔۔۔ کیونکہ اصلی مجرم تم ہی ہو ۔۔۔ آخر اُس دن اس قدر پینے کی ضرورت کیا تھی ۔۔۔؟ کیوں گئے تھے تم دوستوں کی اس محفل میں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ میں کہاں جارہا تھا ۔ میں نے تو گھومنا پھرنا ، ملنا جلنا سب کچھ بند کردیا تھا اور کسی شریف آدمی کی طرح آفیس سے سیدھے گھر آنے لگا تھا ۔۔۔ لیکن وہ بضد ہوگئی تھی کہ میں اپنے دوستوں کی محفل میں جاؤں ۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔۔۔ ‘‘
’’ راجندر کیا ہوگیا ہے تمھیں ۔۔۔؟ آخر تم نے لکھنا پڑھنا کیوں چھوڑ دیا ہے ۔۔۔؟ کتنے ہی رسائل کے مدیر بار بار خطوط لکھ چکے ہیں ۔۔۔ اور تم ۔۔۔؟ تم بس رات دن مجھ میں اور اِن کھلونوں میں مگن ہو ۔۔۔ تمہارے سارے دوست احباب کیا سوچتے ہونگے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ سوچنے دو انھیں ۔۔۔! ‘‘ راجندر نے ہاتھ بڑھاکر گُڑیا کو اُٹھالیا ۔ اور اُسے اپنے سینے سے لگالیا ۔ ’’ میں پوچھتی ہوں ۔ تمھیں اپنے دوست احباب کچھ بھی یاد نہیں آتے ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ آتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔‘‘
’’ لیکن ویکن کچھ نہیں ۔۔۔ جاؤ ۔۔۔ اُن لوگوں میں اُٹھو بیٹھو ، کہانیاں لکھو ، میری بہت ذیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں تو بھلی چنگی ہوں ۔۔جاؤ نا ۔۔۔! ‘’
میں باہر نکلا تو سارے ہی کھلونے بند الماریوں میں ایک ساتھ شور مچانے لگے تھے ۔ اور اوشا ہنس رہی تھی ۔
’’ اِس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔۔؟ میں بیحد سیریس ہوں ۔۔۔! ‘‘ سد ھیر راج نے پوری قوت سے ٹیبل پر ہاتھ مارا تھا ، ’’ تم لوگ ہنس رہے ہو ۔لیکن ۔۔۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے ۔ آخر آج ہم ادیبوں کا ڈیمانڈ کیوں ختم ہوگیا ہے ۔۔۔؟ حکومت اور عوام ہم لوگوں کو آخر اتنا غیر اہم کیوں سمجھنے لگی ہے ۔۔۔؟ میں ۔۔۔ میں تم سے بھی پوچھ رہا ہوں راجندر ۔۔۔! ‘‘
’’مجھ سے۔۔۔؟‘‘راجندر نے شراب کا گلاس ٹیبل پر رکھ دیا اور سگریٹ کا ایک طویل کش لیا ۔
’’ہاںیار۔۔!‘‘مومن نے گلاس کے آخری قطرے کو حلق سے نیچے اُتارتے ہوئے بولا ، ’’ یہ بات تو میں بھی محسوس کرتا ہوں ۔ زمانہ چاہے الیکشن کا ہو یا دنگے فساد کے بعد امن کمیٹیوں کا ، ہماری قوم دانشوروں کو پوچھتی ہی نہیں ۔۔۔ غنڈے ،بلیک مارکیٹر ، مذہبی ٹھیکدار ، سیاسی بازی گر ، سب ا ہم ہوگئے ۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ اور کیا ۔۔۔! ‘‘ سدھیر راج نے نیا پیگ بنایا ، ’’ آج ملک میں کیا نہیں ہورہا ہے ۔ تشدّد کی آگ بھڑکی ہوئی ہے ۔ دنگے فساد ہورہے ہیں ۔ کرپشن کا اژدھا آزادانہ ر ینگ رہا ہے ۔ مہنگائی کا عذاب الگ مسلط ہے ۔ علحدگی پسند عناصر اپنا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔ مفاد پرستی اور خود غرصی کا بول بالا ہے لیکن میری آنکھوں سے کسی اخبار کی وہ سرخی آج تک نہیں گزری ، جس میں حکومت نے اِن مسائل پر غور و فکر کی خاطر دانشوروں کو ایوانوں میں طلب کیا ہو ۔۔۔؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ اس کی وجہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ۔۔۔! ‘‘ راجندر نے کہنا شروع کیا ، ’’ وہ یہ ہے کہ ہم لوگ خود عوام اور عصری مسائل سے ہٹ گئے ہیں ۔ ہماری ساری توجہ ذاتی مفادات ، سرکاری انعامات و اعزازات پر مرکوز ہوگئی ہے ۔ ہم لوگ خود ، خود غرضیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں یہ سرکاری اعزازات اور انعامات ہمارے فن کو کتنی جِلا بخشتے ہیں ۔۔۔؟ ادب اور ادیب نے تبدیلیوں کے نام پر عام آدمی سے منہ موڑ لیا ہے ۔ حق بات لکھنے کی ہمارے قلم میں ہمت نہیں رہی ، سستی شہرت ہی ہماری منزل ہوگئی ہے ۔ ہم نے خود اپنا منصب چھوڑدیا ہے تو ا ب پچھتانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ اِس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ درخت سے اگر رسیلے پھلوں کی آس ختم ہوجائے تو اُسے بے کار ہی سمجھ لیا جائے ۔۔۔؟ ‘‘ روشن اختر نے اپنا گلاس خالی کردیا ۔
’’ درخت بھلے ہی رسیلے پھل نہ دے لیکن اُس سے ٹھنڈی ہوائیں اور گھنی چھاؤں تو ملنا ہی چاہیے ۔۔۔؟ ‘‘ راجندر نے ا پنے گلاس کی طرف دیکھا ۔
’’ میرا تم لوگوں سے ہمیشہ ہی اختلاف رہا ہے اس سلسلے میں ۔۔۔‘‘ سدھیر راج نے پھر سخت لہجے میں کہناشروع کیا ، ’’ تم لوگ ادب کو ادب نہیں بلکہ مارکیٹ سے خریدی ہوئی کوئی ایسی سبزی سمجھتے ہو جس سے کم از کم ایک وقت کا ساگ تو پکنا ہی چاہیے ۔۔۔ صارفیت اور مغربی پروپیگنڈاکے حوالے سے آنے والے موضوعات کے برتنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہو ۔یا سیاسی بہروپیوں کی طرح نعرہ بازی یا بار بار اعلان کرتے ہو کہ ادب مر گیا ۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اگر ہم نے ادب کی صحیح آبیاری نہیں کی تو واقعی ہمارا ادب کتنے برسوں تک زندہ رہے گا ۔ ۔۔؟ ‘‘
راجندر کے لبوں سے قہقہہ نکل گیا ۔ اس نے ایک ہی سانس میں اپنا گلاس خالی کردیا اور پھر سب کی طرف دیکھتا ہوا بولا ، ’’ یار ۔۔۔ یہ سدھیر راج ہے بڑا جذباتی ، اپنا ہی سوال دُہراتا ہے اور اُسی کی بازگشت سننا چاہتیا ہے ۔ حالانکہ کم و بیش میں نے بھی یہی بات کہی تھی ، اور اب بھی کہتا ہوں کہ جو ادب زندگی کی حقیقتوں سے دور ہوگا ، عام آدمی کی عکاسی نہیں کرے گا ، زندہ مسائل کو ٹچ نہیں کرے گا ، حق بات کہنے سے گُریز کرے گا ، وہ ادب کس کام کا ۔۔۔؟ اب بتائیے اس میں نعرہ کہاں ہے ۔۔؟ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ادب ساگ نہیں ہے ، ادب نعرہ نہیں ہے ، ادب میں صارفیت در آئی ہے لیکن پھر بھی ادیب کی اپنی کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔۔۔ میں پوچھتا ہوں ہم میں سے کتنے ادیبوں نے خود کبھی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہے ؟ اور ملک میں پھیلے ہوئے اس انتشار سے نمٹنے کے لیے قدم اُٹھایا ہے ؟ تم بتاؤ ان حالات کے خلاف ہم نے کتنی ریلیاں نکالیں ؟ انتخابات کے دنوں میں بھرشٹ، مذہبی تنگ نظر ، غنڈوں اور بے ایمانوں سے عوام کو بیدار کرنے کی خاطر کتنے جلوس اور جلسے کیے ۔۔۔؟ کتنے لوگوں کو سمجھایا ۔؟ ہاں البتہ اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر ان موضوعات پر کہانیاں اور نظمیں ضرور لکھیں ۔۔ باتیں کرتے ہیں ہم لوگ ۔۔ اپنی اہمیت کا رونا روتے ہیں۔! ‘‘
اُس نے شراب کی بوتل کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔
’’ چھوڑو یار ۔۔۔ ہٹاؤ اس بحث کو ۔۔۔! ‘‘ روشن اختر نے بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا ، ’’ یہ بتاؤ راجندر ۔۔۔ آج کل کیا لکھ رہے ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ وہی سب کچھ جو تم لوگ لکھ رہے ہو ۔۔۔ ہم سب پر یکسانیت سوار ہے۔!‘‘ راجندر وہیں موجود ہوتھ ہوئے وہاں سے کہیں غائب ہوگیا ۔ پوری محفل پر سنساٹا چھا گیا ۔ سب ایک دوسرے سے آنکھیں چُرا رہے تھے اور ہر شخص اپنا اپنا گلاس جلد از جلد خالی کرنا چاہتا تھا ۔
’’ تو گویا آج کوئی نئی بات نہیں ہے ۔۔۔! ‘‘ روشن اختر نے آ ہستہ سے سرگوشی کی ۔
’’ ہے کیوں نہیں ۔۔۔! ‘‘ راجندر کی آنکھوں میں چمک پید ا ہوئی ۔ سب نے اُس کی طرف دیکھا اُس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور پھر سبھی کے ہاتھ فضاء میں بلند ہوئے اور زبان سے نکلا ، ’’ گاڈ بلیں یو راجندر ۔۔۔! ‘‘
اس کے کانوں میں اب تک وہی آواز گونج رہی تھی اور دُہرا نشہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔۔۔ دور پلیٹ فارم پر ایک کے بعد دوسری ٹرین دوڑتی رہی ۔ لال ، ہرے ،پیلے سگنل جلتے بجھتے رہے ۔۔۔ رات کانپتی رہی ۔۔۔اور پھر تھکے ماندے مسافر سستانے لگے ۔۔۔ سنّاٹا چھاگیا ۔۔۔
’’ راجندر ۔۔را ۔۔جندر۔۔ راج۔۔ ن ۔۔د۔۔ر ۔۔۔! ‘‘ اوشا کی دلدوز چیخیں سن کر وہ اُٹھ بیٹھا ۔ اس کا سارا نشہ ہرن ہوگیا وہ درد سے تڑپ رہی تھی ۔ وہ اُسے لے کر دواخانے کی طرف بھاگا ۔۔۔ اور دواخانے کی سر د رات کسی آسیب کی طرح بھیانک ہوگئی ۔۔۔
وہ گھبراکر اُٹھ بیٹھا ، سویرا کھڑکی سے جھانک رہا تھا ۔
’’ جانے اوشا کی حالت کیا ہوگی۔‘‘وہ سرپٹ دواخانے کی جانب دوڑ پڑا۔
اُس نے آنکھیں کھولیں ۔ اس کے کانوں سے بھی آواز ٹکرائی کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔ اُس کے ہاتھ بے اختیار اپنے پیٹ کی طرف بڑھے ۔۔۔ کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔ کی آوازوں میں شدّت آگئی اور کسی نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے ، ’’پلیز حرکت مت کیجیے ۔۔۔‘‘
اُس نے نرس کی طرف غور سے دیکھا ، اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ، ’’ سسٹر میں ۔۔۔‘‘ کمزور سی آواز میں اوشا نے کچھ کہنا چاہا ۔
’’آپ اب خطرے سے باہر ہیں ۔ لیکن پلیز ابھی ہلچل مت کیجیے ۔۔۔۱ ‘‘
وہ خاموش ہوگئی ۔ اُس نے اپنے اطراف کا جائزہ لینا شروع کیا ، ایک ہی لمحے میں اُسے سمجھنے میں دیر نہ لگی ۔ اُس کی آنکھیں بھر آئیں اور دھندلی سی فضاء میں اُس نے کسی بچّے کو بلبلاتے ہوئے دیکھا ۔
’’آپ کا بچہ! آپ کی ممتا کو آوازیں دے رہا ہے ۔ آسمانوں کی بلندیوں میں کھڑا آپ کو پکار رہا ہے ۔ ذراسی ہمت کیجیے اور اُسے اپنی کوکھ میں اُتار لیجیے ۔۔۔! ‘‘
یہی تو کہا تھا اُس نے ۔۔۔۔ !
’’ ہاں ۔۔ اور شاید میں مان بھی جاتی ۔۔! لیکن وہ راجندر تو نہ تھا ۔۔۔!‘‘
کس نے میرے بدن پر گناہ کی چادر ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔؟ کس نے ۔۔۔ ہاں کس نے ۔۔۔؟ ابھا۔۔۔ ہاں ہاں ۔۔۔ ابھا ہی نے تو ۔۔۔ وہی تو مجھے وہاں تک لے کر گئی تھی ۔۔۔ !
’’ جھوٹ ۔۔۔! ‘‘ ابھا نے تمہارے غم کو بانٹنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔اُس کے گلے لگ کر کون رویا تھا ۔۔۔؟ ‘‘
یہ سچ ہے کہ میں روئی تھی ۔۔۔ لیکن میں نے تو کسی بچے کو گود لینے کی خواہش کی تھی ۔۔۔ تب اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک ایسا اوپائے ہے جس کے باعث میری کوکھ میں میرا اپنا بچہ سانس لے سکتا ہے ۔۔۔اور جب اُس نے مجھے وہ اوپائے بتایا تھا تومیں سر سے پیر تک لرز گئی تھی ۔ میں نے تو بڑی شدت سے انکار کیا تھا ۔ میں اپنے شوہر کے اعتماد کو کبھی ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتی تھی ۔ وہی بضد ہوگئی تھی ۔۔۔ کہ تیرا پتی بھی بچے کی خواہش رکھتا ہے ۔ اُسے بچہ مل جائے گا ، تو مکمل ہوجائے گی ۔۔۔ اور یہ راز کبھی باہر بھی نہیں آئے گا ۔۔۔ اور میں کسی کمزور لمحے کا شکار ہوکر اس کے ساتھ چلی گئی تھی ۔۔۔ اور ۔۔ اور اس نے مجھ سے کس اعتماد کے ساتھ کہا تھا ۔۔۔۔ ، ’’ میں آپ کا نام نہیں جانتا ، جاننے کی خواہش بھی نہیں ہے ، لیکن میں آپ کی بے حد عزّت کرتا ہوں ۔ آپ کے اندر جو ممتا تڑپ رہی ہے بھگوان اُسے شانتی دے ۔ بچے بھگوان کا اوتار ہوتے ہیں ۔ اُن کی خواہش اور اُن کو پانے کے لیے اُٹھایا جانے والا ہر قدم ایک اوھیکار ہوتا ہے ۔ مجھے یقین ہے آپ کی کیاری میں پھول مہکیںگے ۔۔۔! ‘‘
اور وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے قریب آگیا تھا ۔میں اس کے لفاظی کے جال میں پھنستی جا رہی تھی اور وہ سرگوشیاں کر رہا تھا ، ’’ ذرا تصّور کیجیے ۔ کل جب آپ کی ساڑی کا پلّو تھامے کوئی ننھا مننا اپنی توتلی آوازوں میں آپ سے کہے گا ، مما مجھے بھوک لگی ہے ددّو دے دو تو آپ کی کیا حالت ہوگی ۔۔۔ ؟ ‘‘
میرے سینے میں گدگدی سی ہونے لگی ۔ میں جذبات سے بے قابو ہوگئی تھی ۔۔۔ اور ۔۔۔ شاید اُس سے لپٹ گئی تھی ۔ وہ کہے جارہا تھا ، ’’ آپ کا بچہ تو آپ کی ممتا کو آوازیں دے رہا ہے ۔ آسمانوں کی بلندیوں میں کھڑا آپ کو پکار رہا ہے ۔ اُتار لیجیے اُسے اپنی کوکھ میں ۔۔۔! ‘‘
لیکن اس سے پہلے کے وہ واقعی میری کوکھ میں آنکھیں کھولتا ، میری آنکھیں کُھل گئیں ، اور میرا سیدھا ہاتھ اُس کے گال پر پڑا ، اور پھر میں وہاں سے سیدھا اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑی ۔ کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔
کھٹ کھٹ کھٹ ۔۔۔
کھٹ ۔۔۔ دروازہ کھلا ، میرے سامنے راجندر کھڑا تھا ۔ میں بے تحاشہ اس سے لپٹ گئی ۔ اُس نے ایک ہاتھ سے دروازہ بند کیا ۔ اور مجھے اندر لے گیا ۔میری آنکھوں میں سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔ میں ایک بار پھر اس سے لپٹ گئی اور ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی ۔ وہ پریشان ہوگیا پھر اس نے میری پیٹھ تھپتھپائی ، ’’ رو مت اوشا ۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔آج تمہارے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔! ‘‘
ایک لمحے کے لیے میں ساکت ہوگئی اور میری آنکھوں کے آنسوں وہیں جم گئے ۔ میں خوف زدہ سی اُسے دیکھنے لگی ۔۔۔
’’ تم دنیا کے طنز سے گھبراتی ہو ۔۔۔ بکنے دو انھیں ۔۔۔؛ ‘‘ اس نے مجھے اپنی باہنوں میں بھرلیا اور میری آنکھوں میں جمے ہوئے آنسوں پھر کسی چشمے کی مانند اُبل پڑے ۔۔۔ ، ’’ راجندر ۔۔۔ راجندر ۔۔۔ آج میں ۔۔۔! ‘‘ اس کے بعد میں کچھ نہ کہہ سکی ۔
’’ بھول جاؤ ۔۔۔! ‘‘
’’ تم ۔۔۔! ‘‘ میں نے اُس کی آ نکھوں میں دیکھا ۔
’’ میں کچھ بھی سننا نہیں چاہتا ۔۔۔! ‘’ وہ الماری کی طرف بڑھا ، سگریٹ کی ڈبیا نکالی ، اور پھر سگریٹ سلگانے لگا ۔ میں نے اس کے طرف دیکھا ۔ میری آنکھوں میں آباد بھگوان کے سارے ہی روپ دھندلا گئے ۔۔۔اور اس کا قد زمیں تا آسمان پھیل گیا ۔۔۔ میں اس کے قدموں میں گِرپڑی ۔ لیکن اس نے مجھے فوراً اُٹھالیا اور میری آ نکھوں میں دیکھنے لگا ۔
’’ راجندر ۔۔۔ تم شادی کو سنجوگ مانتے ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ ! ‘‘ اس نے اقرار میں گردن ہلائی
’’ اور اگر کوئی شادی سنجوگ کے خلاف ہو تو ، میں نے سنا ہے کہ بھگوان ایسے جوڑے کی کوئی بہت ہی اہم آرزو کو روک لیتا ہے ۔۔۔! ‘‘ وہ مجھے گھورے جا رہا تھا اور میں کہہ جارہی تھی ، ’’راجندر ۔۔۔ میں تمہارے سنجوگ کا جوڑا نہیں ہوں ۔۔۔ میںزبردستی تمہاری زندگی میں داخل ہوگئی ۔ تمھیں مجھ سے کبھی بھی اولاد نہیں ہوسکتی ۔۔۔ تم ۔۔تم دوسری شادی کرلو ۔۔میں تمہارے لائق نہیں ہوں ۔۔۔ مجھے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔ میں چپ چاپ اسی چار دیواری میں اپنی زندگی جی لوں گی ۔۔! ‘‘
وہ ایک دم پلٹ گیا ۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی ۔ بہت دیر تک وہ خاموش کھڑا رہا ۔ اور میں اپنے ہی فیصلے سے اُٹھنے والے جوالا مکھی کا انتظار کر رہی تھی ۔ وہ خود بھی شاید اپنے آپ سے جنگ کر رہا تھا ۔ جب وہ میری طرف پلٹا تو میری سمجھ سے باہر تھا کہ آخر اپنے ہی دل کی رن بھومی سے لوٹ کر وہ کیا نتیجہ سنانے والا ہے ۔۔۔؟ میں دم بخود تھی اور وہ آہستہ آہستہ میری طرف قدم اُٹھا رہا تھا ، ’’ اوشا ۔۔۔ آج سے کچھ برس پہلے بھی تم ایک پرستاؤ لے کر میرے پاس آئی تھی ، اور وہ میں نے قبول کرلیا تھا ۔ آج بھی تم ایک پرستاؤ لے کر آئی ہو ۔۔۔ میں اس پر بھی غور کروں گا ، لیکن اوشا پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو۔۔۔! ‘‘
میرا پورا وجود سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ۔
’’ تم اِسے یوں بھی کہہ سکتی ہو کہ راجندر مجھے تم سے اولاد نہیں ہوسکتی ۔۔۔ میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔! ‘‘
’’ راجندر ۔۔۔! ‘‘ میں تقریباً چیختی ہوئی اُس سے لپٹ گئی تھی ۔
’’ تمہارے سوال کا یہی جواب ہے میرے پاس ۔۔۔کیوں کرتی ہو مجھ سے ایسی باتیں ۔۔! ‘‘ اس کا پورا وجود کپکپا رہا تھا اور میں بے تحاشہ اُسے بھینچ رہی تھی ۔ میری آنکھوں سے اب بھی آنسوں بہہ رہے تھے لیکن جانے کیوں ایک عجیب سی ندامت مجھے محسوس ہورہی تھی ۔ مجھے اپنی شخصیت میں وہ پالتو بلّی نظر آرہی تھی جس پر اعتماد کیا گیا ہو لیکن جس نے موقع پاتے ہی دودھ کے برتن میں منہ ڈالنے کی کوشش کی اور پکڑی گئی ۔ مجھے اپنے آپ سے عجیب سی نفرت ہونے لگی ۔ طبعیت چاہی کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا چہرا نوچ ڈالوں ، لیکن راجندر کا اعتماد اب بھی کسی سایہ دار پیڑ کی مانند مجھے اپنی چھاؤں میں لیے کھرا تھا ۔ اور شاید میں اؑس کی جڑوں میں اُترتی جارہی تھی ۔ وہ میرے چہرے پر جھکا اور میری روح کے تار جھنجھنا اُٹھے ، دل و دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں ۔ میں دیوانہ وار اُسے چومے جارہی تھی ۔ عجیب سرشاری کا عالم تھا ۔۔۔ اور پلیٹ فارم پر آخر وہ ٹرین پہنچ چکی تھی جس کے منتظر جانے کب سے مسافر تھے ۔
انتظار کی مدّت ختم ہوئی ۔۔۔
’’ تشریف رکھیے مسٹر راجندر سہائے ۔۔۔! ‘‘
اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا ۔ اُس کے چہرے پر ہر طرح کا اطمینان تھا اور وہ تذبذب کا شکار ہورہا تھا ۔۔۔جانے ڈاکٹر اب کیا اطلاع دے گا ۔
’’ مسٹر راجندر ۔۔۔ آپ کی بیوی کا حمل ساقط ہوگیا ۔ آئی ایم ویری ساری ۔۔۔ ہم نے بہت کوشش کی ۔۔۔ اب وہ خطرے سے باہر ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔‘‘
’’ لیکن کیا ڈاکٹر صاحب ۔۔۔؟ ‘‘ اس نے بے تابی سے پوچھا ۔
’’ وہ ۔۔۔ وہ شاید ہی اب کبھی ماں بن سکیں گی ۔۔۔! ‘‘
’’کیا ۔۔۔‘‘ راجندرتقریباً چیخ اُٹھا ۔ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔ اس کے کانوں میں بے شمارچھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اُسے چکّر سے آنے لگے ۔ اس کی آنکھیں اُبل پڑیں ۔ اُس نے اپنا چہرا دونوں ہاتھوں میں چھپالیا ۔۔۔ اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روپڑا ۔۔۔
گھڑی اپنا سفر طئے کرتی رہی ۔ ٹک ٹک ٹک ۔۔۔
رفتہ رفتہ وہ اپنے آپ کو سنبھالتا گیا اور جب اُس نے ہمت کرکے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تو وہ اُس سے لاتعلق ہوچکا تھا اور کسی مریض کو اپنا نسخہ دے رہا تھا ۔ راجندر وہاں سے چپکے سے اُٹھا اور وارڈ کی جانب چل پڑا
اوشا کی نظریں جونہی راجندر پر پڑیں ۔ اس کے آنسوں نکل آئے ۔ راجندر نے مسکراکر اُس کی طرف دیکھا اور پھر اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگا اوشا کے پیٹ میں بجلیاں سی کوندنے لگیں ۔ اور درد بلبلاکر آنکھوں سے بہنے لگا ، ’’ راجندر ۔۔میں تمہاری ایک خواہش بھی پوری نہ کرسکی ۔۔۔! ‘‘
’’ روتی کیوں ہو اوشا ۔۔۔! ‘‘ وہ اُسے دلاسہ دینے لگا ، ’’ سنو ۔۔۔ ! میری کوئی ایسی خواہش تھی ہی نہیں ۔۔۔ جس کا تم افسوس کر رہی ہو ۔۔۔ ارے پگلی میں تو شروع ہی سے خود پسند رہا ہوں ۔۔۔ اس لیے شادی کے لیے بھی رضامند نہیں تھا ۔ وہ تو محض تم تھیں جس نے مجھے شادی کے لیے تیار کرلیا تھا ۔۔۔ اوشا ۔۔۔ دراصل میں کبھی محبت میں بٹوارے کا قائل رہا ہی نہیں ۔۔۔ وہ تو یونہی تمہاری لئے میں اپنی لئے ملاتا رہا ۔۔۔ مجھے بچوں کی کوئی خواہش نہیں ہے ۔۔۔ ! ‘‘
اوشا حیرت سے اُسے دیکھے جارہی تھی ۔ اس کے آنسوں تھم گئے تھے ۔ اور وہ کہہ جا رہا تھا ، ’’ اوشا ۔۔۔ پتہ نہیں تم اس بات کو مانتی ہو یا نہیں ۔۔۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ میاں بیوی کا رشتہ محض میاں بیوی کا نہیں ہوتا ۔۔۔ وہ جہاں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں وہیں ایک دوسرے کے سرپرست بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ اور میں کہتا ہوں وہ ایک دوسرے کے لیے بچے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ ٹھیک ہے ہمیں کوئی بچہ نہیں ہے ۔۔۔ ناسہی ۔۔۔ لیکن کیا اُس کے انتظار میں ہم ایک دوسرے کو یہ سکھ بھی نہیں دے سکتے ۔۔۔؟ ‘‘
اوشا کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا ، البتہ اُس کی باتیں سن کر اس کے چہرے پر ایک معصوم سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔ اور راجندر نے اُسے کسی چھوٹی سی بچی کی طر ح اپنی گود میں اُٹھالیا ۔۔۔ اور جونہی اُسے لے کر وہ پلٹا ۔۔۔دیوار پر آویزاں گھڑی بھی اُسکے ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔ ٹک ٹک ٹک ۔۔۔۔
٭٭٭