پتہ نہیں اِن لوگوں نے مجھے کیوں زبردستی پلنگ پر لِٹا دیا ہے ، اور اتنے سارے لوگ مجھ پر کیوں جھکے ہوئے ہیں ، اور یہ ڈاکٹر آخر میرے دل میں کس چیز کی تلاش کررہا ہے ؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے ، اور یہ باف کٹ عورت ۔۔۔ جس نے اپنے چہرے کی جھریوں کو میک اپ سے چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ میری طرف دیکھ دیکھ کر کیوں رو رہی ہے ، آخر اُس سے میرا رشتہ کیا ہے ؟ میں بار بار اپنے دماغ پر زور دے رہا ہوں ۔۔۔۔ میں کن لوگوں میں پھنس گیاہوں ؟ لیکن مجھے کچھ بھی سُجھائی نہیں دے رہا ہے ۔ بس ایک دھند سی چھاتی جارہی ہے میرے اطراف ۔۔۔ یا خدا یہ کیسا عذاب ہے ۔ ؟ میں عجیب سی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہوں ۔ اور پھر میری آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگتی ہیں ۔
’’انھیں کسی بات کا شدید شاک پہنچا ہے ۔۔دماغی توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔ ‘‘
آواز چاقو کی تیز دھار کی مانند میری سماعت میں پیوست ہوجاتی ہے اور میں گھبراکر اپنی آنکھیں کھول دیتا ہوں ۔۔۔ یہ ابھی کون بولا تھا ۔ ۔۔ ؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں ، اور جواب اُن چہروں میں تلاش کرنے لگتا ہوں جو مجھ پر جھکے ہوئے ہیں ، لیکن کوئی چہرہ چغلی نہیں کھا رہا ہے ۔ آواز بازگشت بن کر میرے اپنے اندر گونجنے لگتی ہے ۔ میں ایک بار پھر اپنے سامنے موجود ہر چہرے کا جائزہ لیتا ہوں ۔ میری نظریں ایک سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی پر ٹھہر جاتی ہیں ، چہرہ شناسا لگتا ہے ، لیکن یاد نہیں پڑتا آخر اِسے کہاں دیکھا تھا ؟ میرے سامنے سے ایک بھیڑ گزر جاتی ہے ، لیکن وہ چہرہ ۔۔۔ وہ چہرہ اس بھیڑ میں کہیں بھی نظر نہیں آتا ۔۔۔ آخر وہ کون ہوگی۔۔۔ ؟ اور میں کہاں ہوں ؟ یہ کونسی جگہ ہے ؟ میں یہاں پر کیسے آگیا ؟ میں تو یہ سوچ کر سفر پر نکلا تھا کہ اپنے گھر جاؤں گا ۔ ہوائی اڈے سے نکل کر میں نے ٹیکسی والے کو بالکل صحیح پتہ بتا یا تھا پھر وہ مجھے یہاں کہاں چھوڑ کر چلا گیا ؟ ۔۔۔ میں اپنی تسلّی کے لیے اپنی جیب سے اپنا ملاقاتی کارڈ نکالتا ہوں ۔۔۔ یہی تو میں نے اُسے دیا تھا ۔ پھر ۔۔۔؟ ۔۔۔ اور اس پھر کے ساتھ ہی میرے دماغ میں ہوائی جہاز کی گڑگڑاہٹ ، مشینوں کا شور اور ریلوں اور بسوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں ، اور میں تقریباً چیخ پڑتا ہوں ۔
’’خداکے لیے مجھے تنہا چھوڑ دو ،خدا کے لیے میں۔میں تنہائی چاہتا ہوں ۔ ‘‘
میرے اطراف کھڑے ہوئے لوگ ایک جھٹکے کے ساتھ پیچھے ہٹتے ہیں اور ڈاکٹر کی گرفت میرے دائیں بازوپر مضبوط ہوجاتی ہے ۔ میں درد سے بلبلا اُٹھتا ہوں اور پھر قدرے تڑپنے لگتا ہوں ۔
’’ اب انھیں اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ ! ‘‘
میں نفرت بھری نظروں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتا ہوں ، لیکن تب تک وہ پلٹ جاتا ہے ، اور اُس کے پیچھے سبھی ایک ایک کر کے نکل جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ باف کٹ عورت بھی ۔۔۔۔ ،
میں اُٹھ بیٹھتا ہوں ، اچانک میری آنکھوں میں اندھیری سے آنے لگتی ہے ، کہیں ڈاکٹر نے مجھے نیند کا انجکشن تو نہیں لگا دیا ۔۔۔ ؟ میں کانپ ا ٹھتا ہوں ، ساری زندگی ہی تو سوتا رہا ہوں میں ۔۔۔ اب جو ذرا جاگنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ نیند ہی میرا مقدّر ہے ، لیکن میں سووںگا نہیں ۔۔۔ میں اپنی آنکھوں کے سامنے پھیلی ہوئی دھند سے باہر نکلنے کی کوشش شروع کرتا ہوں ، ایک بار ، دو بار ، تین بار ۔۔۔وزنی پلکیں اوپر اُٹھتی ہیں اور روشنی کا ایک جھماکہ مجھے کھڑ کی سے باہر لے جاتا ہے ، کھڑکی سے جھانکتی ہوئی آم کی شاخیں میرا مذاق اُڑانے لگتی ہیں ، اور اُن کے طنزیہ قہقہے میرے اطراف بکھر جاتے ہیں ۔
’’خاموش۔۔۔!‘‘میں پوری شدست سے چیختا ہوں ، اور پلنگ سے اُٹھ جاتا ہوں ، اچانک سارا کمرہ میرے اطراف گردش کرنے لگتا ہے ، اور میں دھپ سے پھر ایک بار پلنگ پر گر جاتا ہوں ، میری آنکھوں میں رنگ برنگے بلب روشن ہونے لگتے ہیں ، اور اندر ہی اندر کسی کھائی میں گرتا چلا جاتا ہوں ۔
’’پا پا ۔۔۔ پا پا ۔۔۔ پاپا ۔۔۔ پا ۔۔۔ ! ‘‘
یہ کون پکار رہا ہے ۔۔۔ ؟
میں آوازوں کے حصار میں قید ہوجاتا ہوں ، میری آنکھوں میں زرد سی روشنی ٹھہر جاتی ہے ، اور ایک سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی آپ ہی آپ پگھلنے لگتی ہے ، یہاں تک کہ وہ ایک چھوٹی سی گڑیا میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔
’’ پا پا ۔۔۔ آپ سمندر پار مت جائیے ۔۔۔ ! میں آپ سے اب کبھی کسی کھلونے کے لیے نہیں کہونگی ، ۔۔۔ پا پا ۔۔۔ پاپا ۔۔۔ پا ۔۔۔ ! ‘‘
ارے یہ تو منّی ہے ۔۔۔ میری بیٹی ۔۔۔ میں بے اختیار اُسے اپنے سینے سے چمٹا لیتا ہوں ، لیکن میری آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے اور وہ کہیں غائب ہوجاتی ہے ۔
٭٭٭
’’ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ۔۔۔ ؟ ‘‘ وہی باف کٹ عوررت میرے پلنگ پر مجھ سے سٹ کر بیٹھی ہوئی ہے ، اور بے حیائی سے میرے بالوں میں اُنگلیاں پھیر رہی ہے ۔ میں اُس کی طرف نفرت بھری نظروں سے دیکھتا ہوں ۔
’’ اس طرح کیا دیکھ رہے ہو ۔۔۔ ؟ مجھے پہچانو ۔۔۔ میں تمہاری بیوی ہوں ۔۔۔ جسے تم پیار سے شالو کہاکرتے تھے ۔۔۔ یاد کرو ۔۔۔! ‘‘ وہ میری طرف کچھ اور جھک جاتی ہے ۔ میرے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ، ہونہہ ۔۔۔ شالو ۔۔۔ ! ‘‘ میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا ہوں ۔
’’ اس طرح کیا تلاش کرتے رہتے ہو ۔۔۔ ! ‘‘
’’ اپنے گھر کو ، اپنی بیوی کو، اپنی بیٹی کو ۔۔۔ ! ‘‘
میری آواز رُند جاتی ہے ۔ باف کٹ عورت کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے ۔ میں ایک لمحہ اس کی طرف دیکھتا ہوں ۔ میرے ذہن میں ایک چھوٹا سا دیا روشن ہوجاتا ہے ۔ اور مجھے اُس کی مسکراہٹ میں شالو نظر آنے لگتی ہے ۔ میں فوراً اُٹھ بیٹھتا ہوتا ہوں اور پاکٹ میں سے شالو کی تصویر نکال کر اُسے دکھاتے ہوئے کہنے لگتا ہوں ، ’’دیکھو ! تمہاری مسکراہٹ میری شالو کی مسکراہٹ سے کتنی قریب ہے ۔۔۔ لیکن تم ۔۔۔ ! ‘‘
وہ تصویر میرے ہاتھوں میں سے لے لیتی ہے ، ایک نظر بھر کر اُسے دیکھتی ہے ۔ پھر وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہے لیکن کہہ نہیں پاتی ، بس اُس کے ہونٹ پھڑ پھڑاکر رہ جاتے ہیں ، اور پھر وہ تصویر کو وہیں پھینک کر روتی ہوئی کمرے سے بھاگ نکلتی ہے ۔ بہت دیر تک اُس کے قدموں کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے ۔ میں تصویر کو اُٹھا لیتا ہوں ، اور غور سے دیکھنے لگتا ہوں ، شالو آپ ہی آپ تصویر سے باہر نکل آتی ہے ۔۔۔ بالکل اُسی طرح جس طرح وہ میرے لیے سات سمندر پار بھی آجایا کرتی تھی ، اور پھر ہم دونوں گھنٹوں باتیں کرتے رہتے تھے ، لیکن پتہ نہیں کیوں اس بار اُس کے لمبے لمبے بال شانوں پر بکھرے ہوئے نہیں تھے ۔ شاید اُس کی آنکھوں میں آنسوں بھی تھے
میں نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑلیا اور پھر ہم دونوںاُسی طرح کھڑکی کے راستے سے باہر نکل گئے اور آسمانوں میں اُڑنے لگے ۔
٭٭٭
ایک روز میں اپنے قید خانے سے نکل کر جونہی مکان کے اندر داخل ہوا ، ایک عجیب تماشہ دیکھنے کو ملا ، بونی ایم کی کیسٹ پر ایک لڑ کی اور لڑکا بے تحاشہ تھرک رہے تھے ، اور ڈائیننگ ہال میں باف کٹ عورت مختلف ڈشوں کو سلیقے سے رکھ رہی تھی۔ مجھے اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر وہ مسکراتی ہوئی میرے قریب آئی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ڈائیننگ ٹیبل پر بٹھاتی ہوئی بولی ، ’’ دیکھو آج میں نے تمہاری ہی پسند کی تمام ڈشیں تیار کی ہیں ۔ ‘‘
میں نے اُچٹتی ہوئی نظروں سے کھانوں کی طرف دیکھا ، اور پھر دنگ رہ گیا، کمال ہے ۔۔۔ یہ عورت یہ سب کچھ کیسے جانتی ہے ؟ پھر وہ اپنے آپ میں مسکراتی ہوئی بولی ، ’’ تمھیں لکھنوی طرز پر پکائی گئی ماش کی دال بے حد عزیز ہے نا ۔۔۔! ‘‘
میں بے ساختہ اُس کی طرف دیکھنے لگتا ہوں ، میری آنکھوں میں ماضی روشن ہوجاتا ہے ، اور سامنے کا منظر میرے تصورات کے مناظر میں ڈوب جاتا ہے ۔ پُرانا بوسیدہ مکان اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ اُبھر آتا ہے ، اور میں دالان در دالان پھلانگتا ہوا آگے بڑھتا ہوا چلاجاتا ہوں ، صحن میں گھنے آم کے درخت سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں ۔ سوتی ساڑھی میں ملبوس شالو، کمرسے نیچے تک لہراتے ہوئے بال ، وہ سفید چاندنی پر سرخ دستر خوان بچھانے لگتی ہے ، اور میں بنا ہاتھ دھوئے بیٹھ جاتا ہوں ،
’’ شام کو ماش کی دال کھلاؤں گی ، مگر شرط ہے ، جلد آنے کی ۔۔۔ ! ‘‘
میں شریر نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا ہوں ، اور وہ شرماکر ایسے نظریں جھکالیتی ہیں جیسے کسی نے چھوئی موئی کے پودے کو چھیڑ دیا ہو ۔۔۔ میرے لبوں سے قہقہہ بلند ہوجاتا ہے ، اور وہ میرے سامنے سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے ۔
لیکن ہائے افسوس ۔۔۔ ماش کی دال کا ذائقہ بھی مجھے سات سمندر پار جانے سے روک نہ سکا ، کھلونے میں کوئی چابی بھرتا ہے ، اور رن وے پر ہوائی جہاز دوڑنے لگتا ہے ۔ ۔۔ اُس کی گڑگڑاہٹ میں میں سب کچھ بھول جاتا ہوں ، اور میری نظریں آسمانوں کی وسعتوں میں کہیں کھوجاتی ہیں ۔
’’ ارے کہاں کھوگئے ۔۔۔؟ کھانا کھاؤ نا ۔۔۔ ۱ ‘‘
میں کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوں ، تبھی ٹیپ ریکارڈر پر بونی ایم لاؤڈ ( Loud ) ہوجاتا ہے ، اور رقص میں شدّت آجاتی ہے ۔
’’ یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔ ؟ ‘‘ میں سوال کرتا ہوں ۔
’’ منّی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈانس کر رہی ہے ۔ ‘‘
میں حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگتا ہوں ۔ ، تو وہ پھر کہتی ہے ، ’’ لڑکا اچھا ہے ۔ اسی لیے میں بھی بڑھاوا دے رہی ہوں ، ہمارے پا س لاکھ روپیہ پیسہ سہی ، لیکن اچھے لڑکے کہاں ملتے ہیں ، بس وہ شادی کے لیے راضی ہوجائے ، اب تو یہی آرزو ہے ۔ ‘‘
’’ اور اگر اُس لڑکے نے شادی سے انکار کر دیا تو ۔۔۔ ؟ ‘‘ ایک دم میری زبان سے نکلا ۔
’’ تو کیا فرق پڑے گا ۔۔۔ ! مُنّی کو کوئی اور کھلونا دلادیں گے ۔۔۔ ! ‘‘
’’کیا-؟؟؟‘‘میں سر سے پیر تک لرز جاتاہوںاورمیری زبان سے ماش کی دال کاساراذائقہ یک لخت کافورہوجاتاہے اور بے شمار کنکریاں میرے دانتوںمیں آجاتی ہیں ،میرے چہرے کارنگ اُڑجاتاہے ۔مجھے محسوس ہوتاہے جیسے یہ بلند و بالا دیواریں ایک ساتھ مجھ پر گرپڑیں گی۔میں پاگلوںکی طرح چلاتاہوں،’’مجھے بچاؤ۔۔۔ مجھے بچاؤ ۔۔۔ میں یہ کہاں آگیاہوں؟کن لوگوںمیں پھنس گیاہوں ۔۔۔ مجھے بچاؤ ۔۔۔ یہ میرا گھرنہیں ہوسکتا،میں کہاں ہوں؟‘‘
باف کٹ عورت کی انگلیاں تیزی سے ٹیلیفون کے ڈائل پرگردش کرنے لگتی ہیں ،اچانک میری سوچ کازاویہ بدلتاہے،اورمیں پوری قوت کے ساتھ ڈائیننگ ٹیبل کواُلٹ دیتاہوں،ایک ہی لمحے میں ساری چیزیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور اپنی شناخت کھودیتی ہیں ، میرے لبوںسے ایک قہقہہ بلند ہوتاہے او رمیں چاروں طرف فاتحانہ انداز میں دیکھنے لگتاہوں، باف کٹ عورت پسینے میں نہاجاتی ہے اور اس کے چہرے کا سارامیک اب اترجاتاہے میری نظریں کھلونوںکی الماری پرٹھہرجاتی ہیں ، ریچھ ڈرم پرہاتھ مارتاہے اور الماری کے پٹ آپ ہی آپ کھل جاتے ہیں اور پھر سارے ہی کھلونے اپنی اپنی چابیوںکے بھروسے باہرنکل آتے ہیں ،لیکن وہ زیادہ مسافت طے نہیں کرپاتے اور پھر بے جان ہوکررک جاتے ہیں۔ کھڑکی سے باہرآم کی ٹہنیاں شورمچانے لگتی ہیں اور بونی یم کا کیسٹ کہیں اٹک جاتاہے ، تھرکتے قدم رک جاتے ہیں میں ایک قدم آگے بڑھاتاہوں،چینی کی پلیٹوںکے ٹکڑوںمیں میرا چہرہ منتشرہوجاتاہے اور کوئی اندرسے آواز دیتاہے ۔۔۔ پردے گرادو یہی وقت کاتقاضاہے ۔۔۔ میں جھک کرکرچیاں جمع کرنے لگتاہوں اورپلٹ کرباف کٹ عورت کی طرف دیکھتاہوں ،توجانے کیوںمجھے محسوس ہوتاہے جیسے وہ بھی اپنے لمبے لمبے بالوںکوکہیں تلاش کررہی ہے ،میرے چہرے پراطمینان بحال ہوجاتا ہے اور میں اپنا ملاقاتی کارڈ پھاڑدیتاہوں۔
٭٭٭