ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی سلیم الدین نے گھڑی دیکھی ، اور پھر خود ہی ششدر رہ گیا ۔ اُسے اپنے آپ پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ اُس نے ایک بار پھر اپنی اور پلیٹ فارم پر ٹنگی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا ، اور بے اختیار اُس کے لبوں سے نکلا ، کمال ہے ۔ گذ شتہ بیس برسوں سے اِسی تاریخ کو ہر برس میں یہاں آرہا ہوں لیکن یہ پہلا اتفاق ہے کہ میں ٹرین کی آمد سے پہلے پہنچ گیا ۔
پلیٹ فارم پر ہمیشہ کی طرح چہل پہل تھی ۔ چائے والے لڑکے ہاتھوں میں کیتلیاں تھامے آوازیں لگا رہے تھے ۔ میوا فروش اپنی گاڑیوں پر مختلف پھل سجائے اِدھر اُدھر کھینچ رہے تھے ۔ کچھ منچلے کتابوں کے اسٹال پر جھکے رسائل کی ورق گردانی کررہے تھے ۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظریں نبّو پہلوان پر ٹھہر گئیں اور اس سے پہلے کہ وہ اُسے پہچان لیتا وہ فوراً وہاں سے ہٹ گیا اور تیزتیز قدم اُٹھاتا ہوا پلیٹ فارم کے آخری سرے کی طرف بڑھنے لگا ۔ اُسے حیرت تھی کہ نبو پہلوان کی صحت اس قدر گر گئی ہے کہ وہ اب محض اپنی مونچھوں کے باعث ہی پہچانا گیا ۔ ورنہ آج سے بیس برس پہلے۔۔۔ اللہ کی پناہ ، وہ تو اُس کی آہٹ ہی سے کانپنے لگتا تھا ۔
پلیٹ فارم کے آخری سرے پر روشنی بہت کم تھی اور لوگوں کی چہل پہل بھی نہیں کے برابر تھی ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت اس حصّے میں سوائے اُس کے اور کوئی نہیں تھا تو شاید غلط نہ ہوگا ۔ اُس نے دیکھا دوچار سمنٹ کے بینچ ( Bench) پڑے ہوئے ہیں ۔ پانی کی ایک ٹاکی ہے لیکن ۔۔۔ لیکن شاید ہی کبھی اُس میں پانی پہنچا ہوگا ۔ نیم کا ایک بڑا سا درخت ہے ۔ جو کم روشنی کے باعث اُداسی میں ڈوباہوا محسوس ہوتا ہے ۔ وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا ، کیا وہ بھی میری طرح ہر برس اِسی تاریخ کو یہاں پر آتی ہوگی ۔۔۔ ؟ پتہ نہیں وہ کس حال میں اور کس مقام پر ہوگی ۔ اُس نے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھا ، دور جگمگاتی روشنی میں دادر سے لوگ نیچے اوپر بھاگ رہے تھے ۔ پھر اُن بھاگتی پر چھائیوں میں ایک چہرہ اُس کی آنکھوں میں در آیا ۔۔۔ بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ، جن میں بیک وقت شرارت اور حیا کے ڈورے مچلتے رہتے ۔ ستواں ناک ، ریشمی بال ، چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ ، جیسے مونالیزہ نے ایک زندہ جسم میں پناہ لی ہو ۔۔۔ صادقہ ۔۔ اُس کے لبوں سے ایک آہ نکلی اور آنکھیں پھیل گئیں،’’صادقہ کیا تم بھی مجھے یاد کرتی ہو۔۔؟ یا تم واقعی مجھے بھول چکی ہو ۔۔۔؟
پتہ نہیں کیوں اُ سکے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی اور ذہن میں ایک چھناکہ سا ہوا ، ’’ کیا تم ایسا سمجھتے ہو کہ میں تمھیں بھول جاؤں گی؟ ‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ ! ایسا تو نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ۔۔۔ ؟ ‘‘ اُس کے لب خاموش ہوگئے اور آنکھیں صادقہ کی آنکھوں میں سچائیوں کو تلاش کرنے لگیں ۔
’’ بُرا نہ مانو تو سچ بات کہوں ۔؟ ‘‘ اُس نے دیدے مٹکائے اور شرارت اُس کی آنکھوں سے ٹپکنے لگی ، ’’ میں تمھیں بھول بھی سکتی ہوں ۔ ‘‘ اور پھر ایک زور دار قہقہہ اس کے لبوں سے نکل کر دور بہت دور تک گونجنے لگا ۔ وہ کھسیانا ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ اُداسی اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔
’’ کیوں ڈر گئے ۔ ؟ ‘‘ شرارت اب آنکھوں سے اُتر کر آواز میں سمونے لگی تھی ، ’’ سلیم تم تو جانتے ہو ، میں کس قدر بھلکڑہوں کتنی ہی قریب کی باتیں بھول جاتی ہوں اور تم یاد دلاتے ہو ۔۔۔ چلو اگر میں بھول بھی جاؤں تو تم مجھے یاد دلا دینا۔۔۔ ‘‘ وہ اس کے سینے سے لگ گئی ۔
’’ نہیں ۔۔۔ میں تمھیں کچھ بھی یاد نہیں دلاؤں گا ۔ ہاں دور سے تمہاری عظمتوں کو سلام کروں گا ۔ ‘‘
’’ اچھا ذرا میری طرف تو دیکھو ۔ ! ‘‘
اُس نے گردن اُٹھائی تو حیرت میں ڈوب گیا ۔ اگلی بینچ پر ایک برقع پوش لڑکی سمٹی سمٹائی بیٹھی تھی ۔ وہ سوچنے لگا ، یہ کب یہاں پر پہنچی اور کس طرف سے آئی ۔ اُسے تو پتہ بھی نہیں چلا ۔ اُس نے ایک بار پھر اُس کا جائزہ لیا ۔ کم روشنی کے باؤجود اُس کی نگاہیں لڑکی کے سیدھے ہاتھ پر جم کر رہ گئیں ۔ اُس کی تیسری اُنگلی میں پھنسی انگوٹھی کو دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھا ۔۔۔ ایسی ہی انگوٹھی اس نے کبھی صادقہ کو پہنائی تھی ۔ اُس کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا ۔ ۔۔۔ یہ انگوٹھی ۔۔۔ یہ انگوٹھی ۔۔۔
’’ ابھی سے لانے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ ؟ ‘‘ خوشی کے مارے صادقہ کے چہرے پر ایسی سرخی دوڑ گئی جیسے مہندی کی ساری لالی کسی نے اُس کے چہرے پر مل دیا ہو ۔ وہ خوشی سے جھوم اُٹھی ۔
’’ تمھیں پسند ہے نا ۔ ‘‘ سلیم نے انگوٹھی کی ڈبیا اُس کی طرف بڑھائی ۔
’’ عقل مند۔۔۔ انگوٹھی دی نہیں جاتی بلکہ پہنائی جاتی ہے ۔ ‘‘ اور پھر صادقہ نے اپنا سیدھا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا ۔
ایک لمحہ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔ اُس نے اُس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ۔ محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر وفا کی قسمیں کھارہا تھا ۔ اور اُس کے کانوں میں شہنائیاں گونج اُٹھیں ۔ اُس نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی اُنگلی میں انگوٹھی پہنادی اور پھر بے اختیار اُسے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اپنے اعتماد کو اس کے لبوں پر ثبت کر دیا ۔ شدّتِ جذبات سے صادقہ بے قابو ہوگئی اور پھر اُس کی باہیں سلیم کی گردن میں حائل ہوگئیں ، ’’ سلیم میرے نزدیک یہ محض انگوٹھی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے پیار کی نشانی ہے اور ہماری وفاداریوں کی ضامن بھی ۔۔۔ سلیم ۔۔۔ میں اسے اپنے سے کبھی جدا نہیں کروں گی ۔ ‘‘
اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔
’’ چائے منگتا بابوجی ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ آں ۔ ‘‘ وہ ایسے چونکا جیسے نبو پہلوان نے اُسے دھر لیا ہو ۔
’’ کیا ہوا بابوجی ۔۔۔ ؟ سوگئے تھے ۔ ؟ ‘‘ چائے والا لڑکا تمسخرانہ انداز میں گویا ہوا ، ’’ اپن پوچھا ، چائے منگتا بابو جی ۔ ‘‘
’’ نہیں نہیں ۔۔۔ مجھے چائے نہیں چاہیے ۔ ‘‘
’’ پھر کیا منگتا ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ پانی ۔۔۔ پانی ملے گا ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ پانی۔۔۔ ؟ ‘‘ چائے والے لڑکے نے حقارت سے اُس کی طرف دیکھا ، ’’ اپن سمجھا ۔۔۔ چائے نہیں تو تم بیڑی سگریٹ مانگے گا ۔۔۔ پانی ہونہہ ۔ ‘‘ وہ سوکھی ٹاکی کی طرف دیکھتا ہوا بولا ، ’’ پانی اِدھر کدھر ۔۔۔ پانی کے واسطے بابوجی تم کو اُدھر ۔۔ کینٹین کی طرف جانے کو منگتا ۔۔۔ سمجھا ۔۔۔ ؟ چائے بولو تو اپن ابھی ۔۔۔ ! ‘‘
’’ ارے ایک بار بولا نا ۔۔۔ میں چائے نہیں پیتا ۔ ‘‘
لڑکے نے اپنے کندھے اُچکائے اور پھر وہ آگے بڑھ گیا ۔
’’ لیجیے پانی ۔۔۔ ! ‘‘ آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی ۔ اس نے اپنے سامنے دیکھا ۔ برقعہ پوش لڑکی نے پانی سے بھرا ہوا گلاس اُس کی طرف بنا دیکھے بڑھایا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور فوراً گلاس لیتا ہوا اپنی جگہ پر واپس آگیا اور ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کر دیا ۔ پانی نہایت ٹھنڈا اور لذیز تھا ۔ اُس کی روح سرشار ہوگئی ۔ لیکن گلاس کو لوٹاتے وقت جب اُس نے دیکھا تو بڑا متعجب ہوا ۔۔۔ کیا اس شہر میں آج بھی بیس برس پُرانے ڈیزائن کے گلاس ملتے ہیں ۔ ؟ لیکن یہ سوال پوچھنے کی اُس میں ہمت نہ ہوئی ۔ البتہ گلاس کے ڈیزائن اور رنگت نے اُسے بہت دور کہیں ماضی کے جھروکوں میں پہنچا دیا ۔۔۔ صادقہ کو بھی اسی طرح کے گلاس بے حد پسند تھے۔ شربتی رنگ کے بلوریں گلاس ۔۔۔ جن میں پانی کی رنگت بھی کسی مشروب سے کم نہیں نظر آتی ۔۔۔ صادقہ کے ساتھ جب جب بھی کالج کی پک نک پارٹیوں میں جانے کا اتفاق ہوا ، اُس کے توشے میں ایسا ہی ایک گلاس ضرور ہوتا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ ایسی ہی ایک پک نک پارٹی تھی اور میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر گلاس چکنا چور ہو گیا تھا ۔ گلاس کا ٹوٹنا تھا کہ وہ ایک دم اُداس ہوگئی ۔ میں نے اُسے یقین دلایا کہ میں ایسا ہی ایک خوبصورت دوسرا گلاس لادوں گا ۔ ۔۔
تب اُس نے کہا تھا ، ’’ میں دوسرے کی قائل نہیں ہوں ۔۔۔ میری زندگی میں کوئی چیز دوسری نہیں ہوگی ۔ ‘‘
اور پھر وہ روپڑی تھی ۔
’’ اللہ کے نام پر کچھ دلادو بابا ۔۔۔ تمہارا بھلا ہوگا ۔ ‘‘
اُس نے آنکھیں کھولیں ۔ اُس کے سامنے ایک صحت مند تیرا چؤدہ برس کا لڑکا ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا ۔ غصّے سے اُس کی بھنویں تن گئیں ۔
’’ ابھی تک تمہاری عادت نہیں بدلی ۔ ‘‘ ایک نسوانی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی ۔ اُس نے چونک کر سامنے دیکھا ۔ لیکن بُرقعہ پوش لڑکی اُس سے بے نیاز گم صم بیٹھی تھی ۔
’’ جاؤ بابو یہاں سے ۔ میں تمہاری طرح کے لڑکوں کو خیرات نہیں دیتا ۔ جاؤ محنت مزدوری کرو ۔۔۔ جاؤ ۔۔ ‘‘
وہ اس کے سامنے سے آگے بڑھ گیا ۔ اُس نے پھر ایک بار پلیٹ فارم کی طرف دیکھا لیکن ٹرین کی آمد کا سگنل اب بھی منہ چڑھا رہا تھا ۔ اُسے سگریٹ کی شدید طلب محسوس ہوئی اور وہ اپنی جیبوں کو ٹٹولنے لگا ۔
’’ سگریٹ کی ڈبیا تمہارے اوپر کے جیب میں ہے ۔ ‘‘
’’ تمھیں کیسے پتہ چلا ۔۔۔ ؟ ‘‘ اُس کے اِس سوال پر لڑکی ہنس پڑی ، ’’ ہر سگریٹ نوش اپنے شرٹ کے جیب میں سگریٹ کی ڈبیا رکھتا ہے ، اور ماچس پینٹ کی جیب میں ۔ ‘‘
سلیم الدین خاموش ہوگیا اور سگریٹ کے لمبے لمبے کش لینے لگا ۔
’’ تم سگریٹ پیتے ہو تو آج بھی بہت اچھے لگتے ہو ۔ ‘‘
وہ پھر چونک اُٹھا ۔ اُسے پھر لڑکی پر شبہ ہوا لیکن وہ تو منہ نیوڑائے دوسری طرف دیکھ رہی تھی ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم آوازیں بھی وہی سنتے ہیں جو ہماری مرضی کے مطابق ہوتی ہے ۔ لیکن اُن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور پلیٹ فارم کی گہما گہمی کی طرف بڑھنے لگا ۔ برقع پوش لڑکی بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی ، لیکن وہ وہی پر رُکی رہی اور اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہی ۔ وہ اِدھر اُدھر ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو ۔ وہ چلتے چلتے پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا لیکن اُس کی بے چینی ظاہر کر رہی تھی کہ جس چیز کی اُسے تلاش ہے وہ ابھی تک اُسے نظر نہیں آئی ۔ اُس کے قدم پھر ایک بار خود بخود واپس اُسی مقام پر لے آئے جہاں سے وہ چلا تھا ۔ وہ پھر ایک بار اُسی بینچ پر بیٹھ گیا ۔ کم روشنی میں اب بھی برقع پوش لڑکی اُسی طرح بیٹھی ہوئی تھی ۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بے اختیار پوچھ بیٹھا ، ’’ تم کہاں جارہی ہو ۔؟ ‘‘
’’ معلوم نہیں ۔۔۔ ! ‘‘ اُسے مختصر سا جواب ملا ۔ اُس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ میں بھی ایک ایسے خواب کو ڈھونڈھ رہا ہوں جو برسوں پہلے کبھی میری آنکھوں میں جھلملایا تھا ۔ ‘‘
’’ مطلب ۔۔۔ ؟ ‘‘ لڑکی پوری طرح اُس کے سامنے آگئی ۔ پہلی مرتبہ اُس نے برقعہ کی جالی کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی بے چین آنکھوں کو دیکھا اور ایک لمحے کے لیے تڑپ اُٹھا ، ’’ تمہاری آنکھیں بالکل اُس کی طرح ہیں ۔ ‘‘
’’ کس کی طرح ۔۔۔ ؟ ‘‘ لڑکی نے سوال کیا ۔
ایک ٹھنڈی آہ اُس کے لبوں سے نکل گئی ، ’’ یہ ایک لمبی داستان ہے ۔ تم سُن کر کیا کروگی ۔ ؟ ‘‘
’’ شاید تمہارے غم میں اپنا غم بھول جاؤں گی ۔ ‘‘
’’ تمھیں کیا غم ہے ۔۔۔ ؟ ‘‘ وہ ایک دم پوچھ بیٹھا ۔
’’ پہلے تم اپنا کہو ۔۔۔ ‘‘
اُس نے پھر ایک بار سگریٹ سلگائی ۔ ایک نظر جلتی سگریٹ پر ڈالی اور پھر کہنے لگا ، ’’کبھی میں بھی اسی شہر میں پڑھنے کے لیے آیا تھا ۔میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی ۔ میرے پڑوس میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی صادقہ رہا کرتی تھی ۔ اُس کے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت تھی ۔ وہ بات کرتی تو پھول جھڑتے تھے ۔ سارا شہر اُس کا دیوانہ تھا ۔ ‘‘
’’ اور وہ لڑ کی تم سے بے حد محبت کرتی تھی ۔ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ ہم اتفاق سے ایک ہی کالج میں پرھتے تھے ۔ ‘‘ ’’اور جب بھی وہ دھانی رنگ کے کپڑے زیب تن کرتی تو تم مچل اُٹھتے تھے۔ ‘‘ ’’تمھیں کیسے معلوم ۔۔۔ ؟ ‘‘ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے قریب آگیا ۔
’’ تمھیں اس سے کیا ۔۔۔ ؟ لیکن میں نے جو بھی کہا کیا وہ غلط ہے ؟ ‘‘
اُس نے انکار میں گردن ہلائی ، اور پھر کہنے لگا ، ’’ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے بیچ اُس کا ماموں زاد بھائی نبو پہلوان آگیا ۔ اُس نے اپنے رشتے کا حق جتانا شروع کیا ، لیکن میری محبت نے زور مارا اور ہم دونوں نے دنیا کی پرواہ کیے بغیر اس شہر سے دور بہت دور بھاگنے کا پلان بنایا تھا ۔ ‘‘
’’ لیکن تم اپنے پلان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے ۔ ‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ ! تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے ۔ ‘‘ اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوگئی ۔ آج سے پورے بیس برس پہلے اسی تاریخ کو ہم گھر سے باہر نکلے تھے ۔ میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا ۔ لیکن پتہ نہیں یہ راز کس طرح نبو پہلوان پر افشاں ہوگیا اور وہ میرے آڑے آگیا ۔ میں اُس سے پٹتا پٹاتا کسی طرح جب ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو پتہ چلا کہ گاڑی تو کب کی جا چکی ہے ۔ میں نے اُسے وہاں پر بہت تلاش کیا لیکن وہ مجھے نہیں ملی ۔ شاید وہ اسٹیشن پر پہنچی ہی نہیں تھی ۔ تب سے لے کرآج تک میں مسلسل بیس برسوں سے اسی تاریخ کو یہاں پر آتا ہوں اس اُمید پر کہ شاید وہ بھی آئیگی ۔ لیکن جب جب بھی میں یہاں پر پہنچا میرے آنے سے پہلے ہی ٹرین جاچکی ہوتی ، اور ہر بار میں ناکام و نامراد لوٹ جاتا ہوں ۔ ‘‘
وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا ۔ تب وہ بولی ، ’’ میری کہانی بھی وہی ہے جو تمہاری ہے ۔ ‘‘
’’ مطلب ۔۔۔ ؟ ‘‘ اُس نے سگریٹ کا آخری کش لیا ۔
’’ مطلب یہ کہ یہ بالکل غلط ہے کہ میں ریلوے اسٹیشن نہیں پہنچی تھی ۔ میں پہنچی تھی ۔ لیکن تم ہی نہیں آئے تھے ۔ اپنی رسوائی سے ڈر کر میں نے خود کشی کرلی تھی ۔ ‘‘
’’ کیا۔۔۔ ؟؟؟ ‘‘ وہ سگریٹ کو بینچ پر رگڑ کر جونہی اُس کی طرف پلٹا ، تو اُس کی بینچ خالی تھی ۔ وہاں کوئی نہیں تھا ۔
دور ٹرین کی آمد کی گھنٹیاں بج رہی تھیں ۔ پلیٹ فارم پر چہل پہل میں شدّت آگئی تھی ۔ بے اختیار اُس کے دونوں ہاتھ پتلون کی خالی جیبوں میں دھنس گئے اور پھر وہ آہستہ آہستہ خود بھی بھیڑ کا ایک حصّہ بن گیا ۔
٭٭٭