اصغرعلی نے چلتے چلتے جونہی پلٹ کردیکھا،اُنھیں محسوس ہواجیسے اُن کے خاندان کے سارے ہی بزرگ اُن کی طرف حقارت سے دیکھ رہے ہیں،اُن کاسر ندامت سے جھک گیا۔شرافت وعظمت کی وہ چادرجوصدیوں سے اُن کے خاندان کی میراث تھی،کسی نے بھرے بازارمیں اُن کے بدن سے کھینچ لی ہے اوروہ بے آبرو ہوگئے ہیں۔ اُن کے قدم وہیں رُک گئے۔انھوں نے آنکھیں بندکرلیںتووہی دالان آنکھوں میں اُبھرآیااورپھراُنھیں محسوس ہواجیسے سکینہ فون سے لگی ہوئی ہے ،اُس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ہے اوروہ نہایت بے شرمی سے ہنس ہنس کرباتیں کررہی ہے۔ اُنھوں نے فوراًآنکھیں کھولدیں،اِدھراُدھردیکھا،راستہ معمول کے مطابق بہہ رہاتھا۔کسی نوجوان نے اُنھیں نہایت ادب سے سلام کیا،اُنھوں نے بھی مسکرا کر جواب دیا اورپھرخودہی ٹھٹھک گئے۔پلٹ کردیکھا،وہ تیزتیزقدموںسے چلاجا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگے،یہ لڑکاکون ہوگا؟اورآخراس بھیڑمیں اس نے مجھے ہی سلام کیوں کیا - ؟اورسلام کیابھی تھاتواس قدر ادب کی کیاضرورت تھی؟
انھوں نے پھرایک بارسڑک پراُسے تلاش کیا،لیکن وہ نظرنہ آیا،البتہ اُن کی نظریں ایک ٹیلیفون بوتھ پرجم گئیں اورشک اُن کے دماغ میں سرگوشیاں کرنے لگا۔ اُن کادل بے اختیارچاہاکہ فوراً گھرواپس ہوجائیں اوروہ اس ارادے سے پلٹے ہی تھے کہ اُن کے جگری دوست رحمت خان نے اُنھیں آوازدی،’’کیوںبھئی مجھے دیکھتے ہی راستہ بدلنے لگے؟‘‘
’’ارے نہیں خان صاحب !‘‘مصافحے کے لئے اپناہاتھ بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا،’’آپ کے توبڑے احسانات ہیں۔آپ کودیکھ کربھلاہم کیسے راستہ بدل سکتے ہیں !‘‘ خان صاحب کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی، ’’ارے چھوڑئیے اِن باتوںکو !‘‘
’’کیسے چھوڑدیں ؟‘‘اصغرعلی نے اُن کی آنکھوں میں ممنونیت سے جھانکتے ہوئے کہا،’’اگراُس وقت آپ ہماری مددنہ کرتے توکیاعابدہ کی شادی ممکن تھی ۔۔ ؟‘‘
’’سیدصاحب! اب عابدہ کاکیاذکر، سکینہ کاسوچئیے۔۔۔سُناہے کہ وہ۔۔۔!‘‘خان صاحب ایک لمحے کے لئے رُک گئے اوراصغرعلی کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی،توکیاخان صاحب کوبھی وہ بات معلوم ہوگئی ۔۔۔ ؟ ‘‘ اُن کا سرجھک گیااورزبان سے نکلا،’’جی وہ تو۔۔۔!‘‘
’’پڑھ رہی ہے ابھی۔۔۔یہی نا۔۔۔؟لیکن میں پوچھتاہوں کب تلک پڑھاؤ گے اُسے ؟‘‘پھرخان صاحب نے نہایت رازداری سے کہا،’’زمانہ بڑا خراب آرہاہے،اب میں کیابتاؤں آپ کو !‘‘
’’جی جی۔۔۔ !‘‘اصغرعلی کے چہرے پراطمینان بحال ہوگیا،’’آپ بالکل دُرست فرمارہے ہیں خان صاحب،میں بالکل سمجھ گیاہوں،زمانہ بڑاخراب آ رہا ہے!‘‘اورپھروہ اس تیزی سے وہاں سے نکلے کہ رحمت خان اُنھیں دیکھتے ہی رہ گئے۔
اصغرعلی جس قدرتیزی سے قدم اُٹھارہے تھے۔اُس سے بھی تیزاُن کے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔اُن کے کانوںمیں باربارٹیلیفون کی گھنٹی بجتی۔وہ جب جب بھی اپنے وسوسوںپرقابوپانے کی کوشش کرتے۔سکینہ اُن کی آنکھوں کے سامنے آکرکھڑی ہوجاتی اوروہ پھراپنی سوچ میں ڈوب جاتے۔آخرسکینہ کواتنی جلدی کیوںہے -؟
’’جلدی نہیں کروگے توپچھتاؤگے -!‘‘اُن کے کانوںسے کسی کی آوازٹکرائی ،اُنھوں نے اِدھراُدھردیکھا، لیکن اُن کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں تھا۔آسمان میںدوپرندے ایک ساتھ اُڑرہے تھے۔اُنھوں نے جونہی اُن کے تعاقب میں گردن اُٹھائی،اُن کی ٹوپی نیچے گرپڑی۔
’’ارے بڈھے کی ٹوپی گرگئی -!‘‘شایدکوئی لڑکاچیخاتھااورپھراُس کے بعد ایک دم قہقہوںکاشوربلندہوگیا۔ اُنھوں نے جلدی سے اپنی ٹوپی اُٹھائی،عینک کے شیشوںسے شریربچوںکی طرف دیکھااورپھرآگے بڑھ گئے۔لیکن اُن کے دل ودماغ پرایک ہی سوچ سوارتھی-آخرسکینہ کویہ کیاہوگیاہے -؟ اُسے اتنی جلدی کیوںہے-؟
’’تمہیں بھی توبہت جلدی تھی !‘‘
’’مجھے ؟؟؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ یادکرواپنے وہ جوانی کے ایام ۔۔۔ !‘‘
چلتے چلتے ہی اُن کاذہن بہت پیچھے ۔۔۔ماضی کی طرف کہیں پلٹ کردیکھنے لگا،وہ شرمائے لجائے بیٹھے تھے اور اُن کے والداکبرعلی حُقّے کی نلی منہ میں دبائے ،اُنھیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔اصغرعلی کی خاموشی کے باعث اُن کے گال پھولتے جارہے تھے اورغصّہ اُن کی آنکھوںسے گڑگُڑارہاتھا۔
اباجان ۔۔۔میری بس اتنی سی التجا ہے -!‘‘اپنی ساری جسارتوںکوسمیٹ کراُنھوں نے کہاتھااورجواب میں اُن کے اطراف تیزی سے دھواںپھیل گیاتھا۔ ’’تمہیں اپنے عقیدے کی ذمہ داریوںکابھی احساس نہیں۔۔۔ ہم سیدوں میں نہ تولڑکیاںباہرسے آتی ہیں اورنا ہی باہربیاہی جاتی ہیں ۔۔۔ تمہارے حق میں بھی خاندان کایہی فیصلہ ہوگا-!‘‘وہ اپنی جگہ سے اُٹھ گئے تواصغرعلی بھی کھڑے ہوگئے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخروالدکوکیسے سمجھائیں،اُنھوں نے دل ہی دل میں نادِعلی کاوِردکرنا شروع کیا،پھراپنے آپ کو سمیٹااورپوری ہمت کے ساتھ دلیل دینے لگے،’’ابّاجان -!وہ تونہایت پابندی سے امام باڑے میں آتی رہی ہے، اُس نے تمام مجلسوںمیں شرکت بھی کی اورمجھے معلوم ہے یوم عاشورہ اُس نے فاقہ بھی کیاتھا۔ اُس کی طورطریقوں میں بھی اب بڑی تبدیلی آگئی ہے۔۔۔ اور اگر آپ کی سرپرستی مل گئی تووہ بھی۔۔۔!‘‘
’’مولاتمہاری حفاظت کرے -!‘‘اکبرعلی نے اُن کی بات کاٹی، ’’مولا تمہیں عقل دے -!‘‘اب اُن کالہجہ ایک دم بدل گیاتھا، وہ بیٹے کی طرف پلٹے ،اور پھرنہایت محبت بھرے انداز میں اُسے سمجھانے لگے،’’دیکھو بیٹے -! آنکھوں میں غم حُسین کے بجائے ملاقات کی چمک لے کراگرکوئی امام باڑے میں آئے بھی تواُس کی آمدکوحق نہیں کہا جاسکتا - اورپھرصرف طورطریقے بدلنے سے مسلک تونہیں بدل جاتا۔تم خود اس بات کوسوچو!‘‘اُنھوں نے بیٹے کے کندھے پراپناہاتھ رکھا، اور پھر اُسے دروازے کی طرف لیجاتے ہوئے کہناشروع کیا،’’ہمارافرقہ مسلمانوں میں اقلیت ہے۔چھوٹی جماعتوں کے مسلے مسائل بہت بڑے ہوتے ہیں۔خصوصاًشادی بیاہ کے مسائل - اچھے بَریوںبھی مشکل سے ملتے ہیں اوراُس پربھی تم کسی کا حق مارنا چاہتے ہو ؟بیٹے ۔۔۔اگرتم ہماری پسندمیں اپنی مرضی شامل کرلوگے توہم وعدہ کرتے ہیں خوب دھوم دھام سے تمہاری شادی کریں گے ۔ہفتوںشہنایاں بجیں گی۔دھوم دھڑکاہوگا -!‘‘
لیکن اصغرعلی کی اپنی پسندکے باوجودشہنایاں بجیں ،سڑکوںاورگلیاروں میں نہ سہی ،دلوں میں ، اورشمشادبیگم اصغرعلی کے گھرآگئیں،لاکھ تناؤ تھا،لیکن رفتہ رفتہ حالات معمول پرآنے لگے۔اکبرعلی نے بیٹے کی خوشیوں کی خاطراپنے دُکھ پرپتھررکھ لئے اورخاموشی میں ہی سہی چھوٹی موٹی تقریبات ہونے لگیں اورآخران ہی تقریبات میں اصغرعلی نے وہ جملہ بھی سن لیا،کوئی کہہ رہاتھا،دیکھنااب اس گھرسے روایتیں دم توڑدیں گی۔نجیب الطرفین خون باقی نہ رہے گا۔اصغرعلی کی پیروی نسل درنسل ہوتی رہے گی -!
اصغرعلی ایک دم ماضی سے باہرنکل آئے۔آخری جملہ اُنھیں پسینے میں شرابور کرگیا۔ توکیا،اب سکینہ بھی بغاوت کرے گی؟ مسلک ،جماعت،فرقہ،طورطریقے سب کچھ تیاگ کر ۔۔۔!‘‘
اُنھیں چکّرسے آنے لگے۔اُنھوں نے دونوںہاتھوںسے اپناسرتھام لیا، آنکھوں میں اندھیری سی چھانے لگی وہ ایکدم سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔جب کچھ طبیعت سنبھلی اُنھوں نے آٹورکشہ روکااوراپنے گھرلوٹ آئے ۔
سکینہ کالج سے ابھی تک لوٹی نہیںتھی۔وہ چپ چاپ ڈرائنگ روم ہی میں بیٹھ گئے۔دالان میں اُن کی بیوی تمیزخان جاگیرداراورابومیاںگلفروش کی بیویوںکے ساتھ محوِ گفتگوتھیں۔بات چیت کی آوازیں اُن کے کانوںسے بھی ٹکرانے لگیں۔
’’دیکھوبہن !وہ راشدماسٹرکی کتنی سیدھی سادھی لڑکی تھی روبینہ ، بھلا کوئی سوچ بھی سکتاتھاکہ وہ اس طرح گل کھلائے گی ؟‘‘
’’کیاگُل کھلائے اُس نے ۔۔۔ ؟‘‘
’’اے لو۔۔۔ ان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے !‘‘یہ آواز ابومیاں گلفروش کی بیوی کی تھی،’’موّی کالج کوجاتی تھی پڑھنے کو،اورہوگیا،آنکھ مٹکّا اب نہ ذات نہ جماعت ، بس صبح صبح بھاگ گئی گھرسے !‘‘
’’کیا ۔۔۔ ؟‘‘شمشادبیگم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
’’اورپڑھاؤ بیٹیوں کوکالج میں ۔۔۔ !‘‘
اصغرعلی کوبڑی زورکی کھانسی کادورہ پڑا،اُن کی بیوی دوڑتی ہوئی اُن کے پاس پہنچی۔
’’اے بہن تم نے چائے کیوںنہیں پی ؟‘‘تمیزخان جاگیردارکی بیوی نے ابومیاں گلفروش کی بیوی سے سوال کیا۔
’’میں توکبھی کچھ نہیں کھاتی پیتی ان کے گھر !‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’باہربتاؤںگی !‘‘اُس نے منہ پرانگلی رکھی،دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھااورپھرخاموش ہوگئیں۔
اصغرعلی کھانستے کھانستے بے دم ہورہے تھے۔پاس ہی پانی کی صراحی رکھی ہوئی تھی۔شمشادبیگم نے جلدی سے گلاس بھرپانی اُن کے ہاتھوںمیں تھمادیا۔پانی پینے کے بعدبھی اُن کی سانسیں برابرنہیں ہوئیں ، لیکن اُسی ڈوبتی اُبھرتی سانسوں کے درمیان انھوں نے کہا،’’بیگم ۔۔۔ مجھے سکینہ کی بڑی فکرہوتی ہے ۔ ‘‘
’’ہاں!فکرتومجھے بھی ہے،لیکن کیاکریں،کوئی مناسب رشتہ آئے تو۔۔۔!‘‘
’’مناسب ؟‘‘اصغرعلی کی کانوںمیں ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی اورشمشادبیگم نے ٹھنڈی آہ بھری،’’میرے بھائی کالڑکادلاور۔۔۔وہ توتمہیں پسندنہیں ہے ۔!‘‘
’’مجھے پسندنہیں ہے ۔۔۔؟‘‘اصغرعلی کی آواز قدرے اونچی ہوگئی،’’مولاہی کوپسندنہیں ہے ، استخارہ نہیں آگیا تھا،میں کیاکرتا -!‘‘
’’ارے تم چاہتے اگرتوسب کچھ ہوسکتاتھا،مگر۔۔۔اپنی شادی کے وقت توتم نے استخارہ نہیں کروایاتھا -!‘‘ شمشادبیگم کی آوازمیں گہراطنزتھا۔
’’تمہاری سمجھ میں نہیں آئینگی یہ باتیں ۔۔۔!‘‘اصغرعلی نے گردن پھیرلی، ’’سکینہ شایدابھی تک کالج سے نہیں آئی ہے -!‘‘
’’ہاں ۔۔۔ نہیں آئی ہے ۔‘‘
’’لگتاہے ، اب اُس کی پڑھائی ختم کردیناچاہئیے !‘‘
’’کیوں ۔۔۔ ؟‘‘بیوی نے استہفامیہ نظروںسے اُن کی طرف دیکھا۔
’’تمہیں کچھ پتہ نہیں ہے۔‘‘اصغرعلی نے کہناشروع کیا،’’صبح وہ کالج گئی اور اُس کے کچھ ہی دیربعدایک فون آیاتھا،کوئی لڑکاتھا۔لہجے سے قطعی سید تو کُجا مسلمان بھی نہیں لگتاتھا،اُس نے مجھ سے ایسی بات کہی کہ میں اُسے بیان بھی نہیں کرسکتا ۔‘‘
’’لیکن وہ تھا کون؟اُس کا نام کیاتھا؟‘‘شمشادبیگم بھی پریشان ہوگئیں۔
’’اب میں وہ کیاجانوں ؟‘‘
’’ارے تواُس سے ہی پوچھ لیاہوتا۔‘‘
’’میں نے پوچھاتھا،لیکن اُس نے بتایاہی نہیں اورفون کٹ کردیا۔‘‘
’’تم نے اُس کی آواز بھی نہیں پہچانی؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’خیرکوئی بات نہیں ، اب سکینہ سے پوچھ لینا ۔‘‘
’’سکینہ سے ۔۔۔ ؟‘‘اصغرعلی نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، ’’ہم ایسی باتیں اُس سے کیسے کریں گے۔۔۔؟‘‘
’’توپھرانتظارکرو ، جب پوری طرح بدنامی ہوجائے تب پوچھ لینا‘‘ وہ ہاں سے اُٹھ گئیں اوردالان میں چلی آئیں،جہاں پرتمیزخان جاگیردار اور ابومیاں گلفروش کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں۔
اصغرعلی پھرایک بارسوچ میں ڈوب گئے،لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
مجبوراً اپنی سوچ کو ٹالنے کی خاطراُنھوں نے ٹی ۔وی کا بٹن آن کیا۔کسی واہیات گیت پرنیم عریاں لڑکیاں اور لڑکے تھرک رہے تھے۔اُنھوں نے فوراً چینل بدلا،چھوٹے اسکرین پرہیروہیروین کوورغلارہاتھا۔انھوں نے فوراً ٹی۔وی کابٹن آف کردیا۔اُن کی آنکھوںپرپھرایک بارسکینہ اُبھرآئی ۔بھولی بھالی معصوم سکینہ،ایک لمحے کے لئے اُن کے چہرے پرمسکراہٹ بکھرگئی۔لیکن ٹھیک اُسی وقت دالان میں فون کی گھنٹی بجنے لگی اوروہ خوف زدہ ہوگئے۔اُنھوں نے دیکھاشمشادبیگم فون کو اٹینڈ (Attened) کررہی ہیں۔اچھاہے،خودہی اپنے کانوںسے سن لیں گی۔میری تو کسی بات پربھروسہ نہیں کرتیں،لیکن یہ کیاانھوں نے دیکھااُن کی بیوی کے چہرے پر کوئی تناؤ نہیں تھا۔بلکہ وہ نہایت اطمینان سے ہنس ہنس کرباتیں کررہی تھیں۔وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اورکھڑکی سے باہرجھانکنے لگے۔سڑک پرہاکرچیخ رہاتھا ، آج کی تازہ خبر، بیٹی نے باپ کے منہ پرکالک تھوپ دی،غیرت کے مارے باپ کی خودکشی - آج کی تازہ خبر۔۔۔آج کی تازہ خبر۔۔۔
انھوں نے فوراً کھڑکی بندکردی اوراپنی جگہ پرواپس آگئے۔شمشادبیگم فون رکھ چکی تھیں۔سوچ پھرایک باراُن کے دماغ پرغالب ہونے لگی۔’’لگتاہے سکینہ میری عزّت کوخاک میں ملاکرہی دم لے گی،کاش وہ پیداہی نہ ہوئی ہوتیں، واقعی لڑکی آفت ہی ہوتی ہے۔شایدیہی وجہہ رہی ہوگی،جبھی تولوگ عہدقدیم میں اپنی لڑکیوںکو زندہ درگور کردیاکرتے تھے،توکیامیں بھی ۔۔۔ ؟‘‘
وہ بے چینی سے ٹہلنے لگے اُ ن کی آنکھوں میں مختلف مناظرجھلملانے لگے۔کبھی لگتاجیسے اُن کی ٹوپی سرسے گر گئی ہے اوربے شمارلو گ اُن کا مذاق اُڑارہے ہیں ، کبھی وہ سکینہ کومردہ حالت میں دیکھتے،اورکبھی پولیس کے جوان اُن کے اپنے گھرمیں محسوس ہونے لگتے اورلگتاجیسے سارہ کمرہ خاندان کے بزرگوںکی روحوںسے بھرگیاہے اورہر روح چیخ چیخ کرکہہ رہی ہو۔۔۔ اصغرعلی کیاتم ہماراطریقہ بھول گئے-؟ عزت وناموس کی خاطرایک نہیں کئی نسلیں قربان کردی جاتی ہیں،یہ توبس ایک لڑکی ہے !اورکھبی اُنھیں نظرآتا،جیسے کوئی بہت ہی محبت سے اپنی بیٹی کواپنے کندھے پرتھپ تھپاتے لوریاںدے رہاہے،اُس کی تالوکی خوشبوسونگھ رہاہے،اُس کی آنکھوںکے وسیلے سے جنت کودیکھ رہاہے ،بے تحاشہ اُس کادلارکرہاہے ۔
اصغرعلی کی آنکھوںسے آنسورواں ہوگئے اوروہ دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگے،’’یاعلی المدد ۔۔ یا علی المدد ۔۔۔ آپ کواماں فاطمہ کاواسطہ میری رہنمائی کیجئے ، بتائیے میں کیاکروں ۔۔۔ ؟‘‘
اورپھوٹ پھوٹ کرروپڑے ،پتہ نہیں کب تک اُن کی آنکھوںسے آنسو بہتے رہے اورپھروہ کب نیندکی وادیوں میں کہیں کھوگئے،لیکن دن بھرکی سوچ پھردماغ کے راستے خواب میں تبدیل ہوگئی اوروہ تقریباً غصّے سے چیخ پڑے۔۔۔ ’’سکینہ ۔۔ !‘‘
’’جی بابا !‘‘وہ دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی،’’جی بابا؟‘‘
اصغرعلی کی آنکھیں کھل چکی تھیں لیکن ابھی ہوش بیدارنہیں ہواتھا،وہ اُسی لہجے میں دھاڑے ،’’آخرتم نے وہی کیا نا ، جوتم چاہتی تھیں!‘‘
’’میں نے کیاکیابابا ؟‘‘
’’آں۔۔ !‘‘وہ ایک دم ہوش میں آگئے۔سکینہ کونیچے سے اوپرتک دیکھا۔
’’کچھ نہی۔۔۔ شایدمیں نے خواب دیکھا تھا، جیسے تم نے ۔۔۔ تمہاری شادی ہوگئی ہو !‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں باباجی !‘‘سکینہ کاچہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اصغرعلی نے بیٹی کاپھرایک بارجائزہ لیا ، اندرکی آگ موقع ڈھونڈ رہی تھی،اوروہ بناکسی تمہیدکے خودہی ہاتھ آگیاتھا،اُنھوں نے چھیڑنے کے انداز میں پوچھا، ’’بیٹی ہم نے پڑھاہے کہ کبھی کبھی خواب سچ ہی ثابت ہوتے ہیں۔اوراگرایساہے توتمہاری پسند؟‘‘
سکینہ باپ کے سینے سے لگ گئی،شرم کے مارے اُس کے پورے بدن میں تھرتھراہٹ سی ہونے لگی۔اُس نے بہت کوشش کی کہ کچھ کہے،لیکن الفاظ اُس کی زبان پرنہیں آرہے تھے۔وہ بڑی مشکل سے باباکہہ پائی تھی کہ اصغرعلی نے اشاروں سے اُس کی ڈھارس بندھائی ،اُس نے بڑی ہمت سے اپنے آپ کوسمیٹا اورپھراُس کی زبان سے نکلا ، ’’باباجی - جوبھی آپ کوپسندہوگا -!‘‘
یہ سنتے ہی اصغرعلی نہال ہوگئے۔انھوں نے دیوانوںکی طرح اُسے لپٹالیا، اورکسی چھوٹی بچی کی طرح اُسے پیار کرنے لگے،اُن کے دماغ کاساراتناؤ یک لخت ختم ہوگیا۔اُن کے چہرے پرفخریہ مسکراہٹ نمودارہوئی ۔اُنھوں نے پھرایک باراُسے زورسے بھینچااورجونہی دالان کی طرف دیکھا،دلاوراپنی پھوپھی کے پاس بیٹھااُداس نظروں سے ٹیلیفون کی طرف دیکھ رہاتھا۔اچانک انھیں محسوس ہواجیسے اُن کا سارا کمرہ پرکھوںکی روحوںسے بھرگیاہے، دورکہیں شہنایاں گونج رہی ہیں،بے اختیار انھوں نے سکینہ کی تالوکوسونگھناشروع کردیا۔
٭٭٭