آج بھی وہی ہوا۔وہ صبح ہی سے گھرسے غائب ہیں۔نہ کھانے کاہوش نہ کسی بات کی ذمہ داری کا احساس ،بس چوبیس گھنٹے سوچتی ہوئی آنکھیں ،بے چین طبیعت اوردماغ دیکھے ان دیکھے واقعات سے لرزاںوپریشاں،کتنی بارکہاہے کہ یہ سب چھوڑدو،لیکن نہیں ۔۔۔ کبھی خودسے لڑتے رہتے ہیں اورکبھی مجھے تختہ مشق بناتے ہیں۔اب اُنھیں کیسے سمجھائوںکہ دنیاکے اچھے بُرے سارے ہی کاروبارحسب معمول جاری وساری ہیں کوئی بھی پلٹ کرنہیں دیکھتا،لیکن خداجانے ،خدائی فوجدارکامنصب اُنھیں کس نے عطاکیاہے؟واقعی ایک ادیب کی بیوی بننا آسان نہیں بہت مشکل ہے۔گھرکے کیاحالات ہیں اُنھیں اس سے کبھی دلچسپی نہیں ہوتی،لیکن باہرکیا ہورہا ہے؟کیوں ہورہاہے؟ کب تلک ہوتارہے گا؟یہ فکریںاُنھیں نہ تورات کونیندبھر سونے دیتی ہیں اورنہ ہی پیٹ بھرکھانے کی اجازت دیتی ہیں۔آج صبح ہی سے موسم کا مزاج بدلاہواہے،کبھی رم جھم پھواریں اورکبھی موسلہ دھاربارش برس رہی ہے، ہوائیں تیزتیزچل رہی ہیں۔ پرندے تک اپنے اپنے گھونسلوں میں دُبکے ہوئے ہیں لیکن خداجانے یہ کدھربھٹک رہے ہونگے -؟مجھے عجیب سی بے چینی ہورہی ہے اورمیں تیزی سے دروازے تک پہنچتی ہوں اورجونہی باہردیکھتی ہوں،میری نظریں ٹکراتی ہیں۔بے اختیارمیری زبان سے نکلا،’’اس طرح کیادیکھ رہے ہو -؟دروازہ کھلاہواہے،اندرکیوں نہیں آجاتے -؟‘‘
وہ کسی سعادت مند بچے کی طرح گھرمیں داخل ہوگئے ہیں اورپھر اجنبیوں کی طرح ادھراُدھردیکھنے لگے۔
’’کیاہوگیاہے تمہیں۔۔۔؟آخرکیاڈھونڈرہے ہو۔۔۔؟‘‘میں قدرے جھلاگئی۔
’’کہانی ۔۔۔ !‘‘بہت دھیمے لہجے میں اُن کاجواب تھا۔
’’کہانی اوریہاں ۔۔۔ ؟‘‘میں غصّے سے پھنکاری ،’’یہ گھرہے ۔۔۔ !‘‘
اُنھوں نے گردن جھکادی اورپھرگھرسے باہرجانے کے لئے پلٹے۔
’’ٹھہرو ۔۔۔ !‘‘میری آوازپروہ رُک گئے۔’’دیکھ نہیں رہے ہو،طوفان آنے والا ہے ،تم ۔۔۔ تم اطمینان سے گھر میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے ؟‘‘
انھوںنے میری طرف بے بسی سے دیکھا۔
’’تم آج تک میرے سمجھ میں نہیں آئے !‘‘میرا لہجہ اب بھی وہی تھا، ’’آخرتم کوایسی کیابے چینی ہے ۔۔۔؟‘‘
’’میں نورالحسنین ہوں ۔۔۔ کہانیاں لکھتاہوں ۔۔۔ !‘‘اُن کے لبوں سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔
’’جانتی ہوں!‘‘میں سنبھل گئی،’’میں نے تمہاری لکھی ہوئی کہانیاں پڑھی ہیں !‘‘
اُن کے چہرے پرمسرت دوڑگئی،’’سچ ۔۔۔ ؟ تم ۔۔۔ تم میری لکھی ہوئی کہانیاں پڑھتی ہو ؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔ لیکن شوق سے نہیں!‘‘میرا لہجہ پھرطنزیہ ہوگیا۔
’’پھر ۔۔۔ ؟‘‘ اُنھوںے سوالیہ نظروںسے میری طرف دیکھا۔
’’مجبوراً ‘‘کبھی پڑھتی ہوںاورکبھی مجھے سنناپڑتی ہے !‘‘اُن کے چہرے کی معصومیت نے پھرایک بارمیرا لہجہ بدل دیا،’’لیکن پچھلے کئی دنوںسے میں نے تمہاری کوئی کہانی نہیں پڑھی !‘‘
’’کہاں سے پڑھوگی ۔۔۔؟واقعی پچھلے کئی دنوںسے مجھے کوئی کہانی نظرہی نہیں آئی، تومیں کیالکھتا ؟اورتم کہاں سے پڑ ھتیں۔۔۔ ؟وہ گھرمیں پھیلی ہوئی چیزوں کاجائزہ لینے لگے تھے۔
’’تم کویہاں پرکوئی کہانی نہیں مل سکتی !‘‘
’’باہربھی کہانیوں کافقدان ہے،میں کئی دنوںسے ڈھونڈرہاہوں ۔۔۔ !‘‘
میں نے پلٹ کراُن کی طرف دیکھا،’’میں تمہاری اس بات سے اتفاق نہیں کرسکتی،کہانیاں توقدم قدم پربکھری پڑی ہیں۔بس اُنھیں محسوس کرنے کی بصیرت چاہیے !‘‘
وہ پھرایک بارمیری طرف عجیب نظروںسے دیکھنے لگے تھے۔
’’کیاتمہیں رشوت خوربھی دکھائی نہیں دیتے؟ہزارہاکہانیاں تواُن کے ٹیبل پربکھری پڑی ہیں،وہیں سے ایک آدھ کہانی اُٹھالاتے ؟‘‘
’’رشوت خوری۔۔۔! اب اُن میں کہانی کہاں رہی ہے ۔‘‘وہ زمین کوتکنے لگے ،وہ تواب معمولات میں شامل ہوگئے ہیں،کسی کواحساس ہی نہیں رہا،نہ دینے والے کواورنہ لینے والے کو ! بیگم ۔۔۔ ایسی بہت ساری سماجی برائیاں تو ہمارے معاشرے کاحصّہ بن چکی ہیں، اب اُنھیں کوئی برائی نہیں سمجھتا۔بلکہ وہ سب تواب ضرورت قراردی گئی ہیں۔۔۔!‘‘
میں نے چونک کراُن کی طرف دیکھا،وہ غلط بھی نہیں کہہ رہے تھے۔لیکن بہرحال مجھے تواُنھیں موضوع سُجھانا تھا،ایک ادیب کی بیوی کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے ۔کیونکہ اگراُسے گھرمیں کہانی نہ ملے تووہ پھرباہربھٹکنے لگتاہے۔ لہذا میری زبان سے نکلا،’’کیاتم نے سیاسی بازیگروں کوبھی نہیں دیکھاجو محض اپنی لیڈری کوچمکانے کی خاطرآئے دن دنگے اورفسادکرواتے رہتے ہیں اورپھرخودہی امن کمیٹیاں بناکراُن کی صدارت بھی کرتے ہیں۔کیاتمہیں دنگوں میں مرنے والے مظلوموں اورمارنے والے ظالموں کی کسی کہانی کی آہ بھی سنائی نہیں دیتی ؟ ‘‘ میری آوازقدرے اونچی ہوگئی تھی۔لیکن پھربھی اُن کا چہرہ پرسکون تھا۔پھراُن کے لبوں پرہلکی سی مسکراہٹ نمودارہوئی،’’بیگم۔۔۔ کتّے کی دم ہمیشہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔یہ اب سب کومعلوم ہوچکا ہے۔ اُس پراب کہانی لکھ کرفائدہ ؟‘‘اُنھوں نے سامنے پڑی ہوئی خالی کرسی کی طرف دیکھااورپھراُس پربیٹھتے ہوئے بولے،’’میں بہت تھک گیاہوں -!‘‘
کرسی کودیکھتے ہی میرے ذہن میں پھرایک اورموضوع نے دستک دی، ’’سنوجی۔۔۔!آج اقتدار کے حصول کی جنگ جاری ہے جسے دیکھووہ کرسی کامتوالاہے۔کیاتمہیں اُس میں جعلسازی مکروفریب دھوکہ دہی کے ہتھکنڈوں سے لرزتی ہوئی کسی کہانی کی آواز سنائی نہیں دیتی ؟‘‘
’’یہ کھیل توصدیوں پراناہے۔صدیوں سے اُسی طرح کھیلاجارہاہے اور اب تلک جانے کتنے لاکھ ٹن کاغذ کوسیاہ کرچکاہے۔میرے پاس بہت کم کا غذات ہیں،میں اُنھیں ان فرسودہ ڈراموں کی نذرکرنا نہیں چاہتا ۔ !‘‘وہ خاموش ہوگئے اور میری پیٹھ کے پیچھے کھلی ہوئی کھڑکی میں سے رِم جِھم برسات کوغورسے دیکھنے لگے تھے۔
’’اصل میں کہانیاں لکھنے کی ساری صلاحیتیں تم کھوچکے ہو،تم اب کسی کہانی کوتلاش ہی نہیں کرسکتے !‘‘میں نے تھک ہارکراپنافیصلہ سنادیا،وہ تڑپ اُٹھے،ان کے چہرے کارنگ ایک دم بدل گیا۔آنکھوں میں عجیب سی اُداسی درآئی، ’’نہیں نہیں ۔۔۔ یہ غلط ہے !‘‘وہ کرسی پرسے اُٹھ گئے اورپھرٹہلنے لگے تھے ۔۔۔ کیاواقعی میری تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہوچکی ہیں ۔۔۔ ؟ کیااب کوئی کہانی مجھے نہیں سوجھے گی -؟ نہیں نہیں یہ غلط ہے ، وہ میرے قریب آگئے اورمیری آنکھوں میں جھانکنے لگے،’’سنو ! میرے قلم کی سیاہی ابھی سوکھی نہیں ہے۔میرادماغ ابھی معطل نہیں ہواہے۔میری آنکھوں میں ابھی خواب زندہ ہیں۔میرے کان سننے کی طاقت رکھتے ہیں۔مجھے تمہارے طنزمیں دورکہیں روشنی نظرآرہی ہے ۔۔۔ !‘‘انھوں نے مجھے اپنی باہنوں میں بھرلیااورمیرے کانوں میں سرگوشیاںکرنے لگے،’’تم کہتی جاؤ ۔۔۔ کہتی جاؤ،کوئی نہ کوئی موضوع نکل آئے گا۔۔تم واقعی ایک دایب کی ذمہ داربیوی ہو-!‘‘
’’آج کل کسانوں کے خودکشی کے واقعات بھی تواخبارات کی زینت بن رہے ہیں !‘‘
’’زینت ۔۔۔ ؟‘‘ایک دم اُن کے باہنوں کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اوروہ اُداس نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے، ’’زینت ؟خودکشی کی واردات زینت کیسے بن سکتی ہے ؟‘‘وہ اپنے آپ سے اُلجھ رہے تھے۔
میں ایک دم خوش ہوگئی۔یہ جھٹکایقینا اُنھیں کسی کہانی کے سرے تک پہنچاسکتاتھا۔میں ایک دم چلائی ،’’میں نے تمہیں ایک نئی کہانی کاموضوع دے دیاہے۔تم اس پرزوردارکہانی لکھ سکتے ہو !‘‘
وہ پھرایک بارٹہلنے لگے تھے۔’’میں شایداسی موضوع پرضرورکوئی کہانی لکھ دیتا،لیکن ان کہانیوں کے جملہ حقوق تو اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے نام کروالیے ہیں۔ اگرمیں اُن سے یہ حق چھین لوں تو پھر ایوانوں میں بحث کس چیز پر ہوگی؟بیگم بحث بھی زندگی کی ایک علامت ہے۔میں اُن کی قوت گویائی کوسلب کرنا نہیں چاہتا۔۔۔!‘‘
’’مطلب تم اپنے منصب سے ہٹ گئے ہو !‘‘میں کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی۔باہرطوفانی برسات تھی۔ وہ بھی میرے پیچھے آکرکھڑے ہوگئے۔’’ایک ادیب کبھی بھی حق گوئی اورادیب کے منصب سے ہٹ نہیں سکتا-!‘‘اُنھوں نے مجھے پھرایک باراپنی باہنوں میں کس لیاتھا۔
’’یعنی تم کہانیاں لکھوگے -؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ !‘‘اُنھوں نے میری گردن پریقین کابوسہ ثبت کرتے ہوئے کہا،’’بس ذرااِس طوفان کو اورتیز ہوجانے دو،اتناتیزکہ وہ نوح کاطوفان بن کرسب کچھ ڈبودے - پھرایک نئی دنیاکی تخلیق ہوگی۔پھرسارے ہی موضوعات اچھوتے ہونگے،اُن پرمکروفریب ،دغابازی ،خودغرضی اوردکھاوے کاملمع بھی نہیں ہوگا۔ وہ سب سچی کہانیاں ہونگی ،صحیفوںکی طرح سچی کہانیاں ۔۔۔ !‘‘وہ بولے جارہے تھے۔اُن کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دکھائی دے رہی تھی۔پھراچانک اُنھوں نے مجھ سے سوال کیا،’’ بیگم ! سریندرپرکاش نے بھی کبھی یہی سوال اپنی بیوی سے پوچھاتھا، اورآج میں تم سے پوچھ رہاہوں۔بتاؤ اس نئی دنیاکی نئی کہانیاں کونساادیب لکھ سکے گا ؟‘‘
میں نے ایک لمحہ سوچااورپھرمیری زبان سے نکلا،’’پریم چند -!‘‘
’’پریم چند کے لئے اس نئی دنیامیں پھرسے مہاجن پیداکرنے ہونگے -!‘‘
شرارت اُن کے ہونٹوںمیں دبی ہوئی تھی۔
’’پھرکشن چندر !‘‘میں نے جلدی سے کہا۔تواُنھوں نے جواب دیا، ’’کرشن چندرکی خاطرپھرسے ترقی پسند تحریک کولاگوکرنا پڑے گا ۔۔۔ !‘‘
’’پھریقینی طورپرسعادت حسن منٹو !‘‘میں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا۔
’’منٹوکے لئے ملک کی تقسیم کامنصوبہ دوہراناپڑے گا !‘‘
’’توپھر - آں - تمہاری نسل کے افسانہ نگاروں میں سلام بن رزاق ۔۔۔ !‘‘
’’اُن کے لئے بھی انسانوں کوذات پات کے خانوں میں تقسیم کرناپڑ گا-!‘‘
’’پھرکون لکھ سکتاہے ؟‘‘میں عاجزآگئی تھی تواُنھوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا۔۔۔’’میں ۔۔۔ یعنی نورالحسنین !‘‘
میں نے پلٹ کراُن کی آنکھوں میں دیکھا۔مجھے عجیب سااطمینان ہوا،جیسے واقعی اُنھیں کوئی کہانی مل گئی ہو -؟
باہر بارش شدیدطوفان میں بدل رہی تھی۔
٭٭٭