میں ایک دفتری انکوائری کے سلسلے میں کافی عرصے کے بعداس شہرمیں آیا تھا۔میرے ٹھہرنے کا بندوبست سرکاری گیسٹ ہاؤس کے ایلورہ سوٹ میں کیا گیاتھا۔ اپنی نجی مصروفیات سے فارغ ہوکرمیں بیٹھاہی تھا کہ حامدمیاں نے ڈنرکا مینومیرے سامنے رکھ دیا،میں نے نظربھرکراُن کی طرف دیکھا،کالی داڑھی اب سفیدہوگئی تھی۔ بدن پروہی صاف ستھرانہروشرٹ اورڈھیلاڈھالاپاجامہ تھا۔البتہ بدن کچھ فربہ ہوگیا تھا۔اورآنکھوںپرچشمہ چڑھ آیاتھا۔میں نے بنا دیکھے مین واُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،’’حامدمیاں۔۔!آپ جوبھی محبت سے کھلادیں گے میں کھالوںگا ۔۔ !‘‘
اُنھوںنے حیرت سے میری طرف دیکھا،تومیرے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی ،’’آپ مجھے بھول سکتے ہیں۔لیکن میں آپ کو کیسے بھول سکتاہوں ۔۔۔ ؟‘‘
وہ بدستورآنکھیں پھاڑے مجھے پہچاننے کی کوشش کررہے تھے۔لیکن جو شخص میری طرح کے ہزارہا لڑکوںکوڈانٹ ڈپٹ کرگیسٹ ہاؤس سے باہربھگاچکاہو،وہ بھلامجھے کیسے پہچان پاتا ۔۔۔ ؟ میں نے کھڑکی سے باہردیکھا،آم کے درختوں سے ہوائیں پھڑپھڑاتے ہوئے گزررہی تھیں۔میں نے پھرایک باران کی طرف دیکھا، ’’ان ہی آموںکے درختوںکے نیچے میں بہت بارآپ کے ہاتھوں پٹ چکاہوں -!‘‘
لیکن حامدمیاں بدستورخاموش کھڑے تھے۔میں کرسی پرسے اُٹھ گیا اور کھڑکی کے پاس جاکرکھڑاہوگیا۔آموں کے درختوںکے نیچے سے جاتی ہوئی سڑک گورنمنٹ کالج کے کیمپس کو چھوتے ہوئے نیچے اُتررہی تھی۔کالج کی عالیشان عمارت اب بھی اُسی طرح استادہ تھی۔میری آنکھوں میں ایام گذشتہ کے شب وروز اُبھرآئے، ’’حامد میاں ۔۔۔ ! کھبی میں بھی اسی گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھااورہم دوستوںکی ٹولیاںآپ کو غائب جان کردرختوںکے نیچے پہنچ جایاکر تیں، اورپھرہماراایک آدھ پتھر شاخوںسے ٹکراتا ہی تھاکہ اس سے بھی زورکی دھاڑ آپ کی سنائی دیتی اورہم سب بھاگ کھڑے ہوتے۔‘‘
’’ہاں صاحب ۔۔۔ !‘‘ انھوںنے بھی پلٹ کرکھڑکی سے باہرجھانکا، ’’کالج کے بچّے تواب بھی آتے ہیں،پراب موسم بدل گیاہے ۔۔۔ !‘‘
’’ہاں ۔۔۔ !‘‘ میں نے ایک لمبی سانس لی،’’ایک موسم ہی کیا،اب تو سب کچھ بدل گیاہے ۔۔۔ !‘‘
’’صاحب گاڑی آگئی ہے ۔۔۔ !‘‘میرے اسسٹنٹ نے اطلاع دی ، ’’ہوں ۔۔۔ !‘‘میرے منہ سے بہت دھیمی آواز نکلی،’’اُن فائلوںکوگاڑی میں رکھ دو۔۔۔ !‘‘
میں تیزی سے کمرے سے باہرنکل گیا۔وقت کی چادراکثرماضی کی بہت ساری غلطیوںکوچُھپادیتی ہے اورانسان حال کے آئینہ میں اپنے آپ کودیکھ کر سمجھتا ہے کہ زمانہ سب کچھ بھول گیاہے۔لیکن عمل کی کتاب میں سب کچھ محفوظ رہ جاتاہے۔
باہرگیسٹ ہاؤس کاوہی منظرتھا۔آموںکے درخت خاموش کھڑے تھے۔ پورچ میں گاڑی میری منتظرتھی۔میں جیسے ہی قریب پہنچا ڈرائیورنے آگے بڑھ کرکار کا دروازہ کھول دیا۔میں نے پلٹ کر دیکھا،میرااسسٹنٹ روم کو لاک کرکے حامدمیاں کے ساتھ سیڑھیاں اُتر رہاتھا۔بیتی یادیں پرند وں کی طرح پھڑپھڑارہی تھیں۔
گاڑی ایک لمبادائرہ بناتی ہوئی گورنمنٹ کالج کے سامنے سے نکلی ،کالج کیمپس میں طلباء اور طالبات اِدھراُدھرکھڑے خوش گپیوںمیں مست تھے اورمسجد سے متصل کھڑا نیم کا درخت بلندی سے سڑک پربہتی ہوئی ٹریفک کودیکھ رہاتھا۔
’’سر -!اگرسارے ہی شواہددرست نکلے تو ۔۔۔ ؟‘‘ میرے اسسٹنٹ نے میری طرف دیکھا۔
’’توپھرمعطلی برخاستگی میں تبدیل ہوجائیگی ۔۔۔ !‘‘
’’اور سریونین کا دباؤ ۔۔۔ ؟‘‘
میں نے باہر جھانکتے ہوئے جواب دیا،’’کوئی کچھ نہیں کرسکتا،ویسے بھی یہ کرپشن کا کیس ہے ،اس میں یونین کیا کرسکتی ہے ۔۔۔ ؟‘‘
’’لیکن سر ۔۔۔ !‘‘وہ ایک لمحے کے لیے ٹِھٹکا،’’سراُسے پھانساگیاہے۔ وہ ایساآدمی نہیں ہے ۔۔۔ !‘‘
’’لیکن میں تو شواہد کے روشنی میں فیصلہ کروںگا ۔۔۔ !‘‘
’’سر ۔۔۔ وہ بال بچوںوالا ہے،اس کی لڑکی ۔۔۔ !‘‘
میں نے اُس کی طرف گھورکردیکھاتواُس نے گردن جھکادی ،’’سر بہت ہی شریف انسان ہے وہ - اورصاحب لڑکی بھی تو ابھی صرف بارہویں جماعت میں پڑھ رہی ہے - اُس کی تعلیم چوپٹ ہوجائیگی ۔۔۔ !‘‘
میں پھربھی خاموش ہی رہا۔البتہ میرے ذہن میں میری بیٹی سلمیٰ آکرکھڑی ہوگئی-سلمیٰ تمہیں کیا ہوسکتاہے ۔۔۔ ؟
’’ہاں ۔۔۔ سلمیٰ جیسی بڑے باپ کی بیٹی کے لیے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے ؟ مسلے تو غریبوںکے ساتھ ہوتے ہیں - سلمیٰ کی جگہ اب صباء آکرکھڑی ہوگئی تھی۔ دبلی پتلی سانولی سی تیکھے نقوش والی صباء ۔۔۔ اُس کی ملتجی نگاہیں اب بھی مجھے اُسی انداز سے دیکھ رہی تھیں - اف ساری زندگی تم میرا پیچھا کررہی ہو لیکن میں تمہارے لیے کچھ بھی تونہ کرسکا۔ میری آنکھیں آپ ہی آپ بندہوگئی اوربندآنکھوںکے اندھیارے سے وہ منظربلند ہواجب میرے اباجان کا تبادلہ اس شہرمیں بلاک ڈیولپمینٹ آفیسرکی حیثیت سے ہواتھا۔ہمارے بنگلے کے قریب کچے مکانوںکاایک سلسلہ پھیلاہواتھا۔ اُن ہی مکانات میں دولت رام گولی کاباڑہ ،نورعلی کی کرانہ شاپ ،اوربھِکن ٹیلرکی بیٹھک تھی اورگلی کے آخری حصے میں محبوب احمدچپراسی رہاکرتے تھے۔صباء اُن کی بیٹی تھی۔ہم دونوںایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔وہ بیحدذہین لڑکی تھی۔کوئی مضمون ایسانہ تھا جس پر وہ حا وی نہ تھی۔اسکے علاوہ وہ بیحدحاضرجواب بھی تھی۔پتہ نہیں کیوںمجھے اُس سے نفرت تھی۔ ایک تووہ بیحددُبلی پتلی تھی۔پھراُسکالباس ہمیشہ میلاکچیلا رہتااوراُس کے بدن سے ہمیشہ پسینے کی بدبوآتی رہتی ۔وہ بال بھی کچھ اس ڈھنگ سے جماتی کہ اُسکا چہرہ اوربھی لمبوترا نظرآتا۔
ایک دن میں اپنے ورانڈے میں بیٹھااخبارکے صفحات اُلٹ پلٹ رہاتھا کہ وہ بے دھڑک داخل ہوئی ۔مجھے اُسکا اس طرح آنا بہت ناگوارگذرا اورمیںنے سختی سے پوچھا،’’یہاں کیوںآئی ہو ۔۔۔ ؟‘‘
’’تم پڑھنے لکھنے میں بہت بدھوہو۔اس لیے تمہیں پڑھانے آئی ہوں۔۔۔!‘‘ ہنسی اُس کے گالوںسے نکل کرامّی جان کے کمرے تک پہنچ گئی اور پھر اُن کی رعب دارآوازگونجی،’’کون ہے لڈّومیاں۔۔۔؟‘‘
’’لڈّومیاں۔۔؟‘‘وہ نہایت تمسخرانہ اندازمیں ہنسی،’’کاہے کہ لڈّو ہو۔۔؟ موتی چورکے یا۔۔!‘‘
’’میرانام مختارہے ۔۔۔ !‘‘میں دانت پیس کررہ گیا۔کیونکہ امّی جان دروازے میںپہنچ چکی تھیں۔
’’سلام چاچی ۔۔۔ !‘‘
’’جیتی رہو۔۔۔! تمہیں یہاںکس نے بھیجا-؟‘‘
’’جی ۔۔۔ میرے ابّاجی نے ۔۔۔ وہ ۔۔ وہ اُن کے صاحب ہیں نا بی۔ڈی۔او۔۔۔ اُنھوںنے کہاتھا ابّاجی سے ۔۔۔ !‘‘
’’اچھا اچھا ۔۔۔ !‘‘امی جان مسکرادیں۔
’’کہیے،کیوںبُلایاتھا مجھے ۔۔۔ ؟ ‘‘وہ فوراً نفسِ مضمون پر آگئی۔
’’کچھ نہیں ۔۔۔ بس صبح وشام کچھ دیرکے لیے آجانا،بازارسے جو بھی ہمیں سوداسلف منگوانا ہوگا،وہ لادینا-‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘اس نے حیرت سے امّی کی طرف دیکھا،’’میں کیوں لاؤں۔۔۔؟یہ تمہارے لڈّو میاں کس کام کے ہیں ۔۔۔ ؟‘‘
’’وہ ایک افسرکا بیٹا ہے۔۔۔!‘‘امّی کی رعب دارآوازاُبھری۔
اُس نے امّی جان کی طرف پہلے ڈرکراورپھرمسکراکردیکھا،’’پڑھ لکھ کرتومیں بھی افسربنناچاہتی ہوں ۔۔۔ !‘‘
’’توپھریہاں کس لیے آئی تھی۔۔۔!‘‘
’’یہی تو کہنے آئی تھی۔۔۔!‘‘پھروہ پلٹ گئی اورجاتے جاتے بولی،’’لڈّو میاں!کسی دن میرے مکان پرآجانا،میں تمہیں بازارہاٹ، سب کچھ دکھادوں گی۔۔۔!‘‘
’’چپراسی کی اولاد ۔۔۔اوریہ دماغ ۔۔۔ ہونہہ ۔۔۔ !‘‘امّی جان منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہ گئیں۔
مجھے جھٹکاسالگااورمیں نے آنکھیں کھول دیں،میرے سامنے دفترکی عالیشان عمارت کھڑی تھی۔ہم دونوںکارسے نیچے اُترے اوردفترکی سیڑھیاںچڑھنے لگے۔
’’سرپلیز۔۔۔!‘‘میرے اسسٹنٹ نے پھرایک بارزبان کھولی۔لیکن میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کرآگے کچھ کہنے کی اُس کی ہمت ہی پیدانہ ہوئی۔ میرانظریہ ہے کہ جواختیارات مروت اورسفارشات کی نذرہوجاتے ہیں وہ فرض کی کسوٹی پرکبھی کھرے نہیں اُترتے، اورمیں ذمہ داریوںاوراپنے فرائض کوخوب سمجھتا ہوں۔بلکہ جب سے میرے ذمے یہ کام سونپے گئے ،میر ی شناخت ایک حق گواور بیباک افسرکی بن گئی ہے۔میں اپنے معاملات میں کسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں کرتا۔
دوپہرتک انکوائری کے سلسلے میں مختلف گواہوںسے سوالات ہوتے رہے اورمیںاہم پوائنٹس نوٹ کرتارہا۔لیکن پھربھی کوئی ٹھوس بات میرے ہاتھ نہیں لگی۔ تنگ آکرمیں نے فائل بندکردی اوربقیہ کام کل پرٹال کراپنی کرسی سے اُٹھ گیا۔
دفترکی گاڑی میرے حکم پرمختلف محلّوںمیں دوڑتی رہی۔شہرکی کایاپلٹ گئی تھی۔کچّے مکانوںکے سلسلے سمنٹ اورکانکریٹ میں تبدیل ہوگئے تھے۔وہ بنگلہ جو کبھی بی۔ڈی ۔او۔کابنگلہ کہلاتاتھا اب کھنڈربن چکاتھا۔اُس کی اِدھراُدھرسے دیواریں گِرچکی تھیں۔کھڑکیاں اوردروازے غائب تھے۔پرانے مکانات کواب پہچاننابہت مشکل ہوگیاتھا۔ڈرائیورگاڑی کومختلف گلیوںسے نکالتاہواآخراُس جگہ پرلے آیا جہاں سے ندّی صاف دکھائی دیتی تھی۔لیکن اب ندّی میں پانی نام کونہ تھا۔بس دھول اُڑرہی تھی۔میں گاڑی سے نیچے اُترگیا،اورپھر آہستہ آہستہ چلتاہوابرگدکے اُن اونچے اونچے درختوںکے نیچے پہنچ گیا،جن کے پائیں ندّی کاپانی پرشورآوازوںکے ساتھ بہتاتھا۔ اسی کنارے پرمیں اپنے دوستوںکے ساتھ اورصبااپنی سہلیوں کے ساتھ ڈبکیاں لگاتی تھیں۔ایسے ہی ایک دن ہم سب ندّی میں ہاتھ پیرمار رہے تھے کہ ایک شرط ہم لوگوںکے درمیان اُبھری - ندّی کے دوسرے کنارے تک تیرتاہواکون جائے گا - !
سب نے دوٗر ۔۔۔ دوسرے کنارے کی طرف دیکھا۔لیکن کسی کے حوصلے نے حامی نہیں بھری۔اچانک صباکی آواز اُبھری،’’میں جاؤنگی - یہ کونسی بڑی بات ہے - !‘‘
’’تم ۔۔۔ ؟؟؟‘‘سب حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’ہاںمیں۔۔۔!‘‘اُس نے تمسخرانہ اندازمیںہم سب کی طرف دیکھا، ’’میں تمہاری طرح بزدل اورڈرپوک نہیں ہوں -!‘‘
’’میں بھی ڈرپورک نہیں ہوں ۔۔۔!‘‘اچانک غیر تِ مردانگی کابخارمجھے چڑھا، ’’تم کیا سمجھتی ہو اپنے آپ کو،میں بھی دوسرے کنارے تک تیرتاہواجاسکتا ہوں-!‘‘
’’لڈّومیاںتم۔۔۔؟‘‘اُس نے طنزیہ ہنسی کے دوران کہا،’’یہ بہتی ندّی ہے۔ حلوائی کی کڑاہی نہیں۔۔۔!‘‘
ایک ساتھ فلک شگاف قہقہے گونجنے لگے اورمیںنے تاؤ میں آکرفوراً دوسرے کنارے کی طرف چھلانگ لگادی اوربہت تیزتیزہاتھ پیرچلانے لگا۔لیکن دھارے کی قوّت سے ناواقف تھا۔چندلمحوںہی میری سانس اُکھڑنے لگی اورتیز دھارے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا،میرے حلق سے ایک چیخ اُبھری اورپھرمیں بے ترتیب ہاتھ پیرمارنے لگا۔ٹھیک اُسی وقت صبانے میرے بالوںکوسختی سے دبوچہ، میں نے پلٹ کراس سے لپٹنے کی کوشش کی تواُس نے پوری قوت کے ساتھ میرے گال پرتھپڑرسیدکردی۔اورپھردھارے سے مجھے باہرکھینچ لائی ،کنارے پرکھڑے ہوئے لوگ اب بھی چلارہے تھے اورخوف سے میں کانپ رہا تھا ۔
اس واقعہ نے میری سوچ کوبدل دیا۔اب مجھے اُس سے کسی قسم کی نفرت نہیں رہی تھی۔بلکہ میں اُسے ہمیشہ احسان مندی کی نظروں سے دیکھنے لگاتھا۔اُس کے میلے کچیلے کپڑوںسے اب مجھے پسینے کی نہیںگلاب کی خوشبوکاگمان ہونے لگا تھا۔ اُس کاہرانداز مجھے موہ لیتا۔ میری یہ احسان مندی محبت میں تبدیل ہوگئی۔اب میں کوشش کرنے لگاتھاکہ زیادہ سے زیادہ وقت اُس کے ساتھ ہی گذارسکوں۔میں اُس کی طرح اسٹیڈی کرنے لگاتھا لیکن اُس کی ذہانت کامقابلہ کرنامیرے بس میں نہیں تھا۔ چنانچہ اُس نے میٹرک کے بعدبارہویں جماعت کا امتحان بھی امتیازی نشانات سے کامیاب کیااورمیں معمول کے مطابق درجہ دوّم میں پاس ہوا۔ہرطرف اُس کی دھوم تھی اوربنگلے میں ابّاجان مجھے ڈانٹ رہے تھے اورمیں ہمیشہ کی طرح سرجھکائے چپ چاپ کھڑاتھا۔
’’سر ۔۔۔ ! اس طرح کب تلک کھڑے رہیں گے ۔۔۔ ؟‘‘
’’آں ۔۔۔ ؟‘‘میں نے چونک کرڈرائیورکی طرف دیکھا۔
’’سر ۔۔۔ ! سورج غروب ہورہا ہے ۔۔۔ !‘‘
’’ہاں چلو ۔۔۔ !‘‘
اورپھردوسرے ہی لمحے گاڑی گیسٹ ہاؤس کی طرف دوڑرہی تھی۔
میرے دل ودماغ میں یادیں خوشبوؤں کی طرح مہک رہی تھی۔ آنکھوں میں ایک ایک منظرجھلملارہاتھا۔میں اُن یادوں کو تتلیوں کی صورت پکڑنے کی کوشش کررہاتھا۔لیکن جوںجوںمیں اُن کے قریب ہوتاوہ گرفت سے آزادہوجاتیں اورمیں پھرایک باراُن کے پیچھے دوڑنے لگتا۔
حامدمیاںنے رات کا کھانالگادیاتھالیکن میںپھرسے ایک بارفائل کی اسٹڈی میں منہمک تھا۔وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے چورنظروںسے اُن کی طرف دیکھاتوبولے ،’’صاحب ۔۔۔!کھاناکھالیجئے ،ٹھنڈاہوجائے گا۔۔۔!‘‘
’’کھانابھی کھالیں گے حامدمیاں ۔۔۔ !‘‘ میں نے فائل بندکرتے ہوئے کہا،’’کچھ بھی کہیے آپ کا شہرکافی بدل گیاہے ۔۔۔ !‘‘ ا نھوں نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’میں وہ پُرانے بی۔ڈی۔او۔ کے بنگلے کی طرف گیاتھا۔وہاں تومجھے سب کچھ بدلابدلاسامحسوس ہوا۔نہ دولت رام گولی کا باڑہ، نہ نورعلی کی کرانہ شاپ اورنہ ہی بھکن ٹیلرکی بیٹھک نظرآئی۔اورتواوروہ پرا نا ہائی اسکول بھی شایدٹوٹ پھوٹ گیا - بس ندّی کے کنارے اُونچے اُونچے برگدکے درخت رہ گئے ہیں -!‘‘
’’آپ بہت پُرانی بات کہہ رہے ہیں صاحب -!‘‘حامدمیاں نے کھڑکی سے باہردیکھا۔’’وہ مکین ہی باقی نہیں رہے تومکان کیسے نظرآئیں گے ۔۔۔ !‘‘
’’اچھا حامدمیاں ۔۔۔وہاں محبوب احمدچپراسی بھی تورہتے تھے نا ۔۔۔ ؟‘‘
’’محبوب احمد ۔۔۔ ؟‘‘ انھوں نے سوچا،’’وہی ناجو سفیدشیروانی پہناکرتے تھے۔بوٹاساقدتھااُن کا اوربہت تیزتیز قدم اُٹھاتے تھے ۔۔۔ !‘‘
’’ہاںہاں ۔۔۔ وہی ۔۔۔ !‘‘ میں اپنی خوشی کودبانہیں سکا،’’وہ اب کہاں پرہیں ۔۔۔ ؟‘‘
’’اُن کا توانتقال ہوگیا ۔۔۔ !‘‘
’’کیا ۔۔۔ ؟؟؟‘‘
حامدمیاںچھت پرگردش کرتے پنکھے کی طرف دیکھ رہے تھے،’’بڑی دُکھ بھری داستان ہے اُن کی ۔۔۔ !‘‘وہ ایک دم خاموش ہوگئے۔
’’دُکھ بھری داستان ۔۔۔ ؟‘‘ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا توانھوںنے گردن جھکادی۔اورپھرنہایت دھیمے لہجے میں کہنے لگے،’’اُن کے مرنے کے بعداُن کا اکلوتابڑالڑکاروزی کی تلاش میں ممبئی گیاتھالیکن اُس کی خیرت کی اطلاع ملنے سے پہلے ہی اخبارمیں خبر آگئی کہ اُسے پولس نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتارکرلیاہے ۔ماں بیچاری یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی اورزمین کا پیوندہوگئی ۔۔۔ !‘‘
’’اوراُن کی لڑکی ۔۔۔ ؟‘‘ میں نے بیتابی سے پوچھا۔
’’صبا۔۔۔؟‘‘انہوں نے پھرایک بارچھت کی طرف دیکھا،’’عجب زمانہ ہے صاحب-!کالج میں کسی بی۔ڈی ۔او۔کے لڑکے سے بدنام ہوئی۔ماںباپ نے گھربٹھالیا۔اب مونیکامیڈیکل فیکٹری میں کام کرتی ہے - بھلافیکٹریوں میں کام کرنے والی لڑکیوںکو کون عزت کی نگاہوںسے دیکھتاہے۔بدنامی پربدنامی جھیل رہی ہے بیچاری ۔۔۔ ‘‘
پتہ نہیں وہ کیاکچھ کہتے رہے۔لیکن میں وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں پر موجودنہیں تھا۔کوئی مجھے اندرہی اندرڈس رہاتھا۔میراجی چاہ رہاتھا کہ میں چیخ چیخ کر کہہ دوںکی صباجیسی ہونہارلڑکیوکوہم جیسے پاکھنڈی ہی تباہی کے دہانے پرپہنچادیتے ہیں۔سزاہمیں ملنی چاہیے، قصوروارہم ہیں۔لیکن نہ تومیرے حلق سے حقیقت چیخ بن کراُبھری اورنا ہی میراجرم مجھے سزادے سکا۔بس ایک دیاروشن ہوگیاکہ مجھے صبا کی مددکرناچاہیے۔جس طرح بھی ہومجھے اُسے اس بدنامی کے ساگر سے نکالنا چاہیے۔ مجھے اُس کی مددکرناچاہیے۔
’’صاحب ۔۔۔ !‘‘حامدمیاں کی بہت دھیمی آواز اُبھری،’’کھاناکھالیجئے بہت دیرہوگئی ہے ۔۔۔ !‘‘
اورمیں نہ چاہتے ہوئے بھی کسی چابی کے کھلونے کی مانندڈائنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔
انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کتنے سمجھوتے کرتاہے۔جب کہ ہرسمجھوتہ اپنی ایک قیمت وصول کرتا ہے اورہم ہرباراپنے ہی کیے ہوئے عہدسے مکرجاتے ہیںاور پھرمصلحتوںکی زندگی گذارتے ہیں۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعدمیں نے اپنی بیوی کوفون کیا، ’’یہاں آکرمصروفیت بڑھ گئی ہے۔شایدمجھے یہاں ایک دو روز اوربھی رکناپڑے گا ۔۔۔!‘‘
’’نہیں نہیں ۔۔۔ !‘‘ اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی،’’آپ فوراً آجائیے۔یہاں سلمیٰ کوکالج میں کوئی لڑکابیحدتنگ کررہاہے ۔ وہ اکثراُس کی بائیک کی ہوانکال دیتاہے۔میراتوجی چاہتاہے کہ سلمیٰ کوکالج سے بٹھالوں!‘‘
’’نہیں نہیں ۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔ !‘‘ میں نے پوری سختی کے ساتھ کہا۔ لیکن ٹھیک اُسی وقت میرے دماغ پرکسی نے ضرب لگائی۔ہر جرم کی سزاضرورملتی ہے۔ توکیاسزاکاوقت آگیاہے ۔۔۔ ؟ میں بری طرح گھبراگیالیکن فوراً اپنے آپ پرقابوپاتے ہوئے بولا،’’ہیلو ۔۔۔ ! سلمیٰ کالج ضرورجائے گی۔میں تاریخ کودوبارہ وہی کھیل کھیلنے نہیں دوںگا - میں جلدہی واپس آرہاہوں -!‘‘
میں نے فون رکھ دیا۔سلمیٰ کے مستقبل نے مجھے بے چین کردیا۔مجھے کچھ نہ کچھ بدوبست کرناہی ہوگا۔وہ لونڈامیرے اختیارات کو نہیں جانتا۔میں اُس کا ہی کالج بند نہ کروادوں تومیرانام نہیں -!
’’تمہارے اختیارات میں تواُس وقت بھی بہت کچھ تھا۔لیکن تم نے کیا کیا تھا-؟‘‘ صباپورے قدکے ساتھ میرے دماغ سے زمین پراُترآئی ،’’میں نے کیسی کیسی تمہاری منت کی تھی کہ تم بڑے باپ کے بیٹے ہوکسی اورکالج میں بھی پڑھ سکتے ہو، شہر سے باہربھی جاسکتے ہو، لیکن کیاکیاتھا تم نے۔۔۔ ؟کچھ بھی تونہیں ۔۔۔ اور اُلٹاتمہارے والدین نے اپنی افسری کاسارارعب بیچارے غریب چپراسی کے سرایسا اُتاراکہ مجھے ہی کالج سے بٹھالیاگیا۔۔۔میراقصورکیاتھا؟ یہی ناکہ میں تم پربھروسہ کرنے لگی تھی۔تم۔۔۔تم مجھے زبردستی قسمیں ڈال ڈال کرکبھی کالج کینٹین لے جاتے اورکبھی بہانے بناکرپارکوں میں بلاتے ۔۔۔کچھ یادہے تمہیں۔۔۔؟ کیاکیا وعدے کیے تھے تم نے مجھ سے۔۔۔؟ لیکن مجھے کیاملا - بدنامی،رسوائی اوربے بسی ۔۔۔ !‘‘
میرے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی ،اورمیںنے کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ باہرچاندنی برس رہی تھی۔گورنمنٹ کالج کی عمارت ، اُس کی کینٹین ،مسجد اورنیم کا درخت مجھے حقارت سے دیکھ رہے تھے اورمیں کسی مجرم کی طرح کھڑکی کی سلاخوںکو تھامے خاموش کھڑا تھا ۔۔۔ بالکل خاموش کھڑا تھا۔
سماج،قانون اورعدالت کوتودھوکہ دیاجاسکتاہے۔لیکن جب انسان خوداپنی ہی عدالت میں پہنچتاہے تو اُسے پھرکسی منصف ،کسی وکیل اورکسی گواہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔میں خودہی آج اپنی عدالت میں حاضرہوگیاتھااوراپنے ہی فیصلے کامنتظر تھا۔
اگلے دن جب میںنے انکوئری کی تکمیل کے بعدفیصلہ لکھوایاتومیرا اسسٹنٹ خوشی کے مارے اُچھل پڑا،’’صاحب ۔۔۔ آپ انسان نہیںفرشتہ ہیں۔ آپ نے ایک غریب آدمی پررحم کھایا،اللہ آپ پررحم کرے گا ۔۔۔ !‘‘
لیکن میرا چہراسپاٹ تھا۔اُسے پتہ ہی نہیں چلاکہ میں کس بھٹّی میں جل رہا ہوں۔شواہداورایک لڑکی کے مستقبل کے درمیان ، میرے اپنے اندرکیسی زبردست جنگ چھڑی ہوئی تھی۔۔۔میںنے کس چالاکی سے لفظوںکی تکرارکاایک نیاجہاں آباد کیاتھا۔وہ میری طرف تحسین آمیزنظروںسے دیکھ رہاتھا اورمیںخوداپنے آپ سے شرمندہ تھا۔ہم دونوںکے درمیان بہت دیرتک خاموش رہی اورپھرجب میرے اندرکاشورخاموش ہوگیاتومیں نے آہستہ سے کہا،’’گردھاری ۔۔۔ ! ہم آج رات ہی کو اپنے شہرلوٹ رہے ہیں۔تم گیسٹ ہاؤس پر میراانتظارکرو ۔۔۔ !‘‘
میں کھڑاہوگیااوروہ فائلیں سمیٹنے لگا۔میں آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتاہوادفترسے باہرنکل آیا - اپنی ہی عدالت میں اپنے ہی خلاف کیے گئے فیصلے پرعمل کرناابھی باقی تھا۔
اورپھرمیری کا ر تیزبہت تیز مونیکامیڈیکل فیکٹری کی طرف دوڑگئی۔میری آنکھوں میں باربارصباکاچہراگردش کررہاتھا اورمیں سوچ رہاتھا کہ خداجانے وہ کیسی ہوگی۔وہ ماضی کی طرف پلٹ کردیکھے گی بھی یامجھے پہچاننے سے انکارکردیگی۔کبھی ماضی کے دھندلکوں سے کوئی تصویر اُبھرتی اورکبھی حال کا نشترکچوکے لگاتا۔میں اُسی اُدھیڑ بُن میں اُلجھا ہواتھاکہ کارفیکٹری کے ریسپشن کاؤنٹرپرٹھہرگئی اوروہاںپرموجود چوکیدار،مالی اورریسپ شنیسٹ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے۔میں کارسے نیچے اُترا اور صباکے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے لگا۔مختلف سوالوں کے جواب دینے کے بعد آخر اُس نے مجھے چوکیدارکے حوالے کردیاوہ مجھے وزیٹنگ ہال میں لے آیا۔ اورخود صبا کو بلانے اندر چلاگیا۔میں ایک صوفے میں دھنس گیامیری آنکھوں میں پھرایک بار صباکا وہی چہرااُبھرآیاکچھ کچھ لمبوترا،تیکھے نقوش اورعجب ڈھنگ سے جمائے ہوئے بال ۔۔ میں ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ ہال میں ایک کمزور،مریل،بدصورت عورت داخل ہوئی۔ اورمیرے قریب آکرکھڑی ہوگئی،کہیے کیابات ہے ۔۔۔ ؟‘‘
میں گھبراکرایک دم کھڑاہوگیا،’’تم ۔۔۔ تم صباہی ہونا ۔۔۔ ؟‘‘
اُس نے میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔
’’مجھے پہچانا ۔۔۔میں ۔۔۔ میںمختارہوں ۔۔۔تمہارا لڈّومیاں ۔۔۔ !‘‘
’’لڈّو میاں۔۔۔؟‘‘ اُس کے سوکھے ہونٹوںپراُداس مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’آپ یہاں کیوںآئے ہیں ۔۔۔آپ ہی کی وجہہ سے کبھی میراکالج چھوٹ گیاتھااب کیا مجھے اس فیکٹری سے بھی نکلواؤ گے ۔۔۔ ؟‘‘
وہ زمین کو تکنے لگی،’’یہاںپرکسی غیرمردکی آمدکو بری نظروںسے دیکھا جاتاہے ۔۔۔ پلیز آپ فوراً چلے جائیے ۔۔۔!‘‘
پھروہ تیزی سے واپسی کے لیے پلٹی تومیں نے آہستہ سے کہا، ’’سنوتوصبا۔۔۔ !‘‘
وہ ٹھہرگئی،پھراُس نے دروازے سے باہردیکھا۔اُس کے چہرے کارنگ ایک دم فق ہوگیا۔’’آپ کیوں مجھے بارباربدنام کرنے چلے آتے ہیں ۔۔۔ !‘‘ آنسوؤں کاایک سیلاب اُس کی آنکھوں میں اُمڈآیااوراس سے پہلے کہ میں کچھ کہتاوہ تیزتیزقدموں سے واپس ہوگئی۔ میں اُسے دیکھتاہی رہ گیا۔
میں ہال سے باہرنکلاتوعجیب سی نظریں میراتعاقب کررہی تھیں۔میں آہستہ آہستہ کارکی طرف قدم اُٹھارہاتھااورمیرے کانوں سے وہی آوازیں ٹکرارہی تھی جوآج سے بیس برس پہلے میں نے سنی تھیں۔
٭٭٭