پھرایک بارگاؤں میں مُکھیہ منتری کی آمدکی زورشورسے تیاریاں ہورہی تھیں۔پارٹی کے لوگ اِدھراُدھرپوسٹراورکٹ آؤٹ لگا رہے تھے۔بھگوان جانے اب وِکاس کے نام پرگاؤں میں کونسی آفت آنیوالی ہے؟ گوئندراؤنے ہنومان ٹیکری سے نیچے دیکھا،کچّی سڑک پر گاؤں کی اکلوتی باربرداربیل گاڑی گُررگُررگُررکی آوازوںمیں اپنا سفرطے کررہی تھی،اُس میں بیٹھے ہوئے چہروں کودیکھ کراُسے جھٹکا سا لگا۔۔۔ توکیاکِشن لوہارنے بھی نِراش ہوکراپنے چھوکروںکوگاؤں چھوڑنے کی انومتی دے دی۔۔۔؟اُس نے ایک بارپھربیل گاڑی کی طرف دیکھا،جودھیرے دھیرے گاؤںسے پانچ کلومیٹردوربس اسٹاپ کی طرف جارہی تھی،وہ سوچنے لگا ۔۔۔ یہ کیسے ہوگیا۔۔۔؟وہ توکبھی گاؤں چھوڑنے کی بات نہیں کرتا تھا،پھراُس نے اتنابڑافیصلہ کیسے کرلیا۔۔۔؟
وہ ٹیکری سے نیچے اُترآیااوراپنے سامنے دیکھا،کسوندی کے سوکھے پودوں کے درمیان سے پگڈنڈی دوٗرتک جاتی ہوئی دکھائی دی گوئندراؤ کی نظریں اُس پگڈنڈی پرچلتی ہوئی کشن لوہارکے جھونپڑے تک پہنچ گئیں۔مختصرسی دھوتی میں ہڈیوں کاایک ڈھانچہ زمین پرپڑا ہوا تھا۔
’’رام رام کشن با۔۔۔‘‘
’’رام رام۔۔۔!‘‘کشن اُٹھ بیٹھا ،’’آؤبھاؤ ، بہت دنوں کے بعدآئے ہو،سب کُشل منگل ہے نا-؟‘‘
’’کُشل منگل۔۔۔؟‘‘گوئندراؤزمین پرپھسکٹ مارکربیٹھتے ہوئے بولا، ’’کشن با ۔۔۔ ندّی کیا سوکھی،سارے ہی سُکھ سُوکھ گئے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔!‘‘کشن نے بیڑی کاکٹّااورماچس کی ڈبیااُس کی طرف بڑھایا اورپھرآسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا،’’بھاؤ۔۔۔ ندّی بہتی تھی توجیون بھی بہتا تھا،دھرم کرم بھی ہوتا تھا۔روزی روٹی بھی مل جاتی تھی۔پرنتواب توچاروںاؤردھول ہی دھول اُڑرہی ہے۔۔۔!‘‘
’’بروبر۔۔۔!‘‘گوئندراؤ نے بیڑی سلگائی ،ایک کش لیا اورپھردھواں چھوڑتے ہوئے بولا،’’دیکھتے ہی دیکھتے آدھا گاؤں خالی ہوگیا، چھوکرے بھی کیا کریں گے،گاؤں میں روزی ہی نہیںرہی۔۔۔!‘‘
’’بروبر بولے کاکا۔۔۔!‘‘راموکے منہ سے نکلااورشامونے لکڑی کاگٹھا زمین پرپھینکا،’’باپو۔۔۔ ! اب تم بھی ہم کو شہرجانے کا آشرواد دے دو۔۔۔!‘‘
کشن نے گھورکربیٹوں کی طرف دیکھااورگوئندراؤکے منہ سے دھواں اُبلنے لگا۔’’رامو۔۔! پن یہ توبتاوہاںجاکرکیاکریے گا۔۔۔؟‘‘
شامونے اپنے باپ کی آنکھوں میں بے بسی اوراُس کی اُبھری ہوئی پسلیوں میں محنت اورمشقّت کی پوری داستان کوشرمندہ ہوتے ہوئے دیکھا،’’کچھ نہ کچھ محنت مجوری توکرناہی پڑے گی بابو۔۔۔یہاں کب تک لگوہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔۔۔؟‘‘
کشن نے گوئندراؤ کی طرف دیکھا۔
شامونے پیٹ پربندھی ہوئی گمچھی کوکھولااورسامنے رکھے ہوئے گھڑے میں سے پانی اونڈھیلا اور بولا،’’باپو ۔۔۔ یہاں بھوکوں مرنے سے توبہترہے شہرہی چلے جائیں ،چارپیسے بھی توہاتھ میں آئیں گے-!‘‘
گوئندراؤنے کشن کی طرف معنی خیزنظروں سے دیکھا،لیکن اُس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخروہ فیصلہ کیاکرے۔۔۔؟اُس نے اپنی گردن جُھکادی،شامونے۶ پانی پی کرلُٹیاکوگھڑے پررکھ دیا۔
’’باپو۔۔۔! اوربھی توگاؤں کے چھوکرے ہمارے آگے شہرکوگئے ہیں، ارے جب اُن کو کا م مل سکتاہے توہمیں بھی کچھ نہ کچھ ضرورملے گا۔۔۔!‘‘
کشن کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑگئی،’’دیکھا بھاؤ ۔۔۔ یہ ہے آج کی پیڑھی ۔۔۔جراسابھی صبرنہیں ہے ان کو،ارے کُتّابھی بھوکامرجاتاہے پن مالک کادرواجہ نہیں چھوڑتا،اوریہ۔۔۔؟‘‘ اُس نے اپنا ہاتھ زورسے زمین پرمارا اور دروازے سے باہردیکھا۔باہرشدید دھوپ تھی،وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑاہوگیا، ’’میں تم کوشہرجانے کی انومتی نہیں دوں گا ، شہربہت بڑاہوتاہے ۔ ارے بھٹک جاؤگے تم ۔۔۔ اپناسب کچھ بھول جاؤگے۔۔۔!‘‘
وہ اپنے بیٹوںکے قریب پہنچااوراُن کے سروںپرشفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا،’’بیٹا۔۔۔!اگرتمہاری ماںآج جندہ ہوتی تو کیاتم اُس کوچھوڑکرچلے جاتے۔۔۔؟‘‘
کشن با کی آنکھوںمیں آنسوںاُمڈآئے۔
سمئے بھی کیسابلوان ہوتاہے۔سب کچھ بدل کررکھ دیتاہے اورآدمی سوچتارہ جاتاہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟پچھلے پانچ برسوںسے یہی ہورہاہے ہرروزگاؤںکا کوئی نہ کوئی آدمی گاؤں چھوڑکرشہرکی طرف جارہاہے۔کشن لوہاربھی کب تلک نیتیوں سے بندھارہتا،آخرٹوٹ ہی گیاہوگااوراپنے بیٹوں کوشہرجانے کی انومتی دے دیا ہوگا ۔
گوئندراؤآہستہ آہستہ قدم اُٹھارہاتھا،پیپل کے درخت کے نیچے مریل جانورجُگالی کررہے تھے اوردوٗردوٗرتک سائیں سائیں کرتاہواچٹیل میدان پھیلاہوا تھا۔سورج کی بے رحم حدت زمین کے سینے کو داغ رہی تھی۔اُسے دوٗرسے آتاہوا سرپنچ دکھائی دیا۔اُجلی دھوتی سرپرٹیڑھی گاندھی ٹوپی اورپیروں میں آوازیںکرتی چمڑی کی جوتی۔اُس نے آسمان کی طرف دیکھناچاہا،لیکن اُس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔’’پربھو۔۔۔تیرے اؤردیکھنے کی بھی انومتی نہیں ہے توشکایت کیاکروں-؟ توہمارے گاؤں پربرسوںسے آگ برسارہاہے اوربرسا - پن یہ بھی سُن لے ، بھوکے پیٹ تیراکوئی نام بھی نہ لے گا۔۔۔!‘‘
’’کیاسوچ رہاہے گوئندہ۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں سرپنچ - بس یہی سوچ رہاتھاکہ گاؤں کواُجاڑنے میں تمہارا ہاتھ جیادہ ہے یابھگوان کا ۔۔۔؟‘‘
’’تیرے سے توبات کرناہی نادانی ہے ۔۔۔ !‘‘سرپنچ پیرپٹختاہواآگے بڑھ گیا۔گوئندراؤنے پلٹ کردیکھا،جوتی چرچوںچرچوں کررہی تھی،اُس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی ، گاؤں کاوِکاس کرنے نکلے تھے۔بندبن جائے گاتوایسا ہوگا،بندبن گیاتوویسا ہوگا۔۔۔ کیاہوا۔۔۔؟کچھ بھی تونہیں ہو ا ؟
وہ چھوٹی موٹی پگڈنڈیوں پرچلتے چلتے اپنے آپ ہی اُلجھ رہاتھا۔بندکی تعمیر کی خاطرکتنے لوگوںکے گھراورکھیت داؤپرلگ گئے۔ لیکن اُنھیں کیاملا-؟وہ اب بھی بلک رہے ہیں۔اُس نے پیچھے پلٹ کردیکھا یادوںکے غُبارسے ایک منظراُبھرا- بھیڑ کے ساتھ وہ بھی سرپنچ کوگھیرے کھڑا تھا۔بپھرے ہوئے لوگ سرپنچ سے جواب طلب کررہے تھے۔
’’سرپنچ - تم نے کہاتھاکہ اپنے کھیت اورگھر،گاؤں کی پرگتی کے لیے قربان کردو،تمہیں اس سے اچھے گھراورکھیت مل جائیں گے-!‘‘
’’سرپنچ - وہ کھیت اوروہ گھرہم آج تک ڈھونڈرہے ہیں-!‘‘
’’سرپنچ - تم نے ہماری جمینوںکی جوکیمت لگائی تھی اُس سے نہ توجمین کھریدی جاسکتی ہے اورناہی گھر-!‘‘
’’سرپنچ - تم نے تو ہم کو بے جمین کردیا-!‘‘
’’سرپنچ - تم نے ہم کو بے گھرکردیا-!‘‘
’’سرپنچ - ہم تو اپنے ہی گاؤں میں اپنی ہی جمین پرشرنارتھی ہوکررہ گئے!‘‘
سرپنچ نے غم اورغصّے میں ڈوبی ہوئی ہرآواز کو نہایت خندہ پیشانی سے سنا، اُس کے چہرے پرکہیں بھی غصّہ یاندامت نہیں تھی۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے سب کوشانت کیااورپھرنہایت گمبھیرلہجے میں کہناشروع کیا،’’بھائیو-!تمہاری بِپتاکا اندازہ ہے میرے کو،میں تمہاری کٹھنائیوںکوبھی سمجھتاہوں،تمہاری ہرسمسّیامیری ہے۔میں تم سب کابہت آدرکرتاہوںکیونکہ گاؤںکے وکاس کے لیے تم لوگوںنے جو بلیدان دیاہے اُس کاتوکوئی مول ہوہی نہیں سکتا - پن میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں- سرکارکی سمسّیا تم نہیں جانتے،ارے سرکارکی تجوری میں پیسہ کہاںسے آتاہے-؟ یہ پیسہ اُس وکھت آتاہے جب ہم ٹیکس اداکرتے ہیں۔پن پچھلے پانچ برسوںسے بارش ہوئی۔۔۔؟‘‘
اُس نے سب کی آنکھوںمیںجھانکا،’’بارش نہیں ہوئی تو بند بھی سوکھ گیا۔ ندّی بھی غائب ہوگئی۔اب تم ہی سوچوسرکارکے پاس پیسہ کہاںسے آئے گا-؟‘‘
سارے ہی لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔لیکن اس سے پہلے کہ اُن کی بے چینی سوالوںمیںڈھلتی اُس نے پھرکہنا شروع کیا،’’میں تمہارے واسطے کل شہرجرورجاؤںگا،منتری جی سے ملوںگا،تمہاری ساری سمسّیاؤںکواُن کے سامنے رکھوںگااورمیں تم سے وعدہ کرتاہوں،میں ان کے سامنے سے اُس وکھت تک نہیںاُٹھوںگاجب تلک تمہاری ساری سمسّیاؤںکا نپٹارہ نہیں مل جاتا-!‘‘
سرپنچ کی یہ تسلّی بخش گفتگوسُن کرلوگوںکے چہرے کھِل اُٹھے،لیکن گوئندراؤ نے زورسے ماچس کی تیلی ڈبیاپررگڑی ،چھوٹاساشعلہ پیداہوا،پھربیڑی کے سامنے لہراتاہواخاموش ہوگیااورپھراُس کے منہ سے دھواں نکلنے لگا،’’چلوبھیا - تمہارا سرپنچ اب سچ مچ نیتاہوگیا ہے - بس کل کی آس پرجیتے رہو،کل اگرآگیاتوبروبرتم کو سب کچھ مل جائے گا -!‘‘
گوئندراؤ کوپتہ ہی نہیں چلاکہ وہ کب ندّی کے کنارے پہنچ گیا تھا -!
اب جونظریں سامنے کیں توسوکھی ندّی تھی۔جگہ جگہ ریت چوروںنے گڑھے کھودرکھے تھے۔اِدھراُدھرسوکھی جھاڑیاں منہ چڑھا رہی تھیں۔سارامنظرہی بے رونق ہوگیاتھا۔اگرچہ ندّی کاپاٹ اب بھی اُتنا ہی چوڑاتھا۔لیکن کہیںبھی پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔البتہ بیل گاڑیوںکی آمدورفت نے ایک راستہ ضروربنادیاتھا۔وقفے وقفے سے ہواؤں کے جھکّڑچل رہے تھے۔دھول اورگرداُڑرہی تھی - وہ سوچنے لگا - میّایہ سب کچھ وکاس کے نام پرہواہے،ورنہ تیراتٹ کبھی ایساویران نہیں تھا، گوئندراؤ کی نظروںمیںدُورتک بل کھاتی ہوئی سوکھی ندّی تھی۔وہ وہیں پررُک گیا۔ اُس کے دل ودماغ میں ماضی کے کِواڑکُھلنے لگے اوراُس نے دیکھا - ندّی چھل بل کی آوازوں کے ساتھ بہہ رہی ہے ۔صبح ہورہی ہے،لوگ اشنان کررہے ہیں،زور زورسے منتروںکاجاپ جاری ہے۔قریب کے شنکرمندرکی گھنٹیاںبج رہی ہیں،شنکھ پھونکے جارہے ہیں۔ندّی کے کنارے جگہ جگہ باڑیاںلگی ہوئی ہیں ، تر بوز اورخربوز کی بیلیں پھیلی ہوئی ہیں۔کھیرے اور ککڑیاںسورج کی روشنی میں چمک رہی ہیں۔ دُور دھوبی گھاٹ پرکپڑ ے دُھل رہے ہیں، چرواہوں کی بنسریوں سے زندگی کے راگ پھوٹ رہے ہیں۔جانوراِدھراُدھرمنہ ماررہے ہیں۔ندّی کے اُس طرف کھیتوں میں کسان کام کررہے ہیں۔
’’آداب گوئندراو-!‘‘
’’آں کون ۔۔۔ ؟‘‘وہ ایک دم ،جیسے خواب سے چونکا،’’بانگی مینوالدین!‘‘
’’گوئندراؤ ۔۔۔ کم از کم تم توبانگی مت بولو !‘‘اُس کا چہرہ ایک دم اُتر گیا،’’بندکی تعمیرنے بے روزگارکردیا،ورنہ کیاکل کا باغبان معین الدین آج مسجدکا بانگی اوربچوں کامولی ساب ہوتا -؟‘‘
’’تیرے کوبُرالگامینوالدین -؟‘‘گوئندراؤ نے اُس کی پیٹھ پرہاتھ رکھا۔
’’بُراتونہیں لگامگرتم کو معلوم ہے میں کیاتھا،ارے اس ندّی پرسب سے بڑی تربوزکی باڑی میری ہی ہواکرتی تھی اورمیں اُس سے اتناکمالیتاتھاکہ آٹھ مہینے بیٹھ کرکھاتا -!‘‘
’’ہاں مینوالدین ۔۔۔ !‘‘دونوںنے گاؤں کی طرف قدم اُٹھایا،’’وہ بھی کیا دن تھے جب ہرگھرمیںچین کی بنسری بجتی تھی -!‘‘
’’ہاں -! اب توجیسے خداہی روٹھ گیاہے -!‘‘معین الدین نے اوپر دیکھنے کی کوشش کی اورپھراُسے محسوس ہواخداواقعی روٹھ گیا ہے۔
دونوں خاموش چل رہے تھے۔سورج آگ اُگل رہاتھا،آوارہ کُتّے گندی نالیوں میں بیٹھے ٹھنڈک تلاش رہے تھے،نیم کے درخت کے نیچے کالوحجام اپنی ڈھوپٹی بندکیے لیٹاہواتھا،کشن لوہارکی بھٹّی کی دھونکنی خاموش پڑی تھی،بابونجّاراپنے کارخانے میں اکیلابیٹھا بیڑی پھونک رہاتھا۔پنگھٹ خالی پڑا تھا۔مسجدکے دروازے کے قریب چھوٹے چھوٹے بچّے ٹوپیاں پہنے کھڑے تھے۔گوئندراؤ نے معین الدین کی طرف دیکھا، ’’تیرے کو معلوم مین والدین اپنے گاؤں میں پانچ برسوںکے بعدپھرمکھیہ منتری آنے والاہے -؟‘‘
’’ہاں -!خداجانے اب کس ترقی کے نام ہم سے کیا لینے والاہے -!‘‘
دونوں کے لبوں سے قہقہہ بلندہوا،اورمعین الدین مسجدکی طرف بڑھ گیا۔ بچوںنے اُردوکی کتاب نکالی اورزورزورسے نظم خوانی کرنے لگے۔
رب کا شکر ادا کربھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
دانہ دُنکا، بھوسی چوگر
کھالیتی ہے سب خوش ہوکر
اچانک معین الدین کو اپنی موٹی تازی گائے یادآگئی،جو کبھی سارے گاؤں کی لاڈلی تھی۔جو بھی اُسے دیکھتابس دیکھتارہ جاتا، کسی کو اُس سے عقیدت تھی توکوئی اُس سے محبت کرتاتھا۔وہ جدھربھی جاتی لوگ اُس کے دیوانے ہوجاتے،حمّوپنساری تواُس کی آمدکو نیک شگو ن مان کرگھانس کی پولی خریدکرکھلاتاتوسنجوحلوائی اُسے جیلیبی اوربرفیاں کھلاتا۔گاؤں کی عورتیں اوربچّے اُس کی پیٹھ پرہاتھ پھیرتے ،وہ جس کھیت میں بھی جاتی من مانامنہ مارکرآتی ۔۔۔ لیکن جونہی گاؤںمیں مذہب کے نام پرسیاسی پارٹیوںنے قدم رکّھا،جانوربھی ہندواور مسلمان ہوگئے اورمیری گائے کی ہرروز شکایتیں آنے لگیں،وہ جدھربھی نکلتی اُس کی پیٹھ پرمارکے نشان اُبھرآتے۔جنگل میں چرنے کے لیے اُسے کچھ نہیں تھااورکھیتوںکے راستے اُس پربندہوگئے تھے۔ محبوراً میں نے اُسے ایک دن فروخت کردیا۔
اُس کی آنکھوں میں وہ منظربھی اُبھرآیاجب رحیموقصائی اُس کی رسّی پکڑکرکھینچ رہاتھااوروہ پلٹ پلٹ کراُسے دیکھ رہی تھی۔اُس کی آنکھوںمیں آنسوں تیرنے لگے اورمسجدمیں موجود معصوم بچّے دوہرارہے تھے،
جورحم نہیںکرتا،اُس پررحم نہیںکیاجاتا
جورحم نہیںکرتا،اُس پررحم نہیںکیاجاتا
معین الدین کادل بے اختیارچاہاکہ وہ پھوٹ پھوٹ کرروئے لیکن وہ روبھی نہ سکا۔اُس نے مسجدکے باہردیکھا،زندگی اب بھی دھوپ سے مقابلہ کررہی تھی۔
’’اے بڈّھی ،اولنگڑے،ارے اوپٹکے والے میں تم سب سے کہہ رہاہوں - یہاںسے فوراًدفع ہوجاؤ ۔۔۔!‘‘پارٹی کے ورکروں میں سے ایک کی آواز گونجی۔
’’پن ہم نے اب کدھرجانا-؟‘‘بوڑھی اپنے پھٹے پُرانے چیتھڑوں کوسمیٹتے ہوئے بولی۔
’’کدھربھی جاؤ،پن یہاںپرنہیں رہنا-!‘‘دوسرے ورکرنے ڈانٹا۔
لنگڑااپنی ایک ٹانگ پرجھولتاہوابولا،’’ہمارے جھونپڑے توتم نے بندکے نام پرہڑپ لیے،ارے یہاںتوچین سے مرنے دو-!‘‘
’’اے لنگڑے-!‘‘سرپنچ کاچھوٹابھائی دوٗرسے دھاڑا،’’وہاں کیاتیرے باپ کی جمین پرجھونپڑاتھا؟بھیک منگے سالے جہاں جگہ ملی کپڑاتان کربیٹھ جاتے ہیں-!‘‘
’’چھوٹے مالک -! آپ اپنی جبان کاہے کو کھراب کررہے ہو؟‘‘ایک اورآواز اُبھری ،’’اُن کوتومیں دیکھتاہوں-!‘‘ پھراُس نے کمرپراپنے دونوںہاتھ رکھتے ہوئے چیتاؤنی دی،’’ سُن لورے پھکٹ کھوروں،دس منٹ کے اندراندرتم نے یہاںسے نکل جانا،نہیں تو میرے سے بُرااورکوئی نہیں، یہاںسے مکھیہ منتری جی کی گاڑی جائے گی،اُن کوتمہاری یہ کالی صورتاںنظرنہیں آنا ۔۔۔ سمجھے ۔۔۔ ؟‘‘
لیکن اُس کی دھونس کے ختم ہونے سے پہلے ہی وقت کے ماروںنے اپنا اپنا سامان اُٹھاناشروع کردیا۔بظاہراُن کے لب بند تھے۔لیکن اُن کاغصّہ دل ہی دل میں گالیاںاُگل رہاتھااوراوپرمُکھیہ منتری اپنے کٹ آؤٹ میں کسی نٹ کے مانند کھڑے مسکرارہے تھے۔
پورے گاؤںمیںایک ہنگامہ تھا۔چاروںطرف مکھیہ منتری کی آمدکا چرچا تھا۔کچھ لوگ خوش فہمیوں میں مبتلاتھے توکچھ عجیب سی خوشیوںکاشکارہورہے تھے۔ گاؤں میں ممکنہ صاف صفائی کاانتظام کیاجارہاتھا۔کچھ ذی اثرلوگوںنے اپنے گھروں کورنگ وروغن کروالیا تھا۔پولیس کی گاڑیاںدن میں دودوبارآرہی تھیںاورانتظام کاجائزہ لے رہی تھیں۔سرپنچ نے میٹنگوںکی رفتاربڑھادی تھی۔مختلف میمورنڈم تیار کئے جارہے تھے،غرض پورا گاؤں مصروف تھا۔
آخروہ گھڑی بھی آپہنچی ،شہرسے بھاری معاوضے پربلائے گئے سازندے اپنافرض نبھارہے تھے۔کرائے کے لوگ مکھیہ منتری کی جے جے کارکررہے تھے۔ پارٹی ورکراُجلی پوشاکوںمیںملبوس اتراتے پھررہے تھے۔گاؤںکے سارے ہی راستے ہنومان ٹیکری کے قریب پھیلے ہوئے چٹیل میدان پرختم ہورہے تھے۔گوئندراؤ بھی اورلوگوںکی طرح میدان پرپہنچ گیاتھا۔وردی پوش موٹرسائیکل سواروں کے پیچھے موٹرگاڑیوںکاایک کارواںچلاآرہاتھا۔پولیس والوںکی سیٹیاں گونجنے لگیں۔ہٹو بڑھوکاشورتھاکہ ایک دم ورکروںنے جے جے کار کے نعروںسے آسمان سرپر اُٹھالیا۔ کڑی سیکوریٹی کے درمیان اچانک چھوٹے قدکاآدمی پھولوںکے ہاروںسے لدا ہوا دکھائی دیا۔ کرائے کے لوگوںاورپارٹی ورکروںنے پھرایک بارپوری قوت سے نعرہ لگایا۔گوئندراؤ نے معین الدین کوٹھوکادیا،’’مین والدین،دیش کے منتریوںنے بہت پرگتی کرلی ہے -!‘‘
معین الدین بھی جواب میں مسکرایااورتالیوںکی گونج میںمکھیہ منتری کا بھاشن شروع ہوگیا،’’بھائیواوربہنو! آج سارادیش پرگتی کے مارگ پردوڑرہاہے۔ گاؤں گاؤں وکاس ہورہاہے۔میں نہیں چاہتاکہ آپ کاگاؤںپرگتی کی دوڑمیں پیچھے رہ جائے -!‘‘
سرپنچ نے زورسے نعرہ لگایا : ’’مکھیہ منتری جی -!‘‘
لوگوںنے جواب دیا ۔۔۔زندہ باد زندہ باد
ان فلک شگاف نعروںنے مُکھیہ منتری جی کی گردن کوکچھ اوراونچاکردیا، اب اُن کے آواز میں اعتمادچھلکنے لگاتھا،’’بھائیواوربہنو! ہم آنیوالے پانچ برسوںمیں اس گاؤں کاایساوکاس کریں گے کہ دنیادیکھتی رہ جائے گی۔اس گاؤں میںاب کوئی بھوکانہیں رہے گا،کوئی بے روزگارنہیں ہوگا -!‘‘
جے جے کارکے نعرے پھرایک بارگونج اُٹھے۔مُکھیہ منتری نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش کیا،’’تم کو معلوم ہے آج دنیا سمٹ کرایک بڑاگاؤں بن گئی ہے اورمیں چاہتاہوںکہ آپ کایہ گاؤں بھی اس بڑے گاؤں کاایک حصّہ بن جائے - بولو - آنیوالی پنج سالہ یوجنامیں گاؤں کے وکاس کے لیے تم مجھ سے کیاچاہتے ہو -؟‘‘
مُکھیہ منتری جی اپنے اس سوال کا جواب لوگوںکے چہروں میں تلاش کرنے لگے۔لیکن پورے مجموعے پرایک سنّاٹاچھایاہواتھا، ساری آنکھیں حیرت سے اُنھیں دیکھ رہی تھیں۔اُن کے چہرے پران داتاکی مسکراہٹ نمودارہوئی،’’میں بتاتا ہوں، اس گاؤں کے وکاس کے لیے مجھے کیاکرناہے -!‘‘
’’ٹھہرومُکھیہ منتری جی -!‘‘گوئندراؤ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑاہوگیا،اُس نے اپنے ہاتھ جوڑے ،سارے کان اُس کی طرف متوجہ ہوئے ۔البتہ سرپنچ کاچہرہ غصّے سے بھبھک رہاتھااور سیکوریٹی فورسیس نے بندوقیں سامنے کردیں۔
’’مُکھیہ منتری جی! آپ کے وعدوںکی ہرپانچ سالہ یوجناہم غریبوں کو دس سال پیچھے دھکیل دیتی ہے۔نہیں چاہیے ہمیں پرگتی کے کھوٹے مارگ،میں ہاتھ جوڑ کربس آپ سے اتنی بنتی کرتاہوں کہ ہماری ندّی کوآزادکردو،ندّی آزاد ہوجائے گی توبہنے لگے گی۔ہمارے کنوؤں میں پانی آجائے گا،ہماری فصلیں لہلہانے لگیں گی،ہم اپنے دھرم کاپالن بھی کرسکیں گے،ہمارے گھرلکشمی دیوی راج کرے گی اور ہمارے گاؤں کا کوئی بچّہ روزی کی تلاش میں گاؤںسے باہرنہیں جائے گا -!‘‘
سارے مجمع پرسنّاٹاچھاگیا،مکھیہ منتری جی سکتے میں آگئے۔اُنھوںنے اِدھراُدھردیکھا، اُنھیں ہرجگہ گوئندراؤ ہاتھ جوڑے نظر آنے لگا۔اُن کے کانوںمیں ایک شورتھا،اُنھوںنے گردن جُھکادی۔
دوسرے دن اخباروں میں خبرچھپی تھی،’’کل مُکھیہ منتری کے بھاشن میں کسی سرپھرے نے ہنگامہ کرنے کی کوشش کی تھی،پولیس نے اُسے گرفتارکرلیا۔
٭٭٭