وہ میرے آفیس میں کب داخل ہوا ، میں نے نہیں دیکھا تھا لیکن جب وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تو میں نے دیکھا ۔ اُس کے چہرے سے عجیب وحشت ٹپک رہی تھی جیسے وہ کسی کا خون کر کے آیا ہو ، میں نے اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولا ، ’’ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘
میں نے اُسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ، اور جب وہ بیٹھ گیا تو میں بولا ، ’’ یہ ایک عجیب اتفاق ہے ۔ اکثر خبروں کی تلاش میں ہم پولس والوں تک پہنچتے ہیں ، لیکن آج ایک پولس والا خود ہمارے دفتر میں آیا ہے ۔‘‘
اُس نے میرے جملے پر کوئی رسپانس (Response) نہیں دیا ۔ بلکہ وہ میرے ٹیبل کا جائزہ لے رہا تھا ۔ پھر اُس نے میرے قلم کو بند کیا ۔ میرے سامنے رکھے ہوئے کاغذات کو ہٹایا اور پلٹ کر دیکھا ، ٹیلی پرنٹر کی ٹک ٹک ٹک کی آوازیں آرہی تھیں ۔ میں اُس کی بے چینی کو اب کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا ۔ میں نے کہا ، ’’ میں پوری توجہ سے تمہاری باتیں سنوں گا ۔ ۔۔ کہو ۔۔۔ ‘‘
اُس کے لبوں سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی اور پھر اُس نے کہنا شروع کیا ، ’’ میں اپنا نام نہیں بتاؤں گا ، اور نا ہی اپنے ڈپارٹمنٹ کے کسی افسر کا نام لوں گا ، کیونکہ ہم سب کے چہرے ایک جیسے ہی ہیں ۔ ہم سب کی سوچ بھی ایک جیسی ہے ، اور ہمارے کام کرنے کا طریقہ بھی یکساں ہے ۔ اس لیے ہمیں جاننے کے لیے کسی نام کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ ‘‘
وہ میری آنکھوں میں جھانکنے لگا ، گویا پوچھ رہا تھا کہ کیا اب بھی نام جاننا ضروری ہے۔ ؟ میرے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر میں نے کہا ، ’’ فکر نہ کرو ، ہمارے پیشے میں بھی نام کی اہمیت نہیں ہوتی ۔ اہمیت ہوتی ہے تو بس اُس اسٹوری کی جو ہم عوام تک اپنے اخبار کے ذریعہ پہنچاتے ہیں ۔ ‘‘
’’ لیکن ضمیر ۔۔۔ ‘‘
ایک پولس والے کی زبان پر لفظ ضمیر سن کر میں چونک اُٹھا اور پھر بے اختیار میرے لبوں سے نکلا ، ’’ کیا تمہارے ریٹائرٹمنٹ کے دن قریب آگئے ہیں ۔ ‘‘
’’ بس ایسا ہی سمجھو ۔ ! ‘‘ اُس نے تھوک نگلتے ہوئے جواب دیا ، ’’ میں بہت جلد اپنا استعفیٰ دینے والا ہوں ۔ ‘‘
’’ خیریت ۔۔۔ ؟ ‘‘ حیرت سے میرے منہ سے نکلا ۔
’’ صاحب ضمیر سب کے پاس ہوتا ہے اور ویسا ہی ہوتا ہے جیسے آپ کے پاس ہے ۔ اور وہ جب جب بھی جاگتا ہے سچائی کی آوازبن کر ہی جاگتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اُس آواز کو دبادیتے ہیں ، لیکن پچھلے کئی دنوں سے میں اپنے ضمیر کی آواز کو بہت شدّت سے محسوس کر رہا ہوں ، اور مجھے میری ڈیوٹی آئینہ دکھا رہی ہے ۔ ۔۔ ‘‘
میں کرسی کی پشت پر جھول گیا تو وہ میرے ٹیبل پر جھک گیا ، اور میرے بہت قریب پہنچ گیا ، اور پھر آہستہ سے بولا ، ’’ لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اپنی بات کہاں سے شرو ع کروں ۔ ‘‘
’’ اُسی بات سے جس نے تمہارے ضمیر کو جگادیا ہے ۔ ‘‘ میری زبان سے نکلا تو وہ بولا ، ’’ ایسی ہی ایک شام اچانک مجھے ہتیار بند دستے میں شامل کرلیا گیا اور اُڑتی اُڑتی خبر میرے کانوں تک پہنچی کہ ہم کسی بڑے دہشت گر کی گرفتاری کے لیے جا رہے ہیں ۔ ہائی کمان نے اُسے زندہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ اُس کے ذریعے ہم دہشت گردوں کے مرکز تک پہنچ سکیں ۔ ہم لوگ پانچ گاڑیوں میں سوار تھے ۔ اس آپریشن کے لیے اس قدر احتیاط برتی گئی تھی کہ سوائے ہمارے سینئیرس کے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں پہنچنے والے ہیں ۔ یہاں تک کہ گاڑیوں کے اسٹیرینگ بھی ہمارے افسروں کے ہاتھوں میں تھے ۔
ہماری گاڑیاں طوفانی رفتار سے دوڑ رہی تھیں ۔ عجیب سناٹا تھا ۔ چاروں طرف تاریکی کا راج تھا ۔ میں سوچ رہا تھا ، خدا جانے کن غنڈوں اور بدمعاشوں سے پالا پڑنے والا ہے ۔ میں نے ایک بار اپنی بندوق اور دیے گئے املیشن کا جائزہ لیا ۔ مجھ پر کپکپی سی طاری ہوگئی ۔ دل و دماغ موت کی آہٹ کو اپنے سے بہت قرتب محسوس کرنے لگے ۔ اندھیرے میں میں نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا ۔ وہ سبھی خاموش تھے ۔ شاید سب وہی سوچ رہے تھے جو میں سوچ رہا تھا ۔ میں نے دل ہی دل میں اپنے پیدا کرنے والے سے ہمیشہ کی طرح وعدہ کیا کہ اگر اس مشن میں بچ گیا تو تمام برائیوں سے توبہ کر لوں گا ۔ نہ رشوت لوں گا اور نا ہی کوئی غلط کام کروں گا ۔ ٹھیک اُسی وقت میرے کانوں میں کسی کا زبردست قہقہہ گونجا ۔ میں گھبرا گیا ، اور پھر ایک بار اپنے تمام ساتھیوں کا جائزہ لیا لیکن اُن سب کے لب اُسی طرح بند تھے اور سب کے چہروں پر وہی سوالیہ نشان تھا ۔ ‘‘
وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا ے اگرچہ مجھے اُس کی اِس کہانی میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی تھی لیکن پھر بھی دل رکھنے کی خاطر میں نے پوچھا ، ’’ پھر تم لوگوں کا سامنا دہشت گردوں سے ہوا ۔ ‘‘
اُس نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا ، ’’ کیا آپ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں ۔ ؟ ‘‘
’’ نہیں تو ۔۔۔ ‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ، ’’ اچھا بتاؤ پھر تمہاری گاڑیاں کہاں جاکر رُکیں ۔ ؟ ‘‘ میں نے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر اس کی طرف بڑھایا ۔
اُس نے سگریٹ جلائی ۔ دو ایک کش لیے اور پھر کہنا شروع کیا ، ’’ کاش میں یہ بات پہلے ہی سے جانتا ۔ ! ‘‘ پھر اُس نے اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیں اور کچھ لمحوں تک خاموش رہا ۔ ایک لمبی آہ اُس کے لبوں سے نکلی ، ’’ لیکن اگر جانتا بھی تو کیا کرلیتا ؟ ہماری گاڑیاں ایک ایسی کالونی میں داخل ہوئیں جس کا میں تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس پرسکون اور تعلیم یافتہ کالونی میں ہمارا کیا کام ہوسکتا تھا ؟ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ہمارے افسرِ اعلیٰ کے حکم پر پانچوں گاڑیاں ، پانچ مختلف راستوں میں بٹ گئیں ۔ سائرن زور زور سے بجنے لگے ۔ پوری کالونی بیدار ہوگئی ۔ عجیب سی دہشت پھیل رہی تھی ۔ مائک پر اعلان شروع ہوا ، کوئی بھی شخص اپنے گھر سے باہر نہ نکلے ۔ پوری کالونی کو ہم نے گھیر لیا ہے ۔۔ ہماری گاڑیاں مختلف موڑ کاٹ کر پھر ایک جگہ آکر رُک گئیں۔ ہم سب دم سادھے اپنی اپنی بندوقوں پر گرفت مضبوط کر رہے تھے ۔ مجھے یقین تھا ۔ اُس وقت کالونی کے ہر دروازے کی ساند آنکھ بن کر ہمیں دیکھ رہی ہوگی ۔ پھر ہمیں نیچے اُتر نے اور وقت پڑنے پر بے دریغ فائر کرنے کا آڈر ملا ۔ ہم سب بندوقیں تانے اپنے افسروں کی کمان میں آگے بڑھ رہے تھے ، اور پھر ہم نے ایک چھوٹے سے مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ خوف ہماری ایڑیوں تک اُتر آیا تھا ۔ خدا جانے اس چھوٹے سے مکان میں کتنے دہشت گرپناہ گزیں ہونگے اور اس کاونٹر اٹیک میں کون کون جاں بحق ہوگا ۔ ہم لوگ اس طرح قدم اُٹھارہے تھے گویا کسی بڑے معرکے کو سر کرنے نکلے ہوں ، لیکن جانتے ہو وہ چھوٹا سا مکان کس کا تھا ۔ ۔۔؟ ‘‘ اُس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے جواب دیا ، ’’ میں کیا جانوں ۔۔۔ کس کا مکان تھا ۔ ؟ ‘‘
’’ وہ مکان تھا گفور ماسٹر کا ۔۔۔ ! ‘‘
’’ غفور ماسٹر ۔۔۔ ؟ ‘‘ اچانک مجھے سب کچھ یاد آگیا ۔ وہ واقعہ زیادہ پُرانا نہیں تھا ۔ ہمارے ہی اخبار نے اُس واقعے کی سب سے پہلے رپورٹنگ کی تھی ۔ میں ہمہ تن گوش ہوگیا ۔ میری بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے وہ بولا ، ’’ میں تمہاری بیتابی کو سمجھتا ہوں ، اور مجھے اب یقین ہوچکا ہے کہ تم میری ہر بات پر توجہ دوگے ۔۔۔ کیا مجھے ایک اور سگریٹ مل سکتا ہے ۔ ؟ ‘‘
میں نے اشارہ کیا ، ’’ سگریٹ اور لائٹر تمہارے سامنے ہیں ۔ ‘‘
وہ سگریٹ کے کش لگا رہا تھا اور میرا تجسس بڑھ رہا تھا ۔ نہیں شاید مجھ سے بھی زیادہ وہ بے چین تھا ۔ اُس کی خاموشی کسی بڑے اہم راز کواُگلنے کے لیے لفظوں کو سمیٹ رہی تھی ۔ میرے تصّور میں غفور ماسٹر در آئے ، نورانی چہرہ ، کھچڑی داڑھی ، سر پر سفید گھنے بال ، پیشانی پر سجدوں کا نشان ، جن کی زندگی کا مقصد صرف تعلیمی بیداری تھا۔ ۔۔کیسے کیسے گھروں سے وہ بچوں کو گھیر لاتے اور انھیں اسکول کا راستہ دکھاتے ، اُن کا تعلیمی بار اُٹھاتے ، لیکن ۔۔۔ ‘‘
’’ وہ آدمی نہیں فرشتہ ہیں ۔ ‘‘ اُس نے پھر کہنا شروع کیا ، ’’ میرے افسر نے اُن کے دروازے پر دستک دی ۔ چند لمحوں میں دروازہ کھلا ، لیکن اُس میں سے کوئی دہشت گرد باہر نہیں آیا ۔ گفور ماسٹر شب خوابی کے لباس میں ہمارے سامنے تھے ۔ ہم سب پچیس تیس قدم دور کھڑے اُن کے گھر کی طرف بندوقیں تانے ہوئے تھے ۔ ہمارے افسر نے اُن سے کیا کہا ، وہ ہم نے نہیں سنا اور اُنھوں نے اُسے کیا جواب دیا ، وہ بھی ہمارے کانوں تک نہیں پہنچا ، لیکن ہماری آنکھوں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس کے باعث ہمارے رونگٹھے کھڑے ہوگئے ۔ انسپکٹر کے گھونسے کی تاب نہ لاکر وہ زمین پر گر پڑے تھے ۔ اُن کے منہ سے خون بہہ رہا تھا اور ا نسپکٹر کی زبان سے گالیوں کی برسات ہورہی تھی ۔ جب اُس کی گالیاں ختم ہوگئیں تو اُس نے اُن کے پیٹ میں ایک لات ماری اور پھر زور سے دھاڑا ، ’’ سالے مُسلڈے ۔۔ غدار ۔۔۔ کی ہڈّی توڑ کر رکھ دوں گا ،کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو ۔۔ بتا کہاں چھپایا ہے دہشت گردوں کو۔۔؟‘‘ پھر اُس نے ہمیں گھر میں گھسنے کا آڈر دیا ۔ عورتوں اور بچوں کے رونے کا شور تھا ۔ پورے گھر میں سوائے اُن کے سترہ سالہ لڑکے کہ کوئی مرد نہ تھا۔ ہم نے اُسے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا ، اور پھر دوسرے ہی لمحے ہماری گاڑیاں وہاں سے اس طرح واپس ہوئیں گویا ہم کارگل فتح کر کے لوٹ رہے ہوں ۔ ‘‘
میں خاموش اُس کی طرف دیکھ رہا تھا اور مجھے میرا ہی اخبار منہ چڑھارہا تھا ۔ میں نے پولس کے بیان پر اُس کی رپورٹنگ تو کی تھی لیکن اس ساری بربریت کا کہیں بھی کسی اخبار میں کوئی ذکر نہ تھا ۔
’’ صاحب اس کے بعد ہم نے عدالت سے اُس کی کسٹڈی کا حکم حاصل کیا۔ ہم اُس سے وہ اُگلوارہے تھے جو ہم چاہتے تھے ، اور وہ ہمارے ہر سوال پر چونکتا ، اور پھر ایسی معصوم نظروں سے ہماری طرف دیکھتا کہ انسانیت کے سارے ہی جذبے ہمارے اندر کلبلانے لگتے ، لیکن طئے شدہ شیطانیت انسانیت کے ہر جذبے کا گلا گھونٹ دیتی ، اور ہم اُس پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دیتے ۔ ‘‘
وہ بے اختیار رونے لگا ۔ یہاں تک کہ اُس کی ہچکی بندھ گئی ۔ میں اُسے گھورے جارہا تھا ۔ میں نے ایک لفظ بھی تسلی کا اُس سے نہیں کہا ، کیونکہ ندامت مجھے بھی ہورہی تھی ۔ بلکہ مجھے اُس کے چہرے میں خود اپنا چہرہ نظر آرہا تھا ۔ اگر میں اُس سے ہمدردی کرتا تو یہ اپنی کمزوری کی بھی پردہ پوشی ہوتی ۔ وہ زار زار رورہا تھا اور میری روح زخمی ہورہی تھی ۔ ہم دونوں ایک ہی کیفیت سے گزر رہے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں چُرارہے تھے ۔ بس ہمارے درمیان ٹیلی پرنٹر کی ٹک ٹک ٹک کی آواز گونج رہی تھی ۔ پتہ نہیں ہم دونوں کب تک اُسی طرح خاموش بیٹھے رہے ۔ پھر جب اُس نے میری طرف دیکھنے کی ہمت کی تو میں نے پوچھا ، ’’ لیکن اُس کا جرم کیا تھا ۔۔۔ ؟ ‘‘
میرے اس اچانک سوال پر اُس کے چہرے پر کھسیانی سی ہنسی پھیل گئی ، ’’وہی تو معلوم نہیں ہورہا تھا ۔ ارے صاحب اُس کے خلاف اگر ایک بھی ثبوت مل جاتا تو کیا ہم اُسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہ کر دیتے ۔ ؟ اُس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک ذہین اور ہونہار طالب علم تھا ، اور ہماری بے بسی یہ تھی کہ ہمیں کوئی سِرا نہیں مل رہا تھا ۔ ہم نے اپنے مقصد کو اُس پر تھوپنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا تھا ، لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی ۔۔۔ اور پھر صاحب وہ رات بھی آئی ، وہ بھیانک اور قہر آلود رات ، اُس رات میں اکیلا ہی ڈیوٹی پر تھا ۔ اندر ایس۔ پی صاحب اُس کی کسٹڈی لے رہے تھے ۔ پتہ نہیں کیوں ایک انجانا سا خوف مجھ پر مسلط تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے ۔ میرے دل کی دھڑکنیں آپ ہی آپ تیز ہونے لگی تھیں ۔ میں بہت دیر تک یونہی ٹہلتا رہا ، لیکن میری بے چینی دور نہ ہوئی ۔ تھک ہار کر میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔ ٹھیک اُسی وقت میں نے دیکھا ، ایس ۔ پی صاحب گھبرائے ہوئے میری طرف آرہے تھے ۔ میری چھٹّی حس بیدار ہوچکی تھی ۔ اُن کی آنکھوں میں شدید اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ وہ اپنے منصب کو بھول کر میرے سامنے والی کرسی میں ڈھیر ہوگئے ، اور پھر نہایت مری ہوئی آواز میں اُن کی زبان سے نکلا ، ’’ وہ لڑکا مرگیا ۔ ‘‘
’’ کیا۔۔۔؟؟؟ ‘‘ میں چونک اُٹھا
’’ صاحب ایسا ہی دھکا مجھے بھی لگا تھا ۔ ایس ۔ پی صاحب میری طرف مایوس نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ میں اکیلا ہی اُس کی موت کا گواہ تھا ۔ میری آنکھوں میں اُس کا خوبصورت چہرہ گھوم کر رہ گیا ۔ دُبلا پتلا معصوم سا لڑکا جس کی ایک ایک کر ا ہ میرے کانوں میں گونجنے لگے تھی ۔ اُس کا بار بار گڑگڑانا ، رحم طلب نظروں سے ایک ایک کو دیکھنا ، آہ ۔۔۔ اُس کا جسم تو بہت پہلے ہی زخموں سے چور چور ہوچکا تھا ، اور آخر وہ خود ہی رہا ہوگیا تھا ۔ مجھ سے ایس ۔ پی صاحب کی بے بسی دیکھی نہ گئی ۔ میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ وہ کوئی فکر نہ کریں ۔ یہ راز ساری زندگی راز ہی رہے گا ، اور پھر ہم دونوں نے اُس کی لاش کو ٹھکانے لگا دیا ۔
’’ اور وہ جو تم لوگوں نے خبر دی تھی ۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ ‘‘
جواب میں اُس کے چہرے پر ایک عجیب سی پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی، ’’صاحب وہ خبر کوئی پہلی خبر تو نہیں تھی ۔ ایسی خبریں تو ملک کے ایک ایک شہر سے نہ جانے کتنی بار دی گئی ، اور آپ کے سماچار پتروں نے اُنھیں ہمیشہ ہی چھاپا ہے ۔۔۔ یہ کونسی نئی بات ہوئی ۔ ؟ ‘‘
اچانک میری نظریں ٹیلی پرنٹر پر پڑیں ، اور میرا دل بے اختیار چاہا کہ اُسے اُکھاڑ کر پھینک دوں ۔۔۔ میری آنکھوں کی وحشت دیکھتے ہوئے وہ بولا ، ’’بس صاحب اس حادثے نے میری راتوں کی نیند اور دن کا چین چھین لیا ہے ۔ مجھے کوئی پل سکون نہیں ہے ۔ میں نے لاکھ اس راز کو راز رکھنے کی کوشش کی لیکن میں اپنے اندر کے لاوے کو روک نہ سکا ۔ میرے دل پر ایک بوجھ تھا ۔ وہ میں نے لفظ لفظ آپ کے سامنے رکھ دیا ، اور اب آپ سے میری یہ بنتی ہے کہ آپ اِسے اپنے سماچار پتر میں چھاپ دیں ۔ ‘‘
’’ کیا خاک چھاپوں ۔۔۔؟ ‘‘ میرا لہجہ ایک دم بدل گیا ، ’’ نہ تم نے اپنا نام بتایا اور ناہی اپنے ایس۔ پی کا ، میں چھاپوں تو کیا چھاپوں ۔ ؟ ‘‘
اس نے میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھا ، اور پھر اپنی نظریں جھکا دیں ۔ اچانک اس کی نگاہیں میرے ٹیبل پر پڑے دعوت نامے پر پڑیں ، ’’ اوہ ۔۔۔ تو کل آپ بھی ہوائی اڈّے پر اُس غنڈے کی پریس کانفرنس میں جائیںگے ؟ جو سیاست کا تاج پہن کر آج بڑا عزت دار بن گیا ہے ۔؟ ‘‘
میں نے اس کے ہاتھوں میں سے رقعہ چھین لیا ، ’’جاؤ یہاں سے ۔۔۔ تمھیں اب کسی کو غنڈہ کہنے کا بھی حق نہیں ہے ۔ تمہاری صورتیں اس قدر بگڑ چکی ہیں کہ اب مجرم اور قانون میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ جاؤ چلے جاؤ ۔۔ ۔ ‘‘
وہ میرے سامنے سے چلا گیا ۔ میں نے اپنا قلم سنبھالا ۔ میں عوام کی آنکھیں کھول دینا چاہتا تھا ۔ میں نے اس کے ایک ایک لفظ کو کاغذ پر منتقل کردیا اور پھر اُ سے کمپوزر کے حوالے کیا تو وہ بولا ، ’’ صاحب ان سادھے کاغذات کا کیا کروں ؟ اِن پر کچھ تو لکھیے ۔ ‘‘
میں نے اُس کے ہاتھوں میں سے کاغذات چھین لیے اور اُن پر اپنے لکھے ہوئے لفظوںکو تلاش کرنے لگا ۔۔۔ واقعی وہ اُن کاغذات پر نہیں تھے ۔ میں نے گھبرا کر سامنے دیکھا ۔ دیوار میں آئینہ لگا ہوا تھا ، اور آئینے میں کوئی وردی پوش کھڑا تھا ۔ میں وہ قطعی نہیں تھا ۔
دوسرے دن جب میں ائیر پورٹ پر پہنچا تو ایک ہنگامہ برپا تھا کسی کانسٹیبل نے ایس۔ پی پر اُس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا جب وہ پھولوں کا ہار لیے نیتاجی کے استقبال کے لیے جارہا تھا ۔ وہ بال بال بچ گیا لیکن جواب میں اُس کانسٹیبل کو گولی ماردی گئی تھی ۔
میں جائے واردات پر پہنچا اور ششدر رہ گیا ، کیونکہ مرنے والا کانسٹیبل وہی تھا ، جو کل میرے پاس آیا تھا ۔ اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اُس کے ہی سامنے کھڑا ہوا ایس ۔پی مسکرارہا تھا ۔ میں نے ایک نظر دونوں پر ڈالی اور وہاں سے پلٹ گیا۔۔۔ غفور ماسٹر کے اکلوتے بیٹے کے قاتل کا اب دور دور تک کوئی ثبوت نہیں تھا ۔
٭٭٭