یہ بے رخی نہ دکھاو کہ رات جاتی ہے نقاب رخ سے ہٹاو کے رات جاتی ہے
جو میکدے میں نہیں مہہ تو کیا ہوا ساقی ہمیں نظر سے پلاو کہ رات جاتی ہے
شب وصال بھی اے دوست خامشی کیوں ہے کوئی تو بات سناو کہ رات جاتی ہے
وہ ایک شب کیلئے میرے گھر میں آئے ہیں ستارے توڑ کر لاہو کہ رات جاتی ہے
یہ بہار کا زمانہ یہ حسین گلوں کے سائے
مجھے ڈر کے باغبان کو کہیں نیند آ نہ جائے
نگائیں پھیر لے کوئی تو صدمہ کم نہیں ہوتا بہار آ کے چلی جائے تو کس کو غم نہیں ہوتا
سلگتی زندگی سے موت آ جائے تو بہتر ہے کہ ہم سے دل کے ارمانوں کا اب ماتم نہیں ہوتا
تیرے وعدوں پہ کہاں تک میرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ میری آس ٹوٹ جائے
زندگی بھر دل کسی مجبور کا جلتا رہا لوگ ہمدردی کے پردے میں ہوا دیتے رہے
جل بجھے ہیں ہم تو تم بھی آ گے ہو پوچھنے عمر بھر تو تم ہی شعلوں کو ہوا دیتے رہے
کھلے گلشن وفا میں گل نامراد ایسے
نہ بہار ہی نے پوچھا نہ خزاں کے کام آئے
پی کر بھی جھلک نور کی منہ پر نہیں آتی ہم رندوں میں وہ صاحب ایماں نہیں ہوتا
بچ جائے جو جوانی میں دنیا کی ہوا سے ہوتا ہے فرشتہ کوئی انسان نہیں ہوتا
میں چلا شراب خانے جہاں کوئی غم نہیں ہے
جسے دیکھنی ہو جنت میرے ساتھ ساتھ آئے