ہم منور ہاشمی کو جانتے ہیں مگر اس منور ہاشمی کو جس نے گزشتہ صدی میں ستر اوراَسی کی دہائی میں غزل کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیا۔ جس نے آزاد غزل اور نثری نظم کے تجربات کے آگے بند باندھ کر میرؔ و غالبؔ کے ورثے کا حقیقی معنوں میں تحفظ کیا؛اس لحاظ سے ہم اُسے اُردو غزل کا ایک بڑا محسن کہہ سکتے ہی۔آج اُس کی غزل اپنے مضامین اور آہنگ کے لحاظ سے پاکستان میں سب سے زیادہ منفرد اور سب سے مضبوط روایت کی امین ہے۔ ہم منور ہاشمی کو آج کی اُردو غزل کا بے تاج بادشاہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
اس وقت میرے سامنے وہی منور ہاشمی، پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی کی حیثیت سے ایک شارح اقبال ، محقق اور نقاد کی شکل میں موجود ہے اور ایسا محسوس ہورہاہے کہ تنقید و تحقیق اُس کا اصل میدان ہے۔ اُس نے ایسے موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے جو واقعی تحقیق طلب تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی کا اندازِ تحقیق اور طرزِ تنقید اچھوتا اور قابلِ توجہ ہے۔ انھوں نے شرحِ اقبال کا حق ادا کردیا ہے؛اس حوالے سے اُن کے مضامین ایسی آب و تاب رکھتے ہیں جو آنے والے زمانوں میں کبھی دھندلا نہیں سکے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبالؒ کو سمجھنے کے لیے اِس سے بہتر طرزِ تحریر اور اُسلوب نہیںاپنایا جاسکتا۔ اُن کے مضامین انتہائی اہم اورآسان فہم ہیں۔ اقبال کے تصورات اور افکار کی وضاحت کرتے ہوئے اُنھوں نے ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ وہ انسانی زندگی پر منطبق ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اصل میں اقبال محض فلسفہ کی بھول بھلیوں میں انسان کو لے کر نہیںجاتے بلکہ فلسفہ کے قابلِ عمل حصہ سے انسان کوآگاہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر منور ہاشمی نے اُسی قابلِ عمل حصے کو اُن کے کلام سے ڈھونڈ کر اُس کی شرح کرکے سب کے سامنے رکھ دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اقبال کی شرح کا یہ مشن آگے بڑھتا رہے گا اور ڈاکٹر منور ہاشمی اقبال کا حقیقی معنوں میں تعارف کروانے کے فریضے سے کما حقہ‘ عہدہ برآہوںگے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا یہ کام امتِ مسلمہ پر احسان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔