تمہارا حسنِ خدا داد تو نہ رہ پایا
مگر فقیر کا حسنِ خیال باقی ہے
۔۔۔ ۔مجھے پانچ چھ سال کی عمر میں ہی خدا اور قیامت کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں بتادی گئی تھیں، جن میں سے بہت کم باتیں میری سمجھ میں آسکیں۔تاہم ان تمام باتوں کا مجموعی تاثر ایک خوف کی صورت مجھ پر مسلّط ہوگیا۔ مکمل فنا(قیامت) کا تصوّر مجھ پر گھبراہٹ طاری کردیتا۔ میں چشمِ تصوّر سے دیکھتا کہ زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے کہیں کچھ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہولناک خلا کا تصوّر میرے ذہن میں آتا اور میرا دل جیسے اس خلا میں ڈوبنے لگتا۔ پھر کبھی میں چشمِ تصوّر سے دیکھتا کہ ساری کائنا ت تو موجود ہے لیکن انسان کا وجود نہیں ہے اور اس خیال کے ساتھ ہی مجھ پر ایک عجیب سا اضطراب طاری ہوجاتا اور میں خدا سے دعا کرنے لگتا کہ مولا!۔۔ میںبے شک نہ رہوں مگر یہ دنیا اور اس دنیا میں انسانی زندگی کو کبھی ختم نہ کرنا۔ دعا کرنے کے باوجود میں خدا کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں سوچ پاتا تھا۔ اس کی ہستی کو جاننے اور سمجھنے کی ایک اُلجھن سی رہی۔
۔۔۔۔ایک مدت کے بعد میرے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی ایک معصومیت نے میرے بچپن کی اُلجھن دور کردی۔ میرے والد کی وفات پر ٹیپو کو معاملہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ اس نے پوچھا کہ دادا اَبو کو کیاہوگیاہے، جاگتے کیوں نہیں؟۔ جب اسے بتایا گیا کہ اب وہ کبھی نہیں جا گیں گے کیونکہ اللہ میاں نے انہیں اپنے پاس بلالیا ہے تو دادا پوتے کی محبت کے جوش میں اس نے غصّے سے کہا: میں اللہ میاں کو ماردوں گا۔ اس پر اسے فوری طور پر سمجھانا پڑا کہ اللہ میاں کے بارے میں ایسی بات کہنا گناہ ہے کیونکہ وہ بہت بڑا ہے۔ اللہ میاں کی بڑائی کا سن کر ٹیپونے پوچھا: کیا اللہ میاں دادا اَبو سے بھی بڑا ہے؟ جب اسے باور کرایاگیا کہ وہ سب سے بڑا ہے تب اس نے اس کی بڑائی کا کچھ اندازہ لگایا۔ شاید چشمِ تصوّر سے کچھ دیکھا۔ اپنے دونوں بازو کھولے اور انہیں پیچھے کی طرف جتنا لے جاسکتا تھا، لے جاکر پوچھا: کیا اللہ میاں اتنا بڑا ہے؟۔ اسی لمحے میں مجھے جیسے اپنے بچپن کی سوچ کا جواب مل گیا۔ ایک چھوٹا سا بچہ جس حد تک اپنے بازو پھیلا سکتا ہے اسی حد تک بڑائی کا سوچ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی شے اس کے نزدیک ہوہی نہیں سکتی۔ تب ہی مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ خدا کے بارے میں مختلف عقائد رکھنے والے تمام مذاہب اور فرقے خدا کے معاملے میں ایسے معصوم اور سچے چھوٹے بچے ہیں جنہوں نے خدا کی عظمت، مقام اور بڑائی کو سمجھنے کے لئے اپنے اپنے ننھے منّے بازو پھیلا رکھے ہیں۔ جس کے بازو جہاں تک پھیل سکتے ہیں اس نے اسی حد تک خدا کو سمجھ رکھا ہے اور دوسروں کو بھی وہی خدا منوانے پر مُصر ہے۔
۔۔۔۔پھر میں نے چشمِ تصوّر سے اس عظیم تخلیق کار کی تخلیق اس کائنات پر غور کیا تو اسی کی طرح اس کی تخلیق بھی بے انت نظر آنے لگی۔ کائنات کی بڑی سطح جس میں کروڑوں کہکشائیں، اربوں نظام شمسی اور کھرب در کھرب سیارے موجود ہیں اور جس کا کوئی انت معلوم نہیں ہوتا، اس کی انتہا معلوم کرنا تو دور کی بات ہے۔ سائنس ابھی تک چھوٹی کائنات یعنی ایٹم کا کوئی انت تلاش نہیں کرسکی۔ پہلے پہل کہاگیا کہ ایٹم مادے کا بلڈنگ بلاک ہے بعدمیں اسی ایٹم کے چالیس سے زائد پارٹیکلز دریافت ہوگئے۔ باتQUARKSتک پہنچی مگر پھر اس کے بھی مزید چھ کلرز سامنے آگئے۔QUARKSسے”ہیڈرونز“ بنتے ہیں۔”نان ہیڈرونز“ کس سے بنتے ہیں؟ اس کاابھی کوئی علم ہی نہیں ہے۔ گویا بڑی کائنات کی انتہا تو کجا چھوٹی کائنات کی انتہا بھی معلوم نہیں کی جاسکتی۔ بس ایک جہانِ حیرت ہے، اسے طے کیجئے تو آگے اس سے بھی بڑا جہانِ حیرت موجود ہوتا ہے۔ حیرانی کا یہ تہ در تہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ شاید اسی لئے شاعر نے کہاتھا:
خداوندایہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ پیدا ہوگئے ہیں اور حیرانی نہیں جاتی
۔۔۔ ۔میرے ایک دانشور دوست نے لکھا تھا کہ سارے نظام شمسی، کہکشائیں اور بلیک ہولز دراصل ایک ایٹم کے الیکٹرون ہیں۔ اس انکشاف سے میں ایک مسرّت آمیز حیرت سے دوچار ہوا۔ واقعی اگر یہ ساری کائنات الیکٹرون کا درجہ رکھتی ہے تو یہ تو صرف ایک فی صد ہے۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ ایک فی صد بھی بے انت ہے مگر ۹۹فی صد تو نیوکلس کے اندر ہے اور نیوکلس کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔ اپنے دانشور دوست کی اس بات پر حیرت اور مسرّت کے اُسی لمحے میں، میں نے چشمِ تصوّر سے دیکھا کہ ہماری دھرتی کے کسی ایک ایٹم کے کسی پارٹیکل میں کوئی مخلوق آباد ہے اور اس کے ”سائنس دان“ اپنی دھرتی کے ایٹم کی دریافت کے بعد اس کے پارٹیکلز پر تحقیق میں مشغول ہیں۔ تب مجھے زمان و مکان کی لامحدودیت کا کچھ اندازہ سا ہونے لگا۔
۔۔۔ ۔کون و مکان کی باتیں اپنی جگہ۔ ہماری اس دھرتی پر انسانی زندگی کی ساری ترقی چشمِ تصوّر کی عطا ہے۔ انسان نے پرندوں کو اڑتے ہوئے دیکھا تو اس کے دل میںپرواز کی ہلکی سی خواہش پیدا ہوئی۔اُس زمانے کے داستان گوؤں نے اس خواہش کی تکمیل کے لئے چشمِ تصوّر سے کام لیا اور پھر اُن کی داستانوں میں جن،دیو، پریاں، اُڑن قالین اور اُڑن کھٹولے پرواز کرنے لگے۔ ان داستانوں نے نسل در نسل انسانوں کے دل میں اڑنے کی خواہش جگائے رکھی جس کے نتیجہ میں آخر کار تیز رفتار سواریاں، ہوائی جہاز اور راکٹ تک ایجاد ہوگئے۔ دوسری تمام ترقیات کا تعلق بھی بنیادی طور پر چشمِ تصوّر سے ہے۔
۔۔۔۔ میں نے زندگی کاایک بڑا حصہ فلمیں دیکھے بغیر بسر کیاہے تاہم اس زمانے میں ، میں نے بے شمار گیت سنے تھے۔ پھر جب میں نے فلمیں دیکھنا شروع کیں تو اپنے پسندیدہ گیتوں میں سے کسی بھی گیت کی پکچرائزیشن مجھے اچھی نہیں لگی۔ دراصل گیت سنتے ہوئے ہمارے تصوّر کی آنکھ وا ہوتی ہے اور وہ اس گیت پر اپنی مرضی کاسین فلم بند کرتی ہے۔ ایسے سین میں جو بے پناہ معنویت ہوتی ہے ہماری چشمِ تصوّر کا کمال ہوتی ہے۔ جبکہ فلمی سین کسی نظریاتی نقاد کی طرح پارٹی لائن کے مطابق اسے محدود معنی میں بند کرکے اس کی وسعت میں روک بن جاتا ہے۔ اب کسی فلم میں میری پسند کاکوئی گیت آجائے تو میں اپنی دونوں آنکھیں موند کر چشمِ تصوّر وا کرلیتا ہوں۔ تب میں دیکھتا ہوں کہ اس سین کا ہیرو میں خود ہوں۔ میں خود وہ گیت گارہا ہوں۔ میری کوئی محبوبہ یا بعض اوقات مجبوراً میری بیوی میرے روبرو ہے۔ میرا انداز اتنا بے ساختہ اور فطری ہے کہ فلمی سین کے اداکار کی مصنوعی اداکاری اس کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتی۔ اگر ہیروئن کاگایا ہوا گیت ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ جذبات میرے حضور پیش کئے جارہے ہیں۔ شاید اسی لئے جب میں کوئی خوبصورت گیت سنتا ہوں تووہ گیت سیّال صورت اختیار کرکے میری رگوں میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔چشمِ تصوّر انسان کو جینے کا حوصلہ بخشتی ہے۔کسی شخص کے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں وہ چشمِ تصوّر سے اپنے آنے والے اچھے دن دیکھ سکتا ہے۔ چاہے بالکل نہ دکھائی دے رہے ہوں پھر بھی دیکھ سکتا ہے۔ دکھ اور تکلیف میں آرام اور سکون کا، سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی کا، دجلہ میں قطرہ اور قطرہ میں دجلہ کا نظارہ کرسکتا ہے۔ میری پرانی محبتیں جو اَب بال بچوں میں گھِر کر محبت کے ہجّے تک بھول چکی ہیں، جن کے ڈھلکے ہوئے جسموں اور چہروں پر جھریوں کے آثار دنیاکو دیدۂ عبرت نگاہ بناچکے ہیں۔ میں چشمِ تصوّر میں انہیں آج بھی اسی طرح جوان، شوخ اور سرسبز،شاداب دیکھ رہا ہوں جیسا وہ دس، پندرہ یا بیس سال پہلے تھیں۔ جوانی کے ایام پر ہی کیا موقوف ہے۔ جب بھی جی چاہتا ہے میں چشمِ تصوّر سے اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں کو اسی طرح ہنستا کھیلتا دیکھ لیتا ہوں۔ امی، ابو، باباجی۔ جن بزرگوں اور عزیزوں کو فوت ہوئے زمانہ گزر گیا ہے انہیں بھی اُنہیں یادوں کے ساتھ اُسی حالت میں دیکھ لیتا ہوں۔ گویا چشمِ تصوّر پر نہ صرف زمان و مکان اثر انداز نہیں ہوپاتے بلکہ یہ ارواح کو بھی طلب کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔چشمِ تصوّر ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتی ہے۔ لگن سچی اور قسمت اچھی ہوتو خوابوں کی تعبیریں بھی مل جاتی ہیں۔ لیکن جس طرح نیند میں دیکھے جانے والے کئی خواب بد ہضمی کانتیجہ ہوتے ہیں اسی طرح چشمِ تصوّر سے جاگتے میں دیکھے جانے والے بعض خواب بھی تصوراتی بد ہضمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسے خوابوں کو شیخ چلی کے خواب بھی کہا جاتا ہے۔
٭٭٭