یہ ڈھلتی عمر بھی شعلے مرے بجھا نہ سکی
لہو میں اپنے ابھی اشتعال باقی ہے
۔۔۔۔پچھلے دنوں مجھ سے بمشکل پانچ سات سال کم عمر کے ایک نوجوان نے مجھے ایک محفل میں انکل کہہ کر مخاطب کیا تو فوری طور پر مجھے اس پر شدید تاؤ آیا۔ کیونکہ عمروں میں پانچ سات برس کا فرق چچا بھتیجے کے مقابلے میں بڑے اور چھوٹے بھائی کا فرق کہلا سکتا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے مخاطب کرنے والے نے مجھے جس نام سے بھی مخاطب کیا ہے اس میں اس کا خلوص شامل ہے اور مجھے اس کے خلوص کاا حترام کرنا چاہئے۔ اس نوجوان کے خلوص کے احترام کے باوجود یہ وسوسہ میرے ذہن میں گھر کرنے لگا کہ شاید میری جوانی مجھ سے دامن چھڑاتی جارہی ہے اور بڑھاپے نے دبے پاؤں میری طرف آنا شروع کردیا ہے۔میں اسی وسوسے میں گھرا ہوا تھا جب گیان کا ایک حیرت فزا لمحہ مجھ پر اُترا۔۔میں نے زندگی کے تینوں زمانوں۔بچپن،جوانی اور بڑھاپے کو اس گیان کی روشنی میں دیکھا تو بڑھاپا مجھے سب سے اعلیٰ، ارفع اور برتر نظر آنے لگا۔
بچپن انسان کے گزرے ہوئے ماضی بعید کی طرح اپنے خاندان سے چمٹے رہنے میں عافیت محسوس کرنے کاعہد ہے۔ ماضی کا ابتدائی انسان بھی اسی طرح زمین سے پیوست اور اپنے معاشرے سے چمٹا ہوتا تھا۔ جوانی حال مست رہنے کا عہد ہے جس طرح ہم اپنے حال میں رہ کر اپنے حال سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جوانی میں بھی اپنے آپ سے بے خبری کا عجیب عالم ہوتا ہے۔ لیکن بڑھاپا مستقبل کی طرح یقین اور بے یقینی کی دھند میں لپٹاہوا عالم برزخ ہے۔ یہاں سے آگے انسان کے ماورائے زمان و مکان ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بڑھاپے کے عالمِ برزخ میں انسان ماورائے مکان ہونے کے لئے اپنے سارے مکان کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹ آتا ہے( یا سمیٹ دیاجاتا ہے)۔ پھر یہاں آکر اس کے نزدیک سارا زمانہ ہی بے وقعت ہوجاتا ہے کیونکہ بوڑھے آدمی کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی کہ ناشتہ دوپہر کو دیاگیا اور دوپہر کا کھانا شام کو ملا اور شام کا کھانا ملا ہی نہیں۔ بڑھاپا اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ زمان و مکان کی رہی سہی برائے نام حدود کو توڑ کر ایک طرف تو پوری طرح ماورائے زمان و مکان ہوجاتا ہے اور دوسری طرف زمان کے رگ و پے میں سرایت کرکے مکان پر قابض رہتا ہے۔ اس کی اولاد، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، ماضی، حال اور مستقبل کے روپ دھارے اس کے نہ ہونے کے باوجود اس کے ہونے کی گواہی بنے رہتے ہیں۔
۔۔ ۔۔بچپن میں ہم جوانوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن جوان ہوتے ہی بچپن کو یاد کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس جوانی میں ہم آنے والے بڑھاپے کے تصوّر سے ہی خوف کھاتے ہیں۔ لیکن بڑھاپا آتے ہی ہم پر فکر و دانش کے ایسے انوار برستے ہیں کہ نہ صرف بڑھاپے سے سارا خوف دور ہوجاتا ہے بلکہ ہماری زندگی میں ہی بڑھاپا ہمیں بچپن اور جوانی ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی صورت میں دکھادیتا ہے۔ بعض لوگ اپنے بڑھاپے میں اپنی جوانی کو اپنے بیٹے کے روپ میں دیکھنے کی بجائے خود جوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نیک مقصد میں کامیابی کے لئے مخصوص قسم کے حکیموں اور ڈاکٹروں کی چوکھٹوں پر حاضری دیتے ہیں۔ ایسے بوڑھوں کے بڑھاپے کے بارے میں غالب نے کہا تھا:
مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
۔۔ ۔۔بچپن معصومیت سے عبارت ہے۔ جوانی حیرت و تجسس سے، جبکہ بڑھاپا فکر و دانش کے انوار کے ساتھ معصومیت اور حیرت و تجسّس کو بھی اپنے جلو میں لیے ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال لیجئے کہ مقامِ نبوّت سے سرفراز کئے جانے کے باوجود کس معصومیت کے ساتھ اللہ میاں سے بالمشافہ ملاقات کے متمنّی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ باربار سمجھاتے رہے اور فرماتے رہے ”لن ترانی“۔ لیکن یہی ارشاد ان کے تجسّس کو بڑھاتا ہے اور پھر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔پھر معصومیت اور حیرت و تجسّس کایہ امتزاج اُن کی فکر و دانش میں ایک انوکھی روحانی لذت بھردیتاہے۔ بڑھاپے اور فکر و دانش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اکثر انبیاءعلیہم السلام کو پیغمبری چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی۔ فی زمانہ متعدد ممالک کے constitutionsمیں سربراہِ مملکت کے لئے عمر کی کم از کم حد چالیس سال رکھی گئی ہے۔۔۔۔جبکہ چالیسواں سال بڑھاپے کا نقطۂ آغاز ہے۔
۔۔ ۔۔بڑھاپا بزرگی اور متانت عطا کرنے کے ساتھ زندگی کے تجربات کا نچوڑ نکال کر ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ بڑھاپے میں گرگِ ظالم بھی پرہیزگار بن جاتا ہے اور یہ پرہیزگاری اسے قویٰ کے اضمحلال اور زندگی کے تجربات کے نچوڑ کے بعد نصیب ہوتی ہے۔(آفرین ہے ان بزرگوں پر جو ستر سال کی عمر کے بعد بھی جوان لڑکیوں سے شادی کرنے کی جرأت رکھتے ہیں اور یوں سرِ عام گرگ ظالم کی پرہیزگاری کو بھی شرمسار کردیتے ہیں۔ خواہ ایسے جرأت مندانہ اقدام کے نتیجہ میں جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑیں۔)
۔۔۔ ۔بچپن ایسا زمانہ ہے جس میں غیر محسوس طریقے سے بخارات اٹھتے رہتے ہیں۔جوانی میں یہ بخارات گہرے بادلوں کا روپ دھارلیتے ہیں۔ ایسے بادل جن میں گرج بھی ہوتی ہے اور چمک بھی۔ پھر یہ موسلادھار بارش بن جاتے ہیں۔ بڑھاپا بارش کے بعد قوس قزح کا منظرپیش کرتا ہے۔ زندگی کے تجربوں کی دھوپ سے ہفت رنگ عکس اُبھرتا ہے اور ایک حسین منظر بن جاتا ہے۔ گردو غبار دُھل جاتا ہے۔ چاروں طرف تازگی اور ہریالی کا سماں ہوتا ہے۔ ہلکی ہلکی اور ٹھنڈی میٹھی ہوا انسان کو وہ آرام و سکون بخشتی ہے جو بخارات اٹھنے کے عمل یا موسلادھار بارش کے دوران ہرگز نصیب نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔ ۔انسانی بڑھاپے میں مر د اور عورت کی تفریق فطری طور پر قائم رہتی ہے ۔ بڑھاپے کے باعث بوڑھی عورت کا سر ہمیشہ اثباتی انداز میں ہلنے لگتا ہے اور بوڑھے مرد کو اپنی زلیخا سے یہ پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ اس کا سر کیوں ہل رہا ہے کیونکہ جواباً اس کا اپنا سر منفی انداز میں ہلنا شروع ہوچکاہوتا ہے۔
۔۔۔ ۔انسان بچپن میں ضدی ہوتا ہے اور جوانی میں باغی۔ لیکن بڑھاپے میں ضد اور بغاوت دونوں سے دامن چھڑا کر خود سپردگی اور راضی بہ رضا کے صوفیانہ مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ اولاد جتنی گستاخ ، بے ادب اور بے پرواہ ہوگی انسان اس صوفیانہ مقام میں اتنا ہی ترقی کرتا جائے گا اور آخرکار اس مقام لاہوت تک جاپہنچے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ اپنی اولاد کو بھی خودسے متعلق ہرجھنجھٹ سے آزاد کردیتا ہے اور خود بھی آسودگی کی انتہاؤں کو چھولیتا ہے۔
۔۔۔ ۔مغرب میں چونکہ کمپیوٹرازم فروغ پارہا ہے اس لئے انہوں نے مقام لاہوت تک جلدی پہنچنے کے لئے ”بوڑھوں کے لئے خودکشی کے آسان طریقے“ اور ”آرام دہ طریقے“ قسم کی کتابیں چھاپ کر بوڑھوں کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔
۔۔۔ ۔بڑھاپے کی ان فضیلتوں اور فیوض کے منکشف ہونے کے بعد میں نے جب اپنی عمر پر دوبارہ غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں تو ایک برتر مقام پر فائز ہونے والا ہوں۔ اس احساس کے ساتھ جب میں نے سوچا کہ چالیسویں برس تک پہنچنے کے لئے ابھی سات برس مزید انتظار کرنا ہے تو مجھے یہ سات برس اب پہاڑ کی طرح محسوس ہونے لگے ہیں۔
٭٭٭