جب سرکار کی جانب سے منظوری ہوتی ہے
فاصلہ کتنا بھی ہو عین حضوری ہوتی ہے
۔۔۔۔مجھے سرسبز و شاداب پہاڑ ہمیشہ اچھے لگتے رہے ہیں۔ اُن کی بلند قامتی، شادابی اور ہریالی سے مجھے انوکھی سی روحانی آسودگی کا احساس ہوتا رہااور میں من ہی من میں ان کی عظمت کا معترف رہا۔ لیکن جب ایک بار مجھے ایسے ہی ایک پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا شوق چرایا اور میں اس سفر پر روانہ ہوا تو میرے پہلے تصوّر کو شدید ٹھیس پہنچی۔ میں نے دیکھا کہ دور سے اتنا عظیم دکھائی دینے والا پہاڑ ایسے خوفناک ٹیڑھے میڑھے رستوں اور ہولناک کھائیوں سے بھرا ہواتھا جو سیدھا موت کے منہ میں لے جانے والی تھیں۔ اس کا دامن خونخوار جانوروں سے بھرا ہواتھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر میںنے نیچے دیکھا تو اچھے بھلے انسان، بڑی بڑی عمارتیں، گاڑیاں وغیرہ مجھے بہت ہی معمولی اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی طرح دکھائی دیئے۔ بے معنی اور حقیر۔! تب مجھے فاصلے کا کمال معلوم ہوا جس نے پہاڑ کے اندر کے ولن کو چھپاکر اسے ہیرو کے روپ میں پیش کررکھاتھا۔ تب ہی مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے بڑے عظیم لوگ، پہاڑ جیسے عظیم لوگ۔ اکثر محض اس لئے عظیم لگتے ہیں کیونکہ ہم انہیں فاصلے سے دیکھتے ہیں۔ اپنی نام نہاد عظمت کی بلندی سے انہیں اچھے بھلے انسان اور بڑی بڑی چیزیں بھی حقیر سی دکھائی دیتی ہیں۔ فاصلے اور بلندی کے اس تماشے کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ایسے”عظیم لوگ“ سچ مچ اپنی عظمت کے خبط میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ انہیں قریب سے دیکھ لیتے ہیں اُن پر اُن کی عظمت سے زیادہ اُن کی شخصیت کے مخفی جوہر کھل جاتے ہیں اس لئے وہ ان کی عظمت کے منکر ہوجاتے ہیں۔ ایسے منکرین کے ساتھ پھر کیا سلوک کیاجاتا ہے یہ ایک الگ داستان ہے بلکہ داستانوں کا ایک سلسلہ ہے جس سے تاریخِ انسانیت بھری پڑی ہے۔
طویل فاصلے سے سورج جیسے چمکتے ہوئے لوگ، اپنے اندر سورج سے بھی زیادہ بڑا جہنم آباد کئے بیٹھے ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ فاصلے پر بٹھائے ہوئے لوگوں کے لئے جنت کی بشارتیں نشر کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بشارتوں پر شک کرنے لگے تو اس کی زندگی کو ہی جہنم بنادیاجاتا ہے۔ فاصلے اور قربت کی کرشمہ سازی کے انکشاف کے بعد مجھے فاصلے اور قربت کے کئی رنگ اور کئی روپ دکھائی دینے لگے۔
۔۔۔۔قربت کی انتہا یکتائی ہے جبکہ فاصلے کی ابتدا سے فرقِ من و تو پیدا ہوتا ہے۔ قربت محبت اور عقیدت کا ثمر ہے اس لئے دل کے زیرِ اثر ہے۔ عقل و شعور سے اس کا معاملہ بس واجبی سا ہوتا ہے۔ فرقِ من و تو، شعور و آگہی کا پہلا سبق ہے( باقی کے سارے سبق اسی فرق کی تشریح اور تفسیر ہیں) اس لئے فاصلے کو عقل و شعور کے زیرِ اثر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قربت آتشِ نمرود یاآتشِ محبت میں بے خطر کود پڑنے کا نام ہے جبکہ فاصلہ ہمیشہ محو تماشائے لبِ بام رہتا ہے بلکہ بعض اوقات لبِ بام سے بھی پرے کھڑا ہوتا ہے۔اگر فاصلہ بھی اس آتش میں کود پڑے تو پھر فرقِ من و تو ختم ہو جائے گا، فاصلہ ختم ہوجائے گا بس قربت ہوگی، یکتائی کا عالم ہوگا۔ اسے نیستی یا فنا بھی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔ ۔تخلیق کے امکانات کو قربت یکجا کرتی ہے اور فاصلہ تخلیقات کے انبار لگاتا چلاجاتا ہے۔ موجودہ کائنات کی تخلیق کا جو سائینسی نظریہ مقبول ہے۔ اس کے مطابق پہلے سارا کائناتی مادہ یک جاتھا گویا قربت کی انتہا تھی۔ یہ مادہ ایک بہت بڑے گولے کی صورت میں تھا جس کے اندر تخلیق کے سارے امکانات موجود تھے۔ بڑے دھماکے(BIG BANG) کے نتیجہ میں جب یہ گولا پھٹا تو فاصلہ پیدا ہونے لگا۔ فرقِ من و تو پیدا ہونے لگا۔ یہ کہکشاں ہے، یہ سورج ہے، یہ سیارے ہیں، انہیں سیاروں میں یہ زمین ہے اور یہ ہماری زمین کا چاند ہے۔ قربت نے ان ساری رونقوں کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا فاصلے نے انہیں محبت کے زخموں کی نمائش کی طرح باہر لاکر سجادیا۔ فاصلہ اور قربت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح ایٹم کا ہر اینٹی پارٹیکل اور پارٹیکل۔ رات اور دِن۔ اہر من اور یزداں۔ اور میری بیوی اور میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔( میری بیوی اور میرے معاملے میں آپ لازم و ملزوم کی بجائے”لازم و ملزم“ سمجھیں۔ الزامات کی نوعیت وہی ہے جو یورپ میں ہر شریف شوہر کو اپنی بیوی سے سننا پڑتے ہیں)
۔۔۔ ۔آنکھیں ایک خاص حد تک کی قربت اور ایک خاص حد تک کے فاصلے سے ہی دیکھ سکتی ہیں۔ قدِ آدم آئینے سے بالکل قریب ہو کر کوئی اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ خود کو دیکھنے کے لئے بھی تھوڑا سا فاصلہ ضروری ہے۔ تمام فاصلوں کو مٹاتے ہوئے دو جوان دلوں کو شاید اسی لئے اپنے ارد گرد کچھ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ قربت کی انتہا تک پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ ”یہ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی“ کا ایمان افروز منظر ہوتا ہے۔ یارلوگ مشرقی ممالک میں تو اُسی وقت کیدو کا روپ دھارکر اصلاح معاشرہ کا فریضہ اداکرنے لگ جاتے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں انہیں ناقابلِ اصلاح سمجھ کر ”گونگے گواہ“ کی طرح آگے بڑھ جاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔فاصلے کے معاملے میں جیومیٹری کے کئی زاویے بھی آڑے آتے ہیں۔ میدانی یا صحرائی علاقے میں آپ ایک خاص حد تک صاف اور پھر مدھم مدھم دیکھ سکتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بیس پچیس منزلہ عمارتوں سے دیکھیں تو ارد گرد کا منظر کسی اور ہی روپ میں سامنے آتا ہے ۔پہاڑی علاقے میں بل کھاتے ہوئے، مڑتے ہوئے اونچے نیچے رستے تو قدم قدم پر چونکاتے ہیں۔ ۴۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا آدمی جس منظر کو صاف طور پر دیکھ رہاہوتا ہے۔ ۲۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا آدمی محض قریبی موڑ آڑے آنے کی وجہ سے اس منظر کو نہیں دیکھ سکتا۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتاہے جیسے سارے نظریات ایسے ہی بل کھاتے ہوئے رستوںکی کرشمہ سازیاں ہیں۔ ۲۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا جس منظر کا انکار کررہا ہے بظاہر اس کا انکار درست ہے اور ۴۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا جس منظر کی موجودگی پراصرار کررہا ہے اس کا اصرار بھی سچ ہے۔ مسئلہ تو صرف اتنا ہے کہ دونوں فریق یہ نہیں کرتے کہ اپنی اپنی جگہ پر جم کردوسرے کو جھوٹا قرار دینے کی بجائے خود دوسرے کی جگہ پر جاکر بھی اُس منظر پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو نظریاتی سطح پر صرف اپنے گروہ کو سچا اور دوسرے گروہوں کو جھوٹا قرار دینے کا منفی رویہ ختم ہوجائے۔
۔۔۔۔قربت کا ایک رنگ مرد اور عورت کے تعلق سے عبارت ہے۔ اس قربت کے مختلف مراحل ہیں۔ آخری مرحلے کے اختتام پر فاصلہ وجود میں آجاتا ہے:
بے دم ہوں میں اِدھر تو اُدھر وہ نڈھال ہے
۔۔۔۔گویا قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت کو جنم دیتی ہے۔ یہ کوئی فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ اپنی زمین کا نقشہ دیکھ لیں جو علاقے ایک دوسرے کی مخالف سمت، زمین کی آخری انتہاؤں پر واقع ہیں اس حقیقی گلوب میں سب سے زیادہ قریب ہیں۔ بیوی جسمانی طور پر قریب ہوتی ہے لیکن اس کی قربت میں ایک فاصلے کا احساس رہتا ہے۔ جبکہ محبوبہ کتنے ہی جغرافیائی فاصلے پر کیوں نہ ہو اس کے فاصلے میں بھی قربت کی مہک تازہ رہتی ہے۔ فاصلے میں قربت اور قربت میں فاصلہ۔ فاصلے کی انتہا میں قربت اور قربت کی انتہا میں فاصلہ۔
کہیں قربت اور فاصلہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ تو نہیں؟
٭٭٭