گیت سناتے ہیں جھرنے کے گرنے کا
حرف جو خاموشی کی صدا میں گرتے ہیں
۔ ۔۔۔ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سنّاٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سنّاٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کرپاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔سنّاٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جبکہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ دل کی دھڑکن کا ہر بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے اگلی دھڑکن کا جنم لینا زندگی کو جنم دینا نہیں تو اور کیا ہے! پھر خاموشی سنّاٹے کی طرح بے آواز بھی نہیں بلکہ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب مکمل خاموشی ہو، ہونٹ بھی خاموش ہوں تب دو دھڑکتے دلوں کی جو گفتگو ہوتی ہے اسے اہلِ دل بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی صوفی جب تک کسی گوشۂ خاموشی میں نہ جائے تب تک اس کے دل کے تار حقیقتِ عظمیٰ سے نہیں مل پاتے۔ کسی ہنگامہ خیز، پُرشور ماحول نے نہ کبھی دو سچے دلوں کو ملنے دیا ہے اور نہ کبھی کوئی سچا صوفی پیدا کیا ہے۔ عبادت گاہوں میں جب تک خاموشی نہ ہو عبادت کا لطف ہی نہیں آسکتا، یوں بھی خاموشی بجائے خود عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے لاؤڈاسپیکر کا استعمال عام ہوا ہے، عبادت گاہوں میں بھی شور سنائی دینے لگا ہے اور عبادتوں کا تقدس ختم ہوتا جارہا ہے۔
۔۔۔۔ عبادت کی حیثیت سے خاموشی وظیفۂ ردِّ بلا بھی ہے۔ ایسا قرض خواہ جو دو سال سے پھیرے لگانے کے بعد یہ ارادۂ بد لے کر آئے کہ آج حتمی فیصلہ کرکے جاؤں گا یا ایسا مالک مکان آئے جو گزشتہ چھ سات ماہ کا کرایا یکمشت لینے کی شرانگیزی پر تُلا بیٹھا ہو، ایسے لوگ جب ایسے بدارادوں سے آتے ہیں تو گالی گلوچ سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن ان کے ہر شر سے بچنے کے لئے خاموشی سب سے بہتر وظیفہ ہے۔ ایسے ابتلا کے موقع پر آپ دل ہی دل میں ”جوابِ جاہلاں باشد خموشی“ کا وِرد بھی کرسکتے ہیں۔ اگر غلطی سے آپ یہ وِرد باآوازِ بلند کربیٹھتے ہیں تو اسی وقت آپ کو خود احساس ہوجائے گا کہ خاموشی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے اور یہ حقیقت بھی آپ پر عملی صورت میں منکشف ہوگی کہ جاہلانہ کلام سے خاموشی بہتر ہے۔
۔۔۔۔آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں پوری آواز کے ساتھ نشر کئے جانے والے گیت سَر میں درد پیدا کردیتے ہیں جبکہ وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سُنیں تو آپ خود بھی ان گیتوں کے سُروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیںگے۔ سرگوشی اور دھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاؤ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز میں نہیں ہے۔
۔۔ ۔۔ میرے ایک کرم فرما”ش۔ن“ بے حد دھیمی گفتگو کے عادی ہیں، اس حد تک کہ عام لوگوں کو اُن کی آواز سننے اور سمجھنے کے لئے کان اس طرح کھڑے کرنے پڑتے ہیں جیسے وہ ہمسائے کے گھر کی آوازیں سننے کی کوشش کررہے ہوں۔ لیکن میرا اور اُن کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اور میں اکیلے ہیں اور وہ اپنے مخصوص صوفیانہ لہجے میں گفتگو کررہے ہیں۔ مجھے صرف ان کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں یا کبھی کبھار ایک آدھ لفظ کانوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن میرے نزدیک اس لفظ کی کوئی اہمیت نہیں۔میں تو اُن کی بولتی ہوئی خموش گفتگو نہ صرف پوری طرح سنتا ہوں بلکہ خود بھی ساتھ ساتھ شریکِ گفتگو رہتا ہوں۔ ہمارے درمیان ابلاغ کا کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
۔ ۔۔۔بعض لوگ خاموشی کو شکست کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ اور مستقبل سے بے خبر”حال مست“ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔ سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابرو ں کے سامنے شکست ہی تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔
۔۔۔ ۔خاموشی اپنے اندر معنویت کے بے پناہ امکانات رکھتی ہے جبکہ آواز کی قید میں آنے والے لفظ مخصوص اور محدود معنویت کے حصار میں آجاتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ دور کی ماردھاڑ سے بھرپور بے معنی فلموں کے مقابلہ میں پرانے زمانے کی خاموش فلموں میں کتنی معنویت ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جو معنی چاہے اخذ کرلے۔ ہمارے تجریدی افسانہ نگار اگر تجرید کے ہنگاموں کی بجائے خاموش اور بے لفظ کہانیوں کی طرف توجہ کریں تو انہیں پسند کرنے والے نقاد سادہ اور صاف صفحات میں اس سے بھی زیادہ معنویت ڈھونڈ نکالیں گے جتنی وہ ان کی تجریدی کہانیوں سے نکال لاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔انسان خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ نتیجةً ساری زندگی ہنگامہ بازی میں گزاردیتا ہے۔ہر وقت بے اطمینانی، مسئلے، پریشانی، اضطراب۔ لیکن موت کی خاموشی آتے ہی وہی پریشان حا ل انسان کتنا شانت اور کتنا پرسکون ہوجاتا ہے۔
۔۔۔ ۔اتحاد اور امن کے نام پر قائم ہونے والے مقامی، قومی اور بین الاقوامی ہر سطح کے ادارے خاموشی کی قدروقیمت سے ناآشنا ہیں۔ اسی لئے انتشار اور بدامنی کا شکار ہیں۔ کہیں کسی اسمبلی کے ممبران میں ہاتھا پائی، کہیں ہاتھوں، ٹانگوں سے پکڑ کر باہر پھینکوانے کے منظر، کہیں گالی گلوچ۔ اگر ایسے تمام ادارے اپنے ہر اجلاس میں خاموشی کو حرزِ جاں بنالیں تو ساری دُنیا اتحاد اور امن کا گہوارہ بن جائے۔ نہ کوئی تقریر ہو نہ تکرار، نہ کوئی قرارداد نہ بحث، اجلاس چار گھنٹے کا ہو تو بے شک آٹھ گھنٹے تک بیٹھے رہیں بلکہ سوتے رہیں۔ یوں بھاری الاؤنسز کے ساتھ اوور ٹائم بھی مل سکتا ہے۔ اس طرح خاموشی ہر سطح پر اتحاد اور امن کے ساتھ معاشی لحاظ سے بھی نعمت بن سکتی ہے۔
۔۔۔ ۔نئی تہذیب شور اور ہنگامے سے عبارت ہے۔ اب لڑکیاں برملا رشتے پسند یا ناپسند کرتی ہیں۔ اگلے وقتوں میں جب نئی تہذیب ابھی مسلّط نہیں ہوئی تھی، کیا حیاداری تھی۔ لڑکی کے بزرگ اور قاضی صاحب لڑکی کے پاس جاتے، اس سے دریافت کرتے، یہ رشتہ منظور ہے؟۔ پھر اس کی خاموشی کو نیم رضاہی نہیں پوری رضامندی سمجھ کر اس کا انگوٹھا لگوالیتے۔ یہ سب خاموشی کا فیض تھا جس سے ہمارا معاشرہ اب تقریباً محروم ہوچکا ہے۔
۔۔۔ ۔خاموشی خیر کی علامت ہے جبکہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شورپسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جبکہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں۔ اس شوہر کی ازدواجی زندگی کبھی ناکام نہیںہوسکتی جو مزاجاً خاموشی پسند ہو، چاہے اس کی بیوی کتنی ہی جھگڑالو کیوں نہ ہو، کیونکہ خیر کی قوت بالآخر شر کی قوت پر غالب ہی آتی ہے۔ اسی لئے تو غالب نے کہا تھا:
ایک ”خاموشی“ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
ادب میںجو لوگ ڈھول تاشوں، اخباری کالموں، تصویروں،مشاعروں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں کے پُرشور بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ آتے ہیں، داد و تحسین کی سطحی تالیاں سمیٹ کر جلد ہی مطلع ادب سے رخصت ہوجاتے ہیں مگر خاموشی سے کام کرنے والے آخری دم تک کام کرتے رہتے ہیں بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی کاغذ پر چلتے ہوئے ان کے کلکِ گوہریں کی سرگوشی برابر سنائی دیتی رہتی ہے۔ گریرسن نے ہندوستان کی زبانوں پر عمر بھر کام کیا اور آخری دن تک کام کرتا رہا۔ جب اس کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقعہ پر لوگ اسے مبارکباد دینے کے لئے اس کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ خاموشی سے میز کے قریب بیٹھا تھا۔ چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں اور وہ اپنے کام میں کھویا ہوا تھا۔ جب اسے مبارکباد دی گئی تو اس نے حیران ہو کر کہا:
”ارے اسّی برس گزر گئے اور مجھے پتا ہی نہ چلا“۔
٭٭٭