چالاکی کہاں آتی تھی حیدر کو مری جان
بس تیری اداؤں کی کرامات سے آئی
۔۔۔۔زندگی کے تجربات اور تجربہ کاری دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ زندگی کے تجربات زندگی کو معصومانہ حیرت سے دیکھنے اور پھر اس کی جستجو کے سفر سے عبارت ہیں۔ یہ حیرت اور جستجو اجتماعی نوعیت کی ہے کیونکہ اس سے پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے ۔ پتھر کے زمانے سے کمپیوٹر کے زمانے تک انسانی زندگی کے تجربات کے ثمرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ جستجو کے اس سفر میں انسان اپنے ہر قدم پر حیرت میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اسی معصومانہ حیرت کے ساتھ جستجو کا اگلا قدم اٹھاتا ہے۔ اس کے برعکس تجربہ کاری کی ساری کاری گری ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس سے محض کوئی شخص، گروہ یا طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ فائدے کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز حربے کو بروئے کارلایا جاتا ہے۔ اسی لئے تجربہ کاری انسانی معصومیت پر کاری ضرب ہے ۔ یہ کسی معصوم بچے کا گرگِ باراں دیدہ بن جانے کا المیہ ہے۔
۔۔۔ ۔جمالیاتی حس رکھنے والے لوگ فطرت کے مناظر اور مظاہر کو دیکھ کر انوکھی سی روحانی آسودگی محسوس کرتے ہیں جبکہ تجربہ کاری کے ہنر سے آشنا لوگ ایسی روحانیت کو فضولیات میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ مسکراتے ہوئے گلاب دیکھ کر گلقند بنانے کا پلانٹ لگانے پر غور کرتے ہیں،پہاڑوں کو دیکھ کر بجری کے بزنس کاسوچتے ہیں، دریاؤں کو دیکھ کر کسی بھی ضروری یا غیر ضروری جگہ پر ایک اور پُل بنوانے کی اسکیم کی منظوری اور پھر اس کا ٹھیکہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی تدبیر کرتے ہیں، جنگلات انہیں لکڑی چوری کرانے پر اکساتے ہیں۔ ہر چیز میں مادی افادیت کا پہلو انہیں اپنی طرف بلالیتا ہے۔ ہمارے افادی ادب والے حضرات کا رویّہ بھی ادب کے ساتھ کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ افادی ادب کی تجربہ کاری نے انہیں بڑی حد تک ادب سے ہی بے نیاز کردیا ہے۔ تجربہ کار افادی ادب والے ادبا اچھا ادب بے شک تخلیق نہ کر سکیں افادی ادب اور اپنی تجربہ کاری کی برکت سے مادی فوائد ضرور حاصل کرلیتے ہیں۔ نجی افادیت کی اہمیت سے آشنا ہونے کے بعد بے شمار ذاتی فوائد کی خواہشات کے سامنے انہیں ادب بے حد حقیر لگتا ہے۔ محض ایک آلہ۔۔ چنانچہ ایسے لوگ ادب کو آلۂ کار بناکر فائدے سمیٹتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔ مجھے ایک شعلہ بیان مقرر کی چند تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے یہ بات شدّت سے نوٹ کی کہ کسی غم انگیز واقعہ کے بیان کے وقت شدّتِ غم سے ان کا گلا رندھ جاتا ہے آواز کی لرزش سے انداز ہ ہوتا ہے کہ موصوف کے آنسو بھی نکل آئے ہوں گے۔ لیکن گلا رندھنے کی کیفیت ختم ہونے سے پہلے ان کی شعلہ بیانی پھر اپنا جادو جگانے لگتی۔ میں نے اپنی ذات کے حوالے سے بہت غور کیا۔ اگر مجھ پر غم کی حالت طاری ہو اور گلا رندھ جائے تو بے شک آنسو نکلیں یا نہ نکلیں، دیر تک میری آواز نہیں نکل پاتی۔ میں کوشش کرنے کے باوجود بول نہیں پاتا چہ جائیکہ اسی لمحے شعلہ بیانی کرسکوں۔ چنانچہ میں نے مذکورہ شعلہ بیان مقرر کے ایک مرید سے ان کے مرشد کی کیفیت اور اپنی کیفیت کے فرق کا سبب پوچھا تو خوش عقیدہ مرید نے اسے مرشد کی کرامت قرار دیا لیکن اس کے ایک پیر بھائی جو کچھ کھلّے ڈلّے سے آدمی تھے کہنے لگے یہ ہمارے مرشد کے وسیع تجربے کا ثمرہے۔ ا ن کا لہجہ بتارہاتھا کہ وسیع تجربے سے ان کی مراد یہی تجربہ کاری تھی۔ یہ وہی تجربہ کاری ہے جو اپنی عیاری کو حکمت اور دوسروں کی دفاعی حکمت کو بھی مکاری قرار دیتی ہے۔
۔۔۔ ۔تجربہ کاری۔۔۔ اخلاص، محبت، دیانتداری، ذاتی شرافت اور دیگر اعلیٰ انسانی اوصاف کو چنداں اہمیت نہیں دیتی۔یہ تمام اوصاف رکھنے کے باوجود اگر کوئی تجربہ کار لوگوں کے فائدے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر حارج ہو رہا ہے تو اپنی تمام تر انسانی خوبیوں کے باوجود وہ راندۂ درگاہ ہے۔ اس کے برعکس اگر ٹھگ، لٹیرے، غنڈے اور قاتل قسم کے لوگوں سے مشن کو تقویت مل رہی ہے تو ان کے اخلاص، محبت، دیانت اور شرافت کے گن گائے جائیں گے۔ تجربہ کاری کا یہ اصول ہے کہ جو چیز اپنے مطلب اور فائدے کے مطابق ہے وہی سچائی ہے، باقی سب جھوٹ ہے۔ خدا کی سچی عبادت جو اپنا اجر آپ ہوتی ہے، تجربہ کار لوگوں نے اس کی لذّت بھی جنّت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے جوڑدی ہے۔ شاید اسی لئے حضرت رابعہ بصری کو وہ دعا مانگنا پڑی جس میں خدا کی عبادت کسی بھی لالچ اور خوف سے پاک نظر آتی ہے اور جس کی لذّت ہی سب سے بڑی جنت ہے۔
۔۔۔۔یوں تو دنیا کے سارے ڈپلومیٹس تجربہ کاری کے زائیدہ ہیں لیکن دنیا کی واحد سپر پاور کے ڈپلومیٹس نے تجربہ کاری کی انتہاؤں کو چھُو لیا ہے۔ جن مخصوص ممالک سے ان کے مفادات وابستہ ہیں وہاں کسی کو کانٹا بھی چبھ جائے تو واشنگٹن میں ان ڈپلومیٹس کا بچہ بچہ بے تاب ہوجاتا ہے لیکن جن خطّوں سے ان کے مفادات لگّا نہیں کھاتے، وہاں انسانی خون بیدردی کے ساتھ پانی کی طرح بھی بہایا جارہا ہو تو ان کی بے فکری دیدنی ہوتی ہے۔ یہ ڈپلومیٹس دنیا بھر میں جمہور یت کے نفاذ کے علمبردار ہیں لیکن اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے بعض ملکوں میں نہ صرف بادشاہتوں کو تحفّظ فراہم کرتے ہیں بلکہ جہاں اپنا فائدہ نظر آئے وہاں جمہوریت کاخاتمہ کرکے فوجی آمریت بھی مسلّط کردیتے ہیں۔ یہ کھیل تماشہ محض ڈپلومیسی یا سیاست نہیں بلکہ تجربہ کاری کا کمال ہے۔
۔۔۔ ۔علم ایک ایسا سمندر ہے جس میں انسان جتنا آگے بڑھتا ہے یہ اتنا ہی وسیع اور گہرا ہوتا چلاجاتا ہے۔ چنانچہ علم کے حصول میں آگے بڑھنے والا جتنا آگے بڑھتا ہے اتنا ہی اس کی علمی بے مائیگی کااحساس بڑھتا جاتا ہے لیکن تجربہ کاری کا ہنر جاننے والوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اپنے واجبی علم کی خامیوں کو چھپا کر بڑی مہارت کے ساتھ اپنے علم کااظہار کریں گے۔ ایسے ہی ایک تجربہ کار صاحبِ علم کو جب میں نے بتایا کہ میں فارسی زبان نہیں جانتا تو انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس کااظہار نہ کرنا ورنہ تمہاری سبکی ہوگی کہ اُردو کاادیب ہے اور فارسی نہیں جانتا۔ میں نے مودبانہ گزارش کی کہ میں جتنا ہوں اتنا ہی دِکھنا چاہتا ہوں( جتنا دِکھتا ہوں یارلوگوں کو اتنا بھی دُکھتا ہوں) پھر اس میں سُبکی کہاں سے آگئی؟ لیکن موصوف پھر بھی پورے خلوص سے مجھے اپنی نصیحت پر عمل کرنے کی تاکید کرتے رہے۔ ان کی تجربہ کاری آج بھی ان کے کام آرہی ہے۔ ان پر کیا موقوف۔ ہمارے ہاں مجلسی نوعیت کے ناقدین اور ”صاحبانِ علم“ اپنی تجربہ کاری کا آپ ثبوت ہیں۔
۔۔۔ ۔میں ابتدا میں کسی معصوم بچے کی طرح سادہ تھا۔ جس سے محبت اور خلوص کا اظہار کرتا اس سے سچ مچ محبت اور خلوص کا رشتہ محسوس ہوتا۔ رفتہ رفتہ دوسروں کے رویّوں سے مجھے احساس ہونے لگا کہ میں کسی” پینڈو“ کی طرح کسی بہت بڑی آبادی والے شہر کی پُر ہجوم ٹریفک میں گھِر گیاہوں۔ رشتے، دوستیاں، محبت، ادب، ٹریڈیونین، مذہب۔ زندگی کے ہر شعبے میں مجھے بے لوث اور محبت کرنے والے لوگ بھی نصیب ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر میں لوگوں کی تجربہ کاری کا نشانہ بنتا رہاہوں۔ یارلوگ میری سادگی اور خلوص سے فائدہ بھی اٹھاتے اور بعد میں اس سادگی اور خلوص کو میری بیوقوفی قرار دے کر مجھ پر ہنستے۔ فائدے اٹھا کر آنکھیں بدل لینے والے دوستوںاور تضحیک کرنے والے کرم فرماوٌں کے رویوں پر میں ایک عرصے تک حیران ہوتا رہا۔ لیکن اب میری حیرانی ختم ہوتی جارہی ہے۔ یارلوگوں کی تجربہ کاری کا نشانہ بنتے بنتے شاید میں بھی اب تھوڑا بہت تجربہ کار ہوگیا ہوں۔
پتہ نہیں تجربہ کار ہوگیاہوں یااس خوش فہمی میں مبتلا ہوں!
٭٭٭