ٹمپلروں کے آخری ماسٹر جنرل اور سردار و سرغنا غریب مولائی کے زندہ جلا دیے جانے کے بعد ٹمپلروں کی قوت ہر جگہ ٹوٹ گئی اور پھر کبھی اُن کی وہ اگلی وقعت و عزت قائم نہ ہو سکی۔ لیکن چند ہی روز میں ثابت ہو گیا کہ ٹمپلر بے گناہ و بے قصور تھے اور اُن کے خلاف جتنی کار روائیاں ہوئیں، فلپ شاہ فرانس کی عداوت و سازش اور حصولِ دولت کے ہوس کی وجہ سے تھیں۔
فرانس کے سوا جہاں جہاں اور جن جن ملکوں میں اُن کے بارے میں تحقیقات کی گئی، یہی ثابت ہوا کہ وہ بے گناہ ہیں اور اُن فیصلوں کے دیکھنے سے صاف آشکارا ہو جاتا ہے کہ فرانس میں اُن پر کیسی بے رحمی اور اُن کے ساتھ کیسا سنگدلی کا برتاؤ کیا گیا۔ اسپین کی سلطنت قسطلہ میں ابتداءً فرانس کی تحریک پر سارے نائٹ ٹمپلر پکڑ کے قید کر لیے گئے تھے مگر سلامانکا کی کونسل کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو فوراً چھوڑ دیے گئے۔ اسی طرح ہسپانیہ کی ریاست اراغون میں اگرچہ اُنہوں نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور اپنی ایک گڑھی میں قلعہ بند ہو کے لڑے بھی تھے۔ مگر جب طراغونہ کی کونسل نے اُن کے الزامات پر غور کیا تو پوری تفتیش کے بعد نومبر ۱۳۱۲ء میں یہی فیصلہ صادر کیا کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں۔
پورچگل میں بھی اُن کی تحقیقات ہوئی اور سلطنت کی جانب سے جو کمشنر مامور ہوئے تھے اُنہوں نے رپورٹ کی کہ ہمیں ان لوگوں کے مجرم قرار دینے کی کوئی وجہ ہی نہیں نظر آتی۔ علاقۂ منیزمیں اُن کی تحقیقات ہوئی، سختی کے ساتھ چھان بِنان کی گئی مگر وہاں بھی اُن کی بے گناہی کا اعتراف کیا گیا۔ اسی طرح مقامات ٹریوس، سینا، بولونیا، رومانیا اور جزیرہ قبرص میں بھی ٹمپلر پکڑے گئے، اُن پر مقدمہ چلایا گیا، کامل تحقیقات کی گئی، مگر نتیجہ یہی ہوا کہ یا تو اُن کے خلاف کوئی شہادت تھی ہی نہیں اور یا تھی تو ایسی نہ تھی کہ اُس پر وثوق کر کے انہیں سزا دی جائے۔ چنانچہ سب جگہ وہ بری کر دیے گئے۔ فرانس کے علاوہ بعض اور مقامات میں بھی بعض ٹمپلروں نے اُن جرموں کا اقرار کیا جو اُن پر عائد کیے جاتے تھے، مگر عدالت کو یہی رائے اختیار کرنا پڑی کہ اُن لوگوں کا یہ اقرار محض جور و تشدد اور ایذا رسانی کی وجہ سے ہے۔
شہر فلارنس میں چند ٹمپلروں نے عدالت کے سامنے جو بیان کیا تھا وہ بعض مورخین نے بجِنسہ نقل کر دیا ہے۔ وہ ایک عجیب احمقانہ طریقے سے اور بے حسی و بے عقلی کی شان سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’ہم پر جتنے الزام عائد کیے جاتے ہیں سب صحیح ہیں اور ہماری نسبت جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اُس میں ایک لفظ بھی غلط نہیں ہے۔‘‘ اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیان ان کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کسی کا سکھایا ہوا ہے اور جو کچھ بتا دیا گیا ہے اُسے وہ کسی خطرناک قوت کے ڈر سے بلا تکلف اور بے سمجھے بوجھے زبان سے ادا کر رہے ہیں۔
انگلستان میں غالباً اُن پر کسی قسم کا جور و تشدد نہیں ہوا تھا۔ وہاں بھی اسّی اسیر شدہ ٹمپلروں کا اظہار عدالت کے سامنے ہوا۔ اُن اسّی میں سے صرف چار نے اقرار کیا کہ ہم مسیح سے انکار کرتے ہیں اور صلیب کی توہین و تحقیر کرتے ہیں۔
اس قسم کے الزامات کی اصلیت بھی ہے۔ مسلمانوں کے عقائد سے واقف ہونے اور اپنے اصول کی کمزوریوں سے آگاہ ہو جانے کے بعد انہیں اُن عقائد سے اختلاف ہو گیا تھا جن سے اصلی مسیحیت کو تعلق نہ تھا بلکہ یونان و روم کی بت پرستی کے اثر سے دین عیسوی میں مل گئے تھے۔ مسیحی رُہبان تعصب کے جوش میں اُن کو منکر و ملحد قرار دیتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ہم دین مسیحی میں سے اُن جاہلانہ عقائد کو نکال ڈالیں جنہوں نے حضرت مسیح کے لائے ہوئے دین کو غارت کر دیا ہے۔ مثلاً اُن کے مختلف بیانوں پر غائر نظر ڈالنے سے کھُلتا ہے کہ وہ حضرت مسیح کی نبوت کے منکر نہ تھے بلکہ اُس مسیح کے منکر تھے جو خدا بتایا جاتا تھا۔ اُن دنوں تمام گرجوں میں حضرت مسیح کی فرضی تصویریں مصلوبیت کی وضع میں قائم تھیں، اُن کو بُرا اور بُت پرستی کا نمونہ تصور کرتے۔ بعض نے یہ کہہ دیا کہ ’’جس مسیح نے گناہوں کا اقرار کر کے اور انہیں اپنے سر لے کے اُن کا خمیازہ بھگتا اُس کے ماننے سے ہمارے گروہ کو انکار ہے۔ ہم خدائے واحد و ذوالجلال پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ اسی طرح صلیب کی نسبت اُنہوں نے کہا کہ ہمیں نفس صلیب سے انکار نہیں بلکہ صلیب کی جو تصویریں اور نقلیں گرجوں کے در و دیوار پر نصب ہیں اور لوگوں کے گلوں میں لٹکتی نظر آتی ہیں، ہمیں اُن سے انکار ہے۔ یہ عقائد صاف بتا رہے ہیں کہ نائٹ لوگ ارض شام میں اور مسلمانوں کے زیر سایہ رہتے رہتے اُن کے معتقدات کے دلدادہ ہو گئے تھے اور اگر مسلمان نہ بھی ہوئے ہوں تو چاہتے تھے کہ مسیحیت کو وہی اصلی مسیحیت بنا دیں جو دنیا کو حضرت مسیح سے ملی تھی اور جس کی تصدیق اسلام کر رہا تھا۔
لیکن یہ امر کس قدر قابل مضحکہ ہے کہ اُنہیں مذکورہ عقائد کی بنا پر ٹمپلر ملحد بتائے جاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے یہ عقیدے بعض بت پرست قوموں سے اخذ کیے۔ جو تحریک بت پرستی کا استیصال کرنا چاہتی ہو اُس کو بت پرستی بتانا اور اپنی صنم پرستی کو بھول جانا سچ یہ ہے کہ یورپ کے عجائبات میں سے ہے اور اس پر زیادہ حیرت کی یہ بات ہے کہ ٹمپلروں کے عقائد کو اکثر محققین یورپ دُور و دراز کے بُت پرست فرقوں میں ڈھونڈھتے ہیں اور اسلام پر نظر نہیں ڈالتے جس نے ٹمپلروں کو ایک باضابطہ قانون توحید بتا کے اپنا والہ و شیدا بنا لیا تھا۔
٭٭٭
پروف خوانی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: محمد شعیب، اعجاز عبید