چودھویں صدی عیسوی گویا یورپ کے ان نائٹوں کے تباہ کرنے ہی کے لیے آئی تھی۔ اس لیے کہ شاہ فرانس فلپ کے دل سے لگی ہوئی تھی کہ ٹمپلروں کو غارت کر کے اُن کے ملک و دولت پر قبضہ کر لے۔ دو سال تک اُس نے انتظار کیا کہ اُس کے منتخب کرائے ہوئے پوپ کلیمنٹ کے ہاتھ سے کار روائی شروع ہو مگر کلیمنٹ کو کسی طرح جرأت نہ ہوتی تھی۔ ناگہاں یہ واقعہ پیش آیا کہ فرانس کے شہر طولون کے جیل میں ایک ٹمپلر کسی جرم کی بنیاد پر قید تھا۔ اُس نے بادشاہ فلپ پر ظاہر کیا کہ اگر مجھے آزادی دی گئی تو ایک ایسا راز بتا دوں گا جو سلطنت کے لیے نہایت ہی قابل قدر اور مایۂ ترقی ہو گا۔ بادشاہ نے ۱۴ دسمبر ۱۳۰۷ء کو اس کا اظہار لیا اور ۱۳ اکتوبر کی شب کو ناگہاں حکم دیا کہ مملکت فرانس میں جتنے ٹمپلر ملیں سب گرفتار کر لیے جائیں۔ اسی قدر نہیں بلکہ قُرب و جوار کے دیگر حکمرانوں کے پاس بھی پیام بھیجا گیا کہ اپنی اپنی قلمرو میں بھی یہی حکم نافذ کر دیں اور سب مقامات میں جو ٹمپلر اسیر و پا بزنجیر کیے گئے اُن کے علاوہ خاص پیرس میں ٹمپلروں کا ماسٹر جنرل جیمس ڈی مولائی اپنی سوسائٹی کے ساٹھ ممبروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ اور بعد والے ہفتے کے روز وہ بے گناہ اسیر پیرس یونیورسٹی کے سامنے لائے گئے کہ اپنے جُرموں کی فہرست اور اپنی فرد قرار دادِ جُرم سُنیں۔ دوسرے دن اتوار کو پیرس کے شاہی باغوں کے اندر عوام الناس جمع ہوئے اور مختلف واعظوں نے جو فلپ کی طرف سے مامور ہوئے تھے، انہیں بھڑکانا اور سمجھانا شروع کیا کہ ٹمپلر لوگ سخت مجرم، بڑے بڑے خوفناک جُرموں کے مرتکب، انتہا درجے کے بے دین و ملحد اور کشتنی و گردن زدنی ہیں اور عوام کو اطمینان دلانے کے ساتھ ہی مقدّمہ کی کار روائی شروع کر دی گئی۔
تفتیش و تحقیقات کے بہانے اسیر شدہ ٹمپلروں پر ایسے مظالم ہونے لگے اور انہیں ایسی جاں گزا اذیتیں پہونچائی جانے لگیں کہ اُنہوں نے بہت سی ایسی باتوں کا اقرار کر لیا جو نہایت خوفناک اور سنگین جرم تھے۔ اس بے رحمی و جور کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ فقط اکیلے پیرس میں چھبیس ٹمپلر حوالات کے اندر مر گئے۔ ۱۹ سے ۲۴ نومبر تک ایک سو چالیس ٹمپلروں کا بیان لیا گیا۔ ان میں سے بعض اس قدر سِن رَسیدہ تھے کہ اُن کے بیان کا اثر ٹمپلروں کی گزشتہ پچاس سال کی تاریخ پر پڑتا تھا۔ قریب قریب سب نے تسلیم کر لیا کہ ہم صلیب اور مصلوبیت مسیح کی توہین کرتے ہیں۔ بہتوں نے بعض اور بے دینی کے الزام قبول کیے اور فحاشی اور سیہ کاری کے جو شرمناک الزام لگائے گئے تھے، اُن کا بھی اُن غریبوں نے جبراً و قہراً اقرار کیا۔
پوپ کلیمنٹ نے شاید ترس کھا کے ۲۷ اکتوبر کو اپنا ایک حکم جاری کر کے تفتیش کرنے والوں کے ظالمانہ اقتدارات روک دیے تھے۔ مگر نومبر کے ختم ہونے سے پہلے غالباً فلپ کے اشارے پر اُس نے شاہ انگلستان ایڈورڈ دوم کو لکھا کہ جتنے انگریز ٹمپلر تمھارے علاقے میں ہوں، انہیں بھی گرفتار کر لو۔ ۱۰ جنوری ۱۳۰۸ء کو انگلستان میں اس حکم کی تعمیل ہوئی اور اسی زمانے کے قریب یورپ کے تمام ممالک میں ہر جگہ ٹمپلروں پر آفت نازل ہو گئی۔ پھر ۲۴ جنوری کو سسلی میں اور ۲۷ مئی کو سائپرس میں (جو ٹمپلروں کا خاص مرکز تھا) یہی کار روائی ہوئی۔ اور کوئی مقام نہ تھا جہاں یہ بیچارے بے گناہ پکڑے اور مارے نہ جاتے ہوں۔
باوجود ایسے احکام جاری کر دینے کے پوپ روم ذرا رُک رُک کے اور پچتا پچتا کے ان احکام کو جاری کرتا تھا۔ یہ دیکھ کے فلپ سات سو مسلح سپہ گروں کے ساتھ اس کے سر پر آنازل ہوا اور وہ بالکل اس کے بس میں تھا اور سب نے باتفاق طے کر دیا کہ بادی النظر میں اسیر ٹمپلر، اُن کا روپیہ اور اُن کی اراضی و علاقے سب پوپ کے کمشنروں کے ہاتھ میں رکھے جائیں۔ مگر اصل میں حکم دینے والا خود فلپ تھا۔ ۵جولائی ۱۳۰۸ء کو پھر مقدس و معصومانہ دربارِ پوپ سے یہ حکم جاری ہوا کہ تفتیش کرنے والے اسیروں پر جیسی سختیاں چاہیں کریں اور اس کے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ ضبط شدہ جائداد ارض مقدس کی بازیافت کی کوشش کی جائے۔ کلیمنٹ کا اب حکم تھا کہ ٹمپلروں کے جرائم کی از سرنو تحقیقات کی جائے۔ بہتّر اقراری مجرموں کا بیان وہ خود سُن چکا تھا۔ اب شہر شنون میں گرینڈ ماسٹر مولائی اور تین پری سپٹروں کا بیان از سرنو لیا گیا اور اُنہوں نے اذیتوں کے خوف سے پھر جرموں کا اقرار کیا۔
آخر کار یکم اکتوبر ۱۳۱۰ء کو ایک بڑی بھاری کونسل شہر ویانا میں جمع ہوئی تاکہ ٹمپلروں کے جرائم پر غور کرے۔ مقدمے کی کار روائی ۱۱ اپریل ۱۳۱۱ء کو شروع ہوئی۔ ۲۳ اپریل کو اخبالد پروانیو نے اعتراض کیا کہ کار روائی انصاف سے نہیں ہو رہی ہے۔ مگر کون سُنتا ہے ؟ ۱۲ مئی کو ۵۴ ٹمپلر شہر سان کے اسقف اعظم کے حکم سے زندہ جلا ڈالے گئے اور چند روز بعد چار اور ٹمپلروں کا بھی یہی حشر ہوا۔
ان واقعات کے مشہور ہوتے ہی لوگوں پر ایک ہیبت چھا گئی۔ چنانچہ چھیالیس ٹمپلروں نے جوابدہی اور پیروی مقدمہ سے انکار کر دیا۔ مجبوراً کمشنروں نے نومبر تک کے لیے کار روائی ملتوی کر دی۔ اس کے بعد دوبارہ تحقیقات ۱۸ دسمبر ۱۳۱۰ء کو شروع ہوئی اور ۵ جون ۱۳۱۱ء کو اُس کی کار روائی ختم ہوئی۔ اس کار روائی کے دوران میں پوپ کلیمنٹ اور شاہ فلپ کے مابین سمجھوتہ ہو گیا۔ جس کی بنا پر پوپ نے ٹمپلروں کو مجرم قرار دیا اور ویانا کی کونسل میں اس مسئلے پر غور ہونے لگا کہ ٹمپلروں کو جواب دہی و عذر داری میں کچھ کہنے سننے کا موقع بھی دیا جائے یا نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جیسے ہی اس مسئلے پر بحث چھڑی پوپ نے فوراً کار روائی ملتوی کرا دی تاکہ ایسے مسئلے پر غور ہی نہ کیا جائے جس سے اُس کی مرضی کے خلاف نتیجہ ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو اور جن سات ٹمپلروں نے مختار کی حیثیت سے جوابدہی کا دعویٰ اور ارادہ کیا تھا وہ گرفتار کر کے قید خانے میں بھیج دیے گئے۔
شروع مارچ ۱۳۱۲ء میں شاہ فلپ ویانا میں آ کے خود کونسل میں شریک ہوا۔ پوپ کے داہنے بازو پر بیٹھا اور اُس کی موجودگی میں پوپ نے ٹمپلروں کے خلاف اپنا روحانی فیصلہ اور اپنا حکم سُنایا۔ اس کے بعد ۲ مارچ سنہ مذکورۂ بالا کو پوپ نے اس مضمون کا حکم شائع کیا کہ ’’ٹمپلروں کی تمام جائداد سینٹ جارج کے نائٹوں کو دے دی جائے۔ بجز اُس غیر منقولہ جائداد و مملکت کے جو ممالک کیسٹائل، ارغون، پورچگل اور مجورقہ کے علاقوں میں واقع ہے۔‘‘
جو ٹمپلر ملزم و مجرم قرار دیے گئے تھے، تین گروہوں میں تقسیم کر دیے گئے:
اول: وہ جنہوں نے پکڑے جاتے ہی اقرار جرم کر لیا۔
دوسرے: وہ جنہوں نے انکار کیا اور اپنے انکار پر آخر تک قائم رہے۔
تیسرے: وہ جنہوں نے ابتداءً اقرار کیا تھا اور بعد کو دورانِ مقدمہ میں انکار کر دیا اور اپنے پہلے اقرار کی نسبت ظاہر کیا کہ ہمارا وہ قبول کر لینا محض تکلیفوں، ظلموں اور اذیتوں سے بچنے کے لیے تھا۔
ان تینوں گروہوں کے لیے سزائیں یہ تجویز ہوئیں کہ گروہ اول کے مجرم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اپنے بے دینی کے افعال پر نادم ہوں۔ دوسرے گروہ والے دائم الحبس کیے جائیں اور تیسرے گروہ والے زندہ آگ میں جلا کے مارے جائیں۔ لیکن ان مجرموں میں سے گرینڈ ماسٹر مولائی اور دو ایک اور معزز عہدہ دارانِ سوسائٹی مستثنیٰ کر لیے گئے اور کہا گیا کہ ان کے بارے میں پوپ جو فیصلہ کریں گے اُس پر عمل کیا جائے گا۔ آخر ۱۳۱۴ء کے آغاز میں وہ اس بات پر مجبور کیے گئے کہ علانیہ مجمع عام میں اپنے جرموں کا اقرار کریں اور اگر ایسا کرتے تو اُن کے لیے دائم الحبس رہنے کا حکم نافذ ہو جاتا۔ مگر اتفاقاً نارمنڈی کے ماسٹر ٹمپلر اور ایک اور عہدہ دار نے بجائے اقرار گناہ کے اپنی بے گناہی کا علانیہ دعویٰ کیا اور شاہ فلپ نے بغیر اس کے کہ پوپ کے مشورے کا انتظار کرے، انہیں ایک چھوٹے جزیرے میں زندہ جلا کے مار ڈالا۔