ایک تیسرا گروہ ٹیوٹانک نائٹوں کا بھی قائم ہو گیا جو نائٹ ٹمپلرز کا ہم مذاق تھا۔ تینوں گروہوں میں فرق اور امتیاز یہ تھا کہ ٹمپلر سفید چُغہ پہنتے جس پر سُرخ صلیب بنی ہوتی۔ ہاسپٹل والے سیاہ چُغہ پہنتے اور اُس پر سفید صلیب ہوتی۔ اور ٹیوٹانک نائٹ سفید چغہ پہنتے جس پر سیاہ صلیب ہوتی۔ نائٹ ٹمپلرز کو جن کے حالات ہم بیان کرنا چاہتے ہیں خاص مسجد اقصیٰ میں جگہ دی گئی تھی۔
مسجد اقصیٰ کو مسیحی لوگ متبرک نہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ اُن کے اعتقاد میں اُس کا سارا تقدس حضرت مسیح کے بعد جاتا رہا تھا اور خدا نے اُس پُرانے عبادت خانے کو چھوڑ دیا تھا۔ انہیں تو صرف حضرت مسیح کے مَولِد و مَرقَد یا ارض مقدس کے پُرانے کنیسوں سے کام تھا، اس لیے عیسائیوں کا قبضہ ہوتے ہی وہ عبد الملک بن مروان کی بنائی ہوئی عالیشان مسجد جو ہیکل سلیمانی کے اصلی آثار پر قائم تھی مسلمانوں کا قتل و قمع کر کے قصر شاہی قرار دی گئی۔
ان جنگجو بانکوں اور مذہبی فدائیوں کے گروہ کی بنیاد یوں پڑی کہ فرانس کے علاقۂ برگنڈی کے ایک نائٹ ’’ہیوڈ پکانس‘‘ نے مع اپنے آٹھ رفقا کے ۱۱۱۸ء میں بیت المقدس کے اسقف اعظم کے سامنے جا کے حلف اُٹھائی کہ ’’ہم اپنی زندگی بیت المقدس کے راستوں کی نگہبانی اور زائروں کے بحفاظت لے آنے کے نذر کر دیں گے۔ باضابطہ طور پر قانونِ ملت کی پابندی کریں گے اور بے انتہا اطاعت کیشی اور خود فراموشی کے ساتھ آسمان کے بادشاہ کی طرف سے جدال و قتال کریں گے۔‘‘ یہ پہلا عہد تھا جس نے ان مذہبی بانکوں کے پیدا ہونے کی بنیاد قائم کی اور جب شاہِ بیت المقدس بلدون ثانی نے خاص مسجد اقصیٰ کے اندر اپنا کلب قائم کرنے کے لیے جگہ دے دی تو اس نئے گروہ کو اور مضبوطی حاصل ہو گئی۔
دس برس بعد شہر ٹرائے میں بمنظوری پوپ ہونیوریوس ثانی ایک کونسل ہوئی جس میں دینی بانکوں کے اس گروہ کے لیے ایک دستور العمل مُدوّن ہو گیا۔ اس میں ۷۲ قاعدے تھے جو پوپ اور اُسقفِ بیت المقدس کی منظوری سے رائج ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی دینی جان نثاری اور خاص جانبازی کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ساری مسیحی دنیا گرویدہ ہو گئی اور ہر جگہ اور ہر سرزمین میں اُن کے لیے سرمایہ فراہم ہونے لگا۔ جس میں قوم نے اس قدر مستعدی دکھائی کہ ملوک و امرا اپنی سلطنتیں اور ریاستیں ان کی نذر کیے دیتے تھے اور ایطالیہ سے لے کر اسپین تک ہر چھوٹے بڑے حکمران نے بڑی بڑی جائدادیں ان لوگوں کی نذر کر دیں اور یہ گروہ باوجود سادگی اور مشقت و تنگی کی زندگی بسر کرنے کے دنیا کے تمام تاجداروں سے زیادہ دولتمند ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہزارہا خلقت گھر بار چھوڑ کے ان کے جتھے میں ملنے لگی۔
ان کا پہلا سرغنا جو ’’ماسٹر ٹمپلر‘‘ کہلاتا وہی ’’ہیو‘‘ قرار پایا۔ دوسرا ماسٹر اُس کے بعد رابرٹ ڈکراؤن ہوا۔ اُن کا جانشین ’’ایورآرڈ‘‘ قرار پایا۔ اور یوں ہی ماسٹروں کے انتخاب کا سلسلہ جاری رہا۔ ایورآرڈ کے عہد میں ان لوگوں کی سپہ گری اس قدر کامیاب اور باقاعدہ تھی کہ اکثر سلطنتیں اپنی فوجیں انہیں کے قواعد کے مطابق مرتب کرنے لگیں اور اب اس وقت سے ان کی تاریخ دیکھنے کا شوق ہو تو حروب صلیبیہ کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ اس لیے کہ صلیبی لڑائی میں اہم فوجی خدمات یہی لوگ انجام دیتے تھے۔
مگر دولتمندی نے چند ہی روز میں اُن کی حالت میں تغیر پیدا کرنا شروع کیا اور ناکامیوں میں ان کے طرز عمل پر بدگمانیاں کی جانے لگیں۔ جب ۵۷۷ محمدی (۱۱۴۸ء) میں جرمن فرماں روا کونراڈ بیت المقدس میں پہونچا، ان لوگوں نے اپنے کلب میں اس کی دعوت کی اور اُسے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ مگر اسی سال جب دمشق کے محاصرے میں مسلمانوں نے صلیبیوں کو شکست فاش دی اور انہیں محاصرہ چھوڑ کے بدحواس بھاگنا پڑا تو اس شکست کا الزام انہیں بانکوں کے سر تھوپا گیا اور کہا جانے لگا کہ صرف نائٹ ٹمپلرز کی دغا بازی سے یہ شکست ہوئی۔ اس کے دوسرے برس شہر غزہ کا قلعہ ان لوگوں کے حوالے کیا گیا جسے اُنہوں نے خوب مضبوط کیا۔ اس کے چار سال بعد اُن کا ماسٹر ٹمپلر برنارڈ چالیس نائٹوں کو ہمراہ رکاب لے کے بڑی بہادری سے شہر عسقلان میں گھُس پڑا۔ مگر مسلمانوں نے گھیر کے اس طرح مارا کہ ان میں سے ایک کو بھی زندہ واپس آنا نہ نصیب ہوا، سب مارے گئے اور ہم مذہبوں سے یہ داد ملی کہ یہ لوگ خود اپنی حماقت کی نذر ہو گئے اور طمع نے ان کو فنا کر دیا۔ چند روز بعد مشہور ہوا کہ ایک مصری شاہزادہ جو عیسائیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو گیا تھا اور دین مسیحی قبول کرنے پر نیم راضی تھا اُسے ان نائٹوں نے روپیہ لے کے اہل مصر کے حوالے کر دیا اور اسی طمع میں ان کی وجہ سے اور بھی کئی خون ہوئے۔
۵۹۵ محمدی (۱۱۶۶ء) میں ان نائٹوں کو یہ الزام دیا گیا کہ یرون کے پار کا ایک مضبوط قلعہ اُنہوں نے روپیہ لے کے نور الدین زنگی کے کسی سردار کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ اس جُرم کی پاداش میں خود مسیحی بادشاہ بیت المقدس امل ریق نے بارہ ٹمپلروں کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ یہی واقعات پیش آ رہے تھے کہ سلطان صلاح الدین اعظم لشکر لے کے مصر سے آ پہونچا۔ ہزاروں نائٹ مختلف میدانوں میں لقمۂ نہنگ شمشیر ہوئے اور بیت المقدس اور شام کے تمام شہروں پر اُس نے قبضہ کر کے مسیحی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ اُس وقت ٹمپلرز مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو چھوڑ کے ساحلی شہر عکّہ میں پہونچے۔ اور جب ایک زمانے کے بعد عکہ بھی مسیحیوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو طرابلس الشام میں جا کے پناہ گزین ہوئے۔
اگرچہ ان لوگوں کے بہت سے حالات نومبر ۱۹۱۴ء کے دلگداز میں درج ہو چکے ہیں مگر اُن کے صدیوں کے واقعات اتنے نہیں ہیں کہ چند صفحوں میں ختم ہو جائیں۔ ہمیں اس سلسلے میں ابھی بہت سے حالات و خصائص کا بتانا باقی ہے جو کہ لطف سے خالی نہیں ہیں۔ ان کے گروہ یا ان کی سوسائٹی میں تین طرح کے لوگ ہوتے تھے۔ اول خود نائٹ، دوسرے چیپلین، تیسرے اسلحہ بردار۔ نائٹ دو طرح کے تھے، ایک تو وہ جو زندگی بھر کے لیے شریک جماعت ہوتے اور عہد کر لیتے تھے کہ مرتے دم تک اسی گروہ میں رہیں گے۔ اور دوسرے وہ جو کسی محدود مدت تک کے لیے اپنی زندگی نذر کرتے۔ مگر دونوں کو ایک ہی قسم کے اصول و ضوابط کی پابندی کرنا پڑتی۔ لازم تھا کہ وہ بلا ناغہ گرجے میں آ کے شریک جماعت ہوں۔ صرف وہ نائٹ جو رات کی خدمت میں تھک جاتے انہیں خاص صورتوں میں ماسٹر کی اجازت سے گھر پر ٹھہرنے کی اجازت عطا کر دی جاتی۔ روز دو وقت انہیں قاعدے کے ساتھ کھانا ملتا اور اگر ماسٹر کسی وجہِ مُوجّہ سے اجازت دے دے تو غروب آفتاب کے وقت ایک تیسری نہایت ہلکی غذا بھی مل سکتی۔ گوشت ہفتے میں صرف تین بار ملتا۔ اس کے سوا ہر وقت کے کھانے میں ساگ پات یا نباتی غذائیں ملتیں اور اُن میں بھی وہ جو زود ہضم تصور کی جاتیں۔ کھاتے وقت دو دو آدمی ساتھ بیٹھتے اور دونوں کی نظر ایک دوسرے کے کھانے پر لگی رہتی تاکہ کسی سے کوئی نامناسب حرکت یا خلاف اصول بے اعتدالی نہ ہونے پائے۔
شراب تو ہر غذا کے ساتھ مل جاتی مگر یورپ کی آج کل کی ’’ٹیبل ٹاک‘‘ (کھاتے وقت کی گپ شپ) نہ تھی۔ یہ ہر نائٹ کے لیے لازم تھا کہ جب تک کھانا کھائے خاموش رہے۔ اُس وقت ایک مذہبی دعا پڑھی جاتی تھی جس کا سُننا اور اُس پر کان لگائے رہنا فرض تھا۔ معمرّ و مریض ارکان کے ساتھ خاص رعایتیں تھیں اور اُن کی داشت کا اہتمام بھی اچھا تھا۔ ہر ممبر پر اپنے افسر اعلیٰ یعنی اپنے ماسٹر کی اطاعت فرض تھی اور اس کے احکام بعینہ خدا کے احکام تصور کیے جاتے۔ نامناسب نمائشیں عام ازیں کہ اسلحہ میں ہوں یا گھوڑے کے ساز و یراق میں، ممنوع تھیں۔ وہ لباس بھی اُن کے لیے جائز نہ تھا جس میں کئی رنگوں سے رنگ آمیزیاں کی گئی ہوں اور سوا نائٹوں کے باقی تمام ارکان سیاہ یا بھورے رنگ کے کپڑے پہنتے۔ سب کا لباس علی العموم اُون کا ہوتا۔ صرف ایک مذہبی تقریب کے زمانے میں تو انہیں ایک سُوتی کُرتا پہننے کی اجازت مل جاتی، باقی اور کبھی کوئی روئی کے کپڑے نہ پہن سکتا۔ بال سب کے چھوٹے چھوٹے رہتے اور جھنڈولی بے کنگھی کی ہوئی داڑھی ٹمپلروں کی پہچان قرار پا گئی تھی۔ شکار کھیلنا یا شکاری کتوں کو پالنا بھی اُن کے لیے ممنوع تھا۔ فقط شیر کے شکار کی اجازت تھی، اس لیے کہ شیر اُن لوگوں کے خیال میں بُرائی اور جبر و جور کا شعار قرار پا گیا تھا۔ اور اس کی بھی اجازت نہ تھی کہ اپنی گزشتہ لغویتوں کو وہ کبھی زبان پر لائیں اور عیش و عشرت کے گزرے واقعات کو یاد کریں۔
یہ لوگ کہیں باہر جاتے تو ان کے آنے جانے کی خاص نگرانی کی جاتی اور کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ موجود رہتا۔ سوا اُس وقت کے جبکہ رات کو وہ حضرت مسیح کے مقبرے (ہولی سپلکر) کی زیارت کو جاتے۔ بڑی نگرانی اس بات کی رہتی کہ کوئی نائٹ یا اور رُکن کسی سے خط و کتابت نہ کرنے پائے۔ اپنے کسی عزیز و قریب کا خط بھی وہ بغیر ماسٹر کی موجودگی کے نہ کھول سکتے۔ کسی کے پاس اس کے کسی عزیز یا دوست کے پاس سے کوئی سوغات یا کھانے کی چیز آتی تو پلندہ ماسٹر کے سامنے کھولا جاتا اور ماسٹر کو اختیار تھا کہ اُسے دے یا اس کے سوا کسی اور شخص کو ضرورت مند خیال کر کے دے دے اور اگر ایسی صورت پیش آئے تو اصل مالک کو اُس پر بُرا ماننا یا پیشانی پر بل لانا بھی گناہ تھا۔