ہم ہندوستان کے بانکوں کا حال ناظرین دلگداز (۱) کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ اب اُن کے بڑے بھائی یورپ کے قدیم بانکوں کا حال بھی سن لیجیے۔ یورپ کے ان انوکھے سپاہیوں نے جو سپہ گر ہونے کے ساتھ بانکے رسیلے چھیلا بھی ہوتے تھے، اپنے لیے ’’نائٹ‘‘ کا لقب اختیار کیا تھا۔
محققین یورپ کا بیان ہے کہ وہاں سپہ گری کے پیشے کو خاص معاہدوں اور کسی خاص طرز سے اختیار کرنا اہل جرمنی سے شروع ہوا جو رومیوں کے عروج کے زمانے میں وحشی و جاہل مگر اس کے ساتھ بڑے جنگجو اور نہایت ہی شجاع خیال کیے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اُنہیں دنوں جرمانیا کے جنگلوں اور پہاڑوں میں بانکے سپاہی بننے کا یہ سادہ اور بھونڈا طریقہ مروج تھا کہ جو نوجوان اس گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو پہلے کسی میدان جنگ میں بہادری اور اخلاقی حالت دریافت کرتے اور جب وہ مذکورہ صفات کو اُس میں تسلیم کرتے اور ہر طرح کا اطمینان ہو جاتا تو بزرگوں میں سے کوئی شخص اُس کے گال یا شانے پر ایک تھپڑ مارتا، جس کے یہ معنی تھے کہ اس ضرب کے بعد وہ پھر کبھی چوٹ نہ کھائے گا۔
وہی بزرگ قوم اُسے ایک ڈھال اور ایک برچھا دیتا اور اُسے اجازت ہوتی کہ اُن اسلحہ کو لے کے میدان جنگ میں جایا کرے۔ جن نوجوانوں کو یہ عزت دی جاتی وہ ’’نیخت‘‘ کہلاتے۔ اسی نیخت سے بگڑ کے ’’نائٹ‘‘ کا لفظ نکلا ہے، جس کی اگلی شان تو بالکل مفقود ہو گئی مگر نام یورپ کے خِطابوں میں داخل ہونے کی وجہ سے اس وسعت کے ساتھ دنیا میں پھیلا کہ آج ہمارے راجہ صاحبانِ جہانگیر آباد و محمود آباد ہی نہیں، ہندوستان کے اکثر والیانِ ملک، سوداگر اور ارضِ عرب تک کے بعض فرماں روا بھی نائٹ ہیں۔
رومیوں میں اس کے ہم وزن ’’میلس‘‘ کا لفظ تھا۔ ان مہذب لوگوں میں اگرچہ اصلی قوت غریبوں ہی کی تھی جو ’’پلے بِیَن‘‘ کہلاتے۔ مگر امرا و ملوک گھوڑوں پر سوار ہو کے لڑتے اور ’’بطریق‘‘ کہلاتے اور وہ بطارقہ ہی اکثر ’’میلس‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے۔
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب جرمنی اور رومی دونوں قومیں بُت پرست تھیں اور دین مسیحی ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا۔ حضرت مسیح کا دین ابتداءً صرف واعظوں سے شروع ہوا تھا اور سپہ گری کے بالکل مخالف تھا۔ مگر مدتوں مظلوم رہنے کی وجہ سے مسیحیوں کے سینوں میں ایک انتقام کی آگ مدت سے دبی چلی آتی تھی، جسے قسطنطینِ اعظم نے اپنی پولٹیکل مصلحتوں سے بھڑکا دیا۔ حضرت مسیح کی مصلوبیت کی بنا پر اُس نے صلیب کو مسیحیوں کا شعار قرار دیا۔ یہ صلیبی علم ہاتھ میں لیا اور جوشِ انتقام میں ڈوبے ہوئے مسیحی دوڑ دوڑ کے اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ اس پُرجوش قوت سے اپنے بُت پرست حریف کو شکست دے کے وہ پوری قلمرو روم پر قابض ہو گیا۔ لیکن یہ ایک وقتی اُبال تھا۔ جب مسیحیت دولت روم کا مذہب بن گئی تو پھر اُسے سپہ گری سے کوئی سروکار نہ رہا۔ اس لیے کہ مسیحیت خوں ریزی کی مخالف اور لڑنے بھڑنے سے متنفّر تھی۔ چنانچہ رومی سلطنت ایک مسیحی دولت بنتے ہی ایسی کمزور ہو گئی کہ گوتھ اور ہن قوموں نے اُسے خوب خوب پامال کیا۔ اور آخر عرب لوگ اُٹھے جنہوں نے مشرق میں ایشیائے کوچک و شام کو، افریقہ میں تمام شمالی ممالک کو رومیوں سے چھین لیا۔ جزیرۂ صقلیہ اور خود اٹلی کا کسی قدر جنوبی حصہ عربوں کے قبضے میں چلا آیا اور آبنائے جبرالٹر سے اُتر کے اُنہوں نے پورا ملک اسپین بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔
ان دنوں یورپ میں فیوڈل سسٹم (حکومت امرا) کا طریقہ جاری تھا۔ سارے ملک کی یہ حالت تھی کہ ہر زمیندار اپنے علاقے اور اپنے گاؤں یا شہر کا خودسر حاکم اور بادشاہ بنا ہوا تھا۔ اس کے زیرِ عَلَم حسب حیثیت سپاہی ہوتے اور انہیں کے انداز سے اُس کی قوت ہوتی۔ متعدد زمینداروں کے باہم ملنے اور حلیف ہو جانے سے ایک بڑی قوت بن جاتی اور زبردست دشمنوں کے مقابلے میں اکثر یہی ہوا کرتا۔ اصلی قوت ان دنوں بھی پیدل سپاہیوں ہی کی تھی، مگر چونکہ وہ ادنیٰ طبقے کے لوگ ہوتے اس لیے اُن کی قدر نہ ہوتی۔ قدر سواروں کی تھی جو عموماً امیروں اور رئیسوں کے اعزّا و اقارب اور شرفائے قوم ہوتے اور وہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا، میلس کہلاتے تھے۔ جن ڈیوکوں (شہزادوں) اور کاؤنٹوں (نوابوں) نے شاہی سطوت و شوکت حاصل کر لی ہوتی، وہ اپنی قلمرو کے صو بوں کو جن لوگوں کے ہاتھ میں دیتے وہ ’’بائرن‘‘ کہلاتے۔ اور بائرن اپنے صوبے کو جن عہدہ داروں میں تقسیم کرتے وہ ’’فائف‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے اور یہ فائف عموماً ’’پیر‘‘ کہلاتے تھے۔
اس تفصیل کے ملاحظے سے ہمارے دوستوں کو یورپ کے موجودہ خطابوں اور انگریز معززین کے لقبوں کی اصلیت بخوبی معلوم ہو جائے گی۔
’’پیر‘‘ سے لے کے اوپر تک جتنے معززین تھے گھوڑوں پر سوار ہو کے لڑتے اور کسی ادنیٰ شخص کو یہ حق نہ تھا کہ بجز پاپیادہ لڑنے کے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کے میدان جنگ میں آئے اور یہی لوگ میلس خیال کیے جاتے تھے۔ جب عربوں نے اسپین کو لے لیا، پھر کوہسار پیرینیز سے نکل کے فرانس پر حملہ آور ہوئے اور اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ ساری مغربی مسیحی دنیا کو فتح کر لیں تو نظر آیا کہ بغیر سپہ گری کو زندہ کیے اور اُسے مذہب کا مقدس لباس پنھائے اپنی وطنی اور قومی عزت کا بچانا دشوار ہے۔ ابتداءً تو کلیسا نے اس ضرورت کو محسوس کر کے ’’خاموشی نیم رضا‘‘ کا اصول اختیار کیا۔ یعنی اُس کا یہ طرز عمل رہا کہ زبان سے تو کچھ نہ کہا جائے مگر سپہ گری کی ترقی کو بظاہر استحسان کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن رومی سپہ گری بوسیدہ و از کار رفتہ ہو چکی تھی، اس لیے جرمنی کا بانکپن اختیار کر لیا گیا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے لقب نیخت کو بھی لایا جو انگریزی میں آ کے نائٹ بن گیا۔
یہ لفظ انگریزی تلفظ میں تو نائٹ ہے لیکن اس کا املا آج تک ایسا واقع ہوا ہے کہ اگر بولنے میں اُس کی پابندی کی جائے تو لفظ نائٹ ہی نہ ہو گا بلکہ ’’کنیخت‘‘ ہو گا۔ غرض اب جو بہادر میدان جنگ میں کوئی کار نمایاں کرتے اور شجاعت ظاہر کرتے، نائٹ مشہور ہو کے ہم وطنوں میں معزز و ممتاز ہو جاتے۔ حصول عزت نے لوگوں کو زیادہ شوق دلایا اور نائٹوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی۔ اور چند ہی روز میں یہ حالت ہو گئی کہ عوام نائٹوں کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے اور سلاطین حامیِ ملک و ملت خیال کر کے انہیں اپنا سرمایۂ ناز بتاتے۔
اب یورپ میں یہ طریقہ تھا کہ صرف ’’فائف‘‘ اور اُن سے مافوق مرتبوں کے لوگ نائٹ بن سکتے۔ کسی عامی کی مجال نہ تھی کہ نائٹ ہونے کا دعوے کرے۔ جو اپنے خاندان کو بے داغ و بے عیب ثابت کر سکتا اور چار ہم مرتبہ فائفوں سے قرابت رکھنے کا مدعی ہو سکتا، اس کے نوجوان لڑکے خاص طریقے اور خاص رسوم کے ساتھ نائٹ بنائے جا سکتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی ادنیٰ طبقے کا آدمی سپہ گری کے کمال دکھا کے اور بڑے بڑے میدانوں میں ناموری حاصل کر کے نائٹ کا درجہ حاصل کر لیتا اور ایک نیا پیر بن جاتا۔
فرانس کے بادشاہ شارلمین کے عہد سے جو ۲۴۳محمدی ( ۸۱۴ء) میں دنیا سے رخصت ہوا، حُروب صلیبیہ کے چھڑنے کے فی ما بین جو زمانہ گزرا اُس میں اہل اسپین، فرانس اور نارمن لوگوں کے اوضاع و اطوار میں ایک انقلاب عظیم ہو گیا تھا جو چند روز کے اندر سارے یورپ میں پھیل گیا۔ اسی انقلاب کا ایک نمونہ یہ بھی تھا کہ سپاہی میلس سے نائٹ بن گئے۔ ابتدا ہی سے نائٹ ہونے والوں کو سلاح جنگ کے ساتھ دو ذمہ داریاں اپنے سر لینی پڑتیں۔ ایک تو یہ کہ سپہ گری کو اپنا پیشہ سمجھیں گے اور دوسرے یہ کہ حسین عورتوں کی خاطر داشت اور خدمت گزاری کریں گے۔
اس کا پتہ نہیں چلتا کہ نائٹوں کو عورتوں کے ساتھ کیوں خصوصیت تھی؟ اور نازنینانِ ملک سے خاص تعلقات رکھنا نائٹ ہونے کی ذمہ داریوں میں کب اور کیونکر داخل ہوا؟ مگر اس سے یورپ کی اُس وقت کی اخلاقی حالت عالم آشکارا ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان نائٹ ہوتے ہی کسی نہ کسی حسینہ کے عاشقوں میں شامل ہو جاتا۔ بلا لحاظ اس کے کہ وہ کس کی بیٹی، کس کی بہن اور کس کی جورو ہے۔ اُس خاتون کو وہ ’’اپنی خاتون‘‘ کہتے اور اس کے لیے لڑنے بھڑنے اور کٹنے مرنے پر ہر وقت تیار رہتے۔ اس قسم کے بہت سے نائٹ اُن دنوں ہسپانیہ اور فرانس میں پھیلے ہوئے تھے جو مسلمانوں سے لڑتے اور اکثر ناکام و نامراد میدان جنگ سے واپس جاتے۔ اور یہی تھے جنہوں نے ہسپانیہ کے علاقہ قسطلہ اور مملکتِ فرانس کو عربوں کے ہاتھ سے بچا لیا۔
نائٹوں کی یہی حالت چلی آتی تھی کہ حروب صلیبیہ کا زمانہ شروع ہوا اور راہبوں کے شور و غوغا اور پوپ کے فتوے سے مذہب عیسوی کو سپاہیوں کی ضرورت پیش آئی۔ جو چیز اس وقت تک از روئے دین ناجائز تصور کی جاتی تھی یعنی سپہ گری، اب وہ عبادات میں داخل ہو گئی اور نائٹ ہونے میں ایک دینی تقدس پیدا ہو گیا۔
لہذا اب بجائے اس کے کہ خود نائٹ کسی کو اپنے زمرے میں شامل کریں، مقتدایانِ ملت ملک کے بانکے ترچھے نوجوانون کو نائٹ بنانے لگے اور پادریوں اور اُسقفوں نے لوگوں کو اِن مقدس زن پرستوں کے زمرے میں شامل کرنے کا یہ طریقہ جاری کیا کہ جسے شوق ہو پہلے چند روز تک روزے رکھے۔ شب زندہ داری و ریاضت کرے۔ پھر غسل کر کے سفید کپڑے پہنے (جس میں بپتسما کا اشارہ تھا) اور سب سے بڑے محترم مقتدائے دین کے ہاتھ سے تلوار لے جس میں بزرگانِ دین کی برکت شامل بتائی جاتی۔
اس رسم کے ادا ہو جانے کے بعد وہ ’’خدا کا، سینٹ جارج کا اور سینٹ میکائیل کا بانکا‘‘ کہا جاتا۔ اُس سے حلف لی جاتی کہ اپنے بانکپن کے فرائض کو سرگرمی سے ادا کرے گا۔ اپنے آپ کو خدا کا اور حسین عورتوں کا سپاہی تصور کرے گا۔ سچ بولے گا۔ حق کا ساتھ دے گا۔ مصیبت زدہ کی مدد کرے گا۔ ہر ایک کے ساتھ خُلق و مروت سے پیش آئے گا۔ دشمنان دین سے لڑے گا۔ سہل انگاری، غفلت اور اپنی جان بچانے کے جذبات کو حقیر سمجھ کے دل سے نکال ڈالے گا اور اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے سخت سے سخت خطروں کو برداشت کرے گا۔