ایپی جینیٹکس کو سمجھنے سے پہلے ہمیں بنیادی جینیٹکس اور جینز کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھنا ہوگا۔ بیکٹیریا سے لیکر انسان تک زمین پر موجود تمام خودمختار زندگی کا بنیادی کوڈ ڈی این اے (ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ) ہے۔ بیسویں صدی کے وسط تک سائنس کی مشہور تصویر مشروم نما ایٹمی دھواں تھا۔ اور اسی صدی کے دوسرے حصےمیں سب سے مشہور تصویر ڈی این اے کا ڈبل ہیلیکس تھا۔ دیگر انسانی سرگرمیوں کی طرح سائنس کا مزاج بھی بدلتا رہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب راسخ العقیدہ تصور یہ تھا کہ سب سے اہم اور بنیادی چیز صرف ڈی این اے سکرپٹ اور جینیاتی وراثت ہی ہے۔ لیکن پچھلی اقساط میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ایک جیسا سکرپٹ خلیاتی سیاق و سباق کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔ یہ سائنسی مزاج میں تبدیلی کا وقت ہے اور ایپی جینیٹکس کے ماہرین ڈی این اے کی اہمیت کو کم سے کم کررہے ہیں۔ لیکن سچائی ان دونوں کے درمیان میں ہے۔
ہم نے شروع میں ڈی این اے کو بطور سکرپٹ متعارف کروایا تھا۔ تھیٹر کے اندر اگر سکرپٹ ناقص ہو تو بہترین ہدایت کار اور عمدہ کاسٹ کے ہوتے ہوئے بھی ایک اچھی پروڈکشن تخلیق نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف اگر سکرپٹ اچھا ہو تب بھی ممکن ہے کہ حتمی نتائج اچھے نہ نکلیں اگر اسکی ترجمانی اور تشریح صحیح طریقے سے نہ کی جائے۔ بالکل اسی طریقے سے جینیٹکس اور ایپی جینیٹکس ایکساتھ ملکر معجزات تخلیق کرتے ہیں جو ہماری صورت میں اور ہمارے اردگرد موجود نامیاتی اشیاء کی صورت میں موجود ہیں۔ ہمارے خلیات کے اندر بنیادی بلیوپرنٹ اور معلومات کا بنیادی ذریعہ ڈی این اے ہی ہے۔ لیکن یہ اس نظام کا فنکشنل حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ان ہزاروں سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتا جو ہمیں زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ یہ کام پروٹین کرتی ہیں۔ یہ پروٹینز ہی ہیں جو خون کے اندر آکسیجن کی ترسیل کرتی ہیں، چپس اور برگرز کو شوگر اور دوسرے اجزاء میں تبدیل کرتی ہیں جو کہ آنتوں کے ذریعے جذب کیئے جاتے ہیں اور دماغ کو توانائی مہیا کرتے ہیں، ہمارے پٹھوں کو حرکت دیتی ہیں تاکہ ہم اس تحریر کو پڑھتے ہوئے سکرین کو اوپر نیچے حرکت دے سکیں۔ لیکن ان سب کے کوڈ ڈی این اے کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں۔
اگر ڈی این اے ایک کوڈ ہے تو اسکے اندر ایسی علامات ہونی چاہیے جنکو پڑھا جاسکے، اسکو ایک زبان کی طرح کام کرنا چاہیے۔ اور یہ سب کچھ ڈی این اے کے اندر موجود ہے۔ انسان کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ ڈی این اے کی زبان صرف چار حروف پر مشتمل ہے۔ ان حروف کو بیسز کہا جاتا ہے۔ انکے مکمل نام ایڈینین ، سائٹوسین، گوانین، اور تھایامین ہیں۔ اور انکو انگریزی حروف A, C, G اور T سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ان میں سائٹوسین، C ایپی جینیٹکس کے اندر تمام بیسز میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ سب سے آسان طریقہ جس سے ہم ڈی این اے کا ذہنی خاکہ بنا سکتے ہیں وہ ایک زپ کی طرح ہے۔ یہ ایک بہترین مشابہت نہیں ہے لیکن پھر بھی سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ سب سے ظاہری بات جو ہم زپ کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ دو پٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جنکا رخ ایک دوسرے کی طرف ہوتا ہے۔ ڈی این اے بھی بالکل ایسا ہی ہے۔
ڈی این اے کے اندر موجود چار بیسز زپ کے اوپر موجود دانتوں کی طرح ہیں۔ زپ کے دونوں سائیڈوں پر موجود بیسز ایک دوسرے کیساتھ کیمیائی طریقے سے جڑی ہوتی ہیں اور زپ کو جوڑ کر رکھتی ہیں۔ دو بیسز جو ایک دوسرے کےآمنے سامنے ہوتی ہیں اور اسی طرح سے جڑی ہوتی ہیں انکو Base pair یا بیس کا جوڑا کہا جاتا ہے۔ زپ میں موجود کپڑے کا ٹکڑا جس پر دانت سلے ہوئے ہوتے ہیں ڈی این اے کی بیک بون کہلاتا ہے۔ ہمیشہ دو بیک بونز ایک دوسرے کے آمنے سامنے موجود ہوتی ہیں اسی لئیے ڈی این اے کو ڈبل سٹرینڈڈ کہا جاتا ہے۔ زپ کی دونوں اطراف ایک دوسرے کے اوپر مڑی ہوئی ہوتی ہیں اور مشہور بل کھاتی ہوئی ساخت ڈبل ہیلیکس بناتی ہیں۔ یہ مشابہت ہماری یہیں تک مدد کریگی کیونکہ ڈی این اے زپ کے اوپر تمام دانت ایک جیسے اور برابر نہیں ہیں۔ اگر زپ کے ایک طرف ایک جگہ A بیس موجود ہے تو یہ مخالف سٹرینڈ پر صرف T بیس ہی کیساتھ جڑیگی۔ اسی طرح اگر ایک طرف C بیس موجود ہے تو یہ مخالف طرف صرف G بیس کیساتھ جڑیگی۔ اسکو بیس پیئرنگ پرنسپل کہا جاتا ہے۔ اگر ایک طرف موجود C بیس دوسری طرف موجود A بیس کیساتھ جڑنے کی کوشش کریگا تو ڈی این اے کی پوری ساخت کا توازن بگڑ جائیگا، جیسے زپ میں ایک دانت خراب ہوجانے سے ہوتا ہے۔
خالص پن کو کیسے برقرار رکھا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی این اے کے فنکشن کے لحاظ سے بیس پیئرنگ پرنسپل بہت زیادہ اہم ہے۔ ابتدائی ڈویلپمنٹ کے دوران اور بقیہ بالغ زندگی کے دوران بھی ہمارے جسم کے اندر خلیات تقسیم ہوتے رہتے ہیں۔ مثلآ یہ اسلیئے بھی تقسیم ہوتے رہتے ہیں تاکہ جب بچہ بڑا ہو جائے تو اسکے اعضاء جسامت میں نہ بڑھیں۔ یہ قدرتی طور پر مرنے والے خلیات کی جگہ لینے کیلئے بھی تقسیم ہوتے رہتے ہیں۔ اسکی ایک مثال خون کے سفید خلیات کا بون میرو کے اندر بننا ہے تاکہ جو سفید خلیات جراثیم کے ساتھ لگاتار مڈبھیڑ میں مرتے ہیں انکی جگہ لی جاسکے۔ اکثریت اقسام کے خلیات ریپروڈکشن کے دوران پہلے اپنے ڈی این اے کی نقل تیار کرتے ہیں اور پھر نئے بننے والے خلیات میں برابر تقسیم کردیتے ہیں۔ اس عمل کو ڈی این اے ریپلیکیشن کہا جاتا ہے اور یہ انتہائی اہم ہے۔ اس کے بغیر نئے خلیات بغیر ڈی این اے کے بنیں گے اور بالکل ناکارہ ہونگے جیسے ایک کمپیوٹر کے اندر سے آپریشنل سافٹ ویئر نکال لیا جائے۔ ہر خلیاتی تقسیم سے پہلے یہ ریپلیکیشن کا عمل ہی ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے ہے کہ بیس پیئرنگ پرنسپل کیوں اہم ہے۔ کئی دہائیوں تک لاتعداد سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں اس عمل کو سمجھنے میں گزاردیں۔ ڈی این اے کے دونوں دھاگوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جاتا ہے اور کثیر تعداد کے اندر موجود پروٹینز جنکا کام بیسز کو کاپی کرنا ہوتا ہے اپنے کام میں مصروف ہوجاتی ہیں۔
یہ پروٹینز جنکو ریپلیکیشن کمپلیکس کہا جاتا ہے ڈی این اے کے ایک دھاگے کیساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اور اسکے مقابلے میں نیا دھاگہ بناتی ہیں۔ یہ کمپلیکس ایک بیس مثلاً C کو پہچانتی ہیں اور مخالف سمت کے دھاگے جسکو بنایا جا رہا ہوتا ہے پر ہمیشہ G کو جوڑتی ہیں۔ اسی لئیے بیس پیئرنگ پرنسپل اہم ہے کیونکہ C کیساتھ ہمیشہ G جوڑا بنائیگی اور A کیساتھ ہمیشہ T جڑیگی۔ خلیات پرانے ڈی این اے کے سٹرینڈ کو بطور سانچہ استعمال کرتے ہوئے نئے سٹرینڈ بناتے ہیں۔ ہر نئے خلیے کے اندر ڈی این اے کا ایک دھاگہ پرانے خلیے سے آئیگا اور ایک نیا تیار کردہ ہوگا۔ کبھی کبھی اس عمل کے دوران بھی غلطی ہوتی ہے جب کسی ایک بیسں کی جگہ دوسری بیس جوڑ دی جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں خاص قسم کی پروٹینز حرکت میں آتی ہیں اور اس غلطی کو ٹھیک کردیتی ہیں۔ یہ ڈی این اے کی ریپیئر مشینری ہے اور یہ درستگی کرتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی غلط بیس جڑتی ہے تو یہ پہچان لیتی ہے کہ ڈی این اے کی زپ صحیح طرح سے نہیں بنی ہے۔
خلیے کثیر مقدار میں توانائی بیسز کو اپنی اصل حالت میں کاپی کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اسکی مثالیں کسی فلم یا ڈرامہ کے سکرپٹ میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کرنے سے پتہ چلتی ہے۔ یہ تبدیلی اصل سکرپٹ کی خوبصورتی کو کم کردیتی ہے اور کئی مرتبہ تو جملے کا مطلب بھی تبدیل کردیتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ڈی این اے کےاندر میوٹیشن بہت خطرناک تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ نتائج زیادہ پراثر تب ہونگے جب یہ میوٹیشن سپرم اور ایگ کے اندر ہو۔ کیونکہ اس صورت میں نیا بننے والا جاندار تبدیل شدہ خصوصیات کا حامل ہوگا۔ زیادہ تر میوٹیشنز خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی ہیں مثلاً بعض بچے انہتائی تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں اور دس سال کی عمر میں ستر سال کے نظر آتے ہیں۔ یا عورتوں کےاندر پستان کا کینسر بھی اسکی مثال ہے۔ ہر خلیے کے اندر چھ ارب بیسز کے جوڑے موجود ہوتے ہیں جن میں سے آدھے ماں کی طرف سے اور آدھے باپ کی طرف سے منتقل ہوتے ہیں۔ یہ چھ ارب بیس کے جوڑے ہی ہیں جنکو ہم جینوم کہتے ہیں۔ اگر ہم بنارکے ایک بیس پیئر فی سیکنڈ کے حساب سے گننا شروع کریں تو ایک خلیے کے جینوم میں بیسز کے جوڑوں کو گننے میں ایک سو نوے سال کا عرصہ لگیگا۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلا خلیہ یعنی زائیگوٹ بننے کے نو مہینے بعد ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے ڈی این اے ریپلیکیشن کہ رفتار بہت زیادہ تیز ہوتی ہے۔
سکرپٹ کو پڑھنا کیسے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...............
آئیے زیادہ بنیادی سولات کی جانب واپس چلتے ہیں کہ یہ چھ ارب بیسز کے جوڑے حقیقت میں کرتے کیا ہیں اور سکرپٹ کیسے کام کرتا ہے؟ ایک کوڈ جوکہ صرف چار حروف پر مشتمل ہے کیسے ہمارے خلیات میں موجود ہزاروں اقسام کی پروٹینز بناتا ہے؟ پروٹینز امائینو ایسڈز سے ملکر بنتی ہیں۔ بیس بنیادی امائنو ایسڈز قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بیس امائنو ایسڈز لاتعداد کمبی نیشنز کے اندر ایک دوسرے کیساتھ جڑسکتے ہیں اور ہزاروں اقسام کی پروٹینز بناتے ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی موجود ہے کہ کیسے بیس قسم کے امائنو ایسڈز کو صرف چار بیسز کوڈ کرتے ہیں؟ خلیے کی مشینری ایک وقت میں ڈی این اے میں تین بیسز پر مشتمل ایک بلاک کو پڑھتی ہے۔ ہر ایک بلاک کوڈون کہلاتا ہے اور یہ AAA , CCC, GCG یا پھر چاروں بیسز کے کسی بھی کمبی نیشن پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ اس طرح سے چار بیسز سے چونسٹھ کوڈون بنائے جاسکتے ہیں جوکہ بیس امائنو ایسڈز کیلئے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔ کچھ امائنو ایسڈز کیلئے ایک سے زیادہ کوڈون ہوتے ہیں مثلاً امائنو ایسڈ لائیسین کو AAA , AAG دونوں کوڈ کرتے ہیں۔ کچھ کوڈونز کسی امائنو ایسڈ کو کوڈ نہیں کرتے بلکہ وہ خلیے کی مشینری کو سگنل دیتے ہیں کہ وہ کوڈنگ ترتیب کے بالکل آخری حصے پر موجود ہے۔ انکو سٹاپ کوڈونز کہا جاتا ہے۔
ڈی این اے سے پروٹین ایک درمیانی مالیکول کے ذریعے بنتی ہیں جسکو میسینجر آر این اے mRNA کہا جاتا ہے۔ میسینجر آر این اے کافی حد تک ڈی این اے کی طرح ہی ہوتا ہے لیکن ان میں بہت سارا فرق بھی موجود ہے۔ آر این اے کی بیک بون ڈی این اے بیک بون سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ یہ رائبو نیوکلیک ایسڈ ہے یعنی اسکی صرف ایک بیک بون ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ آر این اے کے اندر تھایامین کی جگہ یوراسل U بیس موجود ہوتی ہے۔ جب ڈی این اے سکرپٹ کا کچھ حصہ پڑھا جاتا ہے تاکہ اسکے مطابق پروٹین بنائی جاسکے تو مختلف قسم کی پروٹینز اس حصے کو کھولتی ہیں اور اس سے میسینجر آر این اے بناتی ہیں۔ یہ پروٹین کمپلیکس بیس پیئرنگ پرنسپل استعمال کرتے ہوئے میسنجر آر این اے کی نقلیں تیار کرتی ہیں۔ اسکے بعد ان میسنجر آر این اے مالیکولز کو خلیے کے اندر موجود مخصوص ساختوں کے اوپر جو پروٹینز بناتی ہیں بطور سانچہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں پر میسنجر آر این اے پر موجود تین حروف کے کوڈونز کو پڑھا جاتا ہے اور اسکے مطابق امائینو ایسڈز کو آپس میں ترتیب سے جوڑا جاتا ہے۔ اسکےعلاوہ بھی بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے لیکن اسکی تفصیل میں ہم نہیں جائیں گے۔
اسکو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ فرض کریں ہم کسی خوبصورت چیز کی تصویر ایک ڈیجیٹل کیمرا کی مدد سے کھینچتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی اس تصویر تک رسائی ہو لیکن ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اوریجنل تصویر میں کسی قسم کا ردوبدل نہ کیا جاسکے۔ ہمارے کیمرا کے اندر جو فائل موجود ہے وہ ڈی این اے بلو پرنٹ ہے ۔ اسکو ہم کسی اور فارمیٹ میں تبدیل کر دیتے ہیں مثلاً پی ڈی ایف کے اندر جسکو زیادہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اور اسکی ہزاروں کاپیاں کرکے ان لوگوں کو بھیج دی جاتی ہیں جو یہ تصویر لینا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایف کاپی میسنجر آر این اے ہے۔ اور اگر لوگ چاہیں تو وہ اس پی ڈی ایف سے جتنی مرضی چاہیں پیپر پرنٹ نکال سکتے ہیں۔ یہ پیپر پرنٹ پروٹینز ہیں۔ لہذاٰ دنیا میں کوئی بھی پرنٹ لے سکتا ہے لیکن اوریجنل کاپی صرف ایک ہی رہیگی۔ لیکن اتنی پیچیدگی کا مقصد کیا ہے ؟ ایک براہ راست میکانزم کے ذریعے پروٹینز کیوں نہیں بنائی جاسکتی ۔ اسکی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً ایک وجہ یہ ہے کہ ڈی این اے جب کھولا جاتا ہے تاکہ اسکے پڑھا جاسکے تب اسکے اندر نقصان کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں لہٰذا اس غیر براہِ راست میکانزم کے تحت اس خطرے کو کم کیا جاتا ہے۔
الکوحل ڈی ہائڈروجینیز ADH ایک پروٹین ہے جو جگر کے اندر بنتی ہے اور الکوحل کو توڑتی ہے۔ جب کوئی شخص بہت زیادہ الکوحل کا استعمال کرتا ہے تو اسکے جگر کے خلیات یہ پروٹین بہت زیادہ بنانے لگ جاتے ہیں۔ اور جو کوئی الکوحل کبھی کبھی استعمال کرتا ہے اسکے اندر خلیات یہ پروٹین کم بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد الکوحل زیادہ لگاتار استعمال کرتے ہیں وہ اسکے جلد اثرات سے محفوظ رہتے ہیں یعنی ان پر نشہ اور غنودگی طاری نہیں ہوتی۔ زیادہ الکوحل استعمال کرنے سے ADH زیادہ تیار ہوتی ہے ایسا اس لئیے نہیں ہوتا کہ خلیات اس پروٹین کے جینز کی زیادہ کاپیاں بناتے ہیں بلکہ ایسا ADH جین کو زیادہ بہتر طریقے سے پڑھنے سے ہوتا ہے۔ یا پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسے حالات میں زیادہ میسنجر آر این اے کی کاپیاں بنائی جاتی ہیں یا پھر ان کاپیوں کو زیادہ بہتر طریقے سے بطور سانچہ استعمال کیا جاتا ہے۔
آگے جاکر ہم دیکھیں گے کہ ایپی جینیٹکس وہ میکانزم ہے جس سے خلیات اس چیز کو کنٹرول کرکے کہ اوریجنل جین سے کتنی میسنجر آر این اے کی کاپیاں بنائی گئی ہیں، کسی مخصوص پروٹین کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ہمارے خلیات میں کتنے جینز ہیں؟ یہ ایک سادہ سا سوال ہے لیکن اسکا کوئی ایک متفقہ جواب موجود نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسدان جین کی تعریف کے بارے الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ پرانی تعریف یہ تھی کہ جین ڈی این اے کا وہ حصہ ہے جو کسی پروٹین کو کوڈ کرتا ہے لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ تمام پروٹینز جینز سے کوڈڈ ہوتی ہیں گرچہ تمام جینز پروٹین کو کوڈ نہیں کرتے۔ ہمارے خلیات میں تقریباً بیس ہزار سے لیکر چوبیس ہزار پروٹین کوڈ کرنے والی جینز موجود ہیں ۔ یہ مقدار ماضی میں خیال کی جانی والی ایک لاکھ جین سے بہت کم ہے۔
سکرپٹ میں ترمیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی خلیات کےا ندر زیادہ تر جینز کی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے۔ جین کے شروعاتی حصےکو پروموٹر کہاجاتا ہے یہ وہ حصہ ہے جہاں پروٹین کمپلیکس جڑتی ہیں جو ڈی این اے سے کاپی کرکے آر این اے بناتی ہیں۔ پروٹین کمپلیکس جین کے اوپر چلتی ہیں جسکو باڈی آف جین کہا جاتا ہے اور آخر میں جین سے نیچے اتر جاتی ہیں۔ فرض کریں کہ ایک باڈی آف جین کی لمبائی تین ہزار بیس پیئرز ہے جوکہ اوسط جین کی لمبائی ہوتی ہے۔ تو بننے والے میسنجر آر این اے کی لمبائی بھی تین ہزار بیس پیئرز ہوگی۔ ہر امینو ایسڈ کو کوڈ کرنے کیلئے تین بیسز کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ میسنجر آر این اے ایک ہزار امائنو ایسڈز پر مشتمل پروٹین کو کوڈ کریگا ۔ لیکن حقیقت میں تحقیقات سے جو بات سامنے آئی وہ اس سے مختلف ہے اور پروٹین کی لمبائی کم ہوتی ہے۔ جینز کو صحیح سافٹ ویئر کے ساتھ دیکھا جائے تو اسکے دو طرح کے حصے نظر آتے ہیں ایک کو ایگزون کہا جاتا ہے جو کہ امینو ایسڈ کو کوڈ کرتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انٹرون کہلاتا ہے اور یہ بجائے امائنو ایسڈ کو کوڈ کرنے کے سٹاپ کوڈونز پر مشتمل ہوتا ہے جو پروٹینز بننے کے عمل کو ختم کرنے کا اشارہ دیتے ہیں۔
جب شروع میں ڈی این اے سے میسنجر آر این اے بنایا جاتا ہے تو وہ انٹرونز اور ایگزون دونوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکے بعد ایک اور قسم کا پروٹین کمپلیکس سامنے آتا ہے اور تمام انٹرونز کو کاٹ دیتا ہے اور باقی آر این اے کو واپس جوڑ دیتا ہے۔ اس عمل کو سپلائسنگ کہتے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ نظام ہے لیکن اسکا فایدہ یہ ہے کہ یہ خلیات کو کم تعداد میں جینز سے زیادہ اقسام کی پروٹینز بنانے کے قابل بناتا ہے۔ جب سپلائسنگ کے دوران انٹرونز کو کاٹا جاتا ہے تو بہت سے ایگزونز بھی کٹ جاتے ہیں۔ لہذا فائنل آر این اے کے اندر بہت سے پرانے ایگزونز جوں کے توں موجود رہتے باقی ختم ہوجاتے ہیں۔ اسکے نتیجے میں جو پروٹین بنے گی وہ یا تو ویسا ہی عمل کریگی یا پھر ڈرامائی طور پر مختلف فنکشن کی حامل ہوگی۔ اس طرح خلیات مختلف ضروریات کی بنیاد پر یا مختلف قسم کے سگنلز کے جواب میں الگ الگ قسم کی پروٹینز بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جب ہم جینز کے بارے سوچتے ہیں تو ہمارا تصور دو جہتی ہوتا ہے بالکل ایک ریل کی پٹڑی کی طرح ۔ پیٹر فریزر کی لیبارٹری نے بہت اہم تحقیقات شائع کی ہیں جو اس خیال کی تردید کرتی ہیں۔ اسکا کام ان جینز کے اوپر تھا جو ان پروٹینز کو کوڈ کرتی ہیں جو ہیموگلوبن بنانے کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ ہیموگلوبن خون کے اندر موجود ایک پگمنٹ ہے جو آکسیجن کی ترسیل کرتا ہے۔ مختلف اقسام کی پروٹینز ہیں جو فائنل پگمنٹ بناتی ہیں اور یہ مختلف کروموسومز کے اوپر پائی جاتی ہیں یعنی انکے جینز الگ الگ جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فریزر نے پتہ لگایا کہ ان خلیات میں جو زیادہ ہیموگلوبن تیار کرتے ہیں کروموسومز کے یہ حصے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں اور باہر کی طرف نکل آتے ہیں جیسے آکٹوپس کے بازو ہوتے ہیں۔ یہ بازو لمبے حصے نیوکلس کے اندر ایک خاص جگہ پر آپس میں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے اس بات کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں کی ہیموگلوبن کیلئے ضروری تمام پروٹینز ایکساتھ تیار ہوتی ہیں۔
ہمارے خلیوں کے اندر چھ ارب بیس کے جوڑے ہیں جن میں سے بارہ کروڑ پروٹین کو کوڈ کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تعداد لگتی ہے لیکن درحقیقت یہ ٹوٹل بیس کے جوڑوں کا دو فیصد ہے ۔ پروٹین زندگی کیلئے اہم ترین مالیکیول ہے لیکن ہمارا اٹھانوے فیصد ڈی این اے پروٹین نہیں بناتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد کا غیر فعال ہونا کچھ عرصہ پہلے تک ایک مکمل راز ہی تھا ۔ لیکن پچھلی دہائی کے اندر ہم اس راز کو جاننے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ اور اسکا تعلق بھی ایپی جینیٹکس میکانزم کے ذریعے جین کے اظہار کی ریگولیشن کے ساتھ ہے۔ اب ایپی جینیٹکس کی مالیکولر بیالوجی کے اندر جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔