ہم یہ تصور کرلیتے ہیں کہ کہیں دور ہمارے ارتقائی ماضی میں ہمارا اور خوردبینی کیڑوں کا جد ایک تھا۔ مگر اس پر زیادہ بات نہیں ہوتی کہ پودے بھی ہمارے کزنز ہیں۔ اکثر یہ کہہ کر کہ پودے بھی ہماری طرح زندہ جاندار ہیں ہمیں لگتا ہے مماثلت یہیں تک ہے۔ لیکن جانور اور پودے کئی طرح سے ایک جیسے ہیں خاص طور پر ہمارے ترقی یافتہ سبز کزنز پھولوں والے پودے۔ اس میں گندم، دالیں چاول اور گھاس (جن پر ہماری بنیادی خوراک کا انحصار ہے) گوبھی سے لیکر بلوط تک سب شامل ہیں۔ جانور اور پودے دونوں لاتعداد خلیات سے ملکر بنے ہیں۔ ان میں سے مختلف خلیات مختلف افعال کیلئے مخصوص ہوتے ہیں۔ پھولدار پودوں میں ان خلیات میں پانی اور شوگر کی ترسیل کیلئے خلیات، پتوں میں ضیائی تالیف کے خلیات اور جڑوں کے اندر خوراک ذخیرہ کرنے والے خلیات شامل ہیں۔ جانوروں کی طرح پودوں میں جنسی تولید کیلئے مخصوص خلیات ہوتے ہیں۔ سپرم نیوکلیس جاکر ایک بڑے انڈے کو فرٹیلائز کرتے ہیں جوکہ پھر زائیگوٹ میں تبدیل ہوتا ہے۔
پودوں اور جانوروں میں مماثلتیں ان ظاہری خصوصیات سے بھی زیادہ بنیادی سطح کی ہیں۔ بہت سے جینز ایسے ہیں جوکہ پودوں اور جانوروں دونوں میں موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے موضوع کے لحاظ سے پودوں کے اندر انتہائی ترقی یافتہ ایپی جینیٹک نظام موجود ہے۔ یہ جانوروں کی طرح ہسٹون اور ڈی این اے کے اندر ترامیم کرسکتے ہیں اور کئی دفعہ ایپی جینیٹک اینزائمز بھی بالکل جانوروں بشمول انسانوں سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ یہ جینٹک اور ایپی جینیٹک مماثلتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پودوں اور جانوروں کا جد مشترک ہے۔ اور اس مشترکہ جد سے انھوں نے ایک جیسی جینیٹک اور ایپی جینیٹک ٹول کٹس وراثت میں حاصل کی ہیں۔ یقینا ، پودوں اور جانوروں کے درمیان واقعی اہم فرق بھی ہیں۔ پودے اپنا کھانا خود بنا سکتے ہیں ، لیکن جانور ایسا نہیں کر سکتے۔ پودے ماحول ملڈے بنیادی کیمیکل لیتے ہیں خاص طور پر پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ سورج کی روشنی سے توانائی کا استعمال کرتے ہوئے پودے ان سادہ کیمیکلز کو گلوکوز جیسے پیچیدہ شکر میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ کرہ ارض کی تقریبا تمام زندگی براہ راست یا بالواسطہ ضیائی تالیف کے اس حیرت انگیز عمل پر انحصار کرتی ہے۔
زیادہ تر باغبان جانتے ہیں کہ ہم پودے سے ایک ٹہنی کاٹ کر اسکو زمین میں دبا کر بالکل نیا پودا تیار کرسکتے ہیں۔ ایسا صرف چند جانوروں میں ہوسکتا ہے اور بڑے جانوروں میں تو بالکل بھی نہیں۔ یہ درست ہے کہ چھپکلی کی بہت سی انواع دم کے الگ ہوجانے کے بعد دوسری دم اگالیتی ہیں لیکن یہ الٹ ہے۔ دم یا اسکے ٹکڑے سے نئی چھپکلی نہیں پیدا کی جاسکتی۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ جانوروں کے اندر حقیقی پلوریپوٹینٹ سیلز صرف جرم لائن میں ہوتے ہیں جو سپرم اور ایگز بناتے ہیں۔ جبکہ پودوں کے اندر پلوریپوٹینٹ سیلز تنے اور جڑوں کے سروں پر عام موجود ہوتے ہیں۔ یہ خلیات عام حالات میں بڑھتے ہیں اور پودے کی بڑھوتری میں اصافہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے حالات میں کچھ مخصوص خلیات میں تبدیل ہوجاتے ہیں جیساکہ پھول کے خلیات۔ ایک دفعہ جو خلیات پھول کی پتیوں میں آجاتے ہیں وہ دوبارہ کسی اور قسم کے خلیات میں تبدیل نہیں ہوسکتے۔ بالآخر پودے بھی واڈنگٹن لینڈ سکیپ میں نیچے آجاتے ہیں۔
پودوں اور جانوروں کے درمیان دوسرا فرق واقعی واضح ہے۔ پودے حرکت نہیں کر سکتے۔ جب ماحولیاتی حالات بدلتے ہیں تو پودے اپنے آپکو اسکے مطابق ڈھالتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ وہ ناپسندیدہ موسموں سے فرار اختیار نہیں کرسکتے۔ پودوں کو اپنے چاروں طرف ماحولیاتی محرکات کا جواب دینے کا ایک طریقہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ سال کے صحیح وقت پر بچے پیدا کرنے کے لیے کافی دیر تک زندہ رہیں۔ اسکے برعکس پرندوں کی ایک نوع یورپی ابابیل جوکہ سردیاں افریقہ میں گزارتے ہیں جسیے ہی گرمیاں قریب آتی ہیں ایک عظیم ہجرت شروع کرتے ہیں۔ یہ افریقہ سے یورپ کا سفر کرتے ہیں اور برطانیہ پہنچتے ہیں اور وہاں انڈے دیتے ہیں۔ چھے ماہ بعد دوبارہ افریقہ کا سفر کرتے ہیں۔
ماحول میں پودوں کے بہت سے ردعمل خلیے کی قسمت میں تبدیلی سے منسلک ہوتے ہیں۔ جیساکہ ایک پلوریپوٹینٹ خلیے سے لیکر ایک مخصوص پھول تک۔ ایپی جینیٹک عوامل ان واقعات کے اندر کردار اداکرتے ہیں۔ سارے پودے ایک جیسی ایپی جینیٹک حکمت عملی نہیں استعمال کرتے۔ اس حوالے سے ایک اہم ماڈل سسٹم غیر ضروری نظر آنے والا چھوٹا سا پودا ہے جسکا سائنسی نام Arabidopsis thaliana ہے۔ اسکے بیج گرمیوں کے آغاز میں پھوٹنا شروع کرتے ہیں پودا بڑا ہوتا ہے اور پھول اگنا شروع ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ پودا دیر سے پھول اگائے تو اس سے بننے والے بیج سخت موسم میں اگ نہیں پائیں گے اور ضائع ہوجائیں گے۔ اسکا حل انھوں نے یہ نکالا ہے کہ پودا سردیوں کا موسم گزار کر بہار کے آنے تک پھول نہیں اگاتا اور جیسے بہار کا موسم شروع ہوتا ہے پھول اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔
اسکے لئے تکنیکی اصطلاح ورنالائزیشن ہے۔ اسکا مطلب ہے ایک پودے کو پھول اگانے سے پہلے ایک طویل ٹھنڈ کا دورانیہ گزارنا ہوتا ہے۔ یہ معتدل علاقوں میں جہاں موسم مقررہ مدت کے ہوتے ہیں سالانہ لائف سائیکل والے پودوں میں عام ہوتا ہے۔ اور یہ صرف بڑے پتوں والے پودوں میں نہیں ہوتا بلکہ گندم اور جو کے اندر بھی ہوتا ہے۔ بہت سے کیسز میں پھولوں کیلئے ایک طویل موسم سرما کے بعد طویل دورانیہ کے دن ضروری ہوتے ہیں۔ ان دو محرکات کا مجموعہ یہ یقینی بناتا ہے کہ پھول سال کے مقررہ وقت پر لگتے ہیں۔ ورنلائزیشن کی کچھ خصوصیات جانوروں کے اندر ایپی جینیٹک فینومینا کہ یاد تازہ کرتی ہیں۔
مثلاً پودے ایک طرح کی مالیکیولر یاداشت بنالیتے ہیں کیونکہ محرک اور فائنل نتیجے کے درمیان ہفتوں کا وقت ہوتا ہے۔ اسکا موازنہ ماں سے دور چوہوں کے اندر سٹریس ریسپانس سے کیا جاسکتا ہے۔
یہ یاداشت خلیات کی تقسیم کے بعد بھی موجود رہتی ہے۔ اسکا موازنہ بھی جانوروں میں کیا جاسکتا ہے جب خلیات پیرنٹ خلیہ پر ایک خاص محرک کے جواب میں ایک خاص طریقے سے برتاؤ کئے چلے جاتے ہیں نارمل ڈیولپمنٹ کے دوران یا کینسر میں۔
یاداشت اگلی نسل(بیج) میں ختم ہوجاتی ہے۔ جیساکہ سومیٹک خلیات میں سے یہ ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا لامارکین وراثت غیر معمولی ہے ناکہ عام۔
حالیہ برسوں کے اندر بہت سی لیبارٹریز نے ورنلائزیشن کی ایپی جینیٹک بنیاد کی تصدیق کی ہے۔ اس حوالے سے اہم جین فلاورنگ لوکس سی FLC ہے۔ یہ جین جس پروٹین کو کوڈ کرتا ہے وہ ٹرانسکرپشنل ریپریسر کہلاتی ہے جوکہ دوسرے جینز کیساتھ جڑ کر انکو آف کرتی ہے۔Arabidopsis thaliana کے اندر تین جینز پھولوں کیلئےاہم ہیں۔ FT, SOC1 اور FD. ایپی جینیٹک ترامیم FLC کے ایکسپریشن کو ریگولیٹ کرتی ہیں جوکہ اس جین کو ریپریس کرتا ہے جو پھولوں کے عمل کو شروع کرتا ہے۔ سردیوں سے پہلے ایف ایل سی جین کے پروموٹر پر بہت سی ہسٹون ترامیم موجود ہوتی ہیں جو جین ایکسپریشن کو آن کرتی ہیں۔ اسکی وجہ سے ایف ایل سی جین بہت زیادہ ایکسپریس ہوتا ہے اور جو پروٹین یہ کوڈ کرتا ہے وہ ٹارگٹ جینز کو ریپریس کرتی ہے۔ یہ پودے کو اسکے نارمل ویجیٹیٹو گروتھ فیز کے اندر رکھتا ہے۔ سردیوں کے بعد ایف ایل سی جین پر ہسٹون ترامیم ریپریسیو ہوجاتی ہیں یہ اس جین کو آف کردیتی ہیں۔ نتیجے میں پروٹین بننا بند ہو جاتی ہے اور ٹارگٹ جینز آن ہوجاتے ہیں۔ موسم بہار میں سورج کی روشنی کے دورانیے میں اضافے سے ایف ٹی جین کا ایکسپریشن زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس وقت تک ایف ایل سی جین کا ایکسپریشن کم ہوجاتا ہے ورنہ ایف ٹی جین کو سورج کے محرک سے رابطہ کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
ایپی جینیٹک انزائمز کے تبدیل شدہ ورژن کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ ایف ایل سی جین میں ہسٹون ترمیم میں تبدیلیاں پھولوں کے ردعمل کو کنٹرول کرنے میں انتہائی اہم ہیں۔ مثال کے طور پر ، ایک جین ہے جسے SDG27 کہا جاتا ہے جو ہسٹون H3 پر پوزیشن 4 پر لائیسین امینو ایسڈ میں میتھائل گروپس کا اضافہ کرتا ہے۔ لہذا یہ ایک ایپی جینیٹک رائٹر ہے۔ یہ میتھائیلیشن فعال جین ایکسپریشن سے وابستہ ہے۔ SDG27 جین کو تجرباتی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ ایک فعال پروٹین کو انکوڈ نہ کرے۔ اس میوٹیشن والے پودوں میں ایف ایل سی جین پروموٹر میں یہ فعال ہسٹون ترمیم کم ہوتی ہے۔ وہ کم ایف ایل سی پروٹین تیار کرتے ہیں اور اس طرح ان جینز کو ریپریس کرنے میں اتنے اچھے نہیں ہیں جو پھولوں کو متحرک کرتے ہیں۔ SDG27 میوٹنٹ عام پودوں سے پہلے پھول لیتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایف ایل سی پروموٹر میں ایپی جینیٹک ترمیم صرف جین کی سرگرمی کی سطح کی عکاسی نہیں کرتی ، وہ دراصل ایکسپریشن کو تبدیل کرتی ہیں۔ تبدیلیاں دراصل ایکسپریشن میں تبدیلی کا سبب بنتی ہیں۔
سرد موسم پودوں کے خلیوں میں ایک پروٹین پیدا کرتا ہے جسے VIN3 کہتے ہیں۔ یہ پروٹین FLC پروموٹر پر جڑ سکتی ہے۔ VIN3 پروٹین کی ایک قسم ہے جسے کرومیٹن ریموڈیلر کہا جاتا ہے۔ یہ تبدیل کر سکتا ہے کہ کرومیٹن کس طرح سختی سے بندھا ہوا ہے۔ جب VIN3 ایف ایل سی پروموٹر سے منسلک ہوتا ہے تو یہ کرومیٹن کے مقامی ڈھانچے کو تبدیل کرتا ہے جس سے یہ دوسری پروٹینز کے لیے زیادہ قابل رسائی بن جاتا ہے۔ اکثر کرومیٹن کھولنے سے جین کے اظہار میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم اس معاملے میں VIN3 ایک اور انزائم کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جو میتھائل گروپس کو ہسٹون پروٹین میں شامل کر سکتا ہے۔ تاہم یہ خاص انزائم ہسسٹون ایچ 3 پر پوزیشن ستائیس پر لائسین امینو ایسڈ میں میتھائل گروپس کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ ترمیم جین کے اظہار کو دبا دیتی ہے اور یہ ایک اہم ترین طریقہ ہے جسے پلانٹ سیل FLC جین کو بند کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس سے مزید سوال پیدا ہوتے ہیں۔ سرد موسم کیسے ایف ایل سی جین میں ایپی جینیٹک ترامیم پیدا کرتا ہے۔ ھدف بندی کا طریقہ کار کیا ہے؟
ہم ابھی تک تمام تفصیلات نہیں جانتے ہیں لیکن ایک مرحلہ واضح ہے۔ سرد موسم کے بعد پودے میں خلیات ایک طویل آر این اے تیار کرتے ہیں جو پروٹین کا کوڈ نہیں بناتا ہے۔ اس آر این اے کو کولڈیر کہا جاتا ہے۔ کولڈیر نان کوڈنگ آر این اے خاص طور پر ایف ایل سی جین میں مقامی ہے۔ یہ انزائم کمپلیکس سے منسلک ہوتا ہے جو ہسٹون ایچ 3 پر پوزیشن ستائیس پر اہم ریپریسیو مارکس بناتا ہے۔ کولڈائر اس وجہ سے انزائم کمپلیکس کے لیے ہدف بنانے کے طریقہ کار کے طور پر کام کرتا ہے۔
جب یہ پودا نئے بیج تیار کرتا ہے ایف ایل سی جین میں ریپریسیو ہسٹون کے نشانات ہٹ جاتے ہیں۔ ان کی جگہ فعال کرومیٹن ترامیم لے لیتی ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جب بیج پھوٹیں گے FLC جین کو آن کیا جائے گا اور پھول آنے کے عمل کو اس وقت تک دبا دیا جائیگا جب تک پودے سردیاں نہ گزار لیں۔ ان اعداد و شمار سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پھولوں والے پودے واضح طور پر اسی ایپی جینیٹک مشینری کو استعمال کرتے ہیں جیسا کہ بہت سے جانوروں کے خلیات۔ ان میں ہسٹون پروٹین میں ترمیم اور ان ترمیم کو نشانہ بنانے کے لیے لمبے نان کوڈنگ آر این اے کا استعمال شامل ہے۔ سچ ہے جانوروں اور پودوں کے خلیات ان ٹولز کو مختلف اختتامی نکات کے لیے استعمال کرتے ہیں- پچھلے باب سے آرتھوپیڈک سرجن اور بڑھئی کو یاد رکھیں لیکن یہ مشترکہ نسب اور آلات کے ایک بنیادی سیٹ کا مضبوط ثبوت ہے۔
پودوں اور جانوروں کے درمیان ایپی جینیٹک مماثلتیں یہاں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ جانوروں کی طرح پودے بھی ہزاروں مختلف چھوٹے آر این اے مالیکیول پیدا کرتے ہیں۔ یہ پروٹین کے لیے کوڈ نہیں بناتے بلکہ وہ جین کو خاموش کر دیتے ہیں۔ یہ پودوں پر کام کرنے والے سائنسدان تھے جنہوں نے سب سے پہلے محسوس کیا کہ یہ بہت چھوٹے آر این اے مالیکیول ایک خلیے سے دوسرے خلیے میں منتقل ہو سکتے ہیں جین کے ایکسپریشن کو خاموش کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک ابتدائی مقام سے محرک کا ایپی جینیٹک ردعمل جسم کے دور دراز حصوں میں پھیلاتا ہے۔
عربیڈوپسس تھالیانا میں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پودے ہزاروں جینز کو منظم کرنے کے لیے ایپی جینیٹک ترمیم استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضابطہ غالباً جانوروں کے خلیوں کی طرح مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ یہ خلیوں کو ماحولیاتی محرکات پر مناسب لیکن قلیل مدتی ردعمل برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے اور یہ مخصوص خلیہ کو مستقل جین ایکسپریشن کے پیٹرن میں قید کرتا ہے۔ ایپی جینیٹک میکانزم کی وجہ سے ہم انسانوں کی آنکھوں میں دانت نہیں ہوتے اور پودوں کی جڑوں سے نکلنے والے پتے نہیں ہوتے۔
پھولوں والے پودے ممالیہ جانوروں کیساتھ بہت سی ایپی جینیٹک خصوصیات شئیر کرتے ہیں۔ یہ واحد جاندار ہیں پلیسینٹلز کے علاوہ جن میں جینز امپرنٹڈ ہوتے ہیں۔ پہلی نظر میں یہ مماثلت عجیب لگتی ہے مگر ہمارے اور ہمارے پھولوں والےرشتہ داروں کے درمیان دلچسپ صورتحال ہے۔ تمام اعلی ممالیہ جانوروں میں فرٹیلائزڈ زائیگوٹ ایمبریو اور پلیسینٹا کا ذریعہ ہے۔ پلیسینٹا ڈیولپنگ ایمبریو کی پرورش کرتی ہے لیکن بالآخر نئے فرد کا حصہ نہیں بنتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جب پھولدار پودوں میں فرٹیلائزیشن ہوتی ہے۔ یہ عمل قدرے پیچیدہ ہے ، لیکن حتمی فرٹیلائزڈ بیج میں ایمبریو اور ایک معاون ٹشو ہوتا ہے جسے اینڈوسپرم کہتے ہیں۔ ممالیہ جانوروں کی طرح اینڈوسپرم بھی ایمبریو کی پرورش کرتا ہے لیکن ایک نسل میں کسی ٹشو کا حصہ نہیں بنتا ہے۔ یہ پودوں کی پلیسینٹا ہے۔ اور ان دونوں کا معاملہ منتخب جینز کے گروپس کے ایکسپریشن کے امپرنٹڈ کنٹرول کے کیس کو تقویت دیتا ہے۔
درحقیقت بیجوں کے اینڈوسپرم میں کچھ بہت ہی پیچیدہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر جانوروں کے جینومز کی طرح پھولوں والے پودوں کے جینوم میں ریٹرو ٹرانسپوسون ہوتے ہیں۔ یہ تکراری عناصر ہیں جو پروٹین کو انکوڈ نہیں کرتے لیکن اگر وہ فعال ہوجائیں تو تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ جینوم میں گھوم سکتے ہیں اور جین کے ایکسپریشن میں خلل ڈال سکتے ہیں۔
عام طور پر اس طرح کے ٹرانسپوزیبل عناصرکو سختی سے دبایا جاتا ہے لیکن اینڈوسپرم میں یہ آن کردئیے جاتے ہیں۔ اینڈوسپرم کے خلیے ان ٹرانسپوزیبل عناصر سے چھوٹے آر این اے مالیکیول بناتے ہیں۔ یہ چھوٹے آر این اے اینڈوسپرم سے ایمبریو میں سفر کرتے ہیں۔ وہ ایمبریو کے جینوم میں ٹرانسپوزیبل عناصر تلاش کرتے ہیں جن کی ترتیب خود کی طرح ہے۔ یہ ٹرانسپوزیبل چھوٹے آر این اے مالیکیول پھر ان مشینری کو بھرتی کرتے نظر آتے ہیں جو ان ممکنہ خطرناک جینومک عناصر کو مستقل طور پر غیر فعال کردیتی ہیں۔ ٹرانسپوزیبل عناصر کے دوبارہ فعال ہونے سے اینڈوسپرم جینوم کو خطرہ زیادہ ہے۔ لیکن چونکہ اینڈوسپرم اگلی نسل میں جینیاتی طور پر حصہ نہیں ڈالتا اس لیے یہ وسیع تر مفاد میں خودکش مشن شروع کر سکتا ہے۔
گوکہ ممالیہ جانور اور پودے دونوں امپرنٹڈ جینز رکھتے ہیں مگر انکو استعمال کرنے کے میکانزم الگ الگ ہوتے ہیں۔ پودوں میں ہمیشہ والد سے آئی جین کی کاپی پر میتھائی لیشن ہوتی ہے مگر یہ کاپی ہی غیر فعال نہیں ہوتی۔ لہذا پودوں میں جین امپرنٹنگ یہ بتاتی ہے کہ جین کیسے منتقل ہوئے ہیں ناکہ وہ کیسے ایکسپریس ہونگے۔ ڈی این اے میتھائیلیشن کے کچھ بنیادی پہلو ہیں جو پودوں اور جانوروں کے درمیان بالکل ملتے جلتے ہیں۔ پودوں کے جینوم فعال ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز انزائمز کو انکوڈ کرتے ہیں اور پروٹین بھی جو میتھائلیٹڈ ڈی این اے کو 'پڑھ' سکتی ہیں۔ ممالیہ جانوروں میں ابتدائی جرم لائن خلیوں کی طرح پودوں کے کچھ خلیے ڈی این اے سے میتھائیلیشن کو فعال طور پر نکال سکتے ہیں۔ پودوں میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سے انزائمز یہ ردعمل کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ڈیمیٹر کہا جاتا ہے یونانی افسانوں میں پرسی فون کی ماں کے نام پر۔ ڈیمیٹر فصل کی دیوی تھی اور یہ اس معاہدے کا نتیجہ ہے جو اس نے انڈر ورلڈ کے دیوتا ہیڈز کے ساتھ کیا تھا، کہ آج ہمارے پاس موسم ہیں۔
لیکن ڈی این اے میتھائیلیشن بھی ایپی جینیٹکس کا ایک پہلو ہے جہاں پودوں اور اعلی جانوروں کے ایک ہی بنیادی نظام کو استعمال کرنے کے طریقے میں واضح فرق ہے۔ سب سے واضح فرق میں سے ایک یہ ہے کہ پودے صرف سی پی جی موٹفز میں سائٹوسین کے بعد گوانین پر میتھائلیٹ نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب سے عام ترتیب ہے جسے ان کے ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پودے ایک سائٹوسین کے بعد کسی بھی اور بیس کو میتھائی لیٹ کرسکتے ہیں۔
پودوں میں بہت سے ڈی این اے میتھائیلیشن غیر ایکسپریس شدہ دہرائے جانے والے عناصر کے ارد گرد مرکوز ہے بالکل ممالیہ جانوروں کی طرح۔ لیکن ایک بڑا فرق اس وقت ظاہر ہو جاتا ہے جب ہم ایکسپریسڈ جینز میں ڈی این اے میتھائیلیشن کے پیٹرن کا جائزہ لیتے ہیں۔ تقریباً پانچ فیصد ایکسپریسڈ پودوں کے جینز اپنے پروموٹرز میں قابل شناخت ڈی این اے میتھائیلیشن رکھتے ہیں لیکن تیس فیصد سے زیادہ ان خطوں میں میتھائلیٹ ہوتے ہیں جو امینو ایسڈ کو انکوڈ کرتے ہیں۔ میتھائیلیشن والے جینز کا ایکسپریشن ٹشوز کی ایک وسیع رینج میں ہوتا ہے اور یہ ایکسپریشن درمیانے سے بہت زیادہ تک ہوتا ہے۔
پودوں میں دہرائے جانے والے عناصر میں ڈی این اے میتھائیلیشن کی اعلیٰ سطحیں ممالیہ جانوروں جیسے اعلیٰ جانوروں کے کرومیٹن میں دہرائے جانے والے عناصر کے پیٹرن سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ اس کے برعکس بڑے پیمانے پر ایکسپریسڈ جینز میں میتھائیلیشن بہت زیادہ اس طرح کی ہے جیسے شہد کی مکھیوں میں دیکھی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پودے حشرات اور ممالیہ جانوروں کے عجیب ایپی جینیٹک ہائبرڈ ہیں۔ بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ارتقاء کے پاس خام مال کا ایک محدود مجموعہ ہے لیکن یہ انکو کس طرح استعمال کرتا ہے اسکے بارے میں زیادہ جنونی نہیں ہے۔