غذائیت کے اثرات صحت اور عمر کے دورانیے پر واضح ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کسطرح غذائیت میں کمی چوہوں کے اندر طویل عمری کا باعث بنتی یے۔ اسی سلسلے میں ہم یہ بھید جان چکے ہیں کہ عمر کے دورانیے کا تعلق اس سے بھی ہے کہ آپ کے والدین اور انکے والدین نے کیا کھایا۔ تصور کریں اگر کچھ افراد باقیوں کی نسبت بیس گنا طویل عمر پائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج تک برطانیہ میں ملکہ الزبتھ اول کی حکومت قائم ہوتی اور یہ مزید چار صدیوں تک رہتی۔ ایسا انسانوں میں نہیں ہوتا مگر ایک جاندار میں ایسا ہوتا ہے۔ وہی جس سے ہم تقریباً ہر بہار کے موسم میں ملاقات کرتے ہیں۔ جسکی محنت سے ہم موم بتیاں، فرنیچر پالش بناتے ہیں۔ جسکی محنت سے اکٹھی کی گئی سوغات ہم انسان کی ابتدائی تاریخ سے آج تک کھارہے ہیں۔ یہ شہد کی مکھی ہے۔
شہد کی مکھی جسکا سائنسی نام Apis Mellifera ہے واقعی میں ایک غیرمعمولی مخلوق ہے۔ یہ سماجی کیڑے کی بہترین مثال ہے۔ یہ ایسی کالونیوں کے اندر رہتی ہیں جس میں ہزاروں افراد ہوتے ہیں۔ ان کی کثیر تعداد کارکن ہوتی ہیں جو تولید کی صلاحیت سے محروم مادہ ہوتی ہیں جنکے ذمے بچوں کی دیکھ بھال، پولن جمع کرنا اور رہنے کے خانے بنانے کے کام ہوتے ہیں۔ تھوڑی تعداد میں نر ہوتے ہیں جو کچھ نہیں کرتے سوائے تولید کے اگر خوش قسمت ہوں تو۔ اور ایک ملکہ ہوتی ہے۔ نئی کالونی بنانے کے سلسلے میں ایک کنواری ملکہ بہت سارے کارکنوں کیساتھ نکلتی ہے کچھ نروں سے ملاپ کرتی ہے اور نئی کالونی بناتی ہے۔ ملکہ ہزاروں انڈے دیتی ہے جن میں سے زیادہ تر کارکن پیدا ہوتے ہیں اور کچھ ملکہ ہوتی ہیں جوکہ یہ سائیکل دوبارہ شروع کرتی ہیں۔
کیونکہ ملکہ ایک کی بجائے بہت سے نروں کیساتھ ملاپ کرتی ہے اسکی وجہ سے ایک چھتے کے اندر ساری مکھیاں جینیاتی طور پر ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ لیکن ہزاروں کے گروپس ہوتے ہیں جو جینیاتی طور پر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ صرف کارکنوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ایک کالونی میں ملکہ بھی کارکنوں سے جینیاتی طور پر سو فیصد مماثلت رکھتی ہے۔ یہ سب کلونز ہیں۔ اسکے باوجود ایک ملکہ اپنی کارکن کلون سے جسمانی اور فعالیاتی طور یکسر مختلف ہوتی ہے ملکہ کارکن سے دوگنا جسامت کی حامل ہوتی ہے۔ جب ملکہ پہلی بار چھتے سے نکلتی ہے اور ملاپ کرتی ہے اسکو نپٹیئل فلائٹ کہا جاتا ہے۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ چھتے کے اندر تاریکی میں زندگی گزارتی ہے، گرم مہینوں میں دن میں دو ہزار انڈے دیتی ہے۔ ملکہ کے پاس ڈنک نہیں ہوتا نا ہی ویکس گلینڈ اور نا ہی پولن اکٹھا کرنے والی ٹوکریاں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے جب شاپنگ نہیں کرنی تو شاپنگ بیگ رکھنے کا کیا فائدہ۔
لہذا کارکنوں کو بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں جو ملکہ نہیں کرسکتی جس میں کھانا جمع کرنا اور اسکا پتہ ویگل ڈانس کے ذریعے دوسروں کو دینا شامل ہیں۔ ملکہ تاریکی میں عیش و آرام سے رہتی ہے۔ ایک کالونی کے اندر ہزاروں جینیاتی طور پر ایک جیسی مکھیاں رہتی ہیں لیکن کچھ ہوتی ہیں جو الگ ہوتی ہیں۔ یہ اختلاف دراصل ابتدائی عمر میں کھانا کھلانے کے پیٹرن سے تعلق رکھتا یے۔ ابتدائی کھانا کھلانے کا پیٹرن یہ تعین کرتا ہے کہ کونسا لاروا کارکن بنیگا اور کونسا ملکہ۔ شہد کی مکھیوں کا ڈی این اے بلیو پرنٹ ایک جیسا ہے مگر فینوٹائپس الگ الگ سامنے آتی ہیں۔ ابتدائی فیڈنگ پیٹرن ایسی فینوٹائپ متعین کردیتا ہے جو پھر ساری زندگی قائم رہتی ہے۔ یہ ایپی جینیٹکس کی بہت بڑی مثال ہے اور ماہرین پچھلے کچھ سالوں سے اسکے پیچھے موجود مالیکیولر عوامل کو بینقاب کررہے ہیں۔
ابتدائی تین دن تک تمام لارووں کو خاص خوراک رائل جیلی دی جاتی ہے۔ رائل جیلی خاص جوان کارکن مکھیاں جنکو نرس مکھیاں کہا جاتا ہے بناتی ہے اور اپنے سر سے خارج کرتی ہیں۔ رائل جیلی انتہائی غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے جس میں پروٹینز، غیر معمولی چربی ، وٹامنز اور بہت سے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ تین دن بعد اکثریت کی خوراک تبدیل کرکے پھلوں کے رس اور پولن کردی جاتی ہے۔ پولن اور پھلوں کے رس پر پلنے والے تمام لاروا کارکن مکھیوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن نامعلوم وجوہات کے باعث نرس مکھیاں چند لاروا کو رائل جیلی کھلانا جاری رکھتی ہیں۔ ان لاروا کو کوکس بنیاد پر اور کیوں چنا جاتا ہے یہ ہم نہیں جانتے۔ تمام لاروا جینیاتی طور پر بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جن لاروا کو رائل جیلی کی خوراک جاری رکھی جاتی ہے وہ آگے جاکر ملکہ بنتی ہیں اور یہ خوراک تمام زندگی جاری رکھی جاتی ہے۔ رائل جیلی اووریز بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کارکنوں کے اندر مناسب اووریز نہیں ہوتی۔ اسکے علاوہ رائل جیلی ملکہ کے اندر غیر ضروری اعضاء کو بننے سے روکتی ہے جیساکہ پولن باسکٹ۔
ہم اس کے پیچھے موجود چند میکانزم کو جانتے ہیں۔ جیساکہ لاروا کے اندر ایک عضو ہمارے جگر کی طرح ہوتا ہے۔ جب لگاتار رائل جیلی کی خوراک جاری رکھی جاتی ہے تو یہ اس پیچیدہ خوراک کو پروسیس کرکے انسولین پاتھوے فعال کرتا ہے۔ یہ پاتھوے اسی طرح ہے جسطرح کا ہمارے اندر خون میں شوگر کو مقدار کو کنٹرول کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ یہ پاتھوے ایک اور ہارمون جووینائل ہارمون کی پیداوار کو تیز کرتا ہے جوکہ مزید پاتھویز شروع کرتا ہے جوکہ اووریز بنانے کے عمل کو شروع کرتے ہیں اور دیگر اعضاء جنکی ضرورت نہیں انکو بننے سے روکتے ہیں۔
ملکہ کی نقل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین کا خیال تھا کہ ان میں ایپی جینیٹک مشینری کا بھی عمل دخل ہے۔ اس خیال کو تقویت 2006 میں ملی جس سال اس نوع کا ڈی این اے بلیو پرنٹ پڑھا گیا۔ شہد کی مکھیوں کے جنیوم کے اندر ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی طرح ڈی این میتھائل ٹرانسفریز جینز موجود تھے۔ جینوم میں سی پی جی موٹفز بھی موجود تھے یہ دو نیوکلیوٹائڈز پر مشتمل ہوتے ہیں اور ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز کا نشانہ ہوتے ہیں۔ جین رابنسن کی سربراہی میں ایک گروپ نے بتایا کہ جن ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز کی پیش گوئی کی گئی تھی وہ فعال تھے اور سی پی جی موٹفز پر میتھائل گروپ جوڑرہے تھے۔ شہد کی مکھیوں کے خلیات میں وہ پروٹینز بھی ایکسپریس ہورہی تھی جو میتھائل گروپس کے اوپر جڑتی ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ شہد کے مکھی کے خلیات ایپی جینیٹک کوڈ کو لکھ بھی سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں۔
ان نتائج کے شائع ہونے تک کوئی اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا کیونکہ اس سے پہلے عام تجرباتی ماڈل پھلوں کی مکھی میں میتھائی لیشن نہیں ہوتی۔ یہ دلچسپ انکشاف تھا کہ شہد کی مکھیوں میں ڈی این اے میتھائی لیشن کا بہترین نظام موجود ہے۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ رائل جیلی کا ریسپانس ہوتا ہے۔ اسی چیز کو کینبرا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریسزارڈ ملیسزکا کے بہترین کام میں موضوع بنایا گیا۔ ڈاکٹر اور انکی ٹیم نے شہد کی مکھی کے اندر ایک ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز Dnmt3 کے ایکسپریشن کو بند کردیا جوکہ ان جگہوں پر میتھائل گروپ جوڑتا ہے جن پر پہلے میتھائیلیشن نہیں ہوئی ہوتی۔ جب Dnmt3 کے ایکسپریشن کو کم کردیا گیا تو اس کا اثر وہی تھا جو رائل جیلی کھلانے سے ہوتا ہے۔ تمام کارکن ملکہ مکھیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ اس سے یہ خیال مظبوط ہوتا ہے کہ رائل جیلی کا تعلق اہم جینز پر میتھائی لیشن میں تبدیلیوں سے ہے۔
اس مفروضے کیساتھ ماہرین نے نارمل مکھیوں کے اندر میتھائی لیشن پیٹرن کو دیکھا تو ملکہ اور کارکنوں میں یہ پیٹرن مختلف تھے۔ جب Dnmt3 کے ایکسپریشن میں کمی کی گئی تو یہ پیٹرن اسی طرح تھا جسطرح نارمل ملکہ مکھیوں کے اندر دیکھا گیا جنکو رائل جیلی لگاتار کھلائی گئی تھی۔ مصنفین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لگاتار رائل جیلی کھانے کے اثرات ڈی این اے میتھائی لیشن کے ذریعے ہوتے ہیں۔ رائل جیلی کیسے میتھائی لیشن پیٹرن میں تبدیلیاں کرتی ہے اس بارے ہماری معلومات میں کافی خلا موجود ہیں۔ کسی جین کے ایکسپریشن کی سطح میں تبدیلی اس جین کی ایپی جینیٹک ترامیم کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک جین کو جتنا زیادہ آن کیا جاتا ہے اس کے ہسٹونز کو ان طریقوں سے تبدیل کیا جاتا ہے جو جین کے ایکسپریشن کو فروغ دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی شہد کی مکھیوں میں بھی ہو سکتا ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ڈی این اے میتھائی لیشن سسٹم اور ہسٹون موڈیفیکیشن سسٹم اکثر مل کر کام کرتے ہیں۔ اس نے شہد کی مکھی کی نشوونما اور سرگرمی کے کنٹرول میں ہسٹون میں ترمیم کرنے والے اینزائمز کے کردار میں دلچسپی پیدا کی ہے۔ جب شہد کی مکھی کے جینوم کو ترتیب دیا گیا تو چار ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز انزائمز کی نشاندہی کی گئی۔ یہ دلچسپ تھا کیونکہ یہ کچھ عرصے سے مشہور ہے کہ رائل جیلی میں ایک کمپاؤنڈ ہوتا ہے جسے فینائل بٹیریٹ کہتے ہیں۔ یہ بہت چھوٹا مالیکیول ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز کو روک سکتا ہے لیکن یہ کمزور طریقے سے کرتا ہے۔ 2011 میں ، ہیوسٹن میں ایم ڈی اینڈرسن کینسر سینٹر سے ڈاکٹر مارک بیڈفورڈ کی قیادت میں ایک گروپ نے رائل جیلی کے ایک اور جزو پر ایک دلچسپ سٹڈی شائع کی۔ اس مقالے کے دوسرے سینئر مصنفین میں سے ایک پروفیسر جین پیئر عیسٰی تھے ، جو کینسر کے علاج کے لیے ایپی جینیٹک ادویات کے استعمال کو فروغ دینے میں بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
محققین نے رائل جیلی میں موجود ایک کیمیکل 10HDA کاجائزہ لیا۔ ساہا اور اس کیمکل کی ساخت میں مماثلت موجود ہے۔ مارک بیڈفورڈ اور انکے ساتھیوں نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ 10HDA ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز کا انہبیٹر ہے۔ انہوں نے کئی ٹیسٹ ٹیوب اور سیل تجربات کیے اور ظاہر کیا کہ واقعی ایسا ہی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم جانتے ہیں کہ رائل جیلی میں پایا جانے والا ایک بڑا مرکب ایپی جینیٹک انزائمز کی ایک کلیدی کلاس کو روکتا ہے۔
بھلکڑ مکھی اور بہترین ٹول باکس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاروے کو کارکن بننا ہے یا ملکہ ایپی جینیٹکس شہد کی مکھیوں کو اس سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ریسزارڈ ملیسزکا نے یہ بھی بتایا کہ ڈی این اے میتھائی لیشن اس میں بھی کردار ادا کرتی ہے کہ شہد کی مکھیاں کسیے یادوں کو پروسس کرتی ہیں۔ جب ایک شہد کی مکھی پولن اور رس کا بڑا ذخیرہ دریافت کرلیتی ہے تو وہ چھتے میں واپس جاتی ہے تاکہ باقیوں کو اس شاندار ذخیرے کے بارے آگاہ کرے۔ یہ انکے بارے ہمیں ایک اہم بات بتاتا ہے کہ شہد کی مکھیاں معلومات کو یاد رکھ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے ورنہ وہ دوسری مکھیوں کو بتا نہیں سکیں گی۔ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ یہ مکھیاں پرانی یادوں کو بھول کر انکی جگہ نئی یادیں بنا سکیں۔ ورنہ ایک ایسے پھولوں کے باغ کے بارے میں ساتھیوں کو بتانے کا کیا فائدہ جو پچھلے ہفتے تک تو جوبن پر تھا مگر دو دن پہلے کسی گدھے کی بھوک کا شکار بن گیا۔ مکھیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ پچھلے ہفتے کے پھولوں کے بارے بھول جائیں اور نئے ذخیرے کا رستہ یاد کریں۔
یہ اصل میں ممکن ہے کہ شہد کی مکھیوں کو تربیت دی جائے تاکہ وہ کھانے سے وابستہ بعض محرکات کا جواب دے سکیں۔ ڈاکٹر ملیزکا اور اس کے ساتھیوں نے دکھایا کہ جب مکھیاں اس تربیت سے گزرتی ہیں تو شہد کی مکھیوں کے دماغ کے ان حصوں میں Dnmt3 پروٹین کی سطح بڑھ جاتی ہے جو کہ سیکھنے میں اہم ہیں۔ اگر شہد کی مکھیوں کا علاج ایک ایسی دوا سے کیا جاتا ہے جو Dnmt3 پروٹین کو روکتی ہے تو کمپاؤنڈ شہد کی مکھیوں کی یادوں کو برقرار رکھنے کے طریقے کو تبدیل کرتا ہے اور اس رفتار کو بھی جس سے یادیں کھو جاتی ہیں۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ شہد کی مکھی کی یاد میں ڈی این اے میتھائیلیشن اہم ہے ہم نہیں جانتے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ جب شہد کی مکھیاں نئی یادیں سیکھتی ہیں اور حاصل کرتی ہیں تو کون سے جین میتھائیلیٹڈ ہو جاتے ہیں۔
اب تک ، ہمیں یہ سوچنے کے لیے معاف کیا جا سکتا ہے کہ شہد کی مکھیاں اور اعلی حیاتیات ، بشمول ہم اور ہمارے ممالیہ رشتہ دار سب اسی طرح ڈی این اے میتھائیلیشن کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر درست ہے کہ ڈی این اے میتھائیلیشن میں تبدیلیاں انسانوں اور شہد کی مکھیوں میں ترقیاتی عمل میں تبدیلی سے وابستہ ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ میملز اور شہد کی مکھیاں دونوں میموری پروسیسنگ کے دوران دماغ میں ڈی این اے میتھائیلیشن استعمال کرتے ہیں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اور ممالیہ جانور ڈی این اے میتھائیلیشن کو بہت مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑھئی کے پاس اپنے ٹول باکس میں آری ہے اور اسے کتابوں کی الماری بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایک آرتھوپیڈک سرجن کے پاس آپریٹنگ ٹرالی پر آری ہے اور اسے ٹانگ کاٹنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی اوزار بہت مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ممالیہ جانور اور شہد کی مکھیاں دونوں ڈی این اے میتھائیلیشن کو بطور آلہ استعمال کرتے ہیں لیکن ارتقاء کے دوران انہوں نے اسے بہت مختلف طریقے سے استعمال کیا ہے۔
جب ممالیہ جانور ڈی این اے کو میتھائلیٹ کرتے ہیں وہ عام طور پر جینز کے پروموٹر علاقوں کو میتھائلیٹ کرتے ہیں نہ کہ وہ حصے جو امینو ایسڈ کوڈ کرتے ہیں۔ ممالیہ جانورو دہرائے گئے ڈی این اے عناصر اور ٹرانسپوزین کو بھی میتھائلیٹ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ایما وائٹلا کے کام میں دیکھا ہے کہ ممالیہ جانوروں میں ڈی این اے میتھائیلیشن کا تعلق جین کے ایکسپریشن کو بند کرنے اور ٹرانسپوزون جیسے خطرناک عناصر کو بند کرنے سے ہوتا ہے جو دوسری صورت میں ہمارے جینوم میں مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
شہد کی مکھیاں ڈی این اے میتھیلیشن کو بالکل مختلف طریقے سے استعمال کرتی ہیں۔ وہ دہرائے گئے علاقوں یا ٹرانسپوسون کو میتھائلیٹ نہیں کرتی ہیں۔ لہذا ان کے پاس ممکنہ طور پر ان ممکنہ پریشان کن عناصر کو کنٹرول کرنے کے دوسرے طریقے ہیں۔ وہ جین کے پروموٹر علاقوں کی بجائے امینو ایسڈ کو انکوڈ کرنے والے جینز کے حصوں میں سی پی جی سائٹس کو میتھائیلیٹ کرتی ہیں۔ شہد کی مکھیاں جینز کو آف کرنے کے لیے ڈی این اے میتھائیلیشن کا استعمال نہیں کرتی ہیں۔ ان میں ڈی این اے میتھائیلیشن ان جینز پر پایا جاتا ہے جو تمام ٹشوز میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان جینز پر بھی جن کا ایکسپریشن مختلف کیڑوں کی انواع میں ہوتا ہے۔ ڈی این اے میتھائیلیشن شہد کی مکھی کے ٹشوز میں فائن ٹیوننگ میکانزم کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ جین کی سرگرمی کو ماڈیول کرتا ہے، والیم کو تھوڑا سا اوپر یا نیچے موڑ دیتا ہے نہ کہ آن آف سوئچ کے طور پر کام کرتا ہے۔ ڈی این اے میتھائیلیشن کے پیٹرن شہد کی مکھیوں کے ٹشوز میں ایم آر این اے سپلائسنگ کے کنٹرول کے ساتھ بھی مضبوطی سے منسلک ہیں۔ تاہم ہم ابھی تک نہیں جانتے ہیں کی ایپی جینیٹک ترمیم دراصل کسطرح ایک پیغام کے پروسیس ہونے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔
ہم ابھی شہد کی مکھیوں میں ایپی جینیٹک ریگولیشن کی باریکیوں کو کھولنا شروع کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ، شہد کی مکھی جینوم میں 10،000،000 سی پی جی سائٹس ہیں ، لیکن ان میں سے 1 فیصد سے بھی کم کسی بھی ٹشو میں میتھائلیٹڈ ہیں۔ بدقسمتی سے میتھائیلیشن کی یہ کم مقدار اس ایپی جینیٹک ترمیم کے اثرات کا تجزیہ کرنا بہت مشکل بنا دیتی ہے۔ Dnmt3 ناک ڈاؤن کے اثرات سے پتہ چلتا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی نشوونما میں ڈی این اے میتھائیلیشن بہت اہم ہے۔ لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ ڈی این اے میتھائیلیشن اس نوع میں ایک فائن ٹیوننگ میکانزم ہے یہ ممکن ہے کہ Dnmt3 ناک ڈاؤن کے نتیجے میں نسبتاً بڑی تعداد میں جینز میں انفرادی طور پر معمولی تبدیلیاں آئیں بجائے اس کے کہ کچھ میں ڈرامائی تبدیلیاں آئیں۔ اس قسم کی ٹھیک ٹھیک تبدیلیوں کا تجزیہ کرنا اور تجرباتی طور پر تفتیش کرنا سب سے مشکل ہے۔
شہد کی مکھیاں واحد حشرات کی نوع
نہیں ہیں جنہوں نے جینیاتی طور پر ایک جیسے افراد کے لیے مختلف شکلوں اور افعال کے ساتھ ایک پیچیدہ معاشرہ تیار کیا ہے۔ زندگی کی تاریخ میں یہ ماڈل کئی بار آزادانہ طور پر ارتقاء پذیر ہوا ہے بشمول بھڑ ، دیمک ، مکھیوں اور چیونٹیوں کی مختلف اقسام میں۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کیا ان تمام معاملات میں ایک ہی ایپی جینیٹک عمل استعمال ہوتا ہے۔ پنسلوینیا یونیورسٹی سے شیلی برجر ، جن کے ایجنگ پر کام سے ہم پہلے متعارف ہوچکے ہیں چیونٹی کی جینیات اور ایپی جینیٹکس پر ہونے والے ایک بڑے پروجیکٹ کا حصہ ہیں۔ یہ پروجیکٹ پہلے ہی دکھا چکا ہے کہ چیونٹیوں کی کم از کم دو اقسام بھی اپنے جینوم میں موجود ڈی این اے کو میتھائلیٹ کر سکتی ہیں۔ مختلف ایپی جینیٹک انزائمز کا ایکسپریشن کالونیوں میں مختلف سماجی گروہوں کے درمیان مختلف ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار عارضی طور پر تجویز کرتے ہیں کہ کالونی ممبرز کا ایپی جینیٹک کنٹرول ایک ایسا طریقہ کار ثابت ہوسکتا ہے جو معاشرتی کیڑوں میں ایک سے زیادہ بار ارتقاء پذیر ہوا ہے۔
تاہم ، ابھی تک ، ایپی جینیٹکس لیبز سے باہر کی دنیا میں سب سے زیادہ دلچسپی رائل جیلی پر مرکوز ہے ، کیونکہ اس کی ہیلتھ سپلیمنٹ کے طور پر ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ بات بتانی چاہیے کہ انسانوں میں صحت پر اسکے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ 10 ایچ ڈی اے ، جو مارک بیڈفورڈ اور اس کے ساتھیوں نے دکھایا ایک ہسٹون ڈی ایسیٹائلیز انہبیٹر ہے جو خون کی نالیوں کے خلیوں کی نشوونما کو متاثر کرسکتا ہے۔ نظریاتی طور پر یہ کینسر میں مفید ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ٹیومر مسلسل ترقی کے لیے خون کی اچھی فراہمی پر انحصار کرتے ہیں۔تاہم ہم یہ ثابت کرنے سے بہت دور ہیں کہ رائل جیلی واقعی کینسر سے لڑ سکتی ہے یا کسی دوسرے طریقے سے انسانی صحت میں مددگار ہوسکتی ہے۔ ایک چیز ہے جو ہم پہلے ہی جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اور انسان ایپی جینیٹکس کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہیں۔ جو کہ بالکل ٹھیک ہے جب تک کہ آپ بادشاہت کے واقعی بڑے پرستار نہ ہوں۔