ییسٹ ایسا جاندار ہے جس سے ہمارا واسطہ تقریباً روزانہ پڑتا ہے جب بھی آپ صبح صبح بریڈ کا سلائس کھارہے ہوتے ہیں۔ اسکا سائنسی نام سیکرومائسس کریوائسی ہے۔ یہ بریور کا ییسٹ کے نام سے مشہور ہے لیکن ہم مختصراً ییسٹ ہی کہیں گے۔ یہ ایک یک خلوی جاندار ہے لیکن کئی بنیادی پہلوؤں کے حوالے سے ہمارے جیسا ہے۔ اس کے اندر نیوکلیس موجود ہوتا ہے جوکہ بیکٹیریا میں نہیں ہوتا اور اسکی چند پروٹینز اور بائیو کیمسٹری ممالیہ جانوروں سے ملتی جلتی ہے۔ اسکے ساتھ تجربات کرنا آسان ہے۔ یہ اپنی نئی نسل بہت سادہ طریقہ سے بناتا ہے۔ ڈی این اے کی نقل تیار کی جاتی ہے اور نیا جاندار پرانے سے ایک شاخ کہ طرح پھوٹتا ہے اور الگ ہوجاتا ہے۔ یہ عمل بہت تیز ہوتا ہے اور نئے جاندار تیزی سے پیدا ہوتے ہیں اسکا مطلب ہے تجربات مہینوں کی بجائے چند ہفتوں میں کئیے جاسکتے ہیں۔ انکو لیبارٹری میں ینڈل کرنا بہت آسان ہے اور مطلوبہ جینز کے اندر میوٹیشنز بھی بآسانی پیدا کی جاسکتی ہیں۔
ییسٹ کہ ایک اہم خاصیت اسکو ایپی جینیٹک ماڈلز کیلئے پسندیدہ بناتی ہے۔ اسکے اندر ڈی این اے میتھائی لیشن نہیں ہوتی اسکا مطلب ہے اسکے اندر ہونے والے سارے ایپی جینیٹک اثرات ہسٹون ترامیم کی وجہ سے ہونگے۔ ہر بار جب ییسٹ تقسیم ہوتا ہے اور نیا خلیہ بنتا ہے تو وہ ماں کے اوپر ایک نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اس سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایک خلیہ کتنی بار تقسیم ہوچکا ہے۔ عمر کے بڑھنے کی دو اقسام ہے ریپلیکیٹو ایجنگ کے اندر ایک خلیہ مزید خلیات بناتا رہتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ مزید کاپیاں بنانے کے قابل نہیں رہتا۔ کرونولوجیکل ایجنگ میں ایک خلیہ مزید تقسیم نہیں ہوسکتا جیسے نیورونز میں ہوتا ہے۔
ریپلیکیٹو ایجنگ کو سمجھنے کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے۔ ایک انزائم جو عمل کو کنٹرول کرتا ہے Sir2 ہے اور یہ ایک ایپی جینیٹک پروٹین ہے۔ یہ انزائم ییسٹ کے اندر اس عمل کو دو طرح سے کنٹرول کرتا ہے ایک صرف ییسٹ میں خاص ہے جبکہ دوسرا ارتقائی درخت میں لگاتار ملتا ہے حتیٰ کہ انسانوں میں بھی۔ Sir2 ایک ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیشن اینزائم ہے۔ میوٹنٹ ییسٹ جسکے اندر اس اینزائم کا ایکسپریشن زیادہ ہوتا ہے عام خلیوں سے تیس فیصد لمبی عمر پاتا ہے۔ جن خلیوں میں یہ ایسکپریشن کم ہوتا ہے انکا زندگی کا دورانیہ بھی تقریباً پچاس فیصد کم ہوتا ہے۔ 2009 میں جینیٹکس اور ایپی جینیٹکس میں باثر سائنسدان یونیورسٹی آف پینسیلویلوینیا کی پروفیسر شیلی برجر اور انکی ٹیم نے ییسٹ کے حوالے سے تحقیقات شائع کیں۔ انکی تحقیقات میں بتایا گیا کہ Sir2 ہسٹون پروٹین کے ایسیاٹائلز گروپ اتار کر ایجنگ کو متاثر کرتا ہے۔ یہ نہایت اہم نتائج تھے کیونکہ Sir2 صرف ہسٹون سے ایسٹائل گروپس نہیں اٹھاتا بلکہ خلیے کے اندر ساٹھ مختلف اقسام کی پروٹینز بھی اسکا نشانہ بنتی ہیں جنکا جین ایکسپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔ پروفیسر شیلی نے ثابت کیا Sir2 صرف ہسٹون کی ڈی ایسیٹائلیشن سے ایجنگ کو متاثر کرتا ہے۔
ان نتائج نے اس فیلڈ کے اندر ماہرین کے حوصلے بلند کئیے ہیں کہ وہ درست راستے پر تھے۔ یہ اثرات صرف ییسٹ تک محدود نہیں، سی ایلیگینس ہمارے پسندیدہ کیڑے میںSir2 کا زیادہ ایسکپریشن عمر کے دورانیے میں اضافہ کرتا ہے۔ پھلوں کی مکھی میں اسکا زیادہ ایکسپریشن عمر کو ستاون فیصد بڑھا دیتا ہے۔ تو کیا یہ جین انسانوں میں بھی اہم ہے ؟ ممالیہ جانداروں میں اس جین کی سات اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے SIRT6 پر ماہرین کی توجہ مرکوز ہے جو غیر معمولی ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز ہے۔ اس حوالے سے بڑی کامیابی سٹینفورڈ سینٹر آن لانگیویٹی کی نوجوان پروفیسر کیٹرن چوا کی لیبارٹری سے ملی ہے جوکہ مشہور متنازعہ کتاب Battle hymn of the Tiger Mother کی مصنفہ ایمی چوا کی بہن ہیں۔
کیٹرن چوا نے ایسے چوہے تیار کئیے جن کے اندر SIRT6 کبھی ایکسپریس نہیں ہوئے تھے۔ پیدائش کے بعد یہ نارمل تھے مگر دو ہفتوں کے اندر انکے اندر وہ تمام علامات ظاہر ہونے لگے جو بڑھاپے سے منسلک ہیں۔ یہ علامات جلد کے نیچے سے چربی کا ختم ہونا، کمر میں جھکاؤ اور میٹابولزم میں کمی شامل ہیں۔ یہ چوہے ایک مہینے کے اندر مر گئے جبکہ عام طور پر لیبارٹری کے اندر چوہے دو سال تک زندہ رہتے ہیں۔ SIRT6 صرف دو امائینو ایسڈز میں لائیسین 9 اور لائیسین56 سے ہسٹونH3 کی ڈی ایسیٹائلیشن کرتا ہے۔ اسکے علاوہ یہ اینزائم ٹیلومیرز پر موجود ہسٹون کو ترجیح دیتا یے۔ کیٹرن چوا نے جب انسانی خلیات کے اندر سے اس جین کے ایکسپریشن کو آف کردیا تو ٹیلومیرز کو نقصان پہنچا اور کروموسومز ایک دوسرے کیساتھ جڑنے لگ گئے اور بالآخر خلیات نے اپنا فنکشن تقریباً بند کردیا۔ ان نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ SIRT6 ٹیلومیرز کی صحت کیلئے بہت اہم ہے۔ لیکن یہ اسکا واحد فنکشن نہیں ہے۔ لائیسین9 کہ ایسیٹائلیشن کا تعلق جین ایکسپریشن سے ہے جب SIRT6 اسکی ترامیم کو اتارتا ہے دوسرے انزائم اسکی میتھائی لیشن کردیتے ہیں جسکی وجہ سے جین ریپریس ہوتی ہے۔
کیٹرن چوا نے دکھایا کہ SIRT6 کی غیر موجودگی میں ایجنگ سے منسلک جینز وقت سے پہلے ہی آن ہوجاتے ہیں۔ خلیات کے اندر یہ نظام موجود ہوتا ہے جو اپنے وقت پر کام شروع کرتا ہے مگر ایک سافٹ وئیر کریش کی طرح یہ نظام وقت سے پہلے فعال ہوجاتا ہے۔ SIRT6 کے دیگر ٹارگٹ جین مدافعاتی نظام سے منسلک ہیں جو سوزش وغیرہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھی ایجنگ کیساتھ منسلک ہے کیونکہ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے مختلف بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں انکے پیچھے یہ عوامل کار فرما ہوتے ہیں جیسے دل کی مختلف بیماریاں یا آرتھرائٹس۔
ورنرز سینڈروم نامی ایک بیماری کا شکار افراد وقت سے پہلے بہت جلدی بوڑھے ہوتے ہیں۔ اسکی وجہ ایک جین کے اندر ہوئی میوٹیشن ہے جوکہ ڈی این اے کو خلیہ کی اقسام کے مطابق اپنی درست تھری ڈی شکل، مظبوط اور درست حالت میں رکھتی یے۔ اس جین سے کوڈ ہونے وی پروٹین ٹیلومیرز پر جڑتی اور تب جڑتی ہے جب لائیسن9 کے ہسٹون3 سے ایسیٹائل گروپ کو اتارا جاتا ہے۔ یہ SIRT6 کے عمر کے بڑھنے کے اندر کردار کو مزید تقویت دیتا ہے۔ SIRT6 ہسٹون پر ایسیٹائل کو اتارتا ہے تواسکو روکنے والے مالیکول (ہسٹون ڈی ایسیٹائیل انہبٹر) کیساتھ تجربات سے کیا نتائج سامنے آئیں گے؟ اگر SIRT6 بڑھاپے کو کنٹرول کرتا ہے تو ساہا جیسے انہبٹر تو اس پروسیس کو مزید تیز کردینگے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں رکنا ہوگا کیونکہ ایسی دوا سے کینسر کا علاج جو بڑھاپے کو وقت سے پہلے لے آئے کوئی اچھا خیال نہیں ہے۔
خوش قسمتی سے SIRT6 ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز انزائم کی خاص کلاس سیرٹوئنز سے تعلق رکھتے ہیں اور ساہا اس جیسی پروٹین کو نشانہ نہیں بناتی ہیں۔
کم کھاؤ زیادہ جیو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب کے دلوں میں یہ سوال موجود ہے "کیا ایسی دوا بنانے کے ہم قریب ہیں جو لمبی عمر کا باعث ہو؟"۔ ڈیٹا اس حوالے سے حوصلہ مند جواب نہیں دیتا خاص طور پر اگر ایجنگ سے منسلک میکانزم کینسر کیخلاف دفاع کا کام کرتے ہیں۔ پچاس سال تک عمر میں طوالت کی دوائیں بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر وہی دوا ہمیں کینسر کے خطرے سے دوچار کردے اور پانچ سال میں موت کے دھانے پر پہنچا دے۔ لیکن ایک طریقہ ہے جس سے زندگی کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے جو ییسٹ سے لیکر پھلوں کی مکھیوں تک سب میں مؤثر ہے۔ وہ ہے خوراک میں کمی۔
اگر آپ ایک چوہے کو اس خوراک کا صرف ساٹھ فیصد کیلوریز دیں جتنا وہ عام حالت میں کھاتا ہے تو عمر کی طوالت اور اس سے منسلک بیماریوں کے حوالے سے دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں۔ کیلوریز میں یہ کمی ابتدائی عمر سے لیکر تمام عمر چلتی رہنی چاہیے۔ ییسٹ کے اندر گلوکوز کی مقدار جو پہلے دو فیصد تھی 1/2 فیص کردینے سے زندگی کے دورانیے میں تیس فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ اس پر کافی بحث ہوتی رہتی ہے کہ کیا کیلوریز کی اس کمی کے اثرات کے پیچھے سرٹوئنز کا ہاتھ ہے یا نہیں۔ Sirt2 کو ایک کیمیکل ریگولیٹ کرتا ہے جس پر خلیہ کو دستیاب خوراک کا اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ماہرین کے خیال میں دونوں کا آپس میں تعلق ہے اور یہ پرکشش مفروضہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ Sirt2 کا عمر کی طوالت میں کردار ہے اور کیلوریز میں کمی بھی انتہائی اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ ملکر کام کرتے ہیں یا پھر الگ الگ۔ اس پر ابھی کوئی اتفاق رائے موجود نہیں۔
کیلوریز میں کمی کیسے یہ کرتی ہے یہ سوال شاید اس سے زیادہ اہم نہ لگے کہ درحقیقت یہ ایسا کررہی ہے۔ لیکن ایجنگ کے حوالے سے یہ جاننا اہم ہے کیونکہ انسانوں میں کیلوریز میں کمی کی کئی خامیاں ہیں۔ کھانا ہمارے لئے صرف توانائی نہیں بلکہ اسکے کئی ثقافتی اور سماجی پہلو ہیں۔ ان نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں کے علاوہ کیلوریز میں کمی کے نقصانات بھی ہیں۔ اس میں مسلز کا ضیاع اور جنسی خواہش میں کمی شامل ہیں۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اگر ان خامیوں کیساتھ لوگوں کو لمبے عرصے تک زندہ رہنے کو کہا جائے تو یہ کوئی پرکشش خیال نہیں ہوگا۔
یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جسکی وجہ سے 2006 میں ہارورڈ میڈیکل سکول کے ڈیوڈ سنکلیئر کے نیچر میں شائع ہونے والے پیپر نے ہنگامہ برپا کردیا۔ انھوں نے ریسوریٹرول نامی ایک کیمیکل کے چوہوں کی صحت اور بقا پر اثرات کا مطالعہ کیا۔ ریسوریٹرول پودوں میں بنتا ہے خصوصاً انگور کے اندر ۔ یہ ریڈ وائن میں پایا جاتا ہے۔ ییسٹ، سی ایلیگینس اور پھلوں کی مکھیوں کے اندر عمر کے دورانیے میں اضافے کے حوالے سے اسکے مثبت نتائج دیکھے جاچکے ہیں۔ پروفیسر اور انکے ساتھیوں نے چوہوں کو زیادہ کیلوریز کھلا کر بڑا کیا اور پھر انکو چھے ماہ تک ریسوریٹرول دیا۔ جب نتائج کا جائزہ لیا گیا تو تمام چوہے موٹے تھے لیکن ریزوراٹرال کیساتھ ٹریٹ کئے جانے والے موٹے چوہے ان موٹے چوہوں کی نسبت زیادہ صحت مند تھے جنکو یہ کیمیکل نہیں دیا گیا تھا۔ ان چوہوں کےا ندر ذیابیطس کی علامات کم تھیں، انکی حرکت بھی درست تھی اور فالتو چربی کی مقدار بھی کم تھی۔ ایک سو چودہویں ہفتے تک ریسوریٹرول والے چوہوں کے اندر موت کی شرح دوسرے چوہوں کی نسبت اکتیس فیصد کم تھی۔
ہم فوراً دیکھ سکتے ہیں کہ اس پیپر نے اتنی توجہ کیوں حاصل کی۔ اگر انسانوں میں بھی یہی اثرات حاصل کیے جاسکتے ہیں تو ، ریسوریٹرول موٹاپے سے پاک والا کارڈ ہوگا۔ جتنا چاہیں کھائیں ، جتنا چاہیں موٹے ہو جائیں اور پھر بھی لمبی اور صحت مند زندگی گزاریں۔ ہر کھانے کا ایک تہائی حصہ پیچھے نہ چھوڑیں، نہ ہی پٹھوں کی کمزوری کا شکار ہوں اور نہ ہی جنسی خواہش میں کمی کا۔ ریسوریٹرول یہ کیسے کررہا تھا ؟ اسی گروپ میں سے ایک پیپر نے یہ بتایا کہ ریسوریٹرول ایک سرٹوئنز پروٹین کو فعال کرتا ہے جوکہ Sirt1 ہے۔ یہ پروٹین شوگر اور چربی کے میٹابولزم کے حوالے سے اہم مانی جاتی ہے۔
پروفیسر سنکلیئر نے اپنی کمپنی سرٹرس فارماسیوٹکل کے نام سے قائم کی اور ریسوریٹرول کے طرح کے ساخت کے مالیکیولز کی تیاری شروع کی۔ 2008 میں گلیکسوکلائن سمتھ نے سات سو بیس ملین دیکر سرٹرس کی خدمات اور ان مالیکیولز کے پورٹفولیوز حاصل کئیے ایجنگ اور دیگر امراض کے علاج کیلئے۔ ماہرین کے نزدیک یہ معاہدہ بہت مہنگا اور مسائل سے خالی نہیں تھا۔ ایک اور کمپنی ایمجن نے ایک تحقیق شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ریسوریٹرول نے Sirt1 کو فعال نہیں کیا تھا اور یہ نتائج تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے تھے۔ اسکے بعد ایک اور دیوہیکل کمپنی فائزر کے سائنسدانوں نے بھی اسی قسم کی تحقیق شائع کی۔
بڑی دواسازی کمپنیوں کے لیے ایسے کام کو شائع کرنا دراصل بہت غیر معمولی بات ہے جو کسی دوسری کمپنی کے نتائج سے متصادم ہو۔ ایسا کرنے سےحاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو بالآخر ان ادویات کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے جنہیں وہ کامیابی کے ساتھ لانچ کرنے کا انتظام کرتے ہیں ، اور ادویات کی دریافت کے پروگرام کے ابتدائی مراحل میں کسی مدمقابل پر تنقید کرنا انہیں کوئی تجارتی فائدہ نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمجن اور فائزر دونوں اپنے نتائج کے ساتھ عوامی سطح پر گئے تھے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریسوریٹرول کی کہانی کتنی متنازعہ بن چکی تھی۔
کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ریسوریٹرول کیسے کام کرتا ہے؟ کیا سب سے اہم خصوصیت یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس کے ڈرامائی اثرات ہیں؟ اگر آپ انسانی بیماریوں کے علاج کے لیے نئی ادویات تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بدقسمتی سے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ حکام جو نئی ادویات کا لائسنس دیتے ہیں وہ کمپاؤنڈز پر بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جب وہ جانتے ہیں کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں۔ اس سے نقصان دہ اثرات کی نگرانی کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ریسوریٹرول خود بطور دوا استعمال کرنے کے لیے مثالی کمپاؤنڈ نہیں ہے۔ یہ اکثر قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیکلز کیساتھ ہوتا ہے۔ جسم میں بہتر طور پر کام کرنے کیلئے انکے اندر تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں۔ لیکن جب کام کرنے کا طریقہ ہی معلوم نہ ہو تو یہ نہیں دیکھا جاسکتا کہ جو نیا ویری اینٹ بنایا گیا ہے وہ درست پروٹین کو نشانہ بنا رہا ہے یا نہیں۔
سرٹوئنز ہسٹون ڈی ایسٹائل ایکٹیویٹرز کے حوالے سے پیش رفت دوا سازی کی صنعت کے تمام بڑے کھلاڑیوں کے لیے گہری دلچسپی کا باعث ہے۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ یہ ایپی جینیٹک موڈیفائرز ادویات کی تیاری کے لیے ایجنڈا طے کریں گے ، یا موت کی گھنٹی بجائیں گے ، خاص طور پر جس کا مقصد لمبی عمر بڑھانا یا بڑھاپے کا مقابلہ کرنا ہے۔ لہذا فی الحال ہم ابھی تک اپنے پرانے معمولات میں پھنسے ہوئے ہیں: بہت ساری سبزیاں ، کافی ورزش۔ اور ہاں بے تحاشہ کیمرا فلٹرز سے بچنے کی کوشش کریں اس سے بڑھتی عمر کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔