مجھے لگتا ہے کہ مجھے بوڑھا ہونا اتنا برا نہیں لگتا جتنا کہ مجھے موٹا اور بوڑھا ہونا برا لگتا ہے۔
(بینجیمن فرینکلن)
وقت آگے بڑھتا ہے، ہم بوڑھے ہوتے ہیں۔ یہ ناگزیر ہے. جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے ہیں ہمارے جسموں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جیسے ہم تیس کا ہندسہ عبور کرتے ہیں ہمارے لئے پہلے کی طرح جسمانی کارکردگی برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بڑھاپا ایک ایسا عمل ہے جسکو ہم بآسانی دوسرے لوگوں میں شناخت کرلیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک بچہ بھی بوڑھے اور جوان میں فرق کرسکتا ہے۔ ہم لوگوں کی عمر کی پہچان اس وجہ سے نہیں کرلیتے کہ ان کے جسموں سے کوئی ریڈیو سگنل ہمارے دماغ کو منتقل ہوریے ہوتے ہیں بلکہ اسکی وجہ بڑھاپے کی جسمانی علامات ہیں۔ یہ علامات جلد کے نیچے سے چربی کا کم ہونا، جھریاں، چہرے سے تازگی کا خاتمہ، پٹھوں کی کمزوری اور کمر میں جھکاؤ وغیرہ شامل ہیں۔
کاسمیٹک سرجری انڈسٹری کے پھیلاؤ نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ ہم بڑھاپے کو شکست دینے کی خاطر کس قدر بیتاب ہیں۔ 2010 میں انٹرنیشل سوسائٹی آف استھیٹک پلاسٹک سرجری کے شائع کئیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پچیس ممالک کے اندر سال 2009 میں پانچ لاکھ سرجریز کی گئیں۔ اور اتنی ہی تعداد میں غیر سرجیکل طریقہ کار جیسا کے بوٹوکس اور ڈرموایبریژن کئیے گئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس میں پہلی پوزیشن پر تھا اور برازیل اور چین میں دوسری پوزیشن کیلئے مقابلہ رہا۔ بطور معاشرہ ہم اس بات سے فکر مند نہیں ہوتے کہ ہم کتنے سال زندہ رہے مگر اسکے ساتھ منسلک جسمانی زوال ہمیں پریشان کرتا یے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ کینسر کے حوالے سے سب سے بڑا خطرے کا فیکٹر بڑھاپا ہے جیساکہ الزائیمر کے حوالے سے۔ صحت کے نظام میں بہتری سے زندگی کی کوالٹی اور طوالت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا بچوں کی اموات کو کم کرکے ممکن ہوا ہے۔ ویکسینیشن اسکا بڑا ہتھیار ہے۔
اس مسئلے کے اوپر ایک بڑھتی ہوئی بحث چل رہی ہے جسے بعض اوقات انسانی زندگی کی توسیع کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو زندگی کے آخری دور ، بڑھاپے کو بڑھانے سے متعلق ہے۔ انسانی زندگی کی توسیع سے مراد یہ تصور ہے کہ ہم سائنس کو استعمال کر سکتے ہیں تاکہ افراد زیادہ عمر تک زندہ رہیں۔ لیکن یہ ہمیں سماجی اور سائنسی لحاظ سے مشکل علاقے میں لے جاتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ کیوں یہ اہم ہے کہ بڑھاپا درحقیقت کیا ہے اور کیوں یہ صرف طویل عرصے تک زندہ رہنے کا ہی نام نہیں یے۔ بڑھاپے کی ایک تعریف یہ ہے " یہ ٹشو فنکشنز کے اندر بڑھتا ہوا فعالیت کا زوال ہے جو بالاخر موت کا باعث بنتا ہے". آخری منزل کی بجائے یہ فعالیت کا زوال ہے جو بہت سے لوگوں کیلئے بڑھاپے کا سب سے مایوس کن پہلو ہے۔
ایک سروے جو 2010 میں کیا گیا 605 آسٹریلوی بالغ شہریوں سے کہا گیا کہ اگر بڑھاپے کو روکنے والی کوئی دوا ایجاد ہوجاتی ہے تو کیا وہ اسکا استعمال کریں گے۔ آدھے سے زیادہ افراد کا جواب نہیں تھا۔ ان لوگوں کے مطابق کوالٹی طوالت سے زیادہ اہم ہے۔ ان کے خیال میں ایسی دوا زندگی کی کوالٹی کو بہتر نہیں کرپائیگی۔ لہٰذا بڑھاپے کے حوالےسے کسی بھی سائنسی بحث کے دو الگ الگ پہلو ہوتے ہیں، مدت حیات اور وہ بیماریاں اور مسائل جو اسکے ساتھ آتے ہیں۔ جو چیز واضح نہیں ہے وہ یہ کہ انسانوں کی حد تک ہی ان دونوں کو الگ کرنا ممکن یا معقول ہے یا نہیں۔ ایپی جینیٹک یقینی طور پر بڑھاپے میں کردار ادا کرتی ہے۔ یہ واحد فیکٹر نہیں لیکن اہم ہے۔
لیکن آخر خلیات کے اندر بڑھتی عمر کیساتھ خرابیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں جو ہمیں ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کی بیماریوں، ڈیمینشیا، کینسر وغیرہ جیسی بیماریوں کے خطرے سے دوچار کردیتی ہیں۔ ایک جواب یہ ہے کہ ہمارا بلیو پرنٹ ڈی این اے خراب تبدیلیاں جمع کرتا ہے۔ یہ سومیٹک میوٹیشنز ہوتی ہیں جوکہ ٹشوز کو نقصان پہنچاتی ہیں لیکن جرم لائن سیلز کو نہیں۔ اکثر کینسر میں ڈی این اے میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جوکہ کروموسومز کی دوبارہ ترتیب کے دوران ہوتی ہیں۔ ایک کروموسوم کا چھوٹا سا ٹکڑا کسی دوسرے کیساتھ جڑجاتا ہے۔
وابستگی کا جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ خلیہ کے پاس کئی میکانزم ہیں جو ڈی این اے بلیو پرنٹ کو درست حالت میں رکھتے ہیں۔ لیکن ایپی جینوم اس سے مختلف ہے۔ اپنی فطرت کے لحاظ سے یہ زیادہ لچکدار ہوتا ہے۔ اس لئے یہ حیرت کی بات نہیں کہ بڑھتی عمر کیساتھ ایپی جینٹک ترامیم میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ جینوم کی نسبت ایپی جینوم زیادہ تبدیل ہوتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ قدرتی طور یہ جینوم کی نسبت زیادہ تغیر پذیر ہوتا ہے۔ اسکی کچھ مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں جب ہم نے یہ دیکھا تھا کہ کسطرح جینیاتی طور ایک جیسے پیدائشی جڑواں بچے عمر کیساتھ ایپی جینییاتی طور پر مختلف ہوتے جاتے ہیں۔ محققین نے آئس لینڈ اور اتاہ سے انسانوں کی دو آبادیوں کو تحقیق کا حدف بنایا۔ ان لوگوں کے خون کے نمونوں سے ڈی این اے گیارہ اور سولہ سال کے وقفوں سے لئے گئے۔ نمونے خون کے سرخ خلیات اور سفید خلیات پر مشتمل تھے۔ سرخ خلیات ہیموگلوبن کے تھیلے ہیں جبکہ سفید خلیات انفیکشن کے خلاف دفاعی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ سفید خلیات نیوکلیس اور ڈی این اے رکھتے ہیں۔
محققین نے دیکھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے سفید خلیات کے اندر ڈی این اے میتھائی لیشن کی مجموعی سطح میں عمر کیساتھ تبدیلی آئی تھی۔ لیکن یہ تبدیلی یکساں نہیں تھی۔ کچھ لوگوں میں یہ سطح بلند ہوئی تھی تو بعض کے اندر بڑھتی عمر کیساتھ اس میں کمی واقع ہوئی تھی۔ تبدیلی کا رخ خاندان کیساتھ مخصوص تھا۔ اسکا مطلب ہے عمر کیساتھ ڈی این میتھائی لیشن کے اندر تبدیلیاں جینیاتی طور پر متاثر ہوئی تھیں یا پھر خاندان کے مشترکہ ماحولیاتی فیکٹرز سے متاثر ہوئی تھیں۔ ان ماہرین نے 1500 مخصوص سی پی جی سائٹس پر میتھائلیشن کو بھی دیکھا۔ مصنفین نے تمام ڈیٹا سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈیٹا اس تصور کو تقویت دیتا ہے جس میں عمر کیساتھ ایپی جینیٹک ترامیم میں تبدیلیاں آخری میں بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کچھ خامیاں بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے۔
دراصل اس قسم کی تحقیقات ایپی جینیٹکس اور آخری عمر میں بیماری کے درمیان تعلق کو واضح کرتی ہیں لیکن اس سے قطعی طور یہ ثا ت نہیں ہوتا کہ ایک چیز دوسری کا باعث بن رہی یے۔ سمندر میں ڈوب کر مرنے کے واقعات میں اضافہ تب دیکھنے کو ملا جب دھوپ میں استعمال کیا جانے والے لوشن کی فروخت میں اضافہ ہوا تھا۔ حقیقت میں لوشن کی فروخت میں اضافہ موسم گرم ہونے پر ہوا اور لوگ سوئمنگ کیلئے اسی موسم میں نکلتے ہیں۔ ڈوبنے کے واقعات بھی انہی دنوں زیادہ ہوئے کیونکہ لوگوں نے زیادہ تعداد میں ساحل کا رخ کیا۔ دیکھا جائے تو لوشن کی فروخت اور ڈوبنے کے واقعات میں زبردست باہمی تعلق نظر آتا ہے لیکن یہ اس وجہ سے نہیں کہ ایک چیز دوسری کا باعث بن رہی ہے۔
تو ہم جانتے ہیں کہ ایپی جینیٹک ترامیم وقت کیساتھ تبدیل ہوتی ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تبدیلیاں بڑھاپے سے متعلق بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ تھیوری میں یہ تبدیلیاں محض رینڈم ہوسکتی ہیں جنکا کوئی اثر فنکشن پر نہ ہو۔ بہت سے واقعات میں ہم یہ نہیں جانتے کہ ایپی جینٹک ترامیم کے پیٹرن میں تبدیلیاں کیا جین ایکسپریشن میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں یا نہیں۔ اس سوال کو مخاطب کرنا بہت ضروری ہے اور خاص طور پر انسانی آبادیوں میں اسکا جانچنا بہت مشکل ہے۔