تمام ڈیٹا اور ان تحقیقات کے باوجود جو ہماری اس تھیوری کو تقویت دیتے ہیں کہ " ابتدائی عمر کے واقعات کے اثرات طویل و دیرپا ہوتے ہیں". ایپی جینٹکس کی یہ فیلڈ جسکو نیورو ایپی جینیٹکس کہا جاتا ہے اسکی سب سے متنازعہ فیلڈ بھی ہے۔ اسکی ایک جھلک یہاں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ پروفیسر ایڈریان برڈ جنکو ڈی این میتھائی لیشن سائنس کا بانی تصور کیا جاتا ہے اور ایک اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ٹم بیسٹور جو اس فیلڈ کے ماہر ہیں ایک دوسرے سے ڈی این میتھائی لیشن کے پیچھے موجود سائنس پر تقریباً ہر چیز پر اختلاف رکھتے ہیں۔ کسی کانفرنس میں جائیں جہاں یہ دونوں موجود ہوں اور بہترین، پرجوش بحث سے لطف و اندوز ہوں۔ لیکن ایک چیز جس پر یہ دونوں حضرات متفق نظر آتے ہیں وہ نیوروجینیٹکس کی فیلڈ سے آنے والی رپورٹس پر شکوک وشبہات کا اظہار ہے۔
پروفیسر ایڈریان برڈ، ٹم بیسٹور اور انکے دوسرے ہم عصر اس بارے تین وجوہات کے باعث تشکیک کا شکار ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ایپی جینیٹک ترامیم اس قدر چھوٹی ہیں کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ یہ اسقدر بڑے نتائج دیتی ہیں اور انکی وجہ سے اسقدر واضح فینوٹائپس کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ انکے خیال میں صرف اس وجہ سے کہ تبدیلیاں موجود ہیں یہ ماننا صحیح نہیں ہوگا کہ انکے اثرات افعال پر ہوتے ہیں۔ ماہرین جو چوہوں کے رویوں پر تجربات کررہے ہیں وہ اسکا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ مالیکیولر بائیولوجسٹس چونکہ مصنوعی تجرباتی ماڈلز کے عادی ہوچکے ہیں جہاں مالیکیولر تبدیلیوں کو دو اور دو چار کی طرح پڑھا جاسکتا ہے اس لئے وہ ان زندہ ماڈلز پر تشکیک کا شکار ہیں جہاں نتائج اسقدر سادہ نہیں۔
تشکیک کی دوسری وجہ ایپی جینیٹک تبدیلیوں کی مقامی نوعیت ہے۔ بچوں میں سٹریس کی وجہ سے دماغ کے صرف ایک مخصوص حصہ جسیے نیوکلئس اکمبینس پر اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح ایپی جینیٹک مارکس بھی صرف کچھ جینز میں تبدیل ہوتے ہیں۔ جسکو ہم دماغ کہتے ہیں مختلف قسم کے سپیشلائزڈ سینٹرز پر مشتمل ہے جو سینکڑوں ملین سالوں کے ارتقاء کی پیداوار ہیں۔ کسی طرح سے یہ تمام الگ حصے بنتے ہیں اور ڈیولپمنٹ کے مختلف مراحل کے دوران برقرار رہتے ہیں اور واضح طور پر محرکات کو الگ الگ ریسپانس دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ٹشوز میں موجود جینز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم واقعتا نہیں جانتے کہ کسطرح ان ایپی جینیٹک تبدیلیوں کو درست نشانہ بنایا جاتا ہے اور کسطرح نیروٹرانسمٹر سے پیغامات اسکا باعث بنتے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اسطرح کے مخصوص واقعات نارمل ڈیویلپمنٹ کے دوران ہوتے ہیں تو پھر ابنارمل یا ماحولیاتی تغیر کی صورت میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ صرف اس وجہ سے کہ ہم کسی چیز کا میکانزم نہیں جانتے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہوتی نہیں ہے۔ جان گورڈن نہیں جانتے تھے کہ انڈوں کے سائٹوپلازم کسطرح نیوکلیائی کو ری پروگرام کرتے تھے لیکن اس سے انکے تجربات کے نتائج غلط نہیں ہوجاتے۔
تیسری اور غالباً سب سے اہم وجہ ڈی این اے میتھائی لیشن سے متعلق ہے۔ چوہوں کے اندر دماغ میں ٹارگٹ جین پر ڈی این اے میتھائی لیشن ممکنہ طور پر قبل از پیدائش قائم ہوجاتی ہے یقینی طور پر پیدائش کے ایک دن کے اندر۔ اسکا مطلب ہے ان تجربات کے اندر چوہوں کے بچوں نے اپنی زندگی ایک بنیادی ڈی این اے میتھائی لیشن پیٹرن کیساتھ شروع کی۔ اس پیٹرن کے اندر تبدیلی پہلے ہفتے کے اندر ہوتی ہے۔ جنکو ماں کی پوری توجہ حاصل رہی ان میں ڈی این اے میتھائی لیشن کی سطح دوسروں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ لیکن ان چوہوں کے اندر ڈی این اے میتھائی لیشن کی سطح زیادہ نہیں ہوئی بلکہ جن چوہوں کو توجہ حاصل رہی ان میں یہ سطح کم ہوئی تھی۔ یہ پیٹرن ماں سے دور رہنے والے چوہوں کے آرجنین ویسوپریسن جین اور سماجی شکست ماڈل میں کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون کے جین کے حوالے سے تھا۔
مشاہدہ کئیے گئے ہر کیس میں محرک کے ردعمل میں ڈی این اے میتھائی لیشن میں کمی واقعی ہورہی ہے۔ اور یہی مالیکیولز کی دنیا میں ایک مسئلہ ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا یہ کیسے ہورہا ہے۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ ڈی این اے کے دونوں دھاگوں میں سے ایک پر میتھائلیشن ہوتی ہے جبکہ دوسرے پر نہیں ہوتی۔ DNMT1 اینزائم ایک دھاگے کو بطور سانچہ استعمال کرتے ہوئے نئے دھاگے پر بھی میتھائل گروپ جوڑتا یے۔ ان کیسز میں ہم قیاس کرتے ہیں کہ اس انزائم کی مقدار کم ہے لہذا میتھائلیشن کی سطح کم ہے۔ اسکو پیسیو ڈی این اے میتھائی لیشن کہا جاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ نیورونز میں یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ نیورونز انتہائی سپیشلائزڈ خلیات ہیں اور یہ واڈنگٹن لینڈ سکیپ پر بہت نیچے موجود ہوتے ہیں۔ یہ اپنے ڈی این اے کی کاپی نہیں بناتے اور ان میں میتھائی لیشن اوپر بتائے گئے عمل کے ذریعے کم نہیں ہوسکتی۔ لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ نیورونز میتھائل گروپس براہ راست اتار لیتے ہوں آخر ڈی ایسیٹائلیز انزائم بھی تو ہسٹون سے ایسٹائل گروپس کو اتارتا ہے؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہسٹون ایسٹائلیشن ایسے ہے جیسے ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھ دی جائے اور وقت آنے پر دونوں کو الگ کردیا جائے مگر ڈی این اے میتھائی لیشن کی صورت میں یہ دو سیمنٹ سے جڑی اینٹوں کی طرح ہیں۔ میتھائل گروپ اور ڈی این اے کی سائٹوسین کے درمیان موجود بانڈ اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ ایک وقت تک تو خیال کیا جاتا تھا کہ اسکو توڑنا ناممکن ہے۔
2000 میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برلن میں ایک گروپ نے یہ ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے دکھایا کہ ممالیہ جانوروں کے اندر باپ کا جینوم ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران بہت زیادہ ڈی ایسیٹائلیشن کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ عمل زائیگوٹ کے تقسیم ہونے سے پہلے ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ریپلیکیشن کے عمل کے بغیر ڈی میتھائلیشن ہوتی ہے۔ اسکو ایکٹو ڈی این اے میتھائی لیشن کہا جاتا ہے۔ یہ نہ تقسیم ہونے والے خلیات میں ڈی این اے میتھائی لیشن کی اہم مثال ہے۔ شاید نیورونز کے اندر بھی ایسا کچھ ہوتا ہو۔ فی الحال اس حوالےسے ماہرین میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس مشکل کی ایک وجہ ڈی این میتھائی لیشن کے عمل میں بہت سی پروٹینز کا کردار ہے، یہ ایک لمبا پروسیس ہے جسکو اسطرح سے لیب میں کاپی کرنا مشکل ہے۔
سائلنسر کو خاموش کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اکثریت ایسے انزائم کی تلاش کررہی تھی جو ڈی این اے میتھائی لیشن کو اتار سکے۔ ایک گروپ نے اپنی توجہ الگ رخ میں کی۔ میتھائلیٹڈ ڈی این اے کے اوپر کچھ جوڑا جائے تو کیا ہوتا ؟ یہ وہ سوال تھا جس نے مشکل حل کردی۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن پر مشتمل ہائیڈروکسل گروپ کے جوڑنے سے ویسے ہی نتائج ملتے ہیں جو ڈیمیتھائلیشن سے ملتے ہیں اور اس طرح 5۔ہائیڈروکسی میتھائل سائٹوسین بنتا ہے۔ یہ کام تین مختلف انزائم کرتے ہیں TET1, TET2, TET3. میتھائل۔سائٹوسین اس حوالے سے اہم ہے کیونکہ یہ دوسری پروٹین جیساکہ MeCp2 کو کھینچتی ہے جوکہ دیگر ایپی جینیٹک ترامیم کا باعث بنتی ہے جیساکہ ہسٹون ڈی ایسٹائلیشن۔ یہ ملکر جین ایکسپریشن کو دبا دیتے ہیں۔
میتھائل گروپ سائٹو سین کیساتھ ٹینس بال پر انگور کی مانند ہے تو 5۔ہائیڈروکسی میتھائل سائٹوسین اس انگور پر مٹر کے دانے کی طرح ہے۔ اسکے جڑنے سے پروٹینز اس پر نہیں جڑ سکتی ہیں اور جین ایکسپریشن کو دبایا نہیں جاسکتا ۔ اسکے نتائج وہی ہیں جو ڈی این میتھائی لیشن کے ہیں۔ ایسا ممکن ہے جن پیپرز کے اندر ڈی این میتھائی لیشن کی کم ہوتی سطح کو دیکھا گیا وہ شاید 5.ہائیڈروکسی میتھائل سائٹوسین کی بڑھتی مقدار کی وجہ سے ہو اور ان دونوں میں فرق نہ کیا جاسکا ہو۔ ایسا ممکن ہے لیکن ابھی اس حوالے سے ٹیکنالوجی اتنی ڈیولپڈ نہیں ہے لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ اس کیمکل کی مقدار نیورونز میں اچھی خاصی ہوتی ہے۔
یاد کرو یاد کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تمام تنازعات کے باوجود دماغ کے حوالے سے ایپی جینٹکس کی فیلڈ ترقی کررہی ہے۔ ایک پرکشش فیلڈ میموری (یاداشت) کا ہے۔ ہپوکیمپس اور کورٹیکس دماغ کے وہ حصے ہیں جو یادوں کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔ کورٹیکس کا تعلق دیرپا یادوں کو محفوظ رکھنے سے ہے جبکہ ہپوکیمپس اس حوالے سے کافی پلاسٹک ہے۔ کورٹیکس کپمیوٹر کے اندر ہارڈ ڈسک کی طرح ہے جسکے اندر کئی گیگا بائٹس ڈیٹا موجود ہے جبکہ ہپوکیمپس RAM کی طرح ہے جسکا کام عارضی طور پر معلومات کو پروسیس کرکے دیرپا حفاظت کیلئے آگے بھیجنا یے۔ دماغ اپنا کام ایک جسیے خلیات کو بانٹتا ہے جو مختلف علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یاداشت کا کھونا بہت کم ہی ہمہ گیر ہوتا ہے۔ مختلف کیسز کے حساب سے یا تو شارٹ ٹرم میموری نسبتاً ضائع ہوتی ہے یا دیرپا۔ کام کی یہ بانٹ اہم ہے۔ تصور کریں اگر آپکو سب کچھ ہمیشہ کیلئے یاد رہ جائے۔ صبح پڑھی اخبار کی سرخیاں، بس سٹیشن پر ایک اجنبی کے الفاظ، آخری فون نمبر جو آپ نے ڈائل کیا یا پھر پچھلے ہفتے کینٹین پر پڑا کھانے کا مینیو۔
ہمارے میموری سسٹمز کی پیچیدگی ایک وجہ ہے کہ یہ تحقیق کیلئے کافی مشکل علاقہ ہے ، کیونکہ ایسے تجربات کو ترتیب دینا مشکل ہوسکتا ہے جہاں ہمیں مکمل یقین ہو کہ ہماری تجرباتی تکنیک میموری کے کون سے پہلوؤں پر فوکس کر رہی ہے۔ لیکن ایک چیز جو ہم یقینی طور پر جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ میموری میں جین ایکسپریشن میں طویل المیعاد تبدیلیاں شامل ہوتی ہیں ، اور جس طرح نیوران ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کرتے ہیں۔ اور یہ ایک بار پھر اس مفروضہ کی طرف جاتا ہے کہ ایپی جینیٹک میکانزم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ممالیہ جانوروں میں ، ڈی این اے میتھائی لیشن اور ہسٹون ترمیم دونوں میموری اور سیکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ چوہوں پر تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلیاں دماغ کے الگ الگ علاقوں میں بہت مخصوص جینز کو نشانہ بنا سکتی ہیں ، جیسا کہ ہم نے توقع کی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ماڈل کےا ندر ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز پروٹین ڈی این ایم ٹی 3 اے اور ڈی این ایم ٹی 3 بی کا ایسکپریشن بالغ چوہے کے ہپپوکیمپس میں بڑھتا دکھائی دیا۔ اس کے برعکس ان چوہوں کو ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز انہبیٹر کیساتھ ٹریٹ کرنے سے یاداشت کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ہپوکیمپس اور کورٹیکس بھی متاثر ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے اب واضح ٹرینڈ سامنے آرہا ہے۔ جانوروں کو ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز انہبیٹر خصوصاً ہسٹون ڈی ایسٹائل انہبیٹر کیساتھ ٹریٹ کرنے سے لرننگ اور میموری میں بہتری نظر آتی ہے۔ تو ساہا جیسی کینسر ادویات کو اس حوالے سے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ فی الحال تو مشکل ہے کیونکہ انکے سائیڈ افیکٹس موجود ہیں۔ جو کہ جان لیوا کینسر کے کیس میں تو قابل قبول لگتے ہیں لیکن یاداشت کے مسائل میں نہیں۔ اسکے علاوہ دماغ تک پہچنے میں بھی یہ ادویات اس قدر موثر نہیں۔
یہ واضح ہے کہ ابتدائی صدموں کا شکار بچوں کو جو بالغ ہوکر مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں، ایسا بننے سے روکنا ہے۔ یہ سوچنا بہت دلکش ہے کہ ہم ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایپی جینیٹک ڈرگ تھراپی استعمال کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے جن بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی یا انہیں نظرانداز کیا گیا ان کے علاج معالجے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ دراصل ان لوگوں کی نشاندہی کرنا بہت مشکل ہے جو بڑی عمر میں مسائل کا شکار ہونگے اور جو صحت من زندگی گزاریں گے۔ بچوں کو ادویات دینے کے حوالے سے بھی بہت زیادہ اخلاقی مشکلات ہیں ، جب ہم اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ ایک بچے کو واقعی علاج کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ، کلینیکل ٹرائلز اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا ادویات دراصل کوئی اچھا کام کرتی ہیں ، کئی دہائیوں تک جاری رہنے کی ضرورت ہوگی۔ جسکی وجہ سے کسی بھی دواساز کمپنی کیلیے یہ ایک مشکل پروجیکٹ بن جاتا ہے۔
لیکن ہمیں اس منفی تاثر کیساتھ اختتام نہیں کرنا چاہیے۔ ایک ایپی جینیٹک ایونٹ اور رویے کے حوالے سے ایک بہترین کہانی ہے۔ Grb10 نامی ایک جین مختلف سگنلنگ پاتھویز میں شامل ہے۔ یہ ایک امپرنٹڈ جین ہے اور دماغ صرف باپ کی طرف سے وراثت میں ملی کاپی کو ایکسپریس کرتا ہے۔ اگر ہم یہ باپ کی طرف سے آنے والی کاپی کو آف کردیں تو یہ پروٹین پیدا نہیں ہوگی۔ اسکے نتیجے میں چوہوں میں عجیب فینوٹائپ ظاہر ہوتی ہے۔ یہ چوہے پنجرے میں موجود دوسرے چوہوں کے بال ، موچھیں کتر لیتے ہیں۔ یہ ایک جارحانہ رویہ ہے اور بڑے چوہوں کیساتھ مڈبھیڑ میں یہ بھاگتے نہیں بلکہ میدان میں کھڑے رہتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے اس جین کا آف ہونا کمال ہے اور ایک دبنگ چوہا پیدا ہوتا ہے۔ تو ہونا تو یہ چاہئیے کہ یہ میوٹنٹ چوہے سب سے کامیاب ہوں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ حقیقی ماحول میں یہ چوہے ہی مار کھا رہے ہونگے۔ اسکو انسانی دنیا میں تصور کرتے ہیں۔ فرض کریں آپ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہیں اور ایک صحت مند پہلوان نما آدمی آکر آپ سے ٹکراتا یے، آپکا مشروب آپکے اوپر گر جاتا ہے۔ اگر یہ جین آف ہو تو ایسا ہی ہے جیسے آپکے پاس آپکا دوست بیٹھا ہو اور کہے کہ "بھائی پکڑ لو اسے، مزا چکھاو اسکو بھی اس حرکت کا"۔ ہم سب جانتے ہیں اگلے کچھ منٹوں میں کیا ہوگا۔ لہذا اختتام اس امپرنٹڈ Grb10 جین کی تعریف سے کرتے ہیں جو کہتا ہے " چھوڑو دوست کوئ بات نہیں، ہوجاتا ہے".