چوہوں پر ہونے والے تجربات مونٹریال میں میکگل یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل مینی اور انکی ٹیم نے کئیے۔ پروفیسر اور انکی ٹیم نے ان لوگوں کے دماغ کے نمونوں پر بھی تحقیق کی جو بدقسمتی سے خودکشی کرچکے تھے۔ ان لوگوں کے ہپوکیمپس میں کورٹیسول ریسپٹر جین کی ڈی این اے میتھائی لیشن کو دیکھا گیا۔ ڈیٹا سے پتہ چلا کہ جو لوگ بچپن کے تلخ تجربات کی تاریخ رکھتے تھے انکے اندر ڈی این میتھائی لیشن کی سطح بلند تھی جبکہ جو اسطرح کا ریکارڈ نہیں رکھتے تھے انکے اندر یہ سطح کم تھی۔
لیکن صرف بچپن میں بدسلوکی کا شکار افراد ہی خودکشی نہیں کرتے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 150 ملین افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ سالانہ 850000 افراد ڈپریشن کے باعث خودکشی کرتے ہیں۔ ڈپریشن کے موثر علاج کی طرف پہلا قدم نوے کی دہائی میں SSRIs سیلیکٹو سیروٹونین ری اپٹیک انہبیٹر نامی دوا کو لائنسس دے کر لیا گیا۔ سیروٹونین ایک نیوروٹرانسمٹر مالیکول ہے جو نیورونز کے درمیان سگنلز کا کام کرتا ہے۔ یہ کسی خوشگوار محرک کے جواب میں خارج ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار افراد کے دماغ میں سیروٹونین کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ یہ دوا سیروٹونین کی مقدار کو بڑھاتی ہے۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیروٹونین پر مشتمل دوا سے ڈپریشن کا علاج کیا جائے۔ مگر اس دوا کے استعمال سے دماغ میں سیروٹونین کی مقدار بہت جلدی بڑھتی ہے مگر سخت ڈپریشن کی انتہائی علامات ظاہر ہونے میں چار سے چھے ہفتے لگتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈپریشن کی وجہ صرف ایک خاص کیمیکل کی کمی نہیں ہے۔ اس بارے میں کافی ڈیٹا موجود ہے جو اس چیز کو سپورٹ کرتا ہے کہ ڈپریشن کے اندر دماغ میں دیرپا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جن میں سے ایک نیورونز کے آپس میں رابطوں کی تعداد میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ جوکہ ایک اور کیمیکل نیروٹروفک فیکٹرز کی مرہون منت ہے۔
اس فیلڈ کے اندر ماہرین اب صرف نیروٹرانسمٹر کی سطح پر مشتمل ماڈلز سے ہٹ کر پیچیدہ سسٹمز کے نیٹورک کو اپنا رہے ہیں جس میں نیورونز کی ایکٹیویٹی اور چند دوسرے فیکٹرز کے درمیان انٹرایکشنز شامل ہیں۔ یہ فیکٹرز سٹریس، نیروٹرانسمٹر کی پروڈکشن، جین ایکسپریشن پر اثرات اور نیورونز پر طویل مدت کے اثرات ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے سے کیسے انٹرایکٹ کرتے ہیں۔ جب تک یہ نظام توازن میں ہو دماغ صحت مند طور پر کام کرتا ہے لیکن جب اس نظام میں توازن خراب ہونا شروع ہوتا ہے تو یہ پیچیدہ نیٹورک خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسطرح دماغ کی بائیو کیمسٹری اور فنکشن اسکو صحت سے دور بیماری کے دہانے پر لاکھڑا کرتے ہیں۔ اس فیلڈ کے اندر سائنسدان اپنی توجہ ایپی جینیٹکس پر مرکوز کرنا شروع کررہے ہیں۔ اسکی وجہ ایپی جینٹکس کا طویل دیر پا جین ایکسپریشن پیٹرنز کا بنانا ہے۔
دو انسان ایک جیسی سٹریس کہ حالت میں الگ طریقے سے برتاؤ کرسکتے ہیں۔ انسانوں کی ڈپریشن کی چوہوں کے ماڈلز کے اندر نقل کی گئی اور چوہوں کے دو گروہوں کو ہلکے سٹریس کے ماحول میں رکھا گیا۔ ایک گروپ جسکو B6 کہا گیا اس کے جواب میں نارمل حالت میں رہا جبکہ دوسرا گروپ BALB پریشان دکھائی دیا۔ ہم انکو خوش اور پریشان کا نام دیے دیتے ہیں۔ ان محققین نے اپنی تحقیقات کا مرکز دماغ کے ایک حصے نیوکلیس اکمبینس کو بنایا۔ یہ حصہ جذباتی طور پر بہت اہم فنکشنز میں کردار ادا کرتا ہے جیساکہ غصہ، ڈر، خوشی اور انعام۔ محققین نے نیوکلیس اکمبینس کے اندر بہت سارے نیوروٹروفک فیکٹرز کا جائزہ لیا۔ سب سے زبردست نتائج Gdnf نامی جین نے دئیے۔ سٹریس کی وجہ سے خوش چوہوں کے اندر اس جین کا ایسکپریشن بہت زیادہ تھا جبکہ پریشان چوہوں میں سٹریس اس جین کے ایکسپریشن میں کمی کا باعث تھا۔
دونوں گروپس کے اندر پروموٹر ریجن پر ایپی جینیٹک ترامیم الگ الگ پائی گئیں۔ پریشان چوہوں کے اندر ہسٹون پر ایسیٹائل گروپس کی تعداد خوش چوہوں کی نسبت کم تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ کم ہسٹون ایسٹائلیشن کا مطلب ہے جین ایکسپریشن میں کمی۔ اس نے ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ پریشان چوہوں کے دماغ میں ایسا کیا ہوا کہ ہسٹون ایسٹائلیشن کی تعداد کم ہوئی۔ ہسٹون پر ایسٹائل گروپ جوڑنے اور اتارنے والے اینزائمز کو دیکھا گیا۔ دونوں گروپس کے اندر صرف ایک فرق تھا۔ Hdac2 نامی ایسٹائل گروپس اتارنے والا انزائم پریشان چوہوں کے اندر خوش چوہوں کی نسبت زیادہ مقدار میں موجود تھا۔
دوسرے محققین نے ایک اور قسم کے تجربات کئے جنکو سماجی شکست کا نام دیا گیا۔ ان تجربات کے اندر چھوٹے چوہوں کو بڑے ڈراؤنے چوہوں کیساتھ رکھا گیا۔ دس دن تک رکھنے کے بعد انکو اس خاصیت کی بنا پر کہ وہ کسطرح اس صدمے سے باہر نکلتے ہیں حساس اور مزاحم(مزاحمت والے) میں تقسیم کیا گیا۔ دو ہفتوں کے بعد ان چوہوں کا تجزیہ کیا گیا۔ مزحمت والے چوہوں کے اندر کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون کی مقدار نارمل پائی گئی۔ یہ وہ ہارمون ہے جو ہائپوتھیلامس سے خارج ہوتا ہے اور کورٹیسول کے اخراج کا باعث بنتا ہے جوکہ سٹریس ہارمون ہے۔ اس کے برعکس پریشان چوہوں کے اندر کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون کی مقدار زیادہ تھی جوکہ جین ایکسپریشن میں اضافے کیساتھ متواتر تھی۔ انکے اندر ڈی این اے میتھائی لیشن کی سطح کم تھی اور Hdac2 کی مقدار بھی کم تھی جوکہ کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون کے زیادہ ایکسپریشن کیساتھ فٹ بیٹھتا ہے۔
دوا کام کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹریس کے حوالے ایپی جینیٹکس کے اور بھی بہترین ثبوت موجود ہیں۔ قدرتی طور پر پریشان چوہوں میں نیوکلیس اکمبینس میں Hdac2 کی ایکسپریشن زیادہ ہوتی ہے اور Hdnf کہ ایکسپریشن کم ہوتی ہے۔ ہم ان چوہوں کو ساہا SAHA کیساتھ ٹریٹ کرسکتے ہیں. ساہا کیساتھ ٹریٹ کرنے سے Gdnf جین پر ایسیٹائلیشن میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ اس جین کے ایکسپریشن میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اہم نتیجہ یہ ہے کہ پریشان چوہے ساہا کیساتھ علاج کے بعد خوش چوہوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ہسٹون ایسٹائلیشن کے لیول کو تبدیل کرنے سے چوہوں کے رویے میں فرق آ جاتا ہے۔ یہ اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ سٹریس کے خلاف ردعمل میں ہسٹون ایسٹائلیشن بہت اہم ہے۔
سٹریس کے ردعمل میں چوہے کتنا ڈپریشن کا شکار ہوتے اسکو دیکھنے کیلئے سکروز پریفرینس ٹیسٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر چوہے میٹھے پانی کی طرف رغبت رکھتے ہیں لیکن ڈپریشن کی حالت میں یہ کم ہوجاتی یے۔ انسانوں کےا ندر اسی طرح کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے ڈپریشن کی حالت میں وہ تمام کام جو عام طور پر پر لطف ہوتے ہیں کرنے کو دل نہیں کرتا۔ خوشگوار محرک کےکے جواب میں کمزور ریسپانس اینہڈونیا کہلاتا ہے۔ جب سٹریس کا شکار چوہوں کو SSRI اینٹی ڈیپریسنٹس کیساتھ ٹریٹ کیا گیا تو میٹھے پانی کی طرف رغبت آہستہ آہستہ واپس آگئی۔ لیکن جب انکو ساہا کیساتھ ٹریٹ کیا گیا تو یہ رغبت نسبتاً جلدی واپس ائی۔ یہ صرف ان چوہوں کیساتھ خاص نہیں بلکہ وہ چوہے جنکو ماں کی توجہ نہیں ملی ان پر بھی بہترین نتائج ملتے ہیں۔ جب ایسے چوہوں کو TSA جو کہ سب سے پہلا ہسٹون ڈی ایسٹیلائزڈ انہبٹر ہے، کیساتھ ٹریٹ کیا جاتا ہے تو یہ بڑے ہوکر بہت کم سٹریس کیساتھ نارمل رہتے ہیں۔
سماجی شکست ماڈل میں جب حساس چوہوں کو SSRI کیساتھ ٹریٹ کیا گیا تو تین ہفتوں کے علاج کے بعد وہ بالکل مزاحم چوہوں کی طرح ہوگئے۔ لیکن اینٹی ڈیپریسنٹس کیساتھ علاج سے صرف دماغ کے اندر سیروٹونین کی مقدار میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون کے پروموٹر پر ڈی این اے میتھائی لیشن میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ تحقیقات سب ایک ماڈل کے ساتھ بہت مطابقت رکھتی ہیں جہاں نیورو ٹرانسمیٹرز کے فوری سگنلز اور ایپی جینیٹک انزائمز کے ذریعہ خلیات کے فنکشن پر طویل مدتی اثرات کے درمیان کراس ٹاک ہوتا ہے۔جب ڈپریشن کے مریضوں کو ایس ایس آر آئی ادویات دی جاتی ہیں تو دماغ میں سیروٹونین کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور نیورونز کو زیادہ طاقت سے سگنل دیتی ہے۔ پیراگراف کے شروع میں بیان کئے گئے ماڈل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان راستوں کو ٹرگر کرنے میں کچھ ہفتے لگتے ہیں جوکہ بالآخر خلیات کے اندر ایپی جینیٹک ترامیم کے پیٹرنز میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ مرحلہ دماغ کے عام کام کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔
شدید ذہنی دباؤ کی ایک اور دلچسپ مگر تکلیف دہ خصوصیت کی وضاحت کے لیے بھی ایپی جینیٹکس ایک معقول مفروضہ ہے۔ اگر آپ ایک بار ڈپریشن میں مبتلا ہو چکے ہیں تو ، آپ کو عام آبادی کے مقابلے میں مستقبل میں کسی وقت دوبارہ اس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ ایپی جینیٹک ترامیم کو غیر معمولی طور پر ریورس کرنا مشکل ہو ، اور نیورونز کو ایک اور دردناک حملے کے رحم و کرم پر چھوڑدیں۔