ٹیومر سپریسر جینز کو ایپی جینیٹک طریقوں سے خاموش کردیا جاتا ہے۔ اس انکشاف نے سائنسی حلقوں میں کافی جوش و خروش پیدا کیا یے۔ کیو نکہ اگر ہم کینسر خلیات میں یہ جینز دوبار آن کردیں تو مدافعت کے امکانات بڑھ جائیں گے اور بے ہنگم خلیاتی تقسیم کے آگے بند باندھا جاسکیگا۔
جب تک ان سپریسر جینز کی خاموشی کا ذمہ دار جین میوٹیشن کو سمجھا جاتا تھا تب تک ان جینز کو آن کرنے کیلئے زیادہ آپشنز موجود نہیں تھے۔ جین تھیراپی مددگار ہو سکتی ہے؟ اس پر کافی تجربات جاری ہیں مگر اس ٹیکنالوجی سے جتنی توقعات وابستہ تھیں یہ ان پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہوپائی۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں کچھ کامیابیاں ملیں مگر حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ مطلوبہ جین کو مطلوبہ خلیات تک پہنچانا مشکل ہے پھر ان جینز کو فعال کرنا اور بھی مشکل۔ اسکے علاوہ ہمارا جسم ان اضافی جینز کو اکثر ضائع کردیتا ہے۔ ایسے واقعات بھی موجود ہیں جب جین تھیراپی خود سے کینسر کا باعث بن جاتی ہے۔ بعض امراض میں جین تھیراپی ہی واحد یا بہتر علاج ہوسکتا ہے لیکن کینسر کے حوالے سے مہنگا اور غیر مؤثر ہے۔
اسی لئیے کینسر کے علاج کیلئے ایپی جینیٹک ادویات کی تیاری میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایپی جینیٹک طریقے سے خاموش کئے گئے جینز کا بنیادی بلیوپرنٹ تبدیل نہیں ہوتا اور ہم ڈی این اے میتھائی لیشن اور ایسیٹائلیشن کے خراب پیٹرن کو تبدیل کرکے اس جین کو دوبارہ فعال بناسکتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ ادویات کو لائسنس دیا گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی عالمی عجوبہ ثابت نہیں ہو پائیں۔ یا پھر ان سے تمام اقسام کے کینسر کا علاج ممکن نہیں ہوسکا۔
کیسنر کی تحقیق و علاج کے شعبے میں کام کرنے والوں کیلئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ سائنسی صحافیوں کی جانب سے اس بارے بعض اوقات واقعی مظبوط عزائم کا ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن سائنسدان کسی بارے میں کٹر رویہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں اور جس چیز پر انکا اتفاق ہے وہ یہ کہ کینسر کے بارے میں کبھی بھی کوئی ایک مخصوص علاج نہیں ہوگا۔ کیونکہ کینسر کی کوئی ایک قسم نہیں ہے۔ تقریباً سو سے زائد بیماریاں اس نام کیساتھ منسوب ہیں۔ صرف چھاتی کے کینسر کی کئی اقسام موجود ہیں۔ دو لوگ جنکا کینسر ایک جیسا نظر آتا ممکن ہے کسی دو الگ قسم کے مالیکولر عوامل کے باعث بیمار ہوں۔
ابھی تک ایپی جینیٹک ادویات ٹھوس قسم کے کینسر مثلاً چھاتی کے کینسر، بڑی آنت کا کینسر یا پروسٹیٹ کینسر کے خلاف کارآمد نہیں ہوسکی ہیں۔ اسکے برعکس یہ ان کینسر کے خلاف کارآمد پائی گئی ہیں جو ان خلیات سے پیدا ہوتے ہیں جو خون کے سفید خلیات کو بناتے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ ٹھوس کینسر کے اندر دوا مطلوبہ مقدار میں داخل نہیں ہوسکتی۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کونسا مریض کونسی نئی اینٹی کینسر دوا سے صحتیاب ہوگا۔ 5-ایزاسایٹیڈین اور ساہا کے ابتدائی لائسنس جاری ہونے کے اتنے عرصہ بعد بھی ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کیوں خاص اقسام کے کینسر میں زیادہ کارآمد ہیں اور بعض میں نہیں۔
یہ دیکھنے میں اتنی بڑی مشکل نظر نہیں آتی۔ کمپنیاں دوائیں بناکر انکو مختلف اقسام کے کینسر پر ٹیسٹ کرسکتی ہیں تاکہ کسطرح سے ادویات کو بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ اخراجات کا ہے۔ ساہا جیسی ادویات کے ٹرائلز پر کروڑوں ڈالرز کے اخراجات آتے ہیں۔ صرف قسمت پر انحصار کرنے کی بجائے اگر ہم اسطرح تجربات کرتے ہیں جن میں ہمیں زیادہ بہتر اندازہ ہو کہ کونسا مریض دوا سے زیادہ مستفید ہوگا تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔
ڈی این ایم ٹی-1 نسبتاً ایک وسیع پیمانے پر عمل کرنے والا اینزائم ہے۔ ڈی این اے میتھائی لیشن یا تو ہوتی ہے یا نہیں، ایک CpG یا تو میتھائی لیٹیڈ ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اسی طرح HDAC بھی زیادہ فرق نہیں کرتے، اگر یہ کسی ہسٹون ٹیل پر موجود لائسین تک پہنچ جاتے ہیں جس پر ایسیٹائل گروپ موجود ہو تو یہ اسکو اتار لیتے ہیں۔ لیکن ہسٹون ٹیل پر بہت سے لائسین موجود ہوتے ہیں مثال کے طور پر صرف ہسٹونH3 پر سات موجود ہوتے ہیں۔ تقریباً دس ایسے HDAC اینزائمز ہیں جنکو ساہا روکتی ہے۔ اور ایسا ہونا ممکن ہے کہ یہ دس اینزائمز ساتوں لائیسین میں سے کسی کو بھی ڈی ایسیٹائلیٹ کرسکتے ہوں۔
جیت آسان نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ تحقیقات کا رخ اب ان اینزائمز کی جانب مڑ رہا ہے جو محدود پیمانے پر عمل کرتے ہیں۔ اسکے پیچھے یہ سوچ ہے کہ ایسے ایمزائمز کی سیلولر بائیولوجی جاننا زیادہ آسان ہے۔ اور ہم یہ دیکھ سکیں گے کس قسم کے کینسر میں کونسا انزائم عمل پیرا ہے۔ اس سے یہ پیش گوئی کرنا آسان ہوجائیگا کہ کونسی دوا کس مریض پر زیادہ پراثر ثابت ہوگی۔
کونسی پروٹین پر تحقیق کی جائے؟ سینکڑوں اینزامز ہیں جو ایپی جینیٹک کوڈ کو لکھتے اور مٹاتے ہیں اور اتنی ہی پروٹینز ہیں جو اس کوڈ کو پڑھتی ہیں۔ لکھنے والے ، مٹانے والے اور پڑھنے والے اکثر آپس میں انٹرایکٹ کرتے ہیں۔ تو نئی دوا کی ایجاد کیلئے موزوں ترین امیدوار کا انتخاب کیسے کیا جائے؟
جینوم کے سب سے زیادہ دبے ہوئے علاقوں میں ڈی این اے میتھائی لیشن بہت زیادہ مقدار میں ہوتی ہے اور انتہائی کمپیکٹ ہوتی ہے۔ جینز کو نقل کرنے والے اینزائمز کی رسائی یہاں تک ممکن نہیں ہوتی۔ ڈی این اے بہت زیادہ ریپریس ہوتا ہے لیکن یہ سوال کہ ایسا کیسے ہوتا ہے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ ریپریسو ہسٹون ترامیم ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز اینزائمز کو اپنی طرف کھنچتی ہیں نتیجتاً یہ اینزامز ساتھ موجود ہسٹون پر میتھائی لیشن کرتے ہیں اور ایک سائیکل چل پڑتا ہے اور یہ علاقہ زیادہ سے زیادہ ریپریس ہوتا چلا جاتا ہے۔
تجرباتی ڈیٹا اکثر مواقع پر اس تھیوری کی تائید کرتا ہے۔ ریپریسو ہسٹون ترامیم ٹیومر سپریسر جین کے پروموٹرز پر ڈی این اے میتھائی لیشن کو کھینچ کر لاسکتی ہیں۔ مثلاً EZH2 نامی ایپی جینیٹک اینزائم ہسٹون-H3 کی پوزیشن نمبر ستائیس پر موجود لائسیین امائنو ایسڈ پر میتھائل گروپ جوڑتا ہے۔ یہ عمل جین کے ایکسپریشن کو کم کرتا ہے یعنی جینز کو آف کرتا ہے۔ لیکن کچھ ممالیہ جانداروں کے خلیات میں یہ ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز اینزائمز کو کھینچ کر بھی لاتی ہے جو نئی جگہ پر میتھائلیشن شروع کرتے ہیں اور اسطرح ڈی این اے مزید کمپریس ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ اینزائمز ایپی جینیٹک ترامیم کو اتارتے ہیں مثلاً ،LSD1 نامی اینزائم یہ کام ہسٹون-H3 کی پوزیشن نمبر چار پر کرتا ہے۔ یہ پوزیشن ستائیس کا الٹ ہے کیونکہ جب پوزیشن نمبر چار پر میتھائل گروپ نہیں ہوتے تو جینز آف ہوتا ہے۔ پوزیشن نمبر چار پر کئی پروٹینز بھی جڑتی ہیں جو ڈی این اے میتھائلں ٹرانسفریز کو کھینچ کر لاتی ہیں۔
کینسر کے اندر EZH2 اور LSD1 دونوں کا کردار بڑا اہم ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جتنا زیادہ یہ فعال ہوتے ہیں اتنا ہی کینسر زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ڈی این اے میتھائی لیشن اور ہسٹون ترامیم کے راستے آپس میں ٹکراتے ہیں۔ جب ہم 5-ایزاسائٹیڈین کسی مریض کو دیتے ہیں تو یہ تب تک یہ ڈی این اے میتھائی لیشن کو کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن دواؤں کے مضر اثرات بھی سامنے آتے ہیں اور جیسے ہی انکا استعمال بند کیا جاتا ہے۔ ہسٹون ترامیم جوکہ ابھی تک موجود ہوتی ہیں پھر سے ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز اینزائمز کو کھینچنا شروع کردیتی ہیں۔ اور ڈی این اے میتھائی لیشن ٹیومر سپریسر جینز کے ایکسپریشن کو کم کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
کچھ محققین ساہا اور 5-ایزاسائٹیڈین دونوں کیساتھ تجربات کررہے ہیں۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کامیاب ہوگا یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوپاتا تو یہ ثابت ہوگا کہ ہسٹون ایسیٹائلیشن کا کم ہونا اتنا اہم نہیں ہے بلکہ کچھ خاص ہسٹون ترامیم ہیں جو اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی اور دوا نہیں جو کسی اور ایپی جینیٹک اینزائم کو متاثر کرے لہٰذا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہوسکتاہے مستقبل میں ہمیں ڈی این ایم ٹی انہبیٹرز کی ضرورت بالکل نہ پیش آئے۔ ہسٹون ترامیم اور ڈی این اے میتھائی لیشن کے درمیان تعلق مطلق نہیں ہے۔ اگر CpG کا علاقہ میتھائلیٹڈ ہو تو نیچے موجود جینز ریپریس ہوجاتا ہے لیکن ایسے ٹیومر سپریسر جینز موجود ہیں جو بغیر میتھائی لیشن والے CpG کے نیچے موجود ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جنکے ساتھ کوئی CpG موجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ جینز پھر بھی ریپریس ہوسکتےہیں لیکن ایسا صرف ہسٹون کے اندر ترامیم کی وجہ سے ہوگا۔ اگر ہم درست ایپی جینیٹک اینزائم کا پتہ لگاسکیں جنکو انہبیٹرز کی مدد سے نشانہ بنایا جاسکے تو ہمیں ڈی این اے میتھائی لیشن کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں رہیگی۔
عارضی صلح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ٹیومر سپریسر جینز جوکہ ایپی جینیٹک طور پر خاموش کردئیے جاتے ہیں اپنے اندر کچھ خاص رکھتے ہیں؟ اسکے بارے میں دو نظریات ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ نہیں یہ کوئی خاص جینز نہیں بلکہ یہ ایک بے ترتیب عمل ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ عرصہ بعد ان جینز میں غیر معمولی طریقے سے ترمیم ہوجاتی ہے اور یہ ترمیم شدہ جینز جس خلیہ کے اندر ہوتے ہیں وہ زیادہ جلدی تقیسم ہوکر کینسر زدہ ہوجاتا ہے۔ دوسرے نظریہ کے مطابق ٹیومر سپریسر جینز جو ایپی جینیٹک طریقے سے خاموش ہوتے ہیں یہ صرف بری قسمت کا نتیجہ نہیں بلکہ ان جینز کے ایپی جینیٹک طریقے سے خاموش ہونے کے امکانات دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ حالیہ کچھ سالوں میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہماری تحقیقات زیادہ گہری ہوچکی ہیں اور ان تحقیقات نے دوسرے نظریہ کو زیادہ تقویت دی ہے۔
لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہےکہ اربوں سال کے ارتقائی عمل نے ایسے خلیاتی نظام پیدا کئیے ہیں جو ہمیں کینسر کا شکار بناتے ہیں؟ اسکو پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ زیادہ تر ارتقائی دباؤ کا تعلق اس خواہش کیساتھ ہوتا ہے کہ ایک جاندار زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرے۔ ایک انسان کے تولید کی عمر کو پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ اسکی ابتدائی ڈیولپمنٹ جسقدر ممکن بہترین طریقے سے ہو۔ جب ہم تولید کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اسکے بعد ارتقائی لحاظ سے زیادہ کچھ حاصل کرنے کو نہیں رہ جاتا۔
ارتقا کے دوران ان خلیاتی عوامل کو چنا گیا ہے جو مؤثر ابتدائی نمو اور نشوونما کو فروغ دیتے ہیں ، جس میں مختلف اقسام کے ٹشوز کی تیاری بھی شامل ہے۔ ان میں سے بہت سارے ٹشوز سٹیم سیلز کے ذخائر پر مشتمل ہوتی ہیں جو اس ٹشو سے مخصوص ہوتی ہیں۔ ہمارے جسم کو بافتوں کی نشوونما کے لئے ان کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ہم بڑھتے ہیں اور چوٹ کے بعد ٹشوز کی تخلیق نو کے لئے۔ ان ٹشوز کیساتھ مخصوص سٹیم سیلز کی قسمت اور شناخت ایپی جینیٹک ترمیم کے مخصوص پیٹرن کے ذریعہ کنٹرول کی جاتی ہے۔ جینز کے اظہار کو کنٹرول کرنے کے لئے ایپی جینیٹک ترامیم کا استعمال کرکے ، خلیات کچھ لچک برقرار رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں کسی خاص فنکشن کیلئے مخصوص خلیوں میں تبدیلی کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات کینسر کے حوالے سے ایپی جینیٹک ترمیم خلیات کو تقسیم ہوکر مزید سٹیم سیلز بنانے میں مدد کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جلد کے خلیات یا ہڈیوں کے گودے کے خلیات کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا چاہے ہم سو سال تک بھی زندہ رہیں۔
وہ ریگولیٹری نظام جو اس لچک کو برقرار رکھتے ہیں خرابی کا تعلق بھی انہی سے ہے۔ ایپی جینیٹک سسٹم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے جسم میں کچھ خلیات ایسے ہوں جو ہمیشہ ایپی جینیٹک لینڈ سکیپ کی چوٹی کے قریب موجود ہوں۔ جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پیٹر لائرڈ کی ٹیم نے ڈی این اے میتھائی لیشن کے پیٹرنز کا تجزیہ کیا خااص طور پر انہوں نے اپنی توجہ ٹیومر سپریسر جینز پر مرکوز رکھی۔ انکی تحقیقات کے نتائج کے مطابق ایسے ٹیومر سپریسر جینز جنکے ہسٹونز پر EZH2 کمپلیکس کی طرف سے میتھائی لیشن کی جاتی ہے ان میں دوسرے جینز کی نسبت غیرمعمولی میتھائی لیشن کی کثرت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ اس خیال کو تقویت پہنچاتا ہے کہ کینسر کا ایک پہلو سٹیم سیلز کے حوالے سے بھی ہے۔ اگر خلیات کو سٹیم سیلز کیا حالت کے اندر قید کردیا جائے تو یہ خطرناک ہے کیونکہ یہ اپنے جیسے مزید خلیات کے اندر تقسیم ہونے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک اور سائنسدان جین پیئری ایسا نے بڑی آنت کے کینسر میں ایپی جینیٹک طریقے سے خاموش کئیے گئے جینز کو چوکیدار کا نام دیا ہے۔ جب تک یہ جینز فعال رہتے ہیں یہ خلیات کو مخصوص حالت میں رکھتے ہیں اور ایپی جینٹک لینڈ سکیپ پر واپس جانے سے روکتے ہیں۔ کینسر کے اندر ان جینز کو آف کردیا جاتا ہے اور خلیات سٹیم سیلز جیسی حالت میں چوٹی سے تھوڑا نیچے ہمیشہ کیلئے رک جاتے ہیں۔ جب ہم ایسی کسی ڈھلان کا تصور کرتے ہیں تو یہ سوچنا مشکل ہوتا ہے کہ ایک گیند چوٹی سے لڑھک کر تھوڑا نیچے ٹھہر جائے۔ اور اگر ایسا ہو بھی تو یہ رکاوٹ ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتی اور وہ دوبارہ حرکت کرنا شروع کر دیتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیات کو کیا چیز اس حالت میں روک کر رکھتی ہے؟ 2006 میں بوسٹن میں براڈ انسٹیٹیوٹ کے ایک گروپ نے ایرک لینڈر کی سربراہی میں اس سوال کے جواب کا کچھ حصہ معلوم کرلیا۔ پلوریپوٹینٹ ای ایس خلیات کے اندر کچھ جینز کے اندر عجیب سے ہسٹون ترامیم کے پیٹرن موجود تھے۔ یہ جینز خلیات کے مخصوص پن یا پلوریپوٹینسی کے حوالے سے اہم تھے۔ ہسٹون کی پوزیشن نمبر چارH3K4 اور ستائیس H3K27 دونوں کے اوپر میتھائی لیشن موجود تھی جوکہ عام طور پر بالترتیب جین ایکسپریشن کے آن اور آف ہونے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ کون سی ترمیم زیادہ مضبوط ثابت ہوگی؟ کیا جینز آن ہونگے یا آف؟۔
اسکا جواب ہے دونوں یا کوئی بھی نہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اسکو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ دونوں جینز ایک خاص حالت کے اندر موجود تھیں جسکو "تیار" حالت کہا جاتا ہے۔ تھوڑی سی حوصلہ افزائی، مثال کے طور پر کلچر کنڈیشن کے اندر ایسی تبدیلی جو خلیات کو مخصوص پن کی طرف دھکیل دے اور ایک ترمیم ختم ہو جائیگی۔ ایپی جینیٹک ترمیم کے لحاظ سے جین یا تو مکمل طور پر ایکسپریس ہوجائیگا یا پھر آف ہوجائیگا۔
سٹیفن بیلن، جین پیئری ایسا اور پیٹر جونز کے بعد تیسرے انسان ہیں جنھوں نے کینسر کی ایپی جینیٹک تھیراپیز کو حقیقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے یہ واضح کیا کہ یہ تیار ہسٹون ترامیم ابتدائی کینسر سٹیم سیلز کے اندر موجود ہوتی ہیں اور ڈی این اے میتھائی لیشن پیٹرن کو ترتیب دینے میں کردار ادا کرتی ہیں۔
اور بھی عوامل ہونگے جو اپنا کردار ادا کرتے ہونگے۔ بہت سے لوگ کینسر کا شکار نہیں ہوتے چاہے جتنا لمبا عرصہ زندہ رہیں۔ کینسر کے شکار لوگوں میں کچھ ایسا ہوتا ہوگا جس سے انکے خلیات سٹیم سیلز حالت کے اندر قید ہوکر رہ جاتے ہوں۔ ماحول کے اثرات بھی کینسر کے حوالے سے کافی اہم ہیں۔ ہم جانتے ہیں تمباکو نوشی میں مبتلا لوگوں میں اسکے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ یہ ماحولیاتی عوامل کیسے ایپی جینیٹک عوام کیساتھ انٹرایکٹ کرتے ہیں۔
کینسر کے علاج کیلئے نئی نسل کی ایپی جینیٹک ادویات کی تیاری کے حوالے سے بہت کچھ ہے جسکو سمجھنے کی ہمیں ابھی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کونسی دوا کس بیماری کے اندر مؤثر ثابت ہوگی اور کونسا مریض زیادہ فائدے حاصل کریگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پہلے ہی یہ معلوم کرلیں تاکہ بڑی تعداد میں کلینیکل ٹرائلز چلاتے وقت ہمیں امید کے سہارے نہ رہنا پڑے۔ کم از کم 5-ایزا سائٹیڈین اور ساہا نے ہمیں یہ امید دی ہے کہ کینسر میں ایپی جینیٹک تھراپی ممکن ہے ، گوکہ ابھی بہتری کی ضرورت ہے۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے یہ ایپی جینیٹک مسائل صرف کینسر تک محدود نہیں ہیں۔ اور بھی بہت سے میدان ہیں جہاں ہمیں ابھی ایپی جینیٹک خرابیوں کے بارے جاننے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک بڑا میدان نفسیاتی امراض ہیں۔