(if something can go wrong, it usually will)
لیکن اگر نان کوڈنگ آر این اے اس قدر اہم ہیں تو یقیناً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض اوقات انکے اندر خرابی سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ امپرنٹنگ اور ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت کے علاوہ کیا ایسی مثالیں کثیر تعداد میں نہیں ہونی چاہئے جہاں نان کوڈنگ آر این اے کی پروڈکشن یا ایکسپریشن میں خرابی سے طبی مسائل جنم لیتے ہوں۔؟ اسکا جواب ہاں اور نہیں دونوں ہیں۔ کیونکہ یہ نان کوڈنگ آر این اے زیادہ تر ریگولیٹری مالیکولز ہوتے ہیں اور انکے اندر خرابی سے نسبتاً دقیق اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ تجرباتی طور یہ مسئلہ پیدا کرتے ہیں کیونکہ جینیاتی سکرینز پروٹین کے اندر میوٹیشن سے پیدا ہونے والی بنیادی فینوٹائپس کی ہی نشاندہی کرسکتی ہیں اور زیادہ دقیق اثرات کیلئے فائدہ مند نہیں ہوتیں۔
ایک چھوٹا آر این اے جو BC1 کہلاتا ہے چوہوں کے نیورونز میں ایکسپریس ہوتا ہے۔ جب منسٹر یونیورسٹی جرمنی کے اندر محققین نے اس آر این اے کو حذف کردیا تو چوہے بظاہر صحت مند تھے۔ لیکن جب انھوں نے جانوروں کو کنٹرول ماحول سے قدرتی ماحول میں منتقل کیا تو وہاں واضح ہوا کہ میوٹیشن کے حامل چوہے صحت مند چوہوں کہ طرح نہیں تھے۔ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو دریافت کرنے سے کترا رہے تھے اور پریشان تھے۔ اگر انکو صرف پنجروں میں چھوڑ دیا جاتا تو ہم کبھی بھی BC1 نان کوڈنگ آر این کے ضیاع کے اثرات کو نہ دیکھ پاتے۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کیسے دیکھتے ہیں۔
نان کوڈنگ آر این اے کے طبی حالات پر اثرات سائنسدانوں کی توجہ حاصل کررہے ہیں۔ بھیڑ کی ایک نسل ہے جسے ٹیکسل کہا جاتا ہے اور یہ کافی موٹی ہوتی ہے۔ ٹیکسل اپنے وافر گوشت کیلئے مشہور ہے جوکہ خوراک کی غرض کیلئے پالے جانے والے جانوروں کیلئے ایک اچھی چیز ہے۔ اس بھیڑ کی یہ بڑی جسامت کے بارے خیال ہے کہ یہ ایک مخصوص جین کے 3`UTR کی بائنڈنگ سائٹ میں تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ اس جین سے کوڈ ہونے والی پروٹین مائیوسٹیٹن کہلاتی ہے اور یہ عام طور پر پٹھوں کی گروتھ کو سست کردیتی ہے۔
ٹوریٹس سینڈروم ایک نیورولوجیکل بیماری ہے جس میں مریض غیرشعوری ہییجانی حرکات کرتا ہے۔ اس بیماری کا شکار دو الگ الگ مریضوں کے اندر ایک ہی SLITRK1 نامی جین کے 3`UTR میں ایک واحد بیس کہ تبدیلی دیکھی گئی۔ SLITRK1 کے بارے خیال ہے کہ یہ عصبی ڈیولپمنٹ کیلئے ضروری ہے۔ مریضوں میں بیس کی تبدیلی سے ایک بائنڈنگ سائٹ شامل ہوجاتی ہے جوکہ ایک نان کوڈنگ آر این miR-189 کیلئے ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بائنڈنگ سے ڈیولپمنٹ کے ایک اہم نکتے پر اس جین کا ایکسپریشن کم کیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے ہم ایک تھیوری کا ذکر کرچکے ہیں کہ انسانوں میں بڑھتی دماغی پیچیدگی اور ذہانت کا تعلق نان کوڈنگ آر این سے ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ، ہم یہ پیش گوئی کرسکتے ہیں کہ دماغ خاص طور پر نان کوڈنگ آر این اے کی سرگرمی اور افعال میں نقائص کا شکار ہوسکتا ہے۔ درحقیقت ، سابقہ پیراگراف میں ٹوریٹس کے کیسز ایسے منظر نامے کی ایک دلچسپ جھلک پیش کرتے ہیں۔
انسانوں کے اندر ایک بیماری جسکو ڈیجورج سینڈروم کیاجاتا ہے اس میں کرومو سوم نمبر بائیس کی جوڑی میں سے ایک سے تیس لاکھ بیس پیئرز پر مشتمل حصہ غائب ہوتا ہے۔ اس حصے کے اندر پچیس جینز موجود ہوتے ہیں جسکی وجہ سے اس بیماری کا شکار افراد میں مختلف اعضاء میں خرابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ڈیجورج سینڈروم کا شکار چالیس فیصد افراد کو دورے پڑتے ہیں اور پچیس فیصد میں شیزوفرینیا کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ درمیانے درجے کی دماغی خرابی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ تیس لاکھ بیس پیئرز کے اس حصے میں مختلف جینز بیماری کے مختلف پہلوؤں کےلئے ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے ایک جین DGCR8 ہے جوکہ مائکرو آر این اے کی عمومی پیداوار کے لئے اہم ہے۔ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ چوہے تیار کئیے گئے جن کے اندر DGCR8 کی صرف ایک فعال کاپی موجود تھی۔ان چوہوں میں دماغی مسائل پیدا ہوگئے جن میں سیکھنے میں کمی شامل تھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مائکرو آر این اے پروڈکشن نیورولوجیکل فنکشن کیلئے اہم ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ نان کوڈنگ آر این اے خلیاتی پلوریپوٹینسی اور خلیاتی تفریق کیلئے اہم ہے۔ اس سے یہ مفروضہ بنانا کوئی بہت بڑی چھلانگ نہیں ہوگی کہ نان کوڈنگ آر این اے شاید کینسر میں بھی اہم ہو۔ کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں خلیات تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ خوردبین کے نیچے ٹیومر غیر تفریق شدہ (یعنی کسی فنکشن کیلئے مخصوص نہ ہونا) اور غیر منظم نظرآتا ہے۔ یہ عام صحت مند ٹشوز کے بالکل الٹ ہے۔ ہمارے پاس اب بہت کثیر تعداد میں شواہد موجود ہیں کہ نان کوڈنگ آر این اے کینسر میں کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مخصوص مائکرو آر این اے کے ضیاع یا دیگر کے حد سے زیادہ ایکسپریشن کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
کرونک لمفوسائٹک لیوکیمیا (Chronic lymphocytic leukemia) انسانوں میں پایا جانے والا عام لیوکیمیا ہے۔ اس کینسر کے تقریباً ستر فیصد کیسز میںmiR-15a اور miR-15-1 نامی نان کوڈنگ آر این اے غائب ہوتے ہیں۔ کینسر ایک ملٹی سٹیپ بیماری ہے، ایک خلیے کے اندر کافی چیزیں خراب ہوتی ہیں اسکے بعد ہی وہ سرطان زدہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بیماری کے اندر یہ نان کوڈنگ آر این اے مالیکولز بیماری کے ابتدائی مراحل میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
اسکے متبادل میکانزم یعنی کینسر میں مائکرو آر این اے کی حد سے زیادہ ایکسپریشن miR-17-92 کلسٹر ہے۔ یہ کلسٹر کافی سارے کینسرز میں حد سے زیادہ ایکسپریس ہوتا ہے۔ کافی معقول تعداد میں رپورٹس کینسر میں مائکرو آر این اے کے ابنارمل ایکسپریشن پر شائع ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ بہت سے وراثتی کینسر کے واقعات میں TARBP2 نامی جین میں میوٹیشن ہوتی ہے۔ TARBP2 پروٹین مائیکرو آر این اے کی نارمل پروسیسنگ میں شام ہوتی ہے۔ اس سے مائکرو آر این اے کے بعض انسانی کینسرز کی ابتدا اور ڈیولپمنٹ میں کردار کی تھیوری کو تقویت ملتی ہے۔
امید
۔۔۔۔۔
بہت ساری تحقیقات کی روشنی میں مائکرو آر این اے کے کینسر میں کردار کے خیال کو کافی تقویت ملی ہے۔ سائنسدان اب اس مالیکول کے کینسر کے علاج میں استعمال کے امکانات کو لیکر کافی پرجوش ہیں۔ خیال یہ ہے کہ جو مائکرو آر این اے غائب ہوں انکو دوسرے مائکرو آر این اے سے تبدیل کردیا جائے اور جو زیادہ ایکسپریس ہورہے ہوں انکے ایکسپریشن کو ختم کردیا جائے۔ امید یہ تھی کہ ایسا کینسر کے مریضوں میں مائکرو آر این اے یا انکی اقسام منتقل کرکے کیا جاسکتا ہے۔ یہ دیگر بیماریوں میں بھی کارآمد ہوسکتاہے جن میں مائکرو آر این اے کا ایکسپریشن صحیح نہیں ہوتا۔
بڑی ادویات ساز کمپنیاں اسکے اندر سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ سانوفی-ایوینٹس اور گلیکسوسمتھ کلائن دونوں نے سان ڈیاگو میں ریگولس تھراپیٹکس نامی کمپنی کے ساتھ کئی ملین ڈالر کے تعاون سے منصوبوں کا آغاذ کیا ہے۔ وہ مائکرو آر این اے کی تبدیلی یا اسکے انہبٹرز (inhibitors) کی کینسر سے لیکر مدافعاتی نظام کی بیماریوں میں استعمال کے بارے کھوج کر رہے ہیں۔
مائکرو آر این اے کی طرح کے ایک اور قسم کے مالیکولز بھی موجود ہیں جنکو siRNA یعنی سمال انٹرفیئرنگ آر این اے کہا جاتا ہے۔ یہ مائکرو آر این اے کی طرح ہی جین کے ایکسپریشن کو کنٹرول کرتے ہیں خاص طور پر میسنجر آر این اے کی تباہی۔ ایس آئی آر این اے کو تجرباتی سطح پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ انکی مدد سے تجرباتی طور خلیات میں مختلف جینز کو آف کیا جاسکتا ہے۔ اینڈریو فائیر اور کریگ میلو کو 2006 میں اس ٹیکنالوجی کو پہلی مرتبہ تیار کرنے پر فزیالوجی اور طب کے میدان میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
دوا ساز کمپنیاں ایس آر این اے کو بطور نئی ممکنہ دوا کے طور پر استعمال کرنے میں کافی دلچسپی لے رہی تھیں۔ اسی آئی آر این اے کو کسی بھی پروٹین کے ایکسپریشن کو روکنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو کسی بیماری کا باعث بنتی ہے۔ اسی سال جب فائر اور میلو کو ان کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا ، مشہور دوا ساز کمپنی میرک نے کیلیفورنیا میں سرنا تھراپیٹک کے نام سے ایس آئی آر این اے کمپنی کے لئے ایک ارب امریکی ڈالر ادا کیے تھے۔ دیگر بڑی دوا ساز کمپنیوں نے بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
لیکن 2010 میں اس میدان میں کافی پریشان کن صورتحال دیکھنے کو ملی مثلاً سوئٹزرلینڈ کی کمپنی روچے نے اعلان کیا کہ تین سالوں میں پانچ سو میلن ڈالرز اس ٹیکنالوجی پر خرچ کرنے کے باوجود وہ اس پروگرام کو بند کررہے ہیں۔ ابھی بھی کافی کمپنیاں اس میدان میں موجود ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماضی کے مقابلے میں آج ان کمپنیوں میں پریشانی زیادہ پائی جاتی ہے۔
نیوکلیک ایسڈ، جیسے ڈی این اے یا آر این اے کو اچھی دوا میں تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔ پہلے سے موجود اچھی دواؤں مثلاً آئی بوپروفین، ویاگرا، اینٹی ہسٹامین وغیرہ میں چند خصوصیات مشترک ہیں۔ آپ انکو نگل سکتے ہیں، یہ جسم میں تقسیم ہوسکتی ہیں، یہ اتنی جلدی جگر کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوسکتی، یہ خلیات تک پہنچ سکتی ہیں اور خلیات کے اندر یا باہر موجود مالیکولز تک رسائی رکھتی ہیں۔ یہ پڑھنے میں کافی سادہ چیزیں لگتی ہیں لیکن ایک دوا کی تیاری کے دوران ان کو پورا کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ کمپنیاں لاکھوں کروڑوں روپے ان چیزوں کو ٹھیک کرنے میں لگادیتی ہیں اور اسکے باوجود یہ گارنٹی نہیں دی جاسکتی کے کتنے فیصد کامیابی ملیگی۔
ایک اوسط ایس آئی آر این اے مالیکولز ایک عام دوا مثلاً آئیبوپروفین سے پچاس گنا بڑا ہوتا ہے۔ ایسی ادویات جو انجیکشن کی بجائے منہ کے ذریعے لی جاتی ہیں انکا جسامت میں چھوٹا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جتنی دوا بڑی ہوگی اسکو جسم میں مقررہ مقدار میں پہنچانا اور جلدی تباہ ہونے سے بچانا مشکل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روچے جیسی کمپنی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا پیسے اچھے طریقے سے کہیں اور لگا سکتی ہے۔ اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایس آئی آر این اے کبھی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکیگا بلکہ اسکا مطلب ہے کہ یہ بہت رسک پر مبنی کاروبار ہے۔ میسنجر آر این اے کو بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔
خوش قسمتی سے عام طور پر ہر مسئلے کے ایک سے زائد حل ہوتے ہیں اور آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ کیسے ہم پہلے ہی ایپی جینیٹک اینزائمز کو نشانہ بنانے والی ادویات سے کیسنر جیسے امراض کا علاج کررہے ہیں۔