ہمیں اس سوچ کے بارے بھی ہوشیار رہنا پڑیگا کہ سائز ہی سب کچھ ہے۔ یقیناً طویل نان کوڈنگ آر این اے خلیات کے فنکشن میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن نان کوڈنگ آر این اے کی ایک اور قسم بھی موجود ہے جو اتنی ہی اہم ہے۔ نان کوڈنگ آر این اے کی یہ قسم چھوٹی ہے اور اسکی لمبائی تقریباً بیس سے چوبیس بیس پیئرز ہوتی ہے۔ یہ ڈی این اے کی بجائے میسینجر آر این اے مالیکول کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کو سب سے پہلے ہمارے پسندیدہ کیڑے C. Elegance میں دیکھا گیا تھا۔
جیسا کہ پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ C. Elegance ایک بہترین تجرباتی ماڈل ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کیسے ہر خلیے کو نارمل طریقے سے بننا چاہئے۔ مختلف مراحل کا وقت اور ترتیب بہت مضبوطی سے منظم ہوتا ہے۔ کلیدی ریگولیٹرز میں سے ایک پروٹین ہے جسے LIN- 14 کہاجاتا ہے۔ ابتدائی ایمبریو کے مراحل کے اندر یہ جین بہت زیادہ ایکسپریس ہوتا ہے یعنی LIN-14 پروٹین بہت زیادہ بنتی ہے۔ لیکن یہ پروڈکشن کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جیسے جیسے لاروا سٹیج 1 سے سٹیج 2 کی طرف بڑھتا ہے۔ اگر اس جین کے اندر میوٹیشن ہوجائے تو کیڑے کی مختلف لاروا مراحل کا وقت غلط ہوجاتا ہے۔ اگر جین بہت لمبے عرصے کیلئے آن رہے تو کیڑا اپنے ابتدائی ڈیولپمنٹل مراحل کو دہرانا شروع کردیتا ہے۔ اگر پروٹین وقت سے پہلے ضائع ہوجائے تو کیڑا وقت سے پہلے ہی اگلے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔
دو لیبارٹریوں نے 1993 میں الگ الگ کام کرتے ہوئے واضح کیا کہ LIN-14 کے ایکسپریشن کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ غیر متوقع طور پر بنیادی چیز ایک چھوٹے نان کوڈنگ آر این اے کا LIN-14 میسینجر آر این اے کے ساتھ جڑنا تھا۔ یہ پوسٹ ٹرانسکرپشنل جین سائلنسنگ کی مثال ہے جس میں ایک میسنجر آر این اے بن تو رہا ہے لیکن اسکو پروٹین بنانے سے روک دیا جاتا ہے۔ یہ طویل نان کوڈنگ آر این اے کے جین ایکسپریشن کو کنٹرول کرنے کے طریقے سے بالکل الگ ہے۔
اس کام کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے جین کے ایکسپریشن یعنی اظہار کے ریگولیشن کے لئے ایک نئے ماڈل کی بنیاد رکھی۔ چھوٹے نان کوڈنگ آر این اے اب جینز کے ایکسپریشن کو کنٹرول کرنے کے لئے پودوں اور جانوروں کے کنگڈم میں جانداروں کی جانب سے استعمال ہونے والے ایک طریقہ کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہاں مختلف طرح کے چھوٹے چھوٹے نان کوڈنگ آر این اے ہیں ، لیکن ہم بنیادی طور پر مائکرو آر این اے (miRNA) پر توجہ مرکوز کریں گے۔
ممالیہ جانوروں کے خلیوں میں کم از کم ایک ہزار مختلف مائکرو آر این اے کی شناخت کی گئی ہے۔ یہ مائکرو آر این اے لمبائی میں تقریباً اکیس بیس کے جوڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں یا پھر بعض اوقات اس سے قدرے کم یا بڑے ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر جین ایکسپریشن کے پوسٹ ٹرانسکرپشنل جین ریگولیٹرز کے طور ہر کام کرتے ہیں۔ یہ میسنجر آر این اے کی پروڈکشن کو بند نہیں کرتے بلکہ اسکی بجائے یہ اس چیز کو تبدیل کر دیتے ہیں کہ یہ میسنجر آر این اے کیسے برتاؤ کرتا ہے۔ عام پور پر یہ ایسا میسنجر آر این اے مالیکول کے نا ٹرانسلیٹ ہونے والے 3` سرے(3`UTR) پر جڑکرکرتے ہیں۔ یہ حصہ میسنجر آر این اے میں موجود ہوتا ہے لیکن کسی امینو ایسڈ کو کوڈ نہیں کرتا۔
جب جینومک ڈی این اے کو میسنجر آر این اے بنانے کیلئے کاپی کیا جاتا ہے تو اوریجنل ٹرانسکرپٹ کافی طویل ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایگزون ( جو امینو ایسڈ کو کوڈ کرتے ہیں) اور انٹرونز ( جو امینو ایسڈ کو کوڈ نہیں کرتے ) دونوں موجود ہوتے ہیں۔ جیساکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ انٹرونز کو سپلائسنگ کے دوران کاٹ دیا جاتا ہے۔ لیکن آر این اے کے ایسے حصے ہوتے ہیں جو کہ شروع میں (5` UTR) اور آخر میں( 3´ UTR)کہلاتے ہیں جنکو نہیں کاٹا جاتا ۔ انکو میسنجر آر این اے پر باقی رکھا جاتا ہے اور یہ ریگولیٹرز کا کام کرتے ہیں۔ 3`UTR کا ایک فنکشن ریگولیٹری مالیکول خصوصاً مائیکرو آر این اے کو جوڑنا ہے۔
ایک مائکرو آر این اے کیسے میسنجر آر این اے پر جڑتا ہے اور اسکے جڑنے سے کیا ہوتا ہے۔ ایک مائکرو آر این اے اور میسنجر آر این اے کا 3`UTR تبھی آپس میں جڑتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ یہاں بیس پیئرنگ کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا ڈبل سٹرینڈڈ ڈی این اے میں ہوتا ہے۔ G اور C آپس میں جڑتی ہیں اور A اور U آپس میں جڑتی ہیں۔ ( آر این اے کے اندر T کی جگہ U موجود ہوتی ہے)۔ بنیادی حصہ مائکرو آر این اے کے اوپر دو سے آٹھ نیوکلیوٹائڈ کا ہوتا ہے۔
بعض اوقات دو سے آٹھ تک کا میچ بالکل مکمل نہیں ہوتا لیکن یہ اس قدر ہوتا ہے کہ دو مالیکولز ایک دوسرے کیساتھ جوڑی بنالیتے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں مائکرو آر این اے کا جڑنا مسنجر آر این اے کی پروٹین ٹرانسلیشن کو روک دیتا ہے۔ لیکن اگر میچ مکمل طور پر صحیح ہو جائے تو مائکرو آر این اے جڑتے ہی اپنے اوپر موجود اینزائم کی مدد سے میسنجر آر این اے کو تباہ کردیتا ہے۔ ایک اکیلا مائکرو آر این اے مالیکیول بہت سارے میسنجر آر این اے کو ریگولیٹ کرسکتا ہے۔ اس سے یہ پتہ لگانا مزید مشکل ہوجاتا ہے کہ مائکرو آر ین اے خلیے کے اندر کیا کر رہا ہے کیونکہ مختلف اقسام کے خلیات میں اور دوسری جینز جو خلیہ ایکسپرس کررہا ہوتا ہے میں اثرات بہت وسیع ہوتے ہیں۔ اسکے اثرات صرف تجرباتی سطح پر اہم نہیں ہیں بلکہ صحت کے مسائل کے لحاظ سے بھی یہ اہم ہے۔ مثلاً ان بیماریوں کے اندر جن میں کروموسومز کی تعداد نارمل سے زیادہ یا کم ہوتی ہے،انکے اندر صرف پروٹین کوڈنگ جینز کی تعداد ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ نان کوڈنگ آر این اے کی تعداد بھی درست نہیں ہوتی۔ مائکرو آر این اے کی تعداد میں فرق کے اثرات کافی وسیع ہوسکتےہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی جینوم کا 98 فیصد پروٹین کے لئے کوڈ نہیں کرتا ہے۔ کچھ مصنفین نے تو یہاں تک قیاس آرائی کی ہے کہ نان کوڈنگ آر این اے ہی وہ جینیاتی خصوصیات ہیں جنھوں نے ہومو سیپینز کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت کی ڈیولپمنٹ کو واضح کیا ہے۔
چیمپینزی ارتقائی لحاظ سے انسان کے سب سے قریبی جاندار ہیں۔ انکا جینوم 2005 میں شائع ہوا۔ ہم واضح انداز میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان اور چیمپینزی کے جینیوم میں کس قدر مماثلت ہے، کوئی ایک عدد نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ اسکے اندر کافی پیچیدگیاں موجود ہیں. اکثر پروٹینز ایک جیسی ہیں اور دونوں میں اٹھانوے فیصد ڈی این اے پروٹین کو کوڈ نہیں کرتا ۔ لیکن ایک فرق اس بات میں ہے کہ دونوں سپی شیز نان کوڈنگ آر این اے کیساتھ کیسا برتاؤ کرتی ہیں۔ عام طور پر انسان میں نان کوڈنگ آر این اے کی بناوٹ کے بعد بھی اس میں ترمیم جاری رہتی ہے اور اس عمل کو ایڈیٹنگ کہتے ہیں۔ اکثر اوقات بیس A کو بیس I کیساتھ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ I یعنی آئنوسین تینوں بیسز A, C, G کیساتھ جوڑی بناسکتی ہے۔ اس سے وہ ترتیب بدل جاتی ہے جس سے نان کوڈنگ آر این اے نے جڑنا ہوتا ہے اور اسطرح ریگولیشن ہوتی ہے۔
دوسرے پرائمیٹس میں سے کوئی بھی اسقدر مہارت کیساتھ نان کوڈنگ آر این اے کو ایڈیٹ نہیں کرتا جسطرح ہم کرتے ہیں۔ ہمارے اندر یہ ترمیم خاص طور پر دماغ میں بھی ہوتی ہے۔ یہ نان کوڈنگ آر این اے کو اس بات کے سمجنے میں بہترین معاون کرادر بنا دیتا ہے کہ کیوں اتنی زیادہ ڈی این اے مماثلت کے باوجود ہم دوسرے پرائمیٹس سے ذہنی طور پر بہت آگے ہیں۔
ہتھوڑے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں کچھ چھوٹے یا بڑے ہوتے ہیں لیکن بنیادی طور پر بہت کم ہی تبدیلیاں ہیں جن سے آپ انھیں بہتر بناسکتے ہیں۔ یہی معاملہ پروٹینز کیساتھ یے۔ مثال کے طور پر ہمیوگلوبن کو دیکھیں یہ ایک پگمنٹ ہے جو خون کے سرخ خلیوں میں موجود ہوتا ہے اور جسم میں آکسیجن کی ترسیل کرتا ہے۔ یہ بہت خوبصورتی کیساتھ پھیپھڑوں سے آکسیجن لیکر جہاں ضرورت ہو وہاں پہچانے کے عمل کیلئے ایڈاپٹ کرچکا ہے۔ آج تک کوئی بھی لیبارٹری میں ہیموگلوبن کا ایسا بدلا ہوا ورژن بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جو قدرتی پروٹین سے بہتر کام کرتا ہو۔ بدقسمتی سے ہمیوگلوبن کا ایسا مالیکول جو اصل سے کمتر ہو بنانا زیادہ آسان ہے۔ ایسا ہی سکل سیل جیسی بیماریوں میں ہوتا ہے جہاں میوٹیشن کمتر ہمیوگلوبن پیدا کرتی ہیں۔ یہی اکثریت پروٹینز کیلئے درست ہے۔ جب تک کہ کوئی بہت بڑی ڈرامائی ماحولیاتی تبدیلی واقع نہ ہو پروٹین کی ساخت میں زیادہ تر تبدیلیاں نقصان دہ ہی ہوتی ہیں۔
نئی اور بہتر پروٹینز بنانا پرانی پروٹینز کی ریگولیشنز میں تبدیلی سے زیادہ ممکن ہے ناکہ پرانی پروٹینز میں براہ راست تبدیلوں سے۔ نان کوڈنگ آر این اے کے پیچیدہ کمپلیکس کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے کہ کونسی پروٹین کس جگہ اور کس حد تک ایکسپریس ہوتی ہے۔ اور اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔
مائکرو آر این اے پلوریپوٹینسی pluripotency کے کنٹرول اور خلیاتی تفریق یعنی خلیات کے مخصوص ہونے کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ای ایس خلیات کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے کہ وہ ان حالات جس میں ان کی نشوونما ہوتی ہے اسے تبدیل کرکے دوسرے قسم کے خلیات میں تبدیل ہوسکیں۔ جب وہ مخصوص ہونا شروع کردیں تو ، یہ ضروری ہے کہ ای ایس خلیات جین ایکسپریشن کے راستوں کو بند کردیں جو عام طور پر انہیں اضافی ای ایس خلیات کی تیاری جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایک مائکرو آر این اے خاندان ہے جسے let-7 کہتے ہیں جو اس سوئچ آف عمل کےلئے ضروری ہے۔
ایک میکانزم جو let-7 استعمال کرتے ہیں وہ lin-28 نامی ایک پروٹین کی ڈاؤن ریگولیشن ہے۔ اسکا مطلب یہ lin-28 پلوریپوٹینسی کی حامی پروٹین ہے۔ اس لئیے یہ جاننا باعث حیرت نہیں ہوگا کہ lin-28 یاماناکا فیکٹرز کے طور پر کام کرسکتی ہے۔ lin-28 کی حد سے زیادہ ایکسپریشن سومیٹک یعنی جسمانی خلیات کی آئی پی ایس خلیات کی طرف ریپروگرامنگ کے امکانات کو بڑھادیتی ہے۔
اسکے مقابلے میں ایسے مائکرو آر این اے خاندان بھی ہیں جو ای ایس خلیات کو پلوریپوٹنٹ رکھتے ہیں۔ ای ایس خلیات کے اندر پلوریپوٹینسی فیکٹرز جیساکہ Oct4 اور sox2 ان مائکرو آر این اے کے پروموٹرز کیساتھ جڑے ہوتے ہیں اور انکی ایکسپریشن کو چالو کرتے ہیں۔ جیسے ہی ای ایس خلیات میں مختلف فنکشنز کیلئے مخصوص ہونا شروع ہوتے ہیں ، یہ
مائکرو آر این اے پروموٹرز سے دور ہوجاتے ہیں ، اور ایکسپریشن کروانا چھوڑ دیتے ہیں۔
جب ہم سٹیم خلیوں کا ان سے بننے والے مخصوص خلیات کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ میسینجر آر این اے کی بہت مختلف اقسام کو ایکسپریس کرتے ہیں۔ یہ معقول معلوم ہوتا ہے کہ سٹیم خلیات اور مخصوص خلیات الگ الگ پروٹینز ایکسپریس کرتے ہیں۔ لیکن کچھ میسنجر آر این اے ٹوٹنے میں بہت وقت لیتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے کے جب سٹیم خلیات الگ الگ فنکشنز کیلئے مخصوص ہونا شروع کرتے ہیں تو ایک وقت تک انکے اندر سٹیم سیلز کے میسینجر آر این اے ابھی بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس عمل کے دوران خلیات نئے مائکرو آر این اے کو ان کردیتے ہیں۔ یہ پرانے سٹیم خلیات کے میسنجر آر این اے مالیکولز کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تباہ کرتے ہیں۔ پرانے میسنجر آر این اے مالیکولز کی اس تیز رفتار تباہی کے باعث ہی یہ ممکن ہوپاتا ہے کہ خلیات بالکل الگ فنکشن کے حامل ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک اہم حفاظتی خصوصیت ہے۔ خلیوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اسٹیم سیل کی نامناسب خصوصیات کو برقرار رکھیں۔ اس میکانزم کا استعمال ان نسلوں میں بھی زیادہ ڈرامائی انداز میں کیا جاتا ہے جہاں ایمبریو کی نشوونما بہت تیز ہوتی ہے ، جیسے پھلوں کی مکھیاں یا زیبرا فش۔ ان سپی شیز میں یہ عمل یقینی بناتا ہے کہ جیسے ہی فرٹیلائزڈ انڈا پلوریپوٹنٹ زائیگوٹ میں تبدیل ہو ٫انڈے کے ذریعہ فراہم کردہ ماں کی طرف سے وراثت میں منتقل ہونے والا میسنجر آر این اے ٹرانسکرپٹ جلدی سے تباہ ہوجائے۔
مائیکرو آر این اے امپرنٹنگ کنٹرول کے ایک اہم مرحلے پرائمورڈیل جرم سیلز کی بنانے میں بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ پرائمورڈیل جرم سیلز کی تخلیق میں ایک بنیادی مرحلہBlimp1 پروٹین کی فعالیت ہے۔ یہ پروٹین ایک انزائم کو بھی ریگولیٹ کرتی ہے جوکہ ہسٹون کو میتھائی لیٹ کرتا ہے۔ اسکے علاوہ یہ PIWI نامی پروٹینز کو بھی ریگولیٹ کرتی ہے۔ PIWI ایک اور قسم کے نان کوڈنگ آر این اے کیساتھ جڑتی ہیں جسکو PIWI آر این اے کہا جاتا ہے۔ PIWI نان کوڈنگ آر این اے اور پروٹینز جسمانی خلیات میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے لیکن مردانہ جرم لائن خلیات کیلئے انکی ضرورت ہوتی ہے۔ PIWIکا مطلب ہے P element- induced wimpy testis. اگر یہ پروٹین اور PIWIنان کوڈنگ آر این اے آپس میں صحیح طرح سے انٹرایکٹ نہ کریں تو بچے میں خصیے صحیح طرح سے نہیں بنتے۔
ہم نان کوڈنگ آر این اے اور ایپی جینیٹک ایونٹس کے درمیان کراس ٹاک اور انٹرایکشن کے زیادہ سے زیادہ واقعات سے واقف ہوتے جارہے ہیں۔ یاد کیجئے کہ ٹرانسپوسونز کو عام طور پر میتھائی لیٹ کیا جاتا ہے جرم سیلز کے اندر تاکہ یہ فعال نہ ہوسکیں۔ PIWI پاتھوے اس ڈی این اے میتھائی لیشن کے اندر ملوث ہے۔ کثیر تعداد میں ایپی جینیٹک پروٹینز آر این کیساتھ انٹرایکٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جینوم میں نان کوڈنگ آر این اے کا جڑنا عام طریقہ کار کے طور پر کام کرسکتا ہے جس کے ذریعہ ایک مخصوص قسم کے خلیے میں ایپی جینیٹک ترمیم کو صحیح کرومیٹن ریجن میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حال ہی میں یہ پتہ چلا ہے کہ نان کوڈنگ آر این اے کا وراثتی خصوصیات کے لامارکیئن ماڈلز کے ذریعے منتقلی کے اندر کردار ہے۔ مثلاً چوہوں کے فرٹیلائزڈ انڈوں کے اندر ایسے مائکرو آر این اے کو ڈالا گیا جو ایک ایسے جین کو نشانہ بناتے ہیں جو دل کے ٹشوز کی گروتھ کیلئے ذمہ دار ہے۔ ان انڈوں سے بننے والے چوہوں کے اندر دیکھا گیا کہ انکے دل کی جسامت بڑی تھی اس حالت کو کارڈیک ہائپرٹروفی کہا جاتا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی وقت میں مائکرو آر این اے کے ڈالنے سے نارمل ڈولپمنٹ کے عمل پر اثر پڑا ہے۔ قابل ذکر طور پر ان چوہوں کے بچوں میں بھی کارڈیک ہائپرٹروفی کی فریکوئنسی کافی زیادہ تھی۔ چوہے کے ڈی این اے کوڈ کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی لہذا یہ مائکرو آر این اے کے ذریعے ہونے والی ایپی جینیٹک وراثتی منتقلی کی واضح مثال تھی۔