ایک بوسے کی آواز اتنی بلند نہیں ہوتی جیسے ایک توپ کی، لیکن اسکی بازگشت بہت دیر تک سنائی دیتی رہتی ہے۔ "
(اولیور وینڈیل ہومز)
خالص بائیولوجی اور خاص طور پر اناٹومی کے لحاظ سے مرد اور عورت بہت مختلف ہیں۔ اس بات پر بحث جاری ہے کہ کچھ رویے جیساکہ جارحیت اور سپیشل پروسیسنگ کا تعلق حیاتیاتی صنفی تعصب سے ہے یا نہیں۔ لیکن کچھ جسمانی خصوصیات ہیں جنکو غیر واضح طور پر جنس کیساتھ لنک کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا بنیادی فرق تولیدی اعضاء کے اندر ہوتا ہے۔ عورتوں میں اووریز جبکہ مردوں کے اندر ٹیسٹیکلز موجود ہوتے ہیں. عورتوں میں بچہ دانی اور اندام نہانی ہوتی ہے جبکہ مردوں میں عضو تناسل ہوتا ہے۔
اسکی واضح حیاتیاتی بنیاد موجود ہے اور یہ جینز اور کروموسومز تک ہے۔ انسانوں کے ہر خلیے میں تئیس کروموسومز کے جوڑے ہوتے ہیں ان میں سے ایک ماں کی طرف سے اور ایک باپ کی طرف سے منتقل ہوتا ہے۔ ان میں سے بائیس جوڑے جنکو ایک سے لیکر بائیس تک نمبر دیا گیا ہے آٹوسوم کہلاتے ہیں اور مخصوص جوڑے کا ہر ممبر بالکل ایک جیسا نظر آتا ہے۔ خلیاتی تقسیم کے دوران خاص سٹیج میں کروموسوم کے اندر ڈی این اے غیر معمولی طور مظبوطی سے ایک دوسرے کے اوپر کوائل ہوجاتا ہے۔ اگر ہم صحیح تکنیک کا استعمال کریں تو مائیکروسکوپ میں کروموسومز کو دیکھ سکتے ہیں۔ انکی تصاویر بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ ڈیجیٹل دور سے پہلے ماہر جینیات قینچیوں کی مدد سے کروموسومز کی تصویر کو کاٹ کر جوڑوں کو ترتیب دیتے تھے۔ آجکل یہ کام کمپیوٹر کی مدد سے کیا جاتا ہے اور تمام کروموسومز کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ اسکو کیریوٹائپ کہا جاتا ہے۔
کیریوٹائپئکے جائزے سے ماہرین نے اس بات کا پتہ لگایا کہ ڈاؤن سینڈروم کے شکار افراد میں کروموسوم نمبر اکیس کے تین کاپیاں ہوتی ہیں۔
اگر ہم ایک عورت کی کیریو ٹائپ بناتے ہیں تو تمام تئیس کروموسومز ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن مردوں کے کیس میں ایسا نہیں ہوتا۔ مرد کی کیریو ٹائپ میں بائیس کروموسومز ایک جیسے جبکہ تئیسواں جوڑا بالکل ایک جیسا نظر نہیں آتا۔ ایک کافی بڑا جبکہ دوسرا غیر معمولی طور پر چھوٹا ہوتا ہے۔ انکو سیکس کروموسومز کہا جاتا ہے۔ بڑے والے کروموسوم کو X اور چھوٹے والے کو Y کہا جاتا ہے۔ مردوں مے اندر نارمل کروموسوم تعداد کو 46، XY سے ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ عورتوں میں 46, XX سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
وائی کروموسوم پر فعال جینز کی تعداد کافی کم ہوتی ہے۔ تقریباً چالیس سے پچاس پروٹین کوڈنگ جینز وائی کروموسوم پر موجود ہوتے ہیں۔ جن میں سے آدھے مردوں سے مخصوص ہوتے ہیں۔ مردوں کیلئے مخصوص جینز صرف وائی کروموسوم پر ہی ہوتے ہیں لہذاٰ عورتوں کے پاس یہ جینز نہیں ہوتے۔ ان میں سے اکثر جینز تولید کے مردوں کے لئے مخصوص پہلوؤں کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ جنس کے تعین کے حوالے سے سے سب سے اہم جین SRY ہے۔ یہ جین ایمبریو کےا ندر ایک پاتھوے شروع کرتا ہے جو کہ ٹیسٹیز کی پروڈکشن کا نتیجہ بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹاسٹیرون خارج ہوتا ہے جوکہ ایمبریو کے اندر مردانہ خصوصیات پیدا کرتا ہے۔
کبھی کبھار ایسے افراد جو ظاہری خصوصیات کی بنا پر لڑکیوں جیسے دکھتے ہیں ان میں مردانہ کروموسومز Xy موجود ہوتے ہیں۔ اس صورت میں SRY جینز غیر فعال ہوتے ہیں یا پھر ختم ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے بچہ فی میل ڈیولپمنٹل پاتھوے ہر ڈیولپ ہوتا ہے۔ بعض اوقات الگ صورتحال سامنے آتی ہے جب کچھ افراد جو کہ ظاہری طور پر مردانہ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں لیکن انکے اندر عورتوں کی کیریو ٹائپ 46 XX ہوتی ہے۔ اس صورت میں باپ کے اندر سپرم بننے کے عمل کے دوران وائی کروموسوم کا ایک حصہ جس پر SRY جین موجود ہوتا ہے کسی اور کروموسوم پر منتقل ہوجاتا ہے۔ کروموسوم کا حصہ جو منتقل ہوا تھا بہت چھوٹا تھا اسئیے کیریو ٹائپ کے عمل میں نشاندہی ممکن نہیں ہوسکی۔
ایکس کروموسوم بہت مختلف ہے اور اس پر تیرہ سو کے قریب جینز موجود ہیں۔ ان میں سے کثیر تعداد میں جینز دماغ کے فنکشن میں کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سارے اووریز اور ٹیسٹیز کی بناوٹ کے مراحل میں کردار ادا کرتے ہیں اور دیگر مردوں اور خواتین میں فرٹیلیٹی کے مختلف پہلوؤں کیلئے ضروری ہیں۔
درست مقدار کا تعین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً تیرہ سو جینز جو ایکس کروموسوم پر موجود ہیں دلچسپ مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ خواتین میں دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں صرف ایک ہوتا ہے۔ اسکا مطلب ہے خواتین کے پاس ان تیرہ سو جینز کی دو دو کاپیاں موجود ہوتی ہیں جبکہ مردوں کے پاس صرف ایک کاپی ہوتی ہے۔ ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ عورتوں کے خلیات ان جینز سے جنکو ایکس لنکس جینز کہا جاتا ہے مردوں کی نسبت دگنی مقدار میں پروٹینز بناتے ہونگے۔
لیکن ڈاؤن سینڈروم جیسی بیماریوں کے متعلق ہمارا علم اسکی تائید نہیں کرتا۔ کروموسوم نمبر اکیس کی دو کہ بجائے تین کاپیاں ڈاؤن سینڈروم کا باعث بنتی ہیں۔ باقی کروموسومز کے اندر ٹرائی سومی اتنی شدید ہوتی ہے کہ ایمبریو زندہ نہیں رہ سکتا اور اس قسم کے نقائص کیساتھ کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا۔ مثلاً آج تک ایسا کوئی بچی پیدا نہیں ہوا جسکے تمام خلیات میں کرومو سوم نمبر ایک کی تین کاپیاں ہوں۔ اگر آٹوسومز کے اندر جینز کے اظہار میں پچاس فیصد اضافہ ایسے نتائج کا باعث بنتا ہے تو ہم ایکس کروموسوم کی صورتحال میں اسکو کیسے واضح کریں گے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت دگنی مقدار میں ایکس کروموسوم کی جینز کے ساتھ زندہ رہتی ہیں؟ یا پھر اسکو ایسے بھی لکھ سکتے ہیں کہ عورتوں کے مقابلے میں آدھے جینز کیساتھ مرد کیسے اپنی بقا ممکن بناتے ہیں؟
اسکا جواب یہ ہے کہ ایکس لنکس جینز کا اظہار کروموسومز کی تعداد میں فرق کے باوجود مرد اور عورت میں تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس فینومینا کو ڈوزیج کمپنسیشن کیاجاتا ہے۔ جنس کی شناخت کا ایکس وائی سسٹم جانوروں کی دوسری کلاسوں میں نہیں ہے لہذا ایکس کروموسوم ڈوزیج کمپنسیشن صرف پلیسینٹا کے حامل ممالیہ جانوروں تک محدود ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے ابتدا میں برطانوی ماہر جینیات میری لیون نے یہ تجویز کیا کہ کیسے ایکس کروموسوم پر ڈوزیج کمپنسیشن ہوتی ہے۔ اسکی پیش گوئیاں درج ذیل تھیں۔
ایک نارمل عورت کے خلیات میں صرف ایک فعال ایکس کروموسوم ہوگا۔
ایکس کروموسوم ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران غیر فعال ہوتا ہوگا۔
غیر فعال ایکس کروموسوم میٹرنل یا پیٹرنل دونوں میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ یہ غیر فعالیت کسی بھی خلیہ میں رینڈم ہوگی۔
کسی ایک سومیٹک خلیے اور اسکی نسلوں میں یہ غیر فعالیت ناقابل واپسی ہوگی۔
یہ پیش گوئیاں ناقابل یقین حد تک درست ثابت ہوئیں۔ اور اس قدر درست ثابت ہوئیں کہ بہت سی درسی کتب نے ایکس کی غیر فعالیت کو لیونیسیشن کہہ ڈالا۔ ہم ایک ایک کرکے ان پیش گوئیوں کو دیکھیں گے۔
عورتوں کے انفرادی خلیات کے اندر واقعی صرف ایک ایکس کروموسوم کے جینز فعال ہوتے ہیں اور دوسری کاپی کو بند کردیا جاتا ہے۔
ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران ہی ہوتی ہے جب ایمبریو کے اندر سیل ماس کے خلیات دیگر خلیات میں تبدیل ہورہے ہوتے ہیں۔ واڈنگٹن لینڈ سکیپ کی چوٹی کے بالکل قریب۔
اوسطاً ایک عورت کے اندر پچاس فیصد میٹرنل کروموسومز غیر فعال ہوتے ہیں۔ دوسرے پچاس فیصد خلیات میں باپ کی طرف سے آنے ولا ایکس کروموسوم غیر فعال ہوتا ہے۔
جب ایک خلیہ ایک ایکس کروموسوم کو غیرفعال کردیتا ہے تو اس خلیے سے بننے والے تمام خلیات میں وہ کرومو سوم غیرفعال ہی رہتا ہے چاہے وہ عورت سو سال سے بھی زائد کیوں نہ زندہ رہے۔
ایکس کروموسوم کسی میوٹیشن کی وجہ سے غیرفعال نہیں ہوتا بلکہ اسکا ڈی این اے ویسے محفوظ حالت میں رہتا ہے۔ غیرفعالیت سراسر ایپی جینیٹک فینومینا کی حسن کارکردگی ہے۔
ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت ایک زرخیز ریسرچ فیلڈ ثابت ہوئی ہے۔ اس غیر فعالیت کے اثرات بہت سی بیماریوں اور تھیراپیوٹک کلوننگ کیلئے اہم مضمرات کے حامل ہیں۔ لیکن میری لیون کے تاریخی کام کے پچاس سال بعد بھی کروموسوم کی غیر فعالیت کے متعلق کچھ پہیلیاں موجود ہیں جو کہ سلجھانی ہونگی۔
جتنا ہم ایکس غیرفعالیت کو کھوجتے ہیں اتنی ہی غیرمعمولی پن کیساتھ یہ ظاہر ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر غیرفعالیت ایکس کروموسوم پر موجود ہے ناکہ کسی آٹوسوم پر لہذا خلیات کے پاس ان دونوں اقسام کے کرومو سومز کے درمیان فرق کرنے کیلئے میکانزم ہونا چاہیے۔ دوسرا ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت میں صرف کچھ جینز متاثر نہیں ہوتے جیساکہ امپرنٹنگ میں ہوتا ہے۔ نہیں ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت میں ہزار سے زائد جینز کئی دہائیوں کیلئے آف کردئیے جاتے ہیں۔
ایک بزنس مین کے بارے سوچیں جسکی ایک کار بنانے والی فیکٹری جاپان میں ہے اور دوسری جرمنی میں۔ امپرنٹنگ کار کی خصوصیات میں مختلف مارکیٹس کے لحاظ سے تبدیلیاں کرنے کے طرح ہے۔ جرمن فیکٹری کار کے سٹیرنگ کیساتھ ائیر فریشنر لگانے والی مشین کو بند کردیتی ہے اور اسکی جگہ ہیٹر لگانے والی مشین کو آن کردیتی ہے جبکہ جاپانی فیکٹری اسکے الٹ کرتی ہے۔ ایکس غیرفعالیت ایک کمپنی کو ہمیشہ کیلئے بند کردینے کے مترادف ہے یہاں تک کے کوئی نیا کاروباری اس فیکٹری کو خرید لے۔
رینڈم غیر فعالیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امپرنٹنگ اور ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت میں ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت میں کوئی پیرینٹ آف اوریجن ایفیکٹ نہیں ہے۔ سومیٹک خلیات میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کرومو سوم باپ سے آیا ہے یا ماں کی طرف سے۔ ہر ایک کے غیرفعال ہونے کا پچاس فیصد امکان ہوتا ہے۔
ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ یہ ہزار سے زائد جینز کو ایکساتھ اور ہمیشہ کیلئے آف کرنے کا میکانزم ہے۔ ہزار جینز بہت زیادہ ہیں تمام پروٹین کوڈنگ جینز کا پانچ فیصد بنتے ہیں۔ سو اس بات کا ہمیشہ امکان موجود ہوتا ہے کہ ایکس کروموسوم پر کوئی سا جین میوٹیشن کا حامل ہو۔ رینڈم ایکس غیرفعالیت کا استعمال کرتے ہوئے خلیات ایکس لنکس جینز پر موجود میوٹیشنز کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔
یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ غیر فعال ایکس کروموسوم حقیقت میں غیرفعال ہوتا ہے۔ تقریباً تمام جینز ہمیشہ کیلئے غیر فعال کردئیے جاتے ہیں اور یہ پیٹرن ختم کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ جب ہم فعال ایکس کروموسوم کی اصطلاح استعمال کررہے ہوتے ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس پر موجود تمام جینز ہر وقت آن رہتے ہیں۔ بلکہ جینز فعال ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان پر نارمل ایپی جینیٹک ترامیم ہوتی ہیں اور جینز کے اظہار کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ تاکہ مخصوص جینز ماحولیاتی سگنلز کے ڈیولپمنٹل اشاروں کے جواب میں کنٹرول طریقے سے آن یا آف ہوتے رہیں۔
خواتین واقعی مردوں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت کا ایک دلچسپ نتیجہ یہ ہے کہ ایپی جینیٹکلی خواتین مردوں سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ مردوں کے پاس صرف ایک ایکس کروموسوم ہوتا ہے لہذا ان میں ایکس کروموسوم غیر فعال نہیں ہوتا۔ لیکن خواتین میں تمام خلیات میں ایکس کروموسوم رینڈملی غیرفعال ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین کے جسم میں تمام خلیات کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس کو اسطرح ظاہر کیا جاتا ہے کہ خواتین ایپی جینیٹک موزیک ہیں۔
خواتین میں نفیس ایپی جینیٹک کنٹرول پیچیدہ اور انتہائی ریگولیٹڈ عمل ہوتا ہے۔ اور یہاں پر میری لیون کی پیش گوئیوں نے مفید تصوراتی فریم ورک پیش کیا ہے۔ انکو چار مراحل میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
گنتی۔ ایک نارمل عورت کے تمام خلیات میں صرف ایک فعال ایکس کروموسوم ہوگا۔
چناؤ۔ ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران ہوگی۔
آغاز۔ غیر فعال ایکس کروموسوم یا تو میڑنل ہوگا یا پھر پیٹرنل اور یہ عمل تمام خلیات میں رینڈم ہوگا۔
دیکھ بھال۔ ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت سومیٹک یعنی جسمانی خلیات اور انکی نسلوں
میں ناقابل واپسی ہوگی۔
ان چار عوامل کے پیچھے موجود میکانزم کو بینقاب کرنے میں سائنسدان پچھلے پچاس سال سے مصروف ہیں اور یہ تلاش آج بھی جاری ہے۔یہ عوامل انتہائی پیچیدہ ہیں اور ان میں بعض اوقات ایسے میکانزم شامل ہوتے ہیں جنکا سائنسدان تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ اتنا باعث حیرت نہیں ہے کیونکہ ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت بہت غیر معمولی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں خلیہ ایک جسیے کرومو سومز کیساتھ مکمل الگ اور باہمی طور ہر خاص طرح سے برتاؤ کرتا ہے۔
تجرباتی طور پر اس پر تحقیقات کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ یہ ایک بہترین توازن کیساتھ موجود عمل ہے جو خلیات میں پایا جاتا ہے اور تکنیک کے اندر چھوٹی سی غلطی نتائج پر بڑے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ اس لحاظ سے موضوع ترین سپی شیز کے بارے بحث چلتی رہتی ہے۔ چوہوں کے خلیات کو بطور ماڈل استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ہمیں یہ سمجھ آنا شروع ہوا ہے کہ چوہوں اور انسانوں میں ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت کے لحاظ سے کافی فرق ہے۔ تاہم ان ابہام کے باوجود ایک دلچسپ تصویر سامنے آنے لگی ہے۔
کروموسومز کی گنتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممالیہ خلیات کے پاس کوئی ایسا میکانزم ہونا چاہیئے جس سے وہ اپنے ایکس کروموسوم کو گن سکتے ہیں۔ یہ مردوں کے خلیات میں ایکس کروموسوم کو غیرفعال ہونے سے بچاتا ہے۔ اسکی اہمیت 1980 میں ڈیوور سولٹر نے بتائی تھی۔ اس نے نر پرو نیوکلیائی کو فرٹیلائزڈ انڈے میں منتقل کرکے ایمبریوز تیار کئیے تھے۔ نر کی کیریو ٹائپXY ہے اور جب یہ گیمیٹس بنائیگا تو ہر سپرم کے اندر یا تو ایکس کروموسوم ہوگا یا وائی۔ مختلف سپرمز سے پرونیوکلائی نکال کر خالی انڈوں میں منتقل کرنے سے وہ XX, XY, اور YY زائیگوٹ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی پیدائش کا باعث نہیں بنا کیونکہ پیدائش کیلئے میٹرنل اور پیٹرنل دونوں کی طرف سے ان پٹ کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔لیکن نتائج پھر بھی ہمیں بہت دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔
ایمبریوز کا ابتدائی ضیاع ان میں ہوا تھا جو دو مردانہ وائی کروموسومز کے حامل تھے۔ ان ایمبریوز کےاندر کوئی ایکس کروموسوم نہیں تھا جوکہ اس ابتدائی ضیاع کا موجب بنا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایکس کروموسوم بارآوری کیلئے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردانہ خلیات کے لئے گنتی ضروری ہے تاکہ انھیں پتہ چل سکے کہ انکے پاس ایک ایکس کروموسوم ہے اور اسکو غیرفعال ہونے سے بچایا جائے۔ واحد ایکس کروموسوم کی غیرفعالیت خلیے کیلئے شدید نقصان دہ ہوگی۔
ایکس کروموسوم کو گننے کیلئے مادہ خلیات کے پاس کوئی میکانزم ہونا چاہئیے جسکے تحت ایک ایکس کروموسوم کو رینڈملی غیرفعال کرنے کیلئے چنا جاتا ہے۔ کروموسوم کو چننے کے بعد خلیات غیرفعالیت کا عمل شروع کرتے ہیں۔
مادہ کے اندر ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت بہت پہلے ایمبریوجینیسس کے دوران ہوتی ہے جب آئی سی ایم کے خلیات مختلف اقسام کے خلیات میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ تجرباتی طور پر بلاسٹوسائٹ سے بہت کم خلیات حاصل ہوتے ہیں اس لئیے سائنسدان زیادہ تر مادہ کے ای ایس خلیات استعمال کرتے ہیں۔ اس کے اندر غیر مخصوص آئی سی ایم کی طرح دو کروموسومز فعال ہوتے ہیں۔ لیبارٹری کے ماحول میں تھوڑی سی تبدیلی سے ای ایس خلیات کو واڈنگٹن لینڈ سکیپ سے نیچے دھکیلنا آسان ہوتا ہے۔ جسیے ہی ہم ماحول کے اندر تبدیلی کرتے ہیں تاکہ ای ایس خلیات مخصوص ہوسکیں تو یہ ایکس کروموسوم کو غیرفعال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ای ایس خلیات کو کثیر تعداد میں لیبارٹری میں کلچر کروایا جاسکتا ہے، یہ ایکس کروموسوم کی غیر فعالیت کو سٹڈی کرنے کیلئے بہترین ماڈل مہیا کرتا ہے۔
___________________________________________
References
-------------------
https://www.nature.com/articles/348452a0
https://onlinelibrary.wiley.com/.../(SICI)1096-8628...
https://www.nature.com/articles/190372a0
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC1932279/
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/19802706/
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/6722870/