"کیوں کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں ۔ میرے لوگ جو دوسرے خدا ؤں کی عبادت کر تے ہیں ۔ میں ان سے نفرت کر تا ہوں ۔ اگر کوئی آدمی میرے خلاف گناہ کر تا ہے تو میں اسکا دشمن ہو جاتا ہوں ۔ میں اس آدمی کی اولادوں کی تیسری اور چوتھی نسل تک کو سزا دونگا۔"
(بائبل، خروج ، باب 20 ، آیت 5)
بیسویں صدی کے اوائل میں چھپنے والی رڈیارڈ کپلنگ کی "Just so stories" زندگی کی ابتدا کے متعلق فرضی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں مشہور ترین کہانیاں جانوروں کی ظاہری خصوصیات کے متعلق ہیں۔ کیسے تیندوے نے اپنے دھبے حاصل کئیے، آرماڈیلو کی شروعات اور اونٹ کو کوہان کیسے ملی۔ یہ خالصتاً تخیلاتی تفریح کیلئے لکھی گئی تھیں لیکن ایک صدی قبل لامارک کے نظریہ ارتقاء کی صورت میں انکی واپسی ہوئی۔ کپلنگ کی کہانیوں میں بتایا گیا کہ جانوروں نے جسمانی خصوصیات کیسے حاصل کیں مثلاً ہاتھی کی لمبی سونڈ اور پھر یہ نسل در نسل اسکی اولاد میں منتقل ہوتی گئی اور اب تمام ہاتھی لمبی سونڈ کے مالک ہیں۔
کپلنگ اپنی کہانیوں کو محض تفریح کیلئے لکھ رہا تھا لیکن لامارک ایک سائنسی نظریہ مرتب کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ایک اچھے سائنسدان کی طرح اس نے اپنے مفروضے کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ ایک مشہور مثال کے اندر لامارک نے لکھا کہ لوہار کے بچوں کے مسلز دھاگہ بننے والوں کے بچوں کی نسبت زیادہ مظبوط ہونگے۔ لامارک نے وضاحت کی کہ لوہار کے بچے مظبوط پٹھوں کی فینوٹائپ اپنے باپ سے حاصل کریں گے۔
ہماری موجودہ سمجھ اس حوالے سے مختلف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے افراد جنکے جینز انکو مظبوط مسلز بنانے کی اجازت دیتے ہیں وہ اس کام میں زیادہ دائرہ مند رہتے ہیں۔ لہذا یہ پیشہ انکے لئیے موضوع ہوگا جو اسکے لئیے جیناتی طور پر موضوع ہونگے۔ ہماری وضاحت اس بات کو بھی نظر انداز کردیگی کہ ہو سکتا ہے لوہار کے بچے مظبوط مسلز کی صلاحیت اپنے باپ سے حاصل کرلیں۔ لامارک کے وقتوں میں بچے مزدوری کیا کرتے تھے اور اس بات کے امکانات زیادہ تھے کہ ایک لوہار کا بیٹا بھی لوہار بنے اور لوہے کا کام کرے ۔ اور اسطرح اسکے مسلز بھی اپنے آباؤاجداد کی طرح مظبوط ہوجائیں۔
لامارک کا نام چارلس ڈارون کے پیچھے کہیں چھپ گیا ہے لیکن لامارک کو اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ وہ اس وقت اہم سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا۔ ڈارون کے نظریہ کے مطابق جینز کے اندر رینڈم تغیرات جانداروں کے اندر تغیرات پیدا کرتی ہیں۔ کچھ جاندار دوسروں کے مقابلے میں خاص ماحول میں زیادہ اچھے طریقے سے مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور نتیجتاً یہ جاندار زیادہ بچے پیدا کریں گے۔ یہ جاندار بھی مفید خصوصیات اپنے والدین سے حاصل کرینگے اور یہ بھی تولید میں کامیابی حاصل کرلیں گے۔
رینڈم تغیرات کیلئے خام مال جاندار کے ڈی این اے میں ہونے والی میوٹیشنز ہیں۔ میوٹیشن ریٹ بہت سست ہوتا ہے لہٰذا مفید میوٹیشن کیلئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا اور اسکے بعد ہی وہ آبادی میں پھیلیگی۔ ایسا تب ہوگا اگر ہر میوٹیشن ایک جاندار کو دوسروں کی نسبت ایک خاص ماحول میں تھوڑا سا فائدہ دیگی۔
یہاں پر لامارک کا ماڈل ڈارونزم کے ماڈل کے مقابلے میں فیل ہوجاتا ہے۔ فینوٹائپ کے اندر حاصل شدہ تبدیلی کسی طرح سے ڈی این اے سکرپٹ پر فیڈ بیک ہونی چاہئے اور اسکو ڈرامائی انداز سے بدلنا چاہیے تب ہی حاصل شدہ خصوصیات ایک نسل کے دورانیے میں والدین سے بچوں میں منتقل ہونگی۔ لیکن اس بات کے بہت کم ثبوت ہیں کہ ایسا ہوتا ہے سوائے کسی کیمیکل اور ریڈی ایشن کے نتیجے میں۔ یہ عوامل بھی جینیوم کے کچھ فیصدی بیس کے جوڑوں پر ہی اثرانداز ہونگے اور یہ بھی حاصل شدہ خصوصیات کی وراثتی منتقلی کسی بامقصد انداز میں نہیں کرینگے۔
کثیر تعداد میں ڈیٹا لامارک کی بتائی گئی وراثت کے خلاف دلیل کرتا ہے۔ لہذاٰ انفرادی سائنسدانوں کے پاس اس پر تجرباتی کام کرنے کی بہت کم وجہ ہے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ اگر آپ ایک نوجوان سائنسدان ہیں اور نظام شمسی پر تحقیق کررہے ہیں تو آپ ایک ہائی پوتھیسز پر کام کرسکتے ہیں کہ کم ازکم چاند کا کچھ حصہ مکھن کا بنا ہوا ہے۔ لیکن ظاہری بات ہے ایسا کرتے ہوئے آپ کثیر تعداد میں شواہد سے صرف نظر کریں گے جوکہ عقل مندانہ طریقہ نہیں ہوگا۔
کچھ ثقافتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں کہ سائنسدان حاصل شدہ خصوصیات کی وراثت میں منتقلی پر کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سائنٹفک فراڈ کی سب سے مشہور مثال پال کامیررکی ہے جو بیسیوں صدی کے ابتدائی نصف حصے میں آسٹریا میں کام کررہا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے مڈ وائف ٹوڈ نامی ایک سپی شیز کے اندر حاصل شدہ خصوصیات کی وراثت میں منتقلی کو ثابت کیا ہے۔
کامیرر نے دعویٰ کیا کہ جب اس نے اس ماحول کے اندر تبدیلیاں کیں جس میں یہ مینڈک بچے پیدا کرتے تھے تو انھوں نے مفید اڈاپٹیشن حاصل کرلیں۔ یہ ایڈاپٹیشن اگلی ٹانگوں پر موجود ایک خاص قسم کی سیاہ رنگ ساخت تھی جسکو نپٹیل پیڈ کا نام دیا گیا۔ بہت کم نمونے محفوظ رکھے گئے اور جب ایک اور سائنسدان نے انکا معائنہ کیا تو پتہ چلا کے ہیڈز کے اندر انڈین سیاہی منتقل کی گئی تھی۔ کامیرر نے کسی قسم کی دھوکہ دہی کا انکار کیا اور کچھ عرصہ بعد خودکشی کرلی۔ اس سکینڈل نے پہلے سے متنازعہ فیلڈ کو داغدار کردیا۔
یہ تصور کرنا یقیناً مشکل ہے کہ کیسے ایک ماحولیاتی اثر جاندار کے خلیات میں مخصوص جینز پر اثرانداز ہوتا ہے اور بیس کے جوڑے کو تبدیل کردیتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایپی جینیٹیک ترامیم چاہے وہ ڈی این اے میتھائی لیشن ہو یا ہسٹون میں تبدیلیاں ہمیشہ ماحولیاتی عوامل کے خلیات پر اثرات کے جواب میں مخصوص جینز کے حصوں پر ہی واقع ہوتی ہیں۔ ہارمونل سگنل کے جواب میں ریسپانس جسکا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں اسی کہ مثال ہے۔ عام طور پر ہارمون مثلاً ایسٹروجن خلیات مثلاً بریسٹ کے خلیات کے اوپر موجود ریسیپٹر پر جڑتے ہیں۔ ایسٹروجن اور ریسیپٹر دونوں ایکساتھ ملکر نیوکلئس میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ یہ ڈی این اے کے اندر جینز کے مخصوص بیسز پر جڑتے ہیں۔ یہ جینز کو آن ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اس جینز پر جڑنے کے بعد ایسٹروجن ریسیپٹر دوسرے ایپی جینیٹک اینزائمز کو بھی کھینچتے ہیں۔ یہ جینز کے اظہار کو دبانے والے مارکس کو ختم کرتے ہیں اور جینز کو آن کرنے والے مارکس کو جوڑتے ہیں۔ اسطرح سے ماحول ہارمون کے ذریعے مخصوص جینز کے اوپر ایپی جینیٹک پیٹرن کو تبدیل کرسکتا ہے۔
یہ ایپی جینیٹک ترامیم جینز کی ترتیب کو تبدیل نہیں کرتی ہیں لیکن جینز کے اظہار کو تبدیل کردیتی ہیں۔ یہ آگے جاکر ہونے والی بیماری کی تمام ڈیولپمنٹل پروگرامنگ کی بنیاد ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایپی جینیٹیک ترامیم ایک خلیے سے اسکی نسل میں منتقل ہوسکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری آنکھ میں دانت موجود نہیں ہیں۔ اگر یہی میکانزم ماحول کی وجہ سے ہونے والی ایپی جینیٹک ترمیم کو ایک جاندار سے اسکے بچوں میں منتقل کرتا ہے تو ہمارے پاس لامارک کی وراثت کیلئے ایک میکانزم موجود ہوگا۔ ایک ایپی جینیٹک تبدیلی باپ سے بچے میں منتقل ہوجائیگی۔
روایت سے انحراف اور ہالینڈ کی قحط زدہ سردیاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی حاصل شدہ خصوصیات اس طرح سے وراثت میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ یہ کیسا ہوتا ہے اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ خوش قسمتی سے کچھ ایسی مخصوص حالتیں ہیں جہاں واقعی یہ ہورہا ہے
اسکا یہ مطلب نہیں کہ ڈاروینین اور مینڈیلین ماڈلز یکسر غلط ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ حیاتیات کی دنیا اس سے کئی گنا زیادہ پیچیدہ ہے جتنا ہم نے سوچا تھا۔
اس ہر موجود سائنسی لٹریچر الجھن آمیز اصطلاحات پر مبنی ہے۔ کچھ ابتدائی پیپرز میں حاصل شدہ خصوصیات کی وراثتی منتقلی نظر آتی ہے لیکن ڈی این اے میتھائی لیشن میں تبدیلیوں اور ہسٹون میں ردوبدل کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ مصنفین کی کمزوری نہیں بلکہ یہ ان مختلف طریقوں کی وجہ سے جن میں ایپی جینیٹکس کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ ابتدائی پیپرز میں ایپی جینیٹک منتقلی سے مراد وہ وراثت ہے جسکی جیناتی طور پر کوئی تشریح نہ کی جاسکے۔ اس صورت میں ایپی جینیٹکس کو فینومینا کو بیان کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ناکہ مالیکیولر میکانزم کو۔ ہر چیز کو واضح رکھنے کیلئے ہم نسل درنسل وراثت کو حاصل شدہ خصوصیات کی وراثتی منتقلی کیلئے استعمال کریں گے اور ایپی جینیٹکس کو مالیکیولر واقعات کو بیان کرنے کیلئے استعمال کریں گے۔
نسل درنسل وراثت کی اہم مثال انسانوں میں ہمیں ڈچ ہنگر ونٹر کے بچ جانے والوں میں ملتی ہے۔ ہالینڈ کی بہترین طبی سہولیات اور مریضوں کے بہترین ریکارڈ کی بدولت ماہرین ان لوگوں کو دہائیوں تک سٹڈی کرنے میں کامیاب رہے بلکہ انکے بچوں اور پوتے پوتیوں کو بھی سٹڈی کرنے میں کامیاب رہے۔
ان تحقیقات نے ایک غیر معمولی اثر کی نشاندھی کی ۔ جیساکہ ہم نے دیکھا کہ جب حمل کے پہلے تین مہینوں کے درمیان مائیں خوراک کی کمی کا شکار رہیں تو انکے بچے پیدائش کے وقت تو نارمل تھے لیکن بلوغت کے بعد ان میں عام لوگوں کی نسبت موٹاپے اور دیگر امراض کی شرح زیادہ تھی۔ حیران کن طور پر جب ان بچوں میں سے کوئی عورت خود ماں بنتی تو اسکے پہلے بچے کا وزن دوسرے لوگوں کے بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا۔
یہ لامارک کی وراثت یا نسل در نسل وراثت کی عمدہ مثال معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ کسی ایپی جینیٹک میکانزم کی وجہ سے ہے؟ کیا ایک ایپی جینیٹک تبدیلی جو کہ اس عورت کے اندر پہلے تین مہینوں میں ہوئی جس وقت وہ ماں کے پیٹ میں موجود تھی اسکے ایگ کے نیوکلئس کے ذریعے اسکے بچے میں منتقل ہو گئی؟ شاید لیکن ہمیں اس بات سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے کہ اور بھی وضاحتیں ممکن ہیں۔
یہ بھی یاد کرنا اہم ہے کہ انسانی انڈا بڑا ہوتا ہے۔ اس میں نیوکلئس موجود ہوتا ہے جوکہ حجم کے لحاظ سے سائٹوپلازم سے کافی چھوٹا ہوتا ہے۔ جب ایک انڈا فرٹیلائز ہوتا ہے تو سائٹو پلازم بہت سارے کام کرتا ہے۔ ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران کچھ ہوا تھا جسکی وجہ سے قحط کے دوران پیدا ہوئی ان عورتوں کے انڈوں کے سائٹوپلازم میں کچھ غیر معمولی موجود تھا۔ انسانی مادہ میں انڈوں کے بننے کا عمل انکی ابتدائی ایمبریونک ڈیولپمنٹ کے دوران ہی شروع ہوجاتا ہے۔ زائیگوٹ کی ڈیولپمنٹ کے ابتدائی مراحل کا انحصار زیادہ تر انڈے کے سائٹو پلازم پر ہوتا ہے۔ سائٹوپلازم کے اندر کوئی خرابی نئے بننے والے بچے کے گروتھ پیٹرن میں تبدیلی کرسکتی ہے۔ اسکا نتیجہ نسل در نسل وراثت کی شکل میں ہوگا لیکن یہ ایپی جینیٹک ترامیم کی وجہ سے نہیں ہوگا۔
لہذا بہت سارے میکانزم موجود ہیں جو ڈچ ہنگر ونٹر کے بچ جانے والوں میں نسل درنسل وراثت کی منتقلی کو بیان کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری مدد کرسکتا ہے یہ سمجھنے میں اگر ایپی جینیٹکس حاصل شدہ خصوصیات کی وراثتی منتقلی میں کردار کرتا ہے جب ہم اس سے کم پیچیدہ صورتحال کو سٹڈی کریں تو۔ یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہوگی جہاں ہمیں انڈے کے سائٹوپلازم پر یوٹیرس کے اندرونی ماحول کے اثرات کی فکر نہیں ہوگی۔
باپ کے کیس میں اسکو ٹیسٹ کرتے ہیں۔ کیونکہ مردوں کو حمل نہیں ہوتا، انکا بچے کے ڈیولپمنٹل ماحول کے اندر کوئی کردار نہیں ہوتا۔ مرد کا سائٹوپلازم بھی زیادہ زائیگوٹ میں موجود نہیں ہوتا۔ سپرم بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور زیادہ ترنیوکلئس ہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی گولیوں کیطرح نظر آتے ہیں جنکے ساتھ دم جڑی ہوتی ہے۔ لہذا اگر ہم باب سے بچے کے اندر نسل درنسل وراثت کی منتقلی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ یوٹیرس کے اندرونی ماحول یا سائٹوپلازم کے اثرات کی وجہ سے نہیں ہوگا۔ اس صورت میں ایپی جینیٹک میکانزم حاصل شدہ خصوصیات کی نسل درنسل وراثی منتقلی کو بیان کرنے کیلئے بہترین امیدوار ہوگا۔
سویڈن کےلالچی لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مردوں سے نسل درنسل وراثتی منتقلی واقع ہوسکتی ہے اسکے حق میں ڈیٹا ایک اور تاریخی سٹڈی سے ملتا ہے۔ شمالی سویڈن میں ایک جیوگرافک لحاظ سے بالکل اکیلا علاقہ ہے جسکو اوورکیلکس کہتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ناقص کاشت ، فوجی کاروائیوں اور آمدورفت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا۔ سائنسدانوں نے ان لوگوں کی نسلوں میں اموات کا پیٹرن سٹڈی کیا۔جو اس بحران کے وقت موجود تھے۔
انھوں نے خاص طور پر عمر کی ایک سٹیج پر خوراک کے استعمال کا جائزہ لیا اس سٹیج کو سلو گروتھ پیریڈ (SGP) یعنی سست رفتار بڑھوتری کا دورانیہ کہا جاتا ہے۔ بچوں میں بڑھوتری بلوغت کے بعد کے سالوں میں سست تھی جوکہ ایک عام رویہ ہے۔
تاریخی ریکارڈ کو استعمال کرتے ہوئے محققین نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر باپ کے SGP کے دوران خوراک کم تھی تو اسکے بیٹے میں دل کی بیماریوں مثلاً سٹروک، ہائی بلڈ پریشر اور کورونری آرٹری بیماری سے مرنے کا کم امکان موجود تھا۔ اسکے برعکس اگر ایک آدمی کو SGP کے دوران ضرورت سے زیادہ خوراک میسر تھی تو اسکے پوتوں میں ذیابیطیس سے مرنے کے امکانات زیادہ تھے۔ ڈچ ہنگر ونٹر کے بچوں کے بچوں کی طرح ان میں بھی فینوٹائپس تبدیل تھیں ایک ایسے ماحولیاتی چیلینج کی وجہ سے جسکا انھوں نے خود سامنا بھی نہیں کیا تھا۔
یہ ڈیٹا یوٹیرس کے اندرونی ماحول کے اثر یا پھر ساٹوپلازم کے اثرات کی وجہ سے نہیں ہوسکتا۔ لہذا یہ مفروضہ بنایا جا سکتا ہے کہ خوراک کی دستیابی کے نسل درنسل وراثی نتائج ایپی جینیٹکس کی وجہ سے تھے۔ یہ ڈیٹا بہت زبردست ہے جب ہم اس بات کو خاص طور ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ غذائیت کے اثرات جس وقت واقع ہوئے اس وقت تک ان لڑکوں نے سپرم بنانا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ اور پھر بھی وہ یہ اثرات اپنے بیٹوں اور پوتوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے تھے۔
تاہم اس کام پر چند اعتراضات موجود ہیں۔ تاریخی ریکارڈ میں اموات کے ریکارڈ پر مکمل بھروسہ کرنے میں رسک ہوسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ کچھ اثرات جو دیکھے گئے وہ زیادہ وسیع نہیں تھے۔ پیچھے زیر بحث لائے گئے مسائل کیساتھ یہ بھی ایک عام مسئلہ ہے جب ہم انسانی آبادیوں پر تحقیق کرتے ہیں۔ جینیاتی تغیرات، ماحول کو مکمل کنٹرول نہ کرسکنا۔ ہمیشہ سے اس بات کا خدشہ رہا ہے کہ ہم اپنے ڈیٹا سے غلط نتائج نہ اخذ کرلیں جیسا ہم مانتے ہیں کہ لامارک نے کیا تھا لوہاروں کے خاندانوں پر اپنی تحقیق کے دوران۔
(جاری ہے)
References
____________
مزید پڑھنے کیلئے آرتھر کویسٹلر کی کتاب The case of the midwife toad .
لنک
لنک
لنک
لنک